• 3 مئی, 2024

ارشادات حضرت خلیفة المسیح الاولؓ (قسط نمبر 1)

ارشادات حضرت خلیفة المسیح الاولؓ
قسط نمبر 1

بدیوں سے بچنے کے مجرب نسخے

’’انسان اگر اپنے دل میں خیال رکھے کہ خدا میرے ساتھ ہے چلتے پھرتے پورا خیال رکھے کہ خدا مجھے دیکھتا ہے۔ تو چونکہ یہ امر انسان کی فطرت میں ہے کہ بڑے کے سامنے بدی نہیں کرتا۔ پھر محسن مقتدر خدا کے سامنے کیونکر کر سکتا ہے ؟پس اللہ پر ایمان لانا بدی سے بچاتا ہے۔ اللہ حاکم ہے مربی ہے نیکیوں اور نیکوں کو پیار کرتا ہے بدی اور بدوں سے کچھ تعلق نہیں رکھتا یہ ساری باتیں ایمان میں داخل ہوں تو بدیوں سے بچ جاوے۔

بدیوں کے بچنے کے واسطے ایمان بالآخرة بھی ایک مجرب نسخہ ہے اگر انسان یہ کہے کہ میرے ہر فعل کا نتیجہ ضرور ہے نیکی کا بدلہ نیک ملے گا اور بدی کا بدلہ بد تو ضرور بدیوں سے بچتا رہے گا۔‘‘

(ارشادتِ نور جلد اوّل صفحہ67)

دو آسمانی امان

’’حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ قول مجھے بہت ہی پیارا معلوم ہوتا ہے کہ آسمان سے دو امان نازل ہوئے تھے ایک تو ان میں سے اٹھ گیا یعنی رسول اللہ ﷺ کا وجود باجود مگر دوسری امان قیامت تک باقی ہے اور وہ استغفار ہے۔ وَمَا کَانَ اللّٰہُ مُعَذِّبَہُمۡ وَہُمۡ یَسۡتَغۡفِرُوۡنَ (الانفال: 34) پس استغفار کرتے رہا کرو کہ پچھلی برائیوں کےبد نتائج سے بچے رہو اور آئندہ بدیوں کے ارتکاب سے۔‘‘

(ارشادتِ نور جلد اوّل صفحہ69)

قصص قرآنی کے بار بار بیان کرنے میں حکمت

’’لوگ حیرت اور تعجب ظاہر کرتے ہیں کہ قرآن بار بار قصص کیوں بیان کرتا ہے؟ مگر مجھے ان کے اس اعتراض پر تعجب آتا ہے دنیا میں کوئی مصقلہ ایسا نہیں ہے جو ایک ہی بار صیقل کر دے۔ جسمانی غذا بھی ایک بار کھا کر مستغنی نہیں کر دیتی۔ جب یہ نظارہ اپنے جسم میں دیکھتے ہیں پھر روح کے لیے ایسا قانون پا کر ہم کو تعجب کیوں ہو؟ قصص قرآنی میں بہت سے اسرار ہیں منجملہ ان کے ایک یہ بھی ہے کہ رسول اللہ ﷺانبیاء علیہم السلام کی تمام صفات کے جامع تھے گویا قصص قرآنی آپ کے ہی آنے والے واقعات کا ایک رنگ میں ذکر ہے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے ان تمام نبیوں کے ملک فتح کئے ہیں جن کا ذکر قرآن کریم میں آیا ہے۔‘‘

(ارشادتِ نور جلد اوّل صفحہ71)

کھجور کے درخت کی خصوصیتیں

’’میں نے مخالف لوگوں کی کتابوں میں ایک حدیث پڑھی ہے جس نے مجھے بڑے غور کا موقع دیا اور وہ حدیث مجھے بڑی ہی دلچسپ معلوم ہوئی (اگر ہے) اس کا مضمون یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺمسلمانوں کو ترغیب دیتے ہیں کہ کھجور کا درخت اس بقیہ مٹی سے بنایا گیا جس سے حضرت آدم علیہ السلام بنائے گئے تھے اور اس لئے وہ مسلمان کی پھوپھی ہے۔ بڑے غور اور فکر کے بعد مجھے معلوم ہوا کہ یہ فقرہ نبوت کے چشمہ سے ضرور نکلا ہے اور ساتھ ہی مجھے رنج بھی ہوا۔ ایک اور حدیث کا مضمون ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی پاک مجلس میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے پوچھا کہ ایک درخت ہے کہ وہ مومن کی مثال ہے اور پھر آپ ہی فرمایا کہ وہ کھجور ہے۔ اس میں سِر کیا تھا؟ کھجور کے درخت میں چند خصوصیتیں ہوتی ہیں۔

(1) کھجور کا پھل روٹی کا قائمقام ہوتا ہے۔ (2) روٹی کے ساتھ سالن کا بھی کام دیتا ہے۔ (3) پھل کا پھل بھی ہے۔ (4) شربت کا کام بھی دیتا ہے۔ (5) اس کے پتے ہوا کے شدید سے شدید جھونکوں سے بھی نہیں گرتے ہیں۔ (6) پھر پتوں کے پنکھے چٹائیاں بنتی ہیں۔ (7) تنے کی رسیاں بنتی ہیں۔ (8) ریشوں سے تکیے بنتے ہیں۔ (9) لکڑی کام آتی ہے۔ (10) کھجور کی گٹھلی سے جانوروں کے لیے عمدہ غذا بنتی ہے۔ (11) شاخوں کے سرے کے درمیان کی گری مقوی ہوتی ہے۔

غرض کھجور ایک ایسا درخت ہے کہ اس کا کوئی حصہ بھی ایسا نہیں جو مفید اور نفع رساں نہ ہو۔ رسول اللہ ﷺنے کھجور کے درخت کی مثال سے یہ بتلایا ہے کہ مسلمان کو بڑا ہی نفع رساں ہونا چاہئے اور ایسا ثابت قدم اور مستقل مزاج ہو کہ کوئی ابتلا اس پر اثر نہ کر سکے مگر مجھے یہ دیکھ کر سخت رنج ہوا کہ آج مسلمانوں کی یہ حالت نہیں رہی۔‘‘

(ارشادتِ نور جلد اوّل صفحہ72-73)

اعمالِ صالحہ

’’اپنے اعمال کو سیدھا کرو۔ یاد رکھو کہ کوئی تمہارا علم، آبرو، دولت، طاقت، کام نہ آوے گی۔ مگر کام آنے والی ایک اور صرف ایک ہی چیز ہے جس کو اعما لِ صالحہ کہتے ہیں۔

اعمالِ صالحہ اپنی ہی تجویز اور خیال پر اعما لِ صالحہ نہیں ہو سکتے جن میں اخلاص ہو اور صواب ہو کیا معنے خدا ہی کے لیے ہوں اور خدا ہی میں ہو کر ہوں یعنی اللہ تعالیٰ کے فرمودہ اور نبی کریم ﷺکے عمل کے موافق ہوں۔ پس حَاسِبُوْاقَبْلَ اَنْ تُحَاسَبُوْا اس سے پہلے اپنا حساب کر لو جبکہ تمہارا حساب کیا جاوے اور وَازِنُوْا قَبْلَ اَنْ تُوَازَنُوْا اس سے پیشتر کہ تم تولے جاؤ خود اپنے آپ کو تولو۔

ہر روز سستی اور گناہوں کے دور کرنے کی کوشش کرو۔ باریک در باریک اعمال پر خوب غور کرو۔ میں سچ کہتا ہوں وہ شخص بڑے ہی گھاٹے میں ہے جس کے دو دن برابر گزرے۔‘‘

(ارشادتِ نور جلد اوّل صفحہ80-81)

دکھ اور تکلیف پہنچنے سے ملنے والی خوشیاں

’’حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ جب مجھے کوئی دکھ آتا ہے تو مجھے تین خوشیاں ہوتی ہیں اول بڑے دکھ سے بچنا۔ دوم گناہوں کا کفارہ۔ سوم دنیا کی مصیبت ہے نہ دین کی۔ مگر جب مجھے کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو مجھے ایک چوتھی راحت بھی ہوتی ہے۔ اور وہ یہ کہ دعاؤں کا موقع ملتا ہے اور یہ ایمان ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس تکلیف کے بعد بہترین راحت دے گا۔‘‘

(ارشادتِ نور جلد اوّل صفحہ81)

روحانی بیماریوں کے علاج کا طریق

قرآن شریف میں دو قسم کے گروہوں کا ذکر ہوا ہے۔ فَرِیْقٌ فِی الْجَنَّۃِ اور فَرِیْقٌ فِی السَّعِیْرِ پس قرآن پڑھو تو یہ ضرور سوچو کہ تم کس فریق میں ہو۔ آدم ہو یا ابلیس، نوح ہو یا قوم نوح، عادی ہو یا ہود، ثمودی ہو یا صالح، مو سیٰ ہو یا فرعون، محمد ﷺہو یا ابوجہل مشرکا نِ مکہ۔ یہ ایک طریق ہے اپنی روحانی بیماریوں کے علاج کا اور میں نے اس طرز پر اپنا علاج کر کے فائدہ اٹھایا ہے۔ قرآن شریف پڑھو مگر دستور العمل بنانے کے لئے۔‘‘

(ارشادتِ نور جلد اوّل صفحہ82)

حصول رزق کے گُر

’’اول۔ جناب الہٰی میں دعا مانگنا۔ دوم۔ ان قوانین پر کار بند ہونا جو رزق کے متعلق خداوند تعالیٰ نے قرآن شریف میں بیان فرمائے ہیں۔ سوم۔ خدا تعالیٰ کے عطیات وانعامات کا شکر کرنا۔ چہارم۔ متقی بننا۔‘‘

(ارشادتِ نور جلد اوّل صفحہ110)

عبادات کی تین اقسام

’’اَلتَّحِیَّات زبانی عبادتیں۔ اَلصَّلَوَات بدنی عبادتیں۔ اَلطَّیِّبَات۔ مالی عبادتیں۔‘‘

(ارشادتِ نور جلد اوّل صفحہ110)

غم سے بچنے کے ذرائع

’’غم سے بچنے کے تین بڑے اسباب ہیں۔ اول۔ اس امر کا یقین کر لے کہ جو دکھ اور تکلیف آتی ہے وہ شا متِ اعمال سے آتی ہے اور اس میں الہٰی حکمت ہوتی ہے۔دوم۔ کسی دکھ کے آنے سے پہلے یعنی ہمیشہ ہی ذکر الہٰی کرتا رہے اور اپنے گناہوں کے برے نتائج سے حفاظت طلب کرتا رہے۔ سوم۔ صادقین اور خدا تعالیٰ کے پیاروں کی صحبت میں رہے۔‘‘

(ارشادتِ نور جلد اوّل صفحہ127)

اشیاء عالم کی عمر

’’دنیا میں اشیاء اسی وقت تک رہتی ہیں جب تک وہ کسی نہ کسی پہلو سے دنیا کے واسطے مفید ہوتی ہیں۔ جب کوئی ایسا وقت آ جاتا ہے کہ وہ کسی طرح بھی مفید نہیں رہتی تو دنیا سے اٹھائی جاتی ہے۔ یہی حال انسان کا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے سے پہلے بھی دنیا کا اکثر یہی حال ہو گیا تھا۔ قرآن شریف فرماتا ہے۔ وَّاَمَّا مَا یَنۡفَعُ النَّاسَ فَیَمۡکُثُ فِی الۡاَرۡضِ (الرعد: 18)۔‘‘

(ارشادتِ نور جلد اوّل صفحہ128)

گنہگاروں کی اقسام

’’اوّل قسم گنہگاروں کی وہ ہے کہ وہ غافل ہوتے ہیں ان کو خبر ہی نہیں ہوتی کہ وہ گناہ کرتے ہیں۔ دوم گناہ کرتے ہیں مگر بعد میں اضطراب، تضرع، زاری، خوف الہٰی رونا چلاّنا ہوتا ہے۔ ایسے گنہگار تائب ہوتے ہیں۔ سوم۔ گناہ گاروں کی وہ قسم ہے کہ وہ غافل بھی نہیں ہوتے گناہ بھی کرتے ہیں کوئی اضطراب اور گھبراہٹ بھی نہیں ہوتی بلکہ وہ حیلے بناتے ہیں اور بہانہ کرتے ہیں ایسے لوگ محروم ہوتے ہیں۔ پس اپنا مطالعہ کرو۔‘‘

(ارشادتِ نور جلد اوّل صفحہ129)

تلاوت قرآن کی غرض

’’قرآن شریف کی تلاوت کرو مگرعمل کے لیے اور اگر قرآن شریف میں کوئی آیت ایسی پاؤ جو دوبھر معلوم ہو اور ایسا نظر آوے کہ اس پرعمل نہیں ہو سکتا تو یاد رکھو ایسا خیال سخت خطرناک ہے۔ اسی وقت استغفار کرو کیونکہ یہ حالت شیطان کی ہوتی ہے جو قرآن شریف اس کے لئے باعث راحت نہیں ہے۔ پس تم ایک ڈائری بناؤ اور اس میں وہ تمام باتیں جو تم سنو، پڑھو درج کرو اور ان میں غور کرو کہ کیا تمہیں قرآن کریم سے لذّ ت آتی ہے یا کسی اور کے کلام سے پھر تمہیں پتہ لگ جاوے گا کہ تم کون ہو۔‘‘

(ارشادتِ نور جلد اوّل صفحہ135-136)

بڑا ہی بد بخت کون ہے؟

’’تین قسم کے لوگ بڑے ہی بد قسمت اور بد بخت ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ سے پناہ اور دعا مانگنی چاہئے کہ ان میں داخل ہونے سے بچاوے۔

اول۔ وہ شخص بڑا ہی بد بخت ہے جس کو علم ہو اور عمل نہ ہو یہ قرآن شریف کی اصطلاح میں ضال کہلاتا ہے۔

دوم۔ وہ شخص بڑا ہی بد قسمت ہے جو اپنے گناہوں اور بد کاریوں کو اچھا سمجھتا ہے۔ زُیِّنَ لَہٗ سُوۡٓءُ عَمَلِہٖ (محمد: 15)

سوم جو گری ہوئی خواہشوں کا متبع ہو۔ اِتَّبَعُوۡۤا اَہۡوَآءَہُمۡ (محمد: 15)‘‘

(ارشادتِ نور جلد اوّل صفحہ143)

اللہ تعالیٰ سے غافل کرنے والے امور

’’اللہ تعالیٰ سے غافل کرنے والے امور کا نام قرآن شریف میں لَھْوٌ ہے۔ پس مومن کا کام یہ ہے کہ جس کام سے، جن مکانات سے، جس لباس سے، جس خوراک سے، جس مجلس میں بیٹھنے سے انسان کو اللہ تعالیٰ سے غفلت پیدا ہو اس سے ہجرت کرے اور یہی اس کا علاج ہے۔‘‘

(ارشادتِ نور جلد اوّل صفحہ145)

کسی کو تحقیر کی نظر سے نہ دیکھو

کسی کی حالت بد کو دیکھ کر اس کو تحقیر کی نظر سے نہ دیکھو بلکہ دعا کرو کہ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ عَافَانِیْ مِمَّا اِبْتَلَاکَ بِہٖ وَفَضَّلَنِیْ عَلیٰ کَثِیْرٍ مِّمَّنْ خَلَقَ تَفْضِیْلًا (شعب الایمان بیھقی الثالث و الثلاثون من شعب الایمان وھو باب فی تعدید نعم اللہ عزوجل) ورنہ یاد رکھو کہ انسان نہیں مرتا جب تک اس مصیبت میں خود مبتلا نہ ہو لے۔

(ارشادتِ نور جلد اوّل صفحہ146)

گناہ

’’گناہ سے مراد ہر وہ امر ہے جو عام مجالس میں کرتے ہوئے مضائقہ کیا جاوے جو کام لوگوں کی نظر سے پوشیدہ کر کے کیا جاوے اور پھر ان کے سامنے کرنے سے کنارہ کشی کرنی پڑے۔‘‘

(ارشادتِ نور جلد اوّل صفحہ147)

غیبت اور غیبت کنندہ

’’اَنۡ یَّاۡکُلَ لَحۡمَ اَخِیۡہِ (الحجرات : 13) غیبت کرنے والے کو قرآن شریف نے اپنے بھائی کا گوشت کھانے والا قرار دیا ہے اور یہ امر واقعات سے ظاہر ہے کیونکہ جس شخص کی غیبت کی جاوے جب اس کو معلوم ہوتا ہے کہ فلاں شخص نے اس کی غیبت کی اور اس کی برائی بیان کی تو اسے رنج ہوتا ہے اور سخت صدمہ پہنچتا ہے۔ اس رنج اور صدمہ سے انسان کا خون اور گوشت کم ہو جاتا ہے اس طرح پر وہ کمی اس غیبت کنندہ کی وجہ سے ہوئی۔ پس وہ گوشت جو کم ہوا وہ گویا اس غیبت کرنے والے نے کھایا ہے۔ اس سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا کہ تم کسی کی غیبت نہ کرو۔ غیبت کے معنے ہیں ایسی بات جو اگر کسی کے سامنے کی جاوے تو کہنے والا رُ کے اور شرم کرے۔‘‘

(ارشادتِ نور جلد اوّل صفحہ147)

مومن کا ہوشیار ہونا ضروری ہے

’’مومن کے کئی کان ہونے چاہییں یعنی اس کو بڑا ہوشیار اور چوکنا ہونا ضروری ہے غفلت مومن کا کام نہیں۔ تم اندازہ کرو کہ کس قدر مستعدی اور ہوشیاری سے کام لیتے ہو۔‘‘

(ارشادتِ نور جلد اوّل صفحہ149)

ذکر الہٰی کے فوائد

’’ذکر الہٰی سے قو یٰ مضبوط ہو جاتے ہیں حتٰی کہ بوڑھے جوان ہو جاتے ہیں اور اس امر کا ثبوت قرآن شریف ہی سے ملتا ہے حضرت زکریاؑ نے اپنی کمزوری کا ذکر کیا تو اللہ تعالیٰ نے اس کا علاج یہی بتایا کہ تم ذکر الہٰی کرو اور تین روز تک کسی سے کلام نہ کرو چنانچہ انہوں نے اس پر عمل کیا اور خدا نے جیتی جاگتی اولاد عطا فرمائی۔‘‘

حدیث شریف میں ذکر ہےکہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک خادمہ مانگی آپؐ نے فرمایا کہ ہر نماز کے بعد 33 مرتبہ سُبْحَانَ اللّٰہِ۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ۔ اور اَللّٰہُ اَکْبَرُ پڑھ لیا کرو اور سوتی دفعہ بھی۔ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا اور وہ ضرورت محسوس نہ ہوئی۔

(ارشادتِ نور جلد اوّل صفحہ153)

تضرع کیا ہے

’’جبکہ خدا تعالیٰ یہ چاہتا ہے کہ تم تضرع کرو اس لئے اس امر کا سمجھنا بھی ضروری ہے کہ خود تضرع کیا شے ہے؟ اس کے معنے یہ ہیں آہ وزاری اور نالہ و بکا کر کے کسی کو اپنے پر مہربان بنا لینا یا اسے راضی کر کے مورد انعام بن جانا یا اس کے عذاب سے محفوظ رہنا۔ جب انسان کسی کے آگے زاری کرتا ہے تو اس کا مطلب یہی ہوتا ہےکہ میری گزشتہ خطائیں معاف کی جاویں وہ آئندہ ایسا نہ کرے گا بلکہ حالت میں تغیر کر کے آقا کی رضا مندی کا طالب ہو گا۔ پس خدا تعالیٰ جو تم سے زاری چاہتا ہے اس کے بھی یہی معنے ہیں کہ تم اپنی حالتوں کو بد لو اور وہ بات اختیار کرو جس سے وہ راضی ہوتا ہے گویا دوسرے الفاظ میں سچی توبہ کے مفہوم کا نام تضرع ہے۔‘‘

(ارشادتِ نور جلد اوّل صفحہ192)

قرب الہٰی کے لیے نہایت ضرورت ہے

1۔اتباع نبی کر یمؐ کی جاوے قُلۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تُحِبُّوۡنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوۡنِیۡ

(اٰل عمران: 33)

2۔ کبر اور کسل سے کلی اجتناب۔ عِنۡدَ رَبِّکَ لَا یَسۡتَکۡبِرُوۡنَ عَنۡ عِبَادَتِہٖ (الاعراف: 207)

3۔ استغفار و استقلال کے ساتھ درود شریف

اِسۡتَغۡفِرُوۡا رَبَّکُمۡ ثُمَّ تُوۡبُوۡا (ھود: 4)

اِنَّ الَّذِیۡنَ قَالُوۡا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسۡتَقَامُوۡا (حٰمٓ السجدۃ: 31)

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا صَلُّوۡا عَلَیۡہِ وَ سَلِّمُوۡا تَسۡلِیۡمًا (الاحزاب: 57)

(ارشادتِ نور جلد اوّل صفحہ343)

کامیابی کا راز

’’مخدومنا حضرت حکیم الامت فرمایا کرتے ہیں کہ کسی امر کے حصول کی کوشش کے وقت خواہ وہ دینی ہو یا دنیوی، امور ذیل کا خیال رکھنا کامیابی کی کلید ہے۔

(1) اور خیالات سے خالی الذہن ہو کر اسی کام میں مستغرق ہو جانا۔
(2) خاص نشاط اور خوشی سے اس کام کو دلی شوق سے کرنا۔
(3) اس کام کے کرنے میں کسی قسم کی کوئی روک باقی نہ رہنے دینا رکاوٹوں کا دور کر لینا گویا تیرتا ہوا جا رہا ہے۔
(4) دل میں اپنے ساتھیوں سے سبقت لے جانے کے خیال بھی موجزن ہونا۔
(5) پھر ایسی سعی بلیغ ہو کہ خود موجد بن جاوے اور ایسا غور و خوض ہو اور ایسی تدابیر سوچتا رہے کہ اس کام میں نئی نئی ایجادیں کر لے۔

ان پانچوں اصول کو قرآن کریم نے عبارت ذیل میں بیان فرمایا ہے۔

وَ النّٰزِعٰتِ غَرۡقًا۔ وَّ النّٰشِطٰتِ نَشۡطًا۔ وَّ السّٰبِحٰتِ سَبۡحًا۔ فَالسّٰبِقٰتِ سَبۡقًا۔ فَالۡمُدَبِّرٰتِ اَمۡرًا۔ (النّٰزعٰت: 2تا6)

فرمایا کہ اس طرز ادا میں ایک عجیب نقطہ یہ بھی ہے کہ اول تین طرزوں پر لفظ واؤ آیا ہے اور بعد کی دو طرزوں پر لفظ فا آیا ہے۔ اس کا یہ مطلب ہے کہ پہلی تین طرزوں پر انسان جب خود کوشش اور سچی سعی کر کے کار بند ہو جاتا ہے تو آخری دونوں باتیں اسے اللہ تعا لیٰ کی طرف سے بطور انعام جو نتیجہ ہوتا ہے پہلی کوشش کا عطا ءکر دی جاتی ہیں اور یہ دونوں بطور انعام انسان کو خود بخود حاصل ہو جاتی ہیں۔’’

(ارشادتِ نور جلد اوّل صفحہ354-355)

مزدوری نہ دینے والے ایک امیر شخص کا واقعہ

مجھے ایک شخص کا حال معلوم ہے کہ وہ بہت ہی بڑا آدمی تھا، کروڑوں کا مالک تھا۔ ایک شخص اونٹوں والا میرے پاس آیا اور کہا کہ آپ ہماری سپارش کر دیں کہ ہمیں ہماری مزدوری مل جاوے۔ پانچ سو اونٹ کی مزدوری باقی ہے۔ میں نے کہا کہ سپارش کی کیا ضرورت آخر بات کیا ہے تو اس نے کہا کہ وہ شخص کہتا ہے کہ پانسو اونٹ چونہ کا بوجھ میرے مکان پر لے جاؤ جب مزدوری دوں گا۔ ورنہ نہیں۔ میں نے اس سے کہا کہ تمہارا حرج ہی کیا ہے لے جاؤ۔ آخر تم نے وہیں جانا ہے خالی بھی تو جاؤ گے۔ اس کا کام ہی کر دو۔ اس شخص نے کہا کہ آپ بجائے اس کے کہ ہماری سپارش کرتے آپ نے الٹا ہمیں اس طرح سے کہا۔ اس سے آپ کا کیا مطلب ہے۔ میں نے کہا کہ میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ آیا وہ شخص اس طرح سے رشوت لے لے کر مکان بنوا کر اس میں رہتا بھی ہے یا کہ نہیں۔ پھر اس شخص نے مجھے بتایا کہ اینٹ میں سے اینٹ اور پتھر میں سے پتھر اور لکڑی میں سے لکڑی سب کچھ اس شخص نے چرایا ہے اور مکان کا مصالح جمع کیا ہے۔ خدا کی قدرت وہ اونٹ والے بوجھ تو لے گئے مگر شان ایزدی کہ اس شخص کو وہ مکان دیکھنا تک بھی نصیب نہیں ہوا اور جان نکل گئی شنید نہیں بلکہ دید ہے۔ خیرات اور صدقہ کا رواج ہوتا ہے مگر اس کو مرتے دم وہ بھی نصیب نہیں ہوا۔ نوکر سے چائے منگائی ہے وہ چائے کی پیالی لے کر آیا دیکھتا کیا ہے کہ وہ مرا پڑا ہے۔ یہ کوئی قصہ کہانی اور ناولوں کی بات نہیں بلکہ واقعہ ہے اور دید کا نہ کہ شنید کا۔ پس عبرت پکڑنی چاہئے اور ہر وقت اللہ تعالیٰ سے دعا مانگنی چاہئے کہ وہ ہر قسم کی ظلمت کو دور کر کے سچا نور اور ملکہء تمیز عطا کرے۔

(ارشادتِ نور جلد اوّل صفحہ371۔372)

ظلمت سے بچنے کی دعا ہر روز کرنے کا حکم

پس چاہئے کہ دعاؤں میں لگے رہو کہ خدا تمیز عطا کرے اور ہر ظلمت سے بچاوے۔ بار بار اس قدر لمبے مضامین نہ سنائے جا سکتے ہیں اور نہ ہی آپ لوگوں کو سننے کا موقع ملتا ہے۔ میں آپ لوگوں کو ایک سہل راہ بتاتا ہوں۔ دیکھو ہمارے تمہارے اندر بھی جنّ ہیں۔ اب بڑا حِصّہ عمر کا گزر چکا ہے اور تھوڑا باقی ہے لیکن میں دیکھتا ہوں کہ پھر بھی غفلت سر اٹھانے نہیں دیتی۔ پس ان ظلمتوں کے جلانے کے واسطے بڑا پکا اور سچا مواتا (شہاب ثاقب) استغفار، توجہ، لَاحَوْلَ اور اَلْحَمْدُ کی درد مندانہ دُعائیں اور گداز ہو ہو کر درود پڑھنا ہے اور دُعائیں کرنا اور رحمت الہٰی کے نزول کی راہیں تلاش کرتے رہنا چاہئے۔ جو تڑپ اور سچے دل سے دُعائیں کرتا ہے خدا اس کے اندر ایک نور پیدا کر دیتا ہے جو اس کے کل کاروبار میں اس کا راہبر ہوتا ہے۔ خواہشات نفسانی کی پیروی سے ظلمت آتی ہے اور وہ تباہ کر دیتی ہے۔ ایک آنکھ کے اندھے کے سامنے عمدہ سے عمدہ ایرانی قالین رکھ دو مگر اس کے خوشنما رنگ اور خوبصورت بیل بوٹے اس کے واسطے کسی کام نہیں۔ اس کے دل کو آنکھ کو ان سے کوئی مسرت نہیں پہنچ سکتی۔ اس طرح جو انسان ظلمت میں گھرا ہوا ہو خواہ کتنی ہی نصیحت کرو، کیسے ہی عمدہ عمدہ پیرایوں میں وعظ کرو مگر اس کے کان پر جوں بھی نہیں چلتی اور کوئی اثر نہیں ہوتا۔ پس خدا سے ہر روز دعا کرو کہ وہ ہر ظلمت سے بچاوے اور نور عطا فرماوے۔

(ارشادتِ نور جلد اوّل صفحہ373۔374)

(فائقہ بشریٰ)

پچھلا پڑھیں

مدرسہ بزبان فُلفُلدے برکینا فاسو

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 8 دسمبر 2021