• 21 ستمبر, 2024

تجھے اٹکھیلیاں سوجھی ہیں، ہم بے زار بیٹھے ہیں

کمر باندھے ہوئے چلنے کو یاں سب یار بیٹھے ہیں
بہت آگے گئے، باقی جو ہیں تیار بیٹھے ہیں

نہ چھیڑ اے نَکہتِ بادِ بہاری! راہ لگ اپنی
تجھے اٹکھیلیاں سوجھی ہیں، ہم بے زار بیٹھے ہیں

تصور عرش پر ہے اور سر ہے پائے ساقی پر
غرض کچھ اور دُھن میں اس گھڑی مے خوار بیٹھے ہیں

بسانِ نقش پائے رہرواں کوئے تمنا میں
نہیں اٹھنے کی طاقت، کیا کریں، لاچار بیٹھے ہیں

یہ اپنی چال ہے افتادگی سے ان دنوں پہروں
نظر آیا جہاں پر سایۂ دیوار بیٹھے ہیں

کہیں ہیں صبر کس کو، آہ ننگ و نام ہے کیا شے
غرض رو پیٹ کر ان سب کو ہم یک بار بیٹھے ہیں

نجیبوں کا عجب کچھ حال ہے اس دور میں یارو!
جسے پوچھو یہی کہتے ہیں ہم بے کار بیٹھے ہیں

نئی یہ وضع شرمانے کی سیکھی آج ہے تم نے
ہمارے پاس صاحب ورنہ یوں سو بار بیٹھے ہیں

بھلا گردش فلک کی چین دیتی ہے کسے انؔشا!
غنیمت ہے کہ ہم صورت یہاں دو چار بیٹھے ہیں

(انشاء اللہ خان انؔشا)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 7 دسمبر 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالی