• 19 مئی, 2025

آؤ! اُردو سیکھیں (سبق نمبر 69)

آؤ! اُردو سیکھیں
سبق نمبر 69

اس سے قبل کے ہم اپنے سلسلہ وار سبق کی طرف لوٹیں آج کے سبق میں ہم امالہ کا تنقیدی اور تفصیلی جائزہ پیش کریں گے۔

امالہ Declension

اردو گرامر کے اس اصول کے مطابق بعض مخصوص صورتوں میں گفتگو یا تحریر کی روانی کو قائم رکھنے کے لئے الفاظ کی شکل بدل دی جاتی ہے۔ جیسے ایسے الفاظ جن کے آخر پر الف ہو یا کسی لفظ کی آخری آواز الف سے ملتی جلتی ہو جیسے لفظ جلسہ کے آخر پر الف نہیں ہے مگر آخری آواز الف کی ہی ہے تو ایسے الفاظ کے آخری حرف کو ہٹا کر (ے) لگا دیتے ہیں۔ جیسے بجائے یہ کہنے کے کہ جلسہ پر ہزاروں مہمان آئے اس کو بدل کر یہ کہیں گے کہ جلسے پر ہزاروں لوگ آئے۔

مزید امثال: لڑکا نے کہا کی بجائے لڑکے نے کہا۔ گھوڑا نے دوڑ لگائی کی بجائے گھوڑے نے دوڑ لگائی۔ کتا نے کاٹا کی بجائے کتے نے کاٹا۔

اصول

1۔ لفظ کے آخر پر الف ہو یا الف جیسی آواز ہو جیسے ہ اور ع دونوں جب اردو میں کسی لفظ کے آخر پر آتے ہیں تو عموماً الف کی آواز دیتے ہیں جیسے جلسہ، بچہ، انڈہ، پھندہ، گندہ، جمعہ، موقع، واقعہ، مسٔلہ، تنازع، وغیرہ۔ جب ایسے الفاظ کے بعد حرف ربط یعنی preposition آئے تو آخری الف، ہ، ع وغیرہ کو (ے) سے بدل دیتے ہیں۔

2۔ اصول نمبر 1 کا اطلاق صرف مذکر الفاظ پر ہوتا ہے۔ مونث کا امالہ نہیں ہوتا۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ اردو میں اکثر مونث الفاظ کے آخر پر (ی) آتی ہے۔ جیسے گھوڑی، ہتھوڑی، لڑکی، بچی، نلکی۔ تاہم اگر ایسا نہ بھی ہو اور مونث لفظ کے آخر پر الف بھی ہو تب بھی اس کا امالہ نہیں کرتے کیونکہ وہ مونث ہوتا ہے جیسے بندریا، کتیا وغیرہ۔

3۔ اصول نمبر ایک کا اطلاق مشہور شہروں اور جگہوں پر بھی ہوتا ہے تاہم جدید اردو میں اس کا استعمال بہت کم ہے یا محض غیر رسمی بول چال تک محدود ہوگیا ہے۔ مثلاً جدید تحریر و تقریر میں سرگودھا کو سرگودھے وغیرہ نہیں لکھا اور کہا جاتا۔ تاہم اس اصول کے مطابق ایسے تمام شہر وں اور جگہوں کے ناموں کا امالہ کیا جاسکتا ہے جن کے آخر پر الف، ہ، ع وغیرہ آتے ہیں جیسے مکہ، مدینہ، سرگودھا، آگرہ، کوئٹہ، بصرہ، ڈھاکہ وغیرہ کی امالہ کرنے کے بعد شکل بدل جاتی ہیں۔ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ جدید اردو میں فلاں اصول کا استعمال نہیں ہورہا یا بہت ہی کم ہورہا ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ یہ غلط ہے اور وہ صحیح ہے بلکہ اس کا محض یہ مطلب ہوتا ہے کہ زبان کا بھی ایک ارتقائی سفر ہے جس میں بہت کچھ نیا شامل ہوتا ہے اور بہت کچھ ترک کردیا جاتا ہے۔ ہمارے احمدی کلچر اور معاشرے میں بھی ربوہ کو ربوہ ہی کہا جاتا ہے۔ بہت ہی کم لوگوں کو ربوے کہتے سنا ہے اور لکھا تو بلکل نہیں جاتا۔ خاکسار کا مشاہدہ ہے کہ امالہ زیادہ تر اسم نکرہ یعنی Common nouns کا کیا جاتا ہے۔ جیسے لڑکا، کتا، بلا وغیرہ جبکہ اسم معرفہ یعنی Proper Nouns کا امالہ بہت ہی کم دیکھنے میں آتا ہے۔ جیسے رانا کو بلاؤ کی بجائے کہا جاتا ہے رانے کو بلاؤ۔

4۔ ملکوں اور براعظموں کے ناموں کا امالہ نہیں کیا جاتا۔ جیسے مثال کے طور پر برطانیہ، امریکا، افریقہ، کینیا، کینیڈا، سری لنکا، آسٹریلیا، کوریا، چائنا، ارجنٹینا، البانیہ، بوسنیا، چیچنیا، سربیا، وغیرہ مذکر بھی ہیں اور ان کے آخر میں الف یا ہ بھی آتی ہے، لیکن اس کے باوجود ان کا امالہ نہیں کیا جاتا، کیوں کہ اردو تہذیب کا حصہ نہ ہونے کے باعث ان کا امالہ لسانی حسن اور روانی کو نقصان پہنچائے گا۔ اردو تہذیبی دنیا سے مراد ہندوستان، پاکستان اور مشرقِ وسطیٰ کے شہر ہیں جن سے ہمارے مذہبی اور ثقافتی روابط ہیں۔ وہ شہر یا جگہیں، جن کا تعلق اردو تہذیبی دنیا سے نہیں ہے، ان کا امالہ بھی نہیں کیا جاتا۔ اس اصول کے تحت کیلیفورنیا، کیرولائنا، فلاڈیلفیا، منیلا، آٹووا، انقرہ، بارسلونا، کینبرا، ایڈنبرا، وغیرہ کا امالہ نہیں کیا جائے گا۔

5۔ وہ الفاظ جن کی واحد اور جمع ایک ہی لفظ سے ادا ہوتی ہے ان کا امالہ بھی نہیں ہوتا۔ مثال کے طور پر فصیح اردو میں ابا، دادا، چچا، پھوپھا، دیوتا، راجا، وغیرہ کی جمع نہیں بولی جاتی، اس لیے ان کا امالہ بھی نہیں ہوتا۔البتہ بعض صورتوں میں تنقید کرنے، طنز کرنے یا حقارت وغیرہ کے لئے بعض رشتوں کا امالہ کی جاتا ہے۔ جیسے تمہارے ابے کا قصور ہے۔ یہاں ابا کا امالہ باپ کو ملزم کرنے کے لئے تنقیدی انداز میں کیا گیا ہے اور غیر تہذیبی انداز گفتگو ہے۔

ایک آخری بات جو اس سے پہلے بھی الفضل میں شائع امالہ کے موضوع پر شائع ہونے والے مضمون میں شائع ہوچکی ہے یہ ہے کہ جب گفتگو یا بول چال میں امالہ کیا جائے تو پھر اسے لکھا بھی اسی طرح جائے۔ کیونکہ درست وقت پر اصول کے مطابق امالہ کرنے سے حسن تحریر و تقریر میں اضافہ ہوتا ہے اور روانی پیدا ہوتی ہے۔ جیسے جمعہ کی نماز میں خوب حاضری تھی کی بجائے جمعے کی نماز میں خوب حاضری تھی زیادہ موزوں ہے۔ تاہم اگر مضاف استعمال کریں جیسے نمازِ جمعہ میں خوب حاضری تھی تو امالہ نہیں کریں گے۔ بہرحال جمعہ ایک اسم معرفہ بھی ہے کیونکہ یہ ہفتے کے ایک دن کا نام ہے تو اس لئے جہاں یہ اسم معرفہ ہو وہاں امالہ نہ کیا جائے تو بہتر ہے۔ جیسے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کا خطبہ جمعہ کے روز نشر ہوگا۔ جلسہ سالانہ جمعہ، ہفتہ، اتوار تین دن ہوگا۔ ایک اور قابل غور بات یہ ہے کہ اسم معرفہ جب جملے کے آغاز میں آئے تو بعض صورتوں میں اس کا امالہ کیا جاتا ہے۔ جیسے جمعے کو تہجد ہوگی۔ ہفتے کو عالمی بیعت ہوگی۔ لیکن یہ انسانوں اور جگہوں کے ناموں کے ساتھ عام طور پر نہیں کیا جاتا۔ جیسے سرگودھا کے مالٹے بہت مشہور ہیں۔

بعض مزید مثالیں

بچہ: بچے نے دودھ پیا یا نہیں۔ تو یہاں بچہ کے بعد حرفِ ربط نے آیا ہے اس لئے امالہ ضروری ہے۔ جیسے بچہ نے دودھ پیا موزوں نہیں۔ ایک اور مثال دیکھیں اِس بچے نے شرارت کی ہے۔ چھوڑیں جانے دیں بچہ ہے۔ تو بچہ کے بعد جب حرفِ ربط نہیں آیا تو بچہ موزوں ہے۔ میرے ساتھ بس ایک بچہ جائے گا، فیصلہ کرلو کس بچے نے جانا ہے۔ سایہ: درخت کا سایہ بہت گھنا ہے۔ آپ سائے میں بیٹھ جائیں۔ یہاں بھی سایہ کے بعد حرفِ ربط میں آیا ہے تو امالہ ہوگیا۔

امالہ کے بارے میں تفصیلی گفتگو کے بعد ہم مندرجہ ذیل نتائج پر پہنچتے ہیں۔ امالہ عام طور پر اسم نکرہ یعنی Common Nouns کا کیا جاتا ہے جیسے بچہ، سایہ، جلسہ وغیرہ۔ اسم معرفہ کا امالہ انسانوں کے ناموں کا بلکل نہیں کیا جاتا۔ ایسے ملکوں، شہروں یا جگہوں کے ناموں کا بھی نہیں کیا جاتا جن کا اردو زبان، تہذیب اور کلچر سے گہرا تعلق نہیں ہے جیسے مغربی ممالک، شہر، جگہیں وغیرہ۔ نیز اردو زبان والے علاقوں کا امالہ بھی غیر رسمی گفتگو میں ہی سنائی دیتا ہے رسمی گفتگو اور تحریر میں نہیں کیا جاتا۔ جیسے عام بول چال میں گوجرہ کو گوجرے، سرگودھا کو سرگودھے، آگرہ (ہندوستان کا شہر) کو آگرے وغیرہ کہا جاتا ہے لیکن رسمی، ادبی، قانونی زبان میں ایسا نہیں کیا جاتا یا کم از کم موجودہ اردو میں نہیں کیا جاتا۔ آخری نکتہ یہ کہ جہاں سب اصول موجود بھی ہوں وہاں امالہ کرنا یا نہ کرنا مقرر یا مصنف کی صوابدید یعنی مرضی پر منحصر ہوتا ہے۔ مثلاً حضرت مصلح الموعودؓ نے اپنی تحریر و تقریر میں لفظ عرصہ کو عرصے اور موقع کو موقعے میں تبدیل نہیں کیا۔ تاہم یہ بھی ہوسکتا ہے کہ دیگر جگہوں پر آپؓ نے امالہ کیا ہو۔ پس بات کا مقصد یہ ہے کہ امالہ کا دارمدار مقرر و مصنف کی مرضی، تحریر و تقریر کی روانی و حسن وغیرہ پر منحصر ہے۔

تھوڑے عرصہ میں۔ لمبے عرصہ تک

(خطبات شوریٰ جلد2 صفحہ160-161)

تو مومن کو اپنی کوششوں میں سے ایک خانہ خداتعالیٰ کے لئے چھوڑنا ضروری ہوتا ہے۔ درحقیقت سچی بات یہ ہے کہ مومن کبھی بھی ایسے موقع پر نہیں پہنچتا، اور دراصل کوئی شخص بھی ایسے موقع پر نہیں پہنچتا، جس کو اس دنیا میں کامل موقع کہا جا سکے۔ یعنی یہ کہاجا سکے کہ اب کوئی رستہ کمزوری کا باقی نہیں رہا۔ فرق صرف یہ ہے کہ مومن سمجھتا ہے ابھی کامیابی کا راستہ ہے، لیکن غیر مومن سمجھتا ہے اب کوئی راہ نہیں۔

(خطبات شوریٰ جلد2 صفحہ188)

(عاطف وقاص۔ ٹورنٹو کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 7 دسمبر 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالی