• 18 اپریل, 2024

والدین سے حسن سلوک کرے اور صلہ رحمی کی عادت ڈالے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔
حضرت انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا جس شخص کی خواہش ہو کہ اس کی عمر لمبی ہو اور اسکا رزق بڑھادیا جائے تو اس کو چاہئے کہ اپنے والدین سے حسن سلوک کرے اور صلہ رحمی کی عادت ڈالے۔

(مسند احمد۔ جلد۳۔ صفحہ نمبر۲۶۶۔ مطبوعہ بیروت)

تویہاں عمر بڑھانے کا اور رزق میں برکت کاایک اصول بتا دیاگیاہے کہ اگر کشائش چاہتے ہو، اپنے بچوں کی دور دورکی خوشیاں دیکھناچاہتے ہو تو والدین سے حسن سلوک کرو۔ ان کے تم پر جوا حسانات ہیں انہیں یاد رکھو۔ یادرکھو کہ بچپن میں تمہیں انہوں نے بڑی تکلیف سے پالا ہے۔ اگر تمہاری طرف توجہ نہ دیتے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ تمہاری تو یتیمی کی حالت تھی۔ کچھ کر نہیں سکتے تھے۔ کیونکہ تمہیں کسی نے پوچھنا بھی نہیں تھا۔ وہ ماں باپ ہی ہیں جو بچے کو اس طرح پوچھتے ہیں، درد سے پوچھتے ہیں۔ تو جب تم بڑے ہوتے ہو تو تمہاری لکھائی پڑھائی کی کوشش کی طرف توجہ دیتے ہیں۔ اپنے پر ہر تکلیف وار د کرتے ہیں اور تمہیں پڑھاتے ہیں۔ کئی والدین ایسے ہیں جو فاقے کرتے ہیں اور اس کوشش میں ہوتے ہیں کہ ہمارے بچے پڑھ جائیں۔ تاکہ بڑے ہوکر وہ معاشرے میں عزت و احترام سے رہ سکیں، ہمارے والا ان کاحال نہ ہو۔ لیکن بعض ایسے ناخلف اور بدقسمت بچے ہوتے ہیں کہ جب وہ سب کچھ ماں باپ سے حاصل کرلیتے ہیں، تعلیم حاصل کرکے بڑے افسر لگ جاتے ہیں تو اپنی الگ دنیا بسا لیتے ہیں اور پھر ماں باپ کی کوئی پروا بھی نہیں ہوتی۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اس کی مثال دی ہے کہ کسی ہندو نے بڑی تکلیف برداشت کرکے اپنے لڑکے کو بی اے یا ایم اے کرایا اور اس ڈگری کو حاصل کرنے کے بعدوہ ڈپٹی ہوگیا۔ آجکل ڈپٹی ہونا کوئی بڑا اعزاز نہیں سمجھا جاتا لیکن پہلے وقتوں میں ڈپٹی ہونا بھی بڑی بات تھی۔ اُس کے باپ کو خیال آیا کہ میرا لڑکا ڈپٹی ہوگیاہے میں بھی اُس سے مل آؤں۔ چنانچہ جس وقت وہ ہندو اپنے بیٹے کو ملنے کے لئے مجلس میں پہنچا تو اس وقت اُس کے پاس وکیل اور بیرسٹر وغیرہ بیٹھے ہوئے تھے۔ یہ بھی اپنی غلیظ دھوتی کے ساتھ ایک طرف بیٹھ گیا۔ باتیں ہوتی رہیں کسی شخص کو اس غلیظ آدمی کا بیٹھنا برا محسوس ہوا اور اُس نے پوچھا کہ ہماری مجلس میں یہ کون آبیٹھا ہے۔ ڈپٹی صاحب اس کی یہ بات سن کر کچھ جھینپ سے گئے اور شرمندگی سے بچنے کے لئے کہنے لگے یہ ہمارے ٹہلیاہیں۔ باپ اپنے بیٹے کی یہ بات سن کر غصے کے ساتھ جل گیا اور اپنی چادر سنبھالتے ہوئے اُٹھ کھڑا ہوااور کہنے لگا۔ جناب میں ان کا ٹہلیا نہیں ان کی ماں کا ٹہلیا ہوں‘‘۔ (حضرت مصلح موعود ؓ یہ واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ)۔ ’’ساتھ والوں کو جب معلوم ہوا کہ یہ ڈپٹی صاحب کے والد ہیں تو انہوں نے اس کو بہت لعن طعن کی اور کہا کہ اگر آپ ہمیں بتاتے تو ہم اُن کی مناسب تعظیم و تکریم کرتے اور ادب کے ساتھ ان کو بٹھاتے۔ بہرحال اس قسم کے نظارے روزانہ دیکھنے میں آتے ہیں کہ لوگ رشتہ داروں کے ساتھ ملنے سے جی چراتے ہیں تاکہ اُن کی اعلیٰ پوزیشن میں کوئی کمی واقع نہ ہوجائے۔ گویا ماں باپ کا نام روشن کرنا تو الگ رہا اُن کے نام کو بٹہ لگانے والے بن جاتے ہیں اور سوائے ان لوگوں کے جو اس نقطۂ نگاہ سے والدین کی عزت کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ والدین کی عزت کرو۔ دنیا داروں میں سے بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو والدین کی پورے طور پر عزت کرتے ہیں اور زمینداروں اور تعلیم یافتہ طبقہ دونوں میں یہی حالات نظر آتے ہیں۔ اسی طرح بعض نوجوان اپنی ماؤں کی خبرگیری ترک کردیتے ہیں اور جب پوچھا جاتا ہے تو اُن کا جواب یہ ہوتا ہے کہ اماں جی کی طبیعت تیز ہے اور میری بیوی سے اُن کی بنتی نہیں‘‘۔ (حضرت مسیح موعودعلیہ السلام فرماتے ہیں کہ) ’’یہ کوئی بات نہیں ہے کیونکہ ماں کا بھی بہرحال ایک مقام ہے۔ پس اس خطرناک نقص کو دورکرو اور اپنے والدین کی خدمت بجالاؤ۔ ورنہ تم اس جنت سے محروم ہوجاؤ گے۔ جو تمہارے ماں باپ کے قدموں کے نیچے رکھی گئی ہے۔

(تفسیر کبیر جلد ہفتم صفحہ۵۹۳)

(خطبہ جمعہ 16؍ جنوری 2004ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 8 جنوری 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 9 جنوری 2021