• 10 مئی, 2025

اللہ تعالیٰ تمہاری ذاتی اور جماعتی تکالیف دور کرے گا ۔۔۔لیکن ایک شرط ہے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔
پاکستان سے شامل ہونے والے خاص طور پر پاکستان میں احمدیوں کے حالات اور ملک کے حالات کے بارے میں بھی دعائیں کریں۔ یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ ہمیں یہ تسلی دلاتا ہے کہ اُدْعُوْنِیْ اَسْتَجِبْ لَکُمْ۔ مجھے پکارو میں تمہاری دعاؤں کو سنوں گا۔ اور جب ماحول میسر آ جائے تو اس سے بہتر اور کون سا ایسا موقع ہے جب ایک عاجز بندہ اللہ تعالیٰ سے مانگے۔ آج کل سب سے زیادہ اضطرار کی کیفیت پاکستان کے احمدیوں کی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں مضطر کی دعا سنتا ہوں۔ پس ان دنوں میں اپنے اضطرار کو اللہ تعالیٰ کے حضور آنکھ کے پانی کے ذریعے بہائیں اور اللہ تعالیٰ کے وعدوں سے حصہ پانے والے بنیں۔ اللہ فرماتا ہے کہ اَمَّنْ یُّجِیْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَاہُ وَیَکْشِفُ السُّوْٓءَ وَیَجْعَلُکُمْ خُلَفَآءَ الْاَرْضِ۔ ءَ اِلٰہٌ مَّعَ اللّٰہِ۔ قَلِیْلًا مَّا تَذَکَّرُوْنَ (سورۃ النمل: 63) یا پھر وہ کون ہے جو بے قرار کی دعا قبول کرتا ہے جب وہ اسے پکارے اور تکلیف دور کر دیتا ہے اور تمہیں زمین کا وارث بناتا ہے۔ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود ہے؟ بہت کم ہے جو تم نصیحت پکڑتے ہو۔

اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ’’دعا کے اندر قبولیت کا اثر اس وقت پیدا ہوتا ہے جب وہ انتہائی درجے کے اضطرار تک پہنچ جاتی ہے۔ جب انتہائی درجہ اضطرار کا پیدا ہو جاتا ہے اُس وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی قبولیت کے آثار اور سامان بھی پیدا ہو جاتے ہیں۔ پہلے سامان آسمان پر کئے جاتے ہیں اُس کے بعد وہ زمین پر اثر دکھاتے ہیں۔ یہ چھوٹی سی بات نہیں بلکہ ایک عظیم الشان حقیقت ہے۔ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ جس کو خدائی کا جلوہ دیکھنا ہو اسے چاہئے کہ دعا کرے‘‘۔

(ملفوظات جلد سوم صفحہ 618۔ مطبوعہ ربوہ)

پس اپنی دعاؤں کے اثرات کو زمین پر دیکھنے کے لئے پہلے آسمان کے کنگرے ہلانے ہوں گے۔ آپ چند ہزار جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنی محرومیاں دور کرنے اور ایک خاص ماحول سے فیض اٹھانے کے لئے جلسہ میں شمولیت کا موقع عطا فرمایا ہے اپنے اس اضطرار کو صحیح رُخ دے کر اپنی مادّی اور روحانی زندگی کے سامان کرنے کی کوشش کریں۔ ڈیوٹی دینے والے بھی وہاں گئے ہوئے ہیں وہ صرف یہ نہ سمجھیں کہ اُن کا مقصد صرف ڈیوٹی دینا ہے۔ بے شک یہ خدمت کریں لیکن چلتے پھرتے اُٹھتے بیٹھتے اپنی زبانوں کو ذکرِ الٰہی سے تر رکھیں۔ اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق دے۔

اس موقع سے جیسا کہ مَیں نے کہا، جلسے میں شامل ہونے والے صرف پاکستانیوں کا ہی فرض نہیں بلکہ ہر ایک کو بھرپور فائدہ اٹھانا چاہئے جو وہاں شامل ہو رہے ہیں۔ ماحول بھی میسر ہے تو اس ماحول سے بھر پور فائدہ اٹھائیں اور جیسا کہ مَیں نے کہا پاکستانی خاص طور پر اپنے حالات کی وجہ سے جو ان میں اضطراری کیفیت ہے اُس کو اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کریں۔ اور جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میں مضطر کی دعا سنتا ہوں۔ پھر ایسے مضطر جو صرف اپنے لئے دعا نہیں کر رہے ہوتے بلکہ جماعت کے لئے دعا کر رہے ہیں اور دنیا میں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کے قیام کے لئے دعا کر رہے ہوں ایسے مضطروں کی دعا تو اللہ تعالیٰ ضرور سنتا ہے۔ اور پھر یہی نہیں بلکہ دنیا کی ہمدردی میں کسی بھی دین سے منسلک جو لوگ ہیں ان کو تباہی سے بچانے کے لئے بھی دعا کر رہے ہوں تو ایسے لوگوں کی دعا تو اللہ تعالیٰ ضرور سنتا ہے جن کو ہمدردی مخلوق بھی ہے، ہمدردی انسانیت بھی ہے اور ہمدردی دین بھی ہے۔

پھر اللہ تعالیٰ صرف یہی نہیں فرما رہا کہ میں تمہاری اضطراری کیفیت کی دعائیں قبول کر کے تمہاری تکلیفیں دور کر دوں گا۔ تمہاری ذاتی اور جماعتی تکالیف کو ختم کر دیا جائے گا۔ تمہیں تکلیفیں پہنچانے والوں کے ہاتھوں کو روک دیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ تکلیف کا علاج صرف تکلیف دور کرنے سے نہیں فرما رہا بلکہ فرمایا کہ یَجْعَلُکُمْ خُلَفَاءَ الْأَرْض کہ تمہیں زمین کا وارث بنا دے گا۔ پہلے بھی بناتا آیا ہے اور آئندہ بھی اس کی یہی تقدیر ہے۔ پس یہ تقدیرِ الٰہی ہے تو مایوسیوں کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ نہ صرف تکالیف دور ہو رہی ہیں بلکہ تمہیں تکلیفیں دور کرنے کے بعد زمین کا وارث بنایا جا رہا ہے۔ پس اپنی بیچارگی کے رونے نہ روؤ۔ یہ کل پرسوں کب آئے گی، اس کی باتیں نہ کرو۔ اگر تمہاری عاجزی اور اضطرار سے کی گئی دعائیں جاری رہیں تو یہ کل پرسوں تو تمہاری تکلیفیں دور کرتے ہوئے آ ہی جائے گی اور نہ صرف تکلیفیں دور کرتے ہوئے آئے گی بلکہ مخالفین کو تمہارا زیرِ نگین کرتے ہوئے آئے گی۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔ پس اُس معبودِ حقیقی کے حضور جھکتے ہوئے اُس کی عبادت کا حق ادا کرنے کی کوشش کریں۔ ہر قسم کی مایوسیوں اور شرک، چاہے وہ شرکِ خفی ہی کیوں نہ ہو، اُس سے اپنے آپ کو بچائیں، اپنی نسلوں کو بچائیں پھر اللہ تعالیٰ کے انعاموں سے ہم ان شاء اللہ تعالیٰ فیض پاتے چلے جائیں گے۔ پس کیا ہی پیارا ہمارا خدا ہے جو کہتا ہے کہ اگر تم صرف میری خالص عبادت کرنے والے ہو تو میں تمہاری اضطرار سے کی گئی دعاؤں کو تمہارے مانگنے سے زیادہ پھل لگاتا ہوں۔ اس وہم میں بھی نہ رہو کہ پتہ نہیں ہمارا اضطرار اللہ تعالیٰ تک پہنچتا بھی ہے کہ نہیں؟ اللہ فرماتا ہے میں تو تمہارے بہت قریب ہوں۔ جو میں نے آیت تلاوت کی اس میں یہی فرما رہا ہے۔ اتنا قریب کہ جو خالص ہو کر ایک بندہ دعا کرتا ہے تو اس کی دعاؤں کا جواب بھی دیتا ہوں۔ لیکن ایک شرط ہے کہ جو تم نے اضطرار سے دعائیں شروع کی ہیں اُن میں مستقل مزاجی رکھنا اور میرے احکامات پر عمل کرنا، میں جو باتیں کہتا ہوں ان پر لبیک کہنا۔

(خطبہ جمعہ 24؍ دسمبر 2010ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 8 فروری 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 9 فروری 2021