• 14 مئی, 2024

ارشادات حضرت مسیح موعودؑ بابت مختلف ممالک و شہر (قسط 20)

ارشادات حضرت مسیح موعودؑ
بابت مختلف ممالک وشہر
قسط 20

ارشادات برائے ہندوستان

  • حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:

اس سے پیشتر بھی میں نے لکھا ہے کہ ہم لیلۃ القدر کے دونوں معنوں کو مانتے ہیں ایک وہ جو عرف عام میں ہے کہ بعض راتیں ایسی ہوتی ہیں کہ خدا تعالیٰ ان میں دعائیں قبول کرتاہے اور ایک اس سے مراد تاریکی کے زمانہ کی ہے جس میں عام ظلمت پھیل جاتی ہے حقیقی دین کا نام و نشان نہیں رہتا ہے اس میں جو شخص خدا کے سچے متلاشی ہوتے ہیں اور اس کی اطاعت کرتے ہیں وہ بڑے قابل قدر ہوتے ہیں ان کی مثال ایسی ہے کہ جیسے ایک بادشاہ ہو اور اس کا ایک بڑا لشکر ہو۔ دشمن کے مقابلے کے وقت سب لشکر بھاگ جاوے اور صرف ایک یا دو آدمی وفادار اس کے ساتھ رہ جاویں اور انہیں کے ذریعہ سے اسے فتح حاصل ہو تو اب دیکھ لو کہ ان ایک یا دو کی بادشاہ کی نظر میں کیا قدر ہوگی۔ پس اس وقت جبکہ ہر طرف دہریت پھیلی ہوئی ہے کوئی تو قول سے اور کوئی عمل سے خدا کا انکار کر رہا ہے۔ ایسے وقت میں جو خدا کا حقیقی پرستار ہو گا وہ بڑا قابل قدر ہوگا۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ بھی لیلۃ القدر کا زمانہ تھا اس وقت کی تاریکی اور ظلمت کی بھی کوئی انتہا نہ تھی ایک طرف یہود گمراہ۔ ایک طرف عیسائی گمراہ۔ ادھر ہندوستان میں دیوتا پر ستی۔ آتش پرستی وغیرہ۔ گویا سب دنیا میں بگاڑ پھیلا ہوا تھا اس وقت بھی جبکہ ظلمت انتہا تک پہنچ گئی تھی تو اس نے تقاضا کیا تھا کہ ایک نور آسمان سے نازل ہو۔ سو وہ نور جو نازل ہوا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات تھی۔ قاعدہ کی بات ہے کہ جب ظلمت اپنے کمال کو پہنچتی ہے تو وہ نور کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔ جیسے کہ جب چاند کی 29/تاریخ ہوجاتی ہے اور رات بالکل اند ھیری ہوتی ہے تو نئے چاند کے نکلنے کا وقت ہوتا ہے تو اس زمانہ کو بھی خدانے لیلۃ القدر کے نام سے موسوم کیا ہے جیسے کہ فرماتا ہے اِنَّآ اَنْزَلْنٰهُ فِیْ لَيْلَةِ الْقَدْرِ (القدر: 2) اسی طرح جب نور اپنے کمال کو پہنچتا ہے تو پھر وہ گھٹنا شروع ہوتا ہے جیسے کہ چاند کو دیکھتے ہو اور اسی طرح سے یہ قیامت تک رہے گا کہ ایک وقت نور کا غلبہ ہوگا اور ایک وقت ظلمت کا۔

(ملفوظات جلد5 صفحہ355 ایڈیشن 2016ء)

  • حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:

خدا تعالیٰ کی یہ عادت ہرگز نہیں ہے کہ جو اس کے حضور عاجزی سے گر پڑے۔ وہ اسے خائب وخاسر کرے اور ذلت کی موت دیوے جو اس کی طرف آتا ہے وہ کبھی ضائع نہیں ہوتا۔ جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے ایسی نظیر ایک بھی نہ ملے گی کہ فلاں شخص کا خدا سے سچا تعلق تھا اور پھر وہ نامراد رہا۔ خدا تعالیٰ بندے سے یہ چاہتا ہے کہ وہ اپنی نفسانی خواہشیں اس کے حضور پیش نہ کرے اور خالص ہو کر اس کی طرف جھک جاوے جو اس طرح جھکتا ہے اسے کوئی تکلیف نہیں ہوتی اور ہر ایک مشکل سے خود بخود اس کے واسطےر اہ نکل آتی ہے جیسے کہ وہ خود وعدہ فرماتا ہے مَنۡ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجۡعَلۡ لَّہٗ مَخۡرَجًا۔ وَّ یَرۡزُقۡہُ مِنۡ حَیۡثُ لَا یَحۡتَسِبُ (الطلاق: 3-4) اس جگہ رزق سے مرا دروٹی و غیر ہ نہیں بلکہ عزت، علم وغیرہ سب باتیں جن کی انسان کو ضرورت ہے اس میں داخل ہیں۔ خدا تعالیٰ سے جو ذره بھر بھی تعلق رکھتا ہے وہ کبھی ضائع نہیں ہوتا۔ مَنۡ یَّعۡمَلۡ مِثۡقَالَ ذَرَّۃٍ خَیۡرًا یَّرَہٗ (الزلزال: 8) ہمارے ملک ہندوستان میں نظام الدین صاحب اور قطب الدین صاحب اولیاء اللہ کی جو عزت کی جاتی ہے وہ اسی لیے ہے کہ خدا سے ان کا سچا تعلق تھا اور اگر یہ نہ ہوتا تو تمام انسانوں کی طرح وہ بھی زمینوں میں ہل چلا تے۔ معمولی کام کرتے۔ مگر خدا تعالیٰ کے سچے تعلق کی وجہ سے لوگ ان کی مٹی کی بھی عزت کرتے ہیں۔

خدا تعالیٰ اپنے بندوں کا حامی ہو جاتا ہے۔ دشمن چاہتے ہیں کہ ان کو نیست و نابود کریں مگر وہ روز بروز ترقی پاتے ہیں اور اپنے دشمنوں پر غالب آتے جاتے ہیں جیسا کہ اس کا وعدہ ہے كَتَبَ اللّٰهُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِىْ (المجادلۃ: 22) یعنی خدا تعالیٰ نے لکھ دیا ہے کہ میں اور میرے رسول ضرور غالب رہیں گے اول اول جب انسان خدا تعالیٰ سے تعلق شروع کرتا ہے تو وہ سب کی نظروں میں حقیر اور ذلیل ہوتا ہے مگر جوں جوں وہ تعلقات الہٰی میں ترقی کرتا ہے توں توں اس کی شہرت زیادہ ہوتی ہے حتی کہ وہ ایک بڑا بزرگ بن جاتا ہے جیسے خدا تعالیٰ بڑا ہے اسی طرح جوکوئی اس کی طرف زیادہ قدم بڑھاتا ہے وہ بھی بڑا ہو جاتا ہے حتی کہ آخر کار خدا کا خلیفہ بن جاتا ہے۔

(ملفوظات جلد5 صفحہ24-25 ایڈیشن 2016ء)

  • حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:

خوف الہٰی اور تقویٰ بڑی برکت والی شے ہے انسان میں اگر عقل نہ ہو مگر یہ باتیں ہوں تو خدا اسے اپنے پاس سے برکت دیتا ہے اور عقل بھی دے دیتا ہے جیسا کہ فرماتا ہے یَجۡعَلۡ لَّہٗ مَخۡرَجًا (الطلاق: 3) اس کے یہی معنے ہیں کہ جس شے کی ضرورت اسے ہوگی اس کے لیے وہ خودراہ پیدا کر دے گا بشرطیکہ انسان متقی ہو، لیکن اگر تقویٰ نہ ہوگا تو خواہ فلاسفر ہی ہو وہ آخر کار تباہ ہوگا۔ دیکھو کہ اسی ہندوستان پنجاب میں کس قدر عالم تھے مگر ان کے دلوں میں اور زبانوں میں تقویٰ نہ رہا۔ محمدحسین کی حالت دیکھو کہ کیسی گندی اور فحش باتیں اپنے رسالہ اشاعۃ السنہ میں لکھتا رہا۔ اگر تقویٰ ہوتی تو وہ کب ایسی باتیں لکھ سکتا تھا۔

(ملفوظات جلد5 صفحہ306 ایڈیشن 2016ء)

  • حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:

جب انسان تعصب اور فاسقانہ زندگی سے اندھا ہو جاتا ہے تو اسے حق اور باطل میں فرق نظر نہیں آتا۔ ہر ایک حلال کو حرام اور ہر ایک حرام کو حلال سمجھتا ہے اور نیکی کے ترک کرنے میں ذرا دریغ نہیں کرتا۔ شراب جو ام الخبائث ہے۔ عیسائیوں میں حلال سمجھی جاتی ہے۔ مگر ہماری شریعت میں اس کو قطعاً منع کیا گیا ہے اور اس کو رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ (المائدہ: 91) کہا گیا ہے۔ کیا کوئی پادری ہے جو یہ دکھا دے کہ انجیل میں حرمت شراب کی لکھی ہے بلکہ شراب ایسی متبرک خیال کی گئی ہے کہ پہلا معجزه مسیح ؑ کا شراب کا ہی تھا تو پھر دلیری کیوں نہ ہو۔ جو بڑا پر ہیز گار ان میں ہوگا وہ کم از کم ایک بوتل برانڈی کی ضرور استعمال کرتا ہوگا۔ چنانچہ کثرت شراب نے ولایت میں آئے دن نئے نئے جرائم کو ایجاد کر دیا ہے اور پادری کے اس قول پر کہ اہل اسلام گناہ میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ سخت تعجب آتا ہے کہ کس حوصلہ اور دلیری سے یہ بات کہہ دی۔ بھلا اگر زمانہ دراز کی بات ہوتی تو ممکن تھا کہ ان کے ایسے بہتان سے عیسائیوں کی نیک چلنی کا نسبتاً گمان ہوتا۔ مگر جب یہ دونوں قومیں ہمارے سامنے اپنے اعمال کے دفتر کھولے بیٹھی ہیں تو پھر کسی کی شیخی اور تعلّی سے کیا فائدہ؟ روشن ضمیر پبلک خودروز روشن میں دیکھ سکتی ہے۔ ولایت کے جیل خانوں میں ہندوستان کے جیل خانوں کی نسبت جرائم پیشہ لوگوں کی کس فیصدی سے زیادتی ہے؟ جن اصولوں کو عیسائی قوم مانتی ہے وہ اصول خود جرائم مثل زنا، قمار بازی کے محرک ہیں۔ ان کی اصطلاح سے تو اب گناہ گناہ نہ رہنے چاہئیں۔ گو یا گناہ سے وہ ایسے ہی بے پرواہ ہو گئے جیسے شاکت مت والے۔

(ملفوظات جلد5 صفحہ151 ایڈیشن 2016ء)

  • حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:

ہندوستان اور یورپ کی دہریت میں فرق ہے۔ یورپ کے دہریہ اس خدا کے منکر ہیں جو مصنوعی ہے اور عیسائی لوگ وہاں اس کو دہریہ کہتے ہیں جو کہ مسیح کو خدا نہ مانے اور اب فسق و فجور نے بھی اثر ڈالا ہے۔ لوگوں نے سمجھ لیا ہے کہ یہ سب اثر کفارہ پرستی کا ہے۔ تو اب وہ کیسے مانیں۔

(ملفوظات جلد5 صفحہ76 ایڈیشن 2016ء)

ذکر آیا کہ ایک انگریزی اخبار میں مضمون نکلا ہے کہ اسلام ہند میں نہیں پھیلا کیونکہ ہندو خود مہذب تھے اور کسی مہذب قوم میں اسلام پھیل نہیں سکتا۔ فرمایا:۔
یہ جھوٹ ہے ہندوستان میں سوائے چند ایک قوموں کے جو باہر سے آئی ہیں (قریش،مغل، پھٹان) باقی سب ہند کے باشندے ہیں جنہوں نے اسلام قبول کیا مثلاً شیخ، خواجگان، زمینداروں کی سب اقوام وغیرہ۔ یہ سب پہلے ہندو تھے۔

فرمایا۔ عیسائیوں کا عجیب طریقہ ہے۔ اگرکثرت دکھائی جاوے تو کہتے ہیں جبراً مسلمان ہوئے اور اگر کثرت نہ دکھائی جاوے تو کہتے ہیں اسلام کا کچھ اثر نہ ہوا۔

(ملفوظات جلد7 صفحہ427 ایڈیشن 1984ء)

  • حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:

اپنے تو درکنار میں تو یہ کہتا ہوں کہ غیروں اور ہندوؤں کے ساتھ بھی ایسے اخلاق کا نمونہ دکھاؤ اور ان سے ہمدردی کرو۔ لا ابالی مزاج ہرگز نہیں ہونا چاہیئے۔

ایک مرتبہ میں باہر سیر کو جارہا تھا۔ ایک پٹواری عبدالکریم میرے ساتھ تھا۔ وہ ذرا آگے تھا اور میں پیچھے۔ راستہ میں ایک بڑھیا کوئی 70 یا 75 برس کی ضعیفہ ملی۔ اس نے ایک خط اسے پڑھنے کو کہا مگر اس نے اسے جھڑکیاں دے کر ہٹا دیا۔ میرے دل پر چوٹ سی لگی۔ اس نے وہ خط مجھے دیا۔ میں اسے لے کر ٹھہر گیا اور اس کو پڑھ کر اچھی طرح سمجھا دیا اس پر اسے سخت شرمندہ ہونا پڑا۔ کیونکہ ٹھہرنا تو پڑا اور ثواب سے بھی محروم رہا۔

(ملفوظات جلد7 صفحہ106 ایڈیشن 1984ء)

  • حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:

یہ بالکل غلط ہے کہ ہند میں اسلام تلوار کے ذریعہ سے پھیلا۔ ہرگز نہیں۔ ہندمیں اسلام بادشاہوں نے بجبر نہیں پھیلایا بلکہ ان کو تودین کی طرت بہت ہی کم توجہ تھی۔ اسلام ہند میں ان مشائخ اور بزرگان دین کی توجہ، دعا اور تصرفات کا نتیجہ ہے جو اس ملک میں گذر ے تھے۔بادشاہوں کو یہ توفیق کہاں ہوتی ہے کہ دلوں میں اسلام کی محبت ڈال دیں۔ جب تک کوئی آدمی اسلام کا نمونہ خود اپنے وجود سے ظاہرنہ کرے تب تک دوسرے پر اس کا کوئی اثر نہیں ہو سکتا۔ یہ بزرگ اللہ تعالیٰ کے حضورمیں فنا ہوکرخود مجسم قرآن اورمجسم اسلام اورمظہررسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم بن جاتے ہیں۔ تب اللہ تعالےٰ کی طرف سے ان کو ایک جذب عطا کیا جاتاہے اور سعید فطرتوں میں ان کا اثر ہوتا چلا جاتا ہےنوّے کروڑ مسلمان ایسے لوگوں کی توجہ اور جذب سے بن گیا۔ تھوڑے سے عرصہ میں کو ئی دین اس کثرت کے ساتھ کبھی نہیں پھیلا۔ یہی لوگ تھے جنہوں نے صلاح دتقویٰ کانمونہ دکھلایا اور ان کی برہان قومی نے جوش مارا اور لوگوں کو کھینچا۔ مگر یہ بزرگ بھی عوام کی طعن وتشنیع سے خالی نہ تھے۔ گوہم زیادہ تر ان لوگوں کے آگے گالیوں کے لئے تختہ مشق ہو رہے ہیں تاہم ان سب نے دکھ اٹھایا۔ یہ ہمارے علماء ہمیشہ کچھ نہ کچھ کرتے ہی رہے ہیں۔

(ملفوظات جلد8 صفحہ207 ایڈیشن 1984ء)

  • حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:

اسلام کے معنے تویہ تھے کہ انسان خدا تعالیٰ کی محبت اور اطاعت میں فنا ہو جاوے اور جس طرح ایک بکری کی گردن قصاب کے آگے ہوتی ہے اسی طرح پرمسلمان کی گردن خدا تعالےٰ کی اطاعت کے لئے رکھ دی جاوے اور اس کا مقصد یہ تھا کہ خداتعالےٰ ہی کو وحدهٗ لاشریک سمجھے۔ جب آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے اس وقت یہ توحید گم ہوگئی تھی اور یہ دیش آریہ ورت بھی بتوں سے بھرا ہوا تھا جیسا کہ پنڈت دیاتندسرسوتی نے بھی اس کو تسلیم کیا ہے۔ایسی حالت اور ایسے وقت میں ضرور تھا کہ آپ مبعوث ہوتے اس کا ہمرنگیہ زمانہ بھی ہے جس میں بت پرستی کے سات انسان پرستی اوردہریت بھی پھیل گئی ہے اور اسلام کا اصل مقصد اورروح باقی نہیں رہی۔ اس کا مغز تویہ تھا کہ خدا ہی کی محبت میں فنا ہو جانا اور اس کے سوا کسی کو معبود نہ سمجھنا اومقصد یہ ہے کہ انسان روبخداہوجاوے اور بدنیا نہ رہے اور اس مقصد کے لئے اسلام نے اپنی تعلیم کے دوحصے کئے ہیں۔ اول حقوق اللہ، دوم حقوق العباد۔ حقوق اللہ یہ ہے کہ اس کوواجب الاطاعت سمجھے اورحقوق العباد یہ ہے کہ خداتعالےٰ کی مخلوق سے ہمدردی کریں۔ یہ طریق اچھا نہیں کہ صرف مخالفت مذہب کی وجہ سے کسی کو دکھ دیں۔ ہمدردی اورسلوک الگ چیز ہے اور مخالفت مذہب دوسری شئے۔ مسلمانوں کا وہ گروه جوجہاد کی غلطی ا ور غلط فہمی میں مبتلا ہیں انہوں نے یہ بھی جائز رکھاہے کہ کفار کا مال ناجائز طور پر لینا بھی درست ہے خود میری نسبت بھی ان لوگوں نے فتویٰ دیا کہ ان کا مال لوٹ لو بلکہ یہانتک بھی کہ ان کی بیویاں نکال لو۔ حالانکہ اسلام میں اس قسم کی ناپاک تعلیمیں نہ تھیں۔ وہ تو ایک صاف اور مصفیٰ مذہب تھا۔ اسلام کی مثال ہم یوں دے سکتے ہیں کہ جیسے باپ اپنے حقوق ابوت کو چاہتا ہے اسی طرح وہ چاہتا ہے کہ اولاد میں ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی ہو۔ وہ نہیں چاہتا کہ ایک دوسرے کو مارے۔ اسلام بھی جہاں یہ چاہتا ہے کہ خداتعالےٰ کا کوئی شریک نہ ہو وہاں اس کا یہ بھی منشا ہے کہ نوع انسان میں مووّت اور وحدت ہو۔

(ملفوظات جلد8 صفحہ246-247 ایڈیشن 1984ء)

  • حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:

اولیاء اللہ میں ایک صاحب کشف ایک دفعہ اجودھیا میں پہنچے۔ وہاں پہنچ کر مسجد میں لیٹ گئے۔ دیکھتے کیا ہیں کہ کرشن جی آئے اور سات روپے ان کی نذر کئے کہ ہماری طرف سے بطور دعوت قبول کیا جاوے۔ وہ ولی اللہ صاحب چونکہ مسلمان تھے انہوں نے کہا کہ تم لوگ کافر ہو ہم تمہارا مال نہیں کھاتے تو اس پر کرشن جی نے عرض کیا کہ کیا آپ موجودہ ہندوؤں سے ہماری حالت اور ایمان کا اندازہ لگاتے ہیں؟ ہم ا ن میں سے ہر گز ہر گز نہیں ہیں بلکہ ہمارا مذہب توحید ہے اور ہم آپ لوگوں کے بالکل قریب ہیں۔

(ملفوظات جلد10 صفحہ143یڈیشن 1984ء)

(جاری ہے)

(سید عمار احمد)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 8 فروری 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ