• 2 مئی, 2024

اسلام اور اہل کتاب

اسلام اور اہل کتاب
جاپان میں کیتھولک یونیورسٹی میں لیکچر

جاپان میں مسیحیت کی تاریخ کئی نشیب و فراز سے ہوتے ہوئے اس وقت اپنے بہترین دور سے گزر رہی ہے۔ سولھویں صدی عیسوی کے ابتدائی جاپانی مسیحیوں کی مسیحیت قبول کرنے کی پاداش میں جس ظلم و ستم کا سامنا کرنا پڑا اس قسم کے تعصب اور بربریت کی مثالیں تاریخ عالم میں بہت نایاب ہیں۔حکام وقت کے ظلم و ستم کے آگے بے بس ہوجانے والے مسیحی بالآخراپنے ایمان کی حفاظت کے لئے اصحاب کہف سی زندگی گزارنے پر مجبور ہوگئے۔ا ن لوگوں کو پوشیدہ مسیحی کہا جاتا ہے اور جور و ستم کا یہ دور اڑھائی سال پر مشتمل تھا۔

انیسویں صدی میں میجی بادشاہت کے دور میں جب جاپان میں ہر قسم کی مذہبی آزادی دیدی گئی تو کیتھولک اور پروٹسٹنٹ دونوں فرقوں کی جانب سے جاپان میں پنجے گاڑنے کے لئے ہمہ جہت کاوشوں کا مظاہرہ کیا گیا۔ جاپان کے طول وعرض میں گرجا گھر تعمیر ہونے لگے، رفاہی ادارے قائم کئے گئے، بچوں اور بوڑھوں کی دیکھ بھال کے کئی منصوبے شروع ہوئے اور مسیحی نظریات کی ترویج کے لئے سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کا قیام عمل میں آنے لگا۔ اس وقت جاپان بھر میں کم و بیش 50یونیورسٹیاں ایسی ہیں جنہیں باقاعدہ مسیحی یونیورسٹیاں کہا جاسکتا ہے۔ ان کی بنیاد مسیحی منادوں نے رکھی، یہاں مسیحیت کی تعلیم کے لئے شعبے قائم ہوئے، یونیورسٹیوں میں گرجا گھر تعمیر ہوئے اور مسیحی پادریوں کی ایک بڑی تعداد درس وتدریس پر مامور ہوئی۔ ان جامعات میں سے ایک مشہور جامعہ Nanzan Univeristy ہے جسے وسطی جاپان کی بہترین پرائیویٹ یونیورسٹیوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ یہ ادارہ 1932ء میں قائم ہوا اور 1946ء میں یونیورسٹی کا درجہ حاصل کیا۔

’’نان زان یونیورسٹی‘‘ کے بین الاقوامی تعلقات عامہ اور موازنہ مذاہب کے شعبہ جات کی طرف سے مؤرخہ 21دسمبر 2021ء کو طلباء کو لیکچر دینے کے لئے مدعو کیا گیا۔ اس لیکچر کے لئے یونیورسٹی کی طرف سے ’’اسلام اور نظریہ اہل کتاب‘‘ کا موضوع دیا گیا۔نیز توحید پرست مذاہب کے فلسفہ اور تاریخ پر روشنی ڈالنے کے لئے کہا گیا۔

خاکسار نے قرآن کریم کی آیات کی روشنی میں ’’اہل کتاب کے قرانی نظریہ‘‘ کو تفصیل سے بیان کرتے ہوئے درج ذیل امور کی وضاحت کی:۔

  1. اہل کتاب کا مشترکہ ورثہ توحید کی تعلیم ہے یعنی وہ مقبول عام نظریہ جس کی گواہی حضرت آدم سے لے کر آج تک نسل انسانی ہر صدی اور ہر زمانہ میں دیتی چلی آرہی ہے۔
  2. حضرت ابراہیم علیہ السلام کا وجود اہل کتاب کے تینوں بڑے مذاہب کے نزدیک عزت واحترام کی علامت ہے اور تینوں مذاہب کا یہ دعویٰ ہے کہ حضرت ابراہیم مؤحد تھے۔
  3. خدائے واحد کے وجود پر ایک زبردست گواہی وحی والہام کا وہ سلسلہ ہے جس کی تائید قرآن کریم کے علاوہ یہودی اور مسیحی صحائف بھی کرتے ہیں۔
  4. قرآن کریم کا نزول اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ادیان ابراہیم کا تسلسل بلکہ نقطہ ء عروج تھا جس سے توحید پرست مذاہب کی عمارت اپنی تکمیل کو پہنچی۔
  5. قرآن کریم انبیائے بنی اسرائیل اور اولادِ ابراہیم کے وجود کو تسلیم کرتا، ان کی عزت اور عصمت کی حفاظت کا اعلان کرتا، ان کی خوبیوں کا اقرار کرتا اور اظہار حق کے طور پر ان کی بعض غلطیوں کی بھی نشاندہی فرماتاہے۔
  6. اگر اہل کتاب توریت اور انجیل میں مکتوب پیش خبریوں کے مطابق مبعوث ہونے والے رسول اللہﷺ پر ایمان لے آتے اور اللہ تعالیٰ سے کئے گئے وعدہ کے موافق رسولِ خداﷺ کی عزت و توقیر کرتے تو نسل ابراہیم کی وحدت ویگانگت کے نتیجہ میں روئے زمین پر ایک ایسا انقلاب عظیم برپا ہوتا جس کی نظیر تاریخ مذاہب میں ملنا مشکل ہے۔
  7. لیکن باوجود اس کے کہ اولادِ ابراہیم کے ایک بڑے حصہ نے بانئ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار کر دیا تو پھر قرآن کریم نے اہل کتا ب سے مفاہمت اور موافقت کے لئے ایک نیا اسلوب اختیار فرمایا۔انہیں مشترکات پر اکٹھے ہوجانے کی پیشکش کی لیکن افسوس یہ پیشکش بھی ٹھکرا دی گئی۔
  8. اہل کتاب کی قرآنی اصطلاح موافقت اور مفاہمت پر مبنی ہے نہ کہ تعصب اور تقصیر پر۔
  9. آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے محبت و اخلاق سے، تعلیم و تبلیغ اور اپنے اعلیٰ کردار کے ذریعہ لوگوں کو دل فتح کئے اور تمام انسانوں بالخصوص یہود ونصاریٰ سے خصوصی شفقت ورحمت کا سلوک فرمایا۔
  10. جماعت احمدیہ کا تعارف کرواتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصنیف لطیف پیغام صلح کے بعض اقتباسات پیش کرکے اسلامی تعلیم کی عالمگیریت،مذاہب عالم کی عزت و توقیر اور دعوت مکالمہ کا ذکر کیا گیا۔

طلباء نے اس لیکچر میں غیر معمولی دلچسپی ظاہر کرتے ہوئے اس موضوع پر اور عمومی طور پر بھی اسلام کے حوالہ سے بہت سے سوالات کئے۔ دوسرے مذاہب کے بارہ میں اسلامی تعلیم، خواتین کے حقوق، جہاد کے نظریہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کے حوالہ سے تفصیلی سوال وجواب ہوئے۔ یہ سیشن دو گھنٹہ سے زائد پر مشتمل تھا۔ لیکچر کے علاوہ قرآن کریم کی نمائش بھی منعقد کی گئی اور طلباء کو پیشکش کی گئی کہ وہ بنفس نفیس قرآن کریم کھول کر دیکھیں۔ بعد ازاں طلباء نے جن تاثرات کا اظہار کیا وہ درج ذیل ہیں:

٭ ’’زندگی میں یہ پہلا موقع تھا جب ہم نے اسلام کی مقدس کتاب قرآن کریم کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اور اس کے بعض حصوں کو پڑھنے کا موقع ملا۔ اسلام کی حقیقی تعلیم اور قرآن کریم ان باتوں سے بالکل مختلف ہے جو شدت پسند اور دہشت گرد بیان کرتے ہیں۔‘‘

٭ ’’ہمارا خیال تھا کہ قرآن کریم کریم عبادات اور دعاؤں پر مشتمل ایک مجموعہ ہے، لیکن یہ جان کر حیرانی ہوئی کہ قرآن میں حضرت مسیح علیہ السلام، آپ کی والدہ مریم اور دیگر انبیاء کا ذکر بھی بہت کثرت سے ہے اور ان سب کو نہایت عزت واکرام سے یاد کیا گیا ہے‘‘

٭ ’’اسلام کے بارہ میں ہمارا یہ تاثر تھا کہ یہ مذہب خواتین سے سختی کی تعلیم دینے والا ہے، لیکن والدہ کے مقام کے بارہ میں قرآنی آیات جان کر اور مریم کے نام کی سورت دیکھ کر ہمیں یہ احساس ہوا ہے کہ ہمارا تاثر درست نہ تھا۔ اسلام خواتین کی عزت و احترام کا درس دینے والا مذہب ہے‘‘

لیکچر اور سوال و جواب کے بعد بھی طلباء دیر تک بات چیت میں مصروف رہے اور جماعت احمدیہ کے بارہ میں معلومات حاصل کرتے رہے۔ بعض طلباء نے غیر معمولی دلچسپی ظاہر کرتے ہوئے مسجد تشریف لا کر مزید معلومات حاصل کیں اور آئندہ بھی اسلام احمدیت کا مطالعہ جاری رکھنے کی خواہش ظاہر کی۔

دعاؤں کی عاجزانہ درخواست ہے کہ اللہ تعالیٰ اسلام احمدیت کی تبلیغ و اشاعت کی راہیں ہموار فرماتا چلا جائے اور قرآن کریم کی خوبصورت تعلیم جاپانی قوم کے قلب وروح کی تسخیر کرتے ہوئے انہیں خدائے واحد کا پرستار بنانے والی ہو۔ آمین

(رپورٹ: انیس رئیس۔مبلغ انچارج جاپان)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 8 فروری 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ