• 4 مئی, 2024

لجنہ اماء اللہ کے قیام کی ضرورت اور اہمیت

لجنہ اماء اللہ کے قیام کی ضرورت اور اہمیت
تحریر: حضرت سیدہ مریم صدیقہ مرحومہ

جس طرح ایک گاڑی اس وقت تک ٹھیک نہیں چل سکتی جب تک اس کے دونوں پہیے بالکل درست نہ ہوں اور اگر خفیف سا نقص بھی کسی ایک پہیہ میں پایا جائے تو ایسی گاڑی اچھی طرح چل نہیں سکے گی۔بعینہٖ یہی حال دنیا میں مرد و عورت کا ہے۔جب تک یہ دونوں دنیائے عمل میں قدم بقدم اور پہلو بہ پہلو نہ چلیں ان کا ترقی کے زینہ تک پہنچنا مشکل ہے۔بلکہ جس طرح گاڑی کے ایک طرف کا پہیہ ناقص ہو کر دوسری طرف کے پہیے کے چلنے میں بھی روک ڈال دیتا ہے۔اسی طرح اگر عورت ترقی کے میدان میں چلنے کے قابل نہ ہو تو مرد کے ترقی کرنے میں روک ہو گی۔

یہ ازلی قانون قوموں اور ملکوں اور خاندانوں میں یکساں طور پر چلتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اسلام نے عورت کی تعلیم و تربیت پر خاص زور دیا ہے۔ علاوہ اس کے کہ عورت مرد کے کام میں بہت سی سہولت کا باعث بن سکتی ہے۔عورت کی گود آئندہ نسل کا گہوارہ بھی ہے۔پس اگر عورتیں اچھی تربیت یافتہ نہ ہوں تو اولاد بھی اچھی اور قابل نہ ہو گی اور جب اولاد اچھی نہ ہوئی تو قوم پروان کس طرح چڑھے گی۔

حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ فرماتے ہیں:
’’حقیقت یہی ہے کہ عورتوں کی تعلیم و تربیت کے بغیر کام نہیں چل سکتا۔ مجھے خدا تعالیٰ نے الہاماً فرمایا ہے کہ اگر پچاس فی صدی عورتوں کی اصلاح کر لو تو اسلام کو ترقی حاصل ہو جائے گی۔ گویا خدا تعالیٰ نے اسلام کی ترقی کو تمہاری اصلاح کے ساتھ وابستہ کر دیا ہے۔جب تک تم اپنی اصلاح نہ کر لو ہمارے مبلغ خواہ کچھ کریں کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا۔‘‘

(الازہار لذوات الخمار صفحہ 391)

حضور عورتوں کو مخاطب کر کے مزید فرماتے ہیں:
’’یہ کام ہمارے بس کا نہیں بلکہ یہ کام تمہارے ہی ہاتھوں سے ہو سکتا ہے۔جب تک ہماری مدد نہ کرو اور ہمارے ساتھ تعاون نہ کرو اور جب تک تم اپنی زندگیوں کو اسلام کے فائدہ کے لیے نہ لگاؤ گی اس وقت تک ہم کچھ نہیں کر سکتے اللہ تعالیٰ نے انسان کے دو حصے کر کے اس کے اندر الگ الگ جذبات پیدا کئے ہیں۔ عورت مرد کے جذبات کو صحیح طور پر نہیں سمجھ سکتی اور مرد عورت کے جذبات کو صحیح طور پر نہیں سمجھ سکتا۔ پس چونکہ ہم ایک دوسرے کے جذبات کو پہچاننے سے قاصر ہیں اس لیے مردوں کی صحیح تربیت مرد ہی کر سکتے ہیں اور عورتوں کی صحیح تربیت عورتیں ہی کر سکتی ہیں۔‘‘

(الازہارلذاوت الخمار صفحہ 392)

چونکہ یہ امر تسلیم شدہ ہے کہ عورتوں کی اصلاح اور تربیت بہتر صورت میں عورتیں ہی کر سکتی ہیں اس لیے حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے لجنہ اماء اللہ قائم فرمائی۔پس لجنہ اماء اللہ ایک کڑی ہے اس بابرکت نظام کی جس کے ساتھ محکم وابستگی کے بغیر ہم خدا تعالیٰ کے فضلوں کے وارث نہیں بن سکتے۔لہٰذا احمدی بہنوں کو چاہیے کہ وہ لجنہ اماء اللہ میں شامل ہو کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قائم فرمودہ نظام سے وابستہ ہوں۔ لجنہ اماء اللہ بائیس سال سے قائم ہے۔ مگر ابھی تک اس کی طرف احمدی مستورات نے بہت کم توجہ کی ہے۔حالانکہ کوئی ترقی نظام کے بغیر نہیں ہو سکتی۔اس وقت تک اگر خواتین میں کچھ بیداری ہے تو وہ زیادہ تو قادیان کی مستورات میں یا معدودے چند اور جگہوں میں جہاں لجنہ قائم ہے۔حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کا الہام ‘‘اگر تم پچاس فیصدی عورتوں کی اصلاح کر لو تو اسلام کو ترقی حاصل ہو جائے گی’’۔کسی ایک شہر یا قصبہ کے لیے مخصوص نہیں بلکہ ساری دنیا کی احمدی عورتوں کے لیے ہے اور یہ اصلاح بغیر منظم ہوئے اور بغیر آپس میں تعاون کئے نہیں ہو سکتی۔جب تک ہر ایک احمدی عورت یہ نہ سمجھ لے کہ میرا انفرادی وجود کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔بلکہ میرا وجود دوسرے وجودوں کے ساتھ مل کر ہی طاقت اور قوت پا سکتا ہے۔اس وقت تک وہ ترقی نہیں کر سکتی اور ظاہر ہے کہ عورتوں کے لیے واحد طریقہ منظم ہونے کا صرف لجنہ اماء اللہ ہے۔پس ہر احمدی عورت کو چاہیے کہ وہ لجنہ میں شامل ہو اور ہر شہر یا قصبہ یا گاؤں میں جہاں دو یا دو سے زیادہ احمدی عورتیں رہتی ہوں وہ مل کر لجنہ قائم کر لیں اور ایک دوسرے کے ساتھ پورا پورا تعاون کرتے ہوئے ایک دوسرے کی کمزوریوں سے چشم پوشی کرتے ہوئے صبر استقلال اور ہمت کے ساتھ اصلاح کی کوشش کریں۔میں امید رکھتی ہوں کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے ارشاد کی تعمیل میں ایک سال کے اندر اندر سارے ہندوستان میں لجنات قائم ہو جائیں گی۔پس جہاں جہاں اس وقت تک لجنہ قائم نہیں وہاں کی عورتیں بہت جلد اپنے ہاں لجنہ قائم کر کے لجنہ مرکزیہ قادیان کو اطلاع دیں۔

اللہ تعالیٰ کے کام کبھی نہیں رکتے اور بہر حال ہو کر رہیں گے۔کیونکہ وہ علیم و قدیر ہے اور جو چاہتا ہے کر کے رہتا ہے کسی قسم کی روک اس کے منشاء کو پورا کرنے میں حائل نہیں ہو سکتی پس اپنا کام تو اس نے کرنا ہی ہے اور اپنی قدیم سنت کے مطابق کرنا بھی انسانی ہاتھوں سے ہے۔پھر کیوں نہ وہ ہاتھ ہمارے ہی ہاتھ ہوں۔جن سے خدائی کام انجام پا سکیں اور کیوں نہ وہ مبارک ہستیاں ہم ہی ہوں جن سے الٰہی منشاء ظہور پذیر ہو احمدیت کا مقصد اور منتہیٰ ابھی بہت دور ہے۔جس طرح ایک سیڑھی کے آخری قدم تک نہیں پہنچا جا سکتا جب تک کہ اس کی ایک ایک سیڑھی پر قدم نہ رکھا جائے۔اسی طرح ہمیں کرنا ہوگا جس زینہ پہ ہم نے چڑھنا ہے اس کا پہلا قدم لجنہ اماء اللہ کا قیام ہے۔اگر پہلا قدم نہ اٹھایا گیا تو ہم اس مقام تک کیونکر پہنچ سکیں گی جو ہمارا مقصد اور نصب العین ہے۔

میں امید کرتی ہوں کہ میری اس مختصر اور سادہ اپیل پر ہماری بہنیں خود ہی توجہ دے کر اپنی اپنی جگہ لجنہ قائم کریں گی اور اس خدائی نظام کا مفید پرزہ بننے کی کوشش کریں گی۔جس کے ساتھ ملنے سے ہی ہمارے لیے سب برکت و رحمت کے دروازے کھل سکتے ہیں۔

(مصباح فروری 1945ء بحوالہ خطابات مریم جلد اول جولائی 2008ء صفحہ نمبر7-9)

(مرسلہ: محمد شاہد تبسم)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 8 فروری 2023

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالی