• 4 مئی, 2024

لجنہ اماء اللہ کی چند ابتدائی خادمات

اللہ کے فضل سے خاکسار کی نانی جان محترمہ عائشہ بی بیؓ زوجہ حضرت میاں مہر غلام حسن صاحب ؓ اور دادی جان محترمہ فاطمہ بی بیؓ صاحبہ زوجہ میاں مہر دین صاحب ؓ مع اپنے دیگر عزیزان کے ساتھ احمدی ہوئے۔ ان بزرگوں کی تعداد تقریباً بیس کے قریب تھی جو صحابہ رضوان اللہ علیہم کی صف میں شامل ہوئے۔ نانی جان 1904ء میں لیکچر سیالکوٹ کے جلسہ میں شریک ہوئیں اور باضابطہ بیعت کی۔ دادی جان اور دادا جان 1902ء میں بیعت سے با مشرف ہوئے تھے۔ جب حضور علیہ السلام لیکچر سیالکوٹ کے لیے سیالکوٹ تشریف لائے تو دادی جان محترمہ نے بھی حضور علیہ السلام سے ملاقات کا شرف پایا۔ ان بزرگ ہستیوں نے حضور علیہ السلام کے بعد دو خلافتوں کا زمانہ پایا اور خوب برکات لوٹیں۔ دادی جان محترمہؓ سیالکوٹ کے قریب گاوٴں بوبک تحصیل ظفر وال میں بیاہ کر گئیں۔ بہت سی لڑکیاں قرآن پاک اور اردو لکھنے پڑھنے کے لیے ان کے گھر ہی آ تی تھیں۔ ظفر وال ان دنوں تحصیل ہیڈ کوارٹر تھا جہاں اچھی خاصی احمدیہ جماعت تھی۔ احمدی افراد اور مبلغین کا اکثر وہاں سے گزر ہوتا دادی جان کا گھر چونکہ سیالکوٹ جانے والی سڑک سے صرف دو میل دور تھا جبکہ جس کا دادا جان کو پہلے ہی علم ہوجاتا وہ ان احباب کو اپنے گھر لاتے اور خاطر تواضع فرماتے۔ ایک مرتبہ (حضرت ناناجان) میر نواب ناصر صاحب بھی داداجان کے گھر مہمان ہوئے دادی جان نے پراٹھوں، چائے اور لسّی سے تواضع کی۔

خاکسار کی صحابیہ نانی جان محترمہ حضرت عائشہ بی بیؓ جن کو لیکچر سیالکوٹ کے وقت بیعت کا موقعہ ملا سیالکوٹ میں رہائش کی وجہ سے جماعتی سلسلے سے زیادہ قریب تھیں۔ کیونکہ ناناجان اور نانا جان کے بھائی بھی صحابہ رضوان اللہ علیہم میں سے تھے۔ ان کے گھروں میں ہر وقت تبلیغی معرکے کھلے رہتے نانی جان ؓ کی اللہ کے فضل سے دو بیٹیاں محترمہ محمودہ بیگم صاحبہ اور محترمہ مبارکہ قمر سیالکوٹی (خاکسار کی والدہ) تھیں۔ نانا جان ؓ کی پہلی بیوی میں سے بھی ایک بیٹی تھیں جن کانام محترمہ مریم بی بی تھا سیالکوٹ کے اس محّلے (اراضی یعقوب) میں میرے خاندان میں سے بہت سے بزرگان مرد بھی اور خواتین بھی اللہ کے فضل سے صحابیؓ تھے۔ ان لوگوں کے کچھ بچے ایسے بھی تھے جنہوں نے حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام کو دیکھا، ان کو سنا اور ان کی مجالس میں بیٹھے مگر کم سنی کی وجہ سے صحابی ؓ ہونے کا شرف نہیں پاسکے۔

جیسا کہ ہماری خالہ مریم بی بی جو کہ 1898ء / 1899ء میں پیدا ہوئیں۔ 1903ء میں انہوں نے اپنے والدین کے ساتھ حضور علیہ السلام سے ملاقات کا شرف پایا۔ ملاقات حضور علیہ السلام کے کمرے میں ہوئی جہاں ایک پانی کی صراحی رکھی تھی جس پر ایک پیالہ دھرا تھا خالہ مریم نے اس پیالے میں پانی ڈال کر پیا۔ حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام نے یہ دیکھ کر فرمایا: ’’لڑکی اب یہ آب خورہ تو ہی لے جا‘‘ خالہ مریم حضور علیہ السلام کا یہ تحفہ خوشی خوشی گھر لے آئیں جو عرصہ دراز تک ان کے ہاں طاق میں پڑا رہا۔

مدرستہ البنات سیالکوٹ کی ابتدائی خادمات

شہر سیالکوٹ جسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنا دوسرا وطن قرار دیا تھا۔ اس میں رہنے والی جماعت خوش نصیب جماعتوں میں سمجھی جاتی ہے۔ یہ جماعت انتہائی با وفا اور مخلص تھی۔ خاکسار کا سارا ننھیالی خاندان سیالکوٹ شہر میں رہتا تھا۔ ہماری والدہ وہیں پیدا ہوئیں۔ اللہ کے فضل سے ان کے اسکول میں داخل ہونے تک سیالکوٹ میں مدرسہ احمدیہ کی بنیاد رکھی جا چکی تھی۔ میری والدہ نے اسکول کی تعلیم اسی مدرسے سے حاصل کی۔ یہ وہ اسکول تھا جس کی روحِ رواں ایک باہمّت نوجوان خاتون محترمہ سّیدہ فضیلت صاحبہ تھیں جن کے ساتھ حضرت بابو روشن ؓ صاحب اور حضرت ماسٹر عبدالعزیزؓ صاحب عملی طور پر مدد فرماتے اور درس دیا کرتے تھے۔ اُستانی محمودہ بیگم صاحبہ (خاکسار کی خالہ) سیالکوٹ کی تاریخ میں ان کا نام احمدیہ گرلز اسکول کے حوالے سے زندہ رہے گا جہاں آپ نے ایک لمبا عرصہ بے لوث خدمت کی۔ ان کو احمدیہ اسکول کی ابتدائی معلمہ ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ وہ اس مدرسے کے بانیوں میں شمار ہوتی ہیں۔ آپ تجربہ کار اور ٹرینڈ ٹیچر تھیں۔ آپ نے اپنے آپ کو اس اسکول کے لیے رضاکارانہ طور پر پیش کیا ہوا تھا۔

ابتدا میں یہ مدرسہ عارضی عمارت میں آنریری اُستانیوں کے ایثار سے چلایا گیا۔ یہ آنریری اُستانیاں محمودہ بیگم صاحبہ بنّت حضرت مہر غلام علی ؓ صاحب صحابی اور محترمہ صدیقہ بیگم صاحبہ (تایا زادبہن) بنت حضرت مہر غلام حسین ؓ صاحب صحابی تھیں۔ ان کے علاوہ دو اور بہنیں تھیں جو تربیت یافتہ تو نہیں تھیں مگر انہوں نے نہایت اخلاص سے مدرسے کی بچیوں کو پڑھایا، یہ دو نوں بہنیں سیدہ محمودہ بیگم اور سیدہ مبارکہ بیگم صاحبہ جو کہ میرحسام الدین صاحب کی پوتیاں تھیں۔ لہٰذا ان چاروں استانیوں نے اس مدرسہ میں بچیوں کو پڑھانا شروع کیا اور شروع کا پورا ایک سال بغیر ایک پائی لیے اس درس گاہ کو چلایا۔ خدا کے فضل سے اگلے ہی برس گورنمنٹ نے اسکول کو منظور کر لیا جس کی وجہ سے بہت آسانی ہوگئی۔

اس اسکول کے چلانے کی ساری ذمہ داری لجنہ پر تھی۔ ممبرات اسکول کے لیے کسی قربانی سے دریغ نہیں کرتی تھیں۔ مستورات اسکول کی خاطر اپنے ہاتھ سے سلائی کر کے ملنے والی اُجرت اسکول کی مد میں بھیجتیں اور اسکول کی خاطر کام کرنے کو عار نہ سمجھتیں۔ چونکہ یہ اسکول خالص مذہبی رنگ میں بچیوں کی تربیت کرنے کے لیے کھولاگیا تھا اس لیے دینیات پڑھانے کے لیے محترمہ آپا سیدہ رفعت صاحبہ مرحومہ کو مقرر کیا گیا۔ ہزاروں گھرانوں نے ان سے فیض حاصل کیا۔ یہ اسکول صحیح اسلامی تعلیم کا نمونہ تھا۔ احمدی لڑکیوں کی تعداد غیر احمدی بچیوں کی نسبت بہت کم تھی۔

تربیت کے لحاظ سے اس بات کا پورا خیال رکھا جاتا کہ لڑکیوں پر مغربی تہذیب اثر انداز نہ ہو اور لڑکیاں اپنی رفتار، گفتار اور اپنے کردار سے احمدیت کی صحیح تصویر پیش کر سکیں۔ تبلیغی میدان میں بھی اسکول کی بچیاں اور اساتذہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیتیں۔ حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ کے حکم سے تبلیغی دن منائے جاتے اور حکم ہوتا کہ اسکول بندکر کے مختلف دیہات میں ٹولیوں کی صورت میں تبلیغ کرنے نکل جائیں۔

(ماخوذ نقشِ پا کی تلاش صفحہ 253)

ایک مخلص خادمہ نے قصبے میں اسکول جاری کر دیا

سیالکوٹ جماعت کی ایک مخلص لجنہ کی ممبر محترمہ محمودہ بیگم (خاکسار کی خالہ محترمہ جن کا ذکر اوپر آچکا ہے) جنہوں نے سیالکوٹ مدرستہ البنات میں ایک سال تک رضاکارانہ خدمت دی۔ کچھ عرصہ بعد بیاہ کر ’’مالوکے‘‘ قصبے میں چلی گئیں۔ یہ علاقہ عیسائیوں کے زیرِ اثر تھا۔ بچیوں کے لیے عیسائی پرائمری اسکول تھے مگر مسلمانوں نے ایک بھی اسکول نہیں کھولا ہوا تھا کہ جس میں ان کی بچیاں پڑھ سکیں۔ یہ حالت دیکھ کر محترمہ محمودہ بیگم صاحبہ نے مسلمان بچیوں کے لیے گورنمنٹ سے اسکول کھولنے کی منظوری لے لی اور خود ہی بچیوں کو پڑھانے کا کام شروع کر دیا۔

بعد میں محترمہ امتہ الرشید بنت حکیم فیروز دین، محترمہ سعیدہ بیگم صاحبہ، محترمہ امتہ الرشید اہلیہ راجہ یعقوب صاحب بھی اس کارِ خیر میں مصروف ہو گئیں۔ کچھ برسوں بعد آپ کی محنت رنگ لائی اور اسکول کی عمارت نئی طالبات کی آمد سے بھرنے لگ گئی۔ آج یہ ادارہ گرلز کالج کا درجہ حاصل کر چکا ہے۔

(ماخوذ نقشِ پا کی تلاش)

تقسیمِ ہندوستان کے بعد
لجنہ قادیان اور مرکزیہ کا قیام

1947ء کے فسادات اور تقسیم کے عمل کے بعد قادیان میں خواتین یا بچوں کے لیے فضا ساز گار نہیں تھی۔ جب آہستہ آہستہ فسادات کے بادل چھٹنے لگے تو 1950ء میں چند ایک خاندان قادیان میں آباد ہوئے تھے مزید کی اجازت ملنے پر کچھ اور درویشان کی فیملیز بھی آنا شروع ہوگئیں۔ خاکسار کی والدہ مرحومہ (مبارکہ قمر سیالکوٹی) تقسیمِ ہندوستان کے بعد 1951ء میں والد صاحب (ڈاکٹر بشیر احمد درویش) کے پاس پہنچ گئیں۔ والد صاحب کو 1948ء میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے قادیان کی ڈسپنسری چلانے کے لیے بھیجا تھا۔ لجنہ اماء اللہ کی تنظیم کو قادیان میں ازسرِ نو چلانے کے لیے نظارت تعلیم نے ابتدائی انتظام کیا۔ اس کی مختصر تفصیل ماہنامہ درویش 1951ء میں چھپی تھی۔ ناظر تعلیم وتربیت نے ’’اطلاع‘‘ کے عنوان سے ایک اعلان بھیجا۔ وہ لکھتے ہیں کہ گزشتہ سال ماہِ مئی میں قادیان میں مقامی لجنہ اماء اللہ کا قیام نظارت ہٰذا کی طرف سے عمل میں لایا گیا تھا اور حضرت امیرالموٴمنین رضی اللہ تعالیٰ کی منظوری سے مکرمہ عابدہ سلطانہ صاحبہ اہلیہ مکرم مولوی محمد صادق صاحب (ناقد متعلم جامعۃالمبشرین کا بطور صدر تقرر کیا گیا تھا۔ ماہِ جولائی 1951ء میں نظارت ہٰذا کے ایما پر انتخاب ہوا اور مبارکہ بیگم صاحبہ (اہلیہ مکرم ڈاکٹر بشیر احمد صاحب) صدر مرکزیہ اور مقامی لجنہ اماء اللہ منتخب ہوئیں۔ ان کی منظوری محترمہ صدر صاحبہ لجنہ اماء اللہ مرکزیہ کی طرف سے آ گئی ہے۔

(ماہنامہ درویش 1951ء)

ہماری والدہ (مبارکہ قمر سیالکوٹی مرحومہ)
بطور صدر قادیان اور مرکزیہ

محترمہ سیّدہ امة القدوس صاحبہ اہلیہ مرزا وسیم احمد صاحب مرحوم جو 1953ء میں قادیان میں اپنے شوہر کے پاس آ ئی تھیں، انہوں نے1963ء میں چھپنے والے۔ ’’ماہنامہ الفرقان ربوہ‘‘ کے درویشانِ قادیان نمبر، صفحہ142 میں قادیان اور ہندوستان کی لجنہ کے متعلق ایک کارگزاری رپورٹ بھیجی ہے جس میں انہوں نے 1953ء سے لے کر 1960ء تک کامختصر احوال لکھا ہے۔ وہ لکھتی ہیں:
’’تقسیم ملک کے چار سال بعدجب مستورات کو قادیان آنے اور رہنے کی اجازت ملی اور قادیان میں کچھ عورتوں نے مستقل رہائش اختیار کرلی تو اس وقت یعنی 1951ء میں محترمہ مبارکہ بیگم صاحبہ اہلیہ ڈاکٹر بشیر احمد صاحب (انچارج احمدیہ اسپتال) نے لجنہ اماء اللہ کے کام کی طرف توجہ دی اور نہ صرف قادیان میں بلکہ ہندوستان کے دوسرے شہروں میں مختلف مقامات پر جہاں بھی احمدی مستورات تھیں لجنہ کے کام کو عملی طور پر باقاعدگی سے شروع کروایا۔ چنانچہ ان کی کوشش کے نتیجہ میں 1953ء تک چند مقامات پر مثلاً؛ حیدر آباد، سکندر آباد، (دکن) بنگلور، مدراس، بھاگلپور، بھرت پور، اور چنتہ کنٹہ میں لجنات کا کام شروع ہو گیا اور ان کی طرف سے مرکز میں چند سال کے بعد رپورٹ آنی شروع ہو گئی۔ محترمہ سیدہ صاحبہ مزید لکھتی ہیں کہ میں جب 1953ء کے شروع میں قادیان آئی تو مجھے جنرل سیکرٹری لجنہ اماء اللہ مرکزیہ منتخب کیا گیا اور میں نے صدر لجنہ اماء اللہ مرکزیہ کے ساتھ مل کر جون 1953ء سے لے کر 1955ء تک حسبِ توفیق لجنہ اماء اللہ کاکام کیا۔ چنانچہ 1955ء کے آ خر تک سولہ مقامات پر لجنہ اماء اللہ کے کام کا اجرا ہو گیا۔

(بحوالہ الفرقان درویشان نمبر 1963ء)

1955ء میں محترمہ مبارکہ بیگم صاحبہ صدر لجنہ مرکزیہ مستقل طور پر پاکستان چلی گئیں تو محترمہ سیّدہ امتہ القدوس صاحبہ صدر لجنہ مرکزیہ منتخب ہوئیں۔ جبکہ نائب صدر مرکزیہ، محترمہ صادقہ خاتون صاحبہ، اہلیہ مولوی عبد الرحمٰن صاحب، امیر جماعت قادیان۔

جنرل سیکرٹری: مکرمہ معراج سلطانہ صاحبہ، اہلیہ بدرالدین صاحب
سیکرٹری مال: خورشید بیگم صاحبہ۔

(بحوالہ الفرقان درویشان نمبر 1963ء)

چند ہی سالوں میں قادیان میں اور ہندوستان کے اور بہت سے شہروں اور قصبوں میں لجنہ کا کام ماشاء اللّٰہ بہت اچھا چل پڑا۔ 1960ء اللہ تعالیٰ کے فضل سے قادیان کی مقامی لجنہ کو مرکز سے الگ کر دیا گیا۔ محترمہ امتہ القدوس صاحبہ برس ہا برس ہندوستان بھر کی صدارت کی ذمّے داری نبھاتی رہیں۔ اللّٰھمّ زد فزد

(نبیلہ رفیق فوزی۔ ناروے)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 8 فروری 2023

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالی