تاریخ لجنہ و ناصرات برموقع جشن تشکر
بطرز سوال جواب
سوال: لجنہ کی تنظیم کی بنیاد کب اور کس نے رکھی؟
جواب: لجنہ اماء اللہ کی تنظیم کی بنیاد حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے 25؍دسمبر 1922ء کو رکھی گئی۔
سوال: اس تنظیم کی پہلی صدر کون منتخب ہوئیں؟
جواب: حضرت اماں جانؓ اس کی پہلی صدر منتخب ہوئیں۔
سوال: لجنہ اماء اللہ کا کیا مطلب ہے؟
جواب: لجنہ اماء اللہ کا مطلب ہے اللہ تعالیٰ کی لونڈیوں کی تنظیم۔
سوال: حضرت مصلح موعود رضی اللہ کا عورتوں کے متعلق کوئی ایک الہام تھا وہ بتائیے؟
جواب: ’’اگر تم پچاس فیصد عورتوں کی اصلاح کرلو تو اسلام کو ترقی حاصل ہو جائے گی‘‘۔
سوال: ابتدا میں یہ تنظیم صرف لجنہ قادیان کے لیے تھی۔ اسے عالمگیر کس سن میں بنانے کا اعلان ہوا؟
جواب: 1939ء میں اس کا فیض عام کرنے کے لیے ہر احمدی عورت کا اس میں شامل ہونا لازمی قرار دے دیا۔
سوال: لجنہ اماء اللہ کی تنظیم کا پس منظر بتائیں؟
جواب: حضرت سیدہ امۃ الحئی بیگم صاحبہ (حرم حضرت مصلح موعودؓ) کو خدمت دین کا بڑا شوق تھا ان کی خواہش کے مطابق سیدنا حضرت مصلح موعودؓ نے ایک معین لائحہ عمل بنا کر جماعت کی عورتوں کے سامنے پیش کیا جو حضور نے اپنے قلم سے تحریر فرمایا تھا اور یہ تاریخ میں لجنہ اماء اللہ کے متعلق ابتدائی تحریک کے نام سے مشہور ہے۔ اس مضمون میں سیدنا حضرت المصلح الموعودؓ نے لجنہ اماء اللہ کے بنیادی مقاصد بیان کیے گئے ہیں اور لجنہ اماء اللہ کی ممبر بننے کے لیے ضروری قرار دیا کہ وہ اسے پڑھے اور پڑھ کردستخط کرے۔ یہ اسکیم حضورؓ نے 15؍دسمبر 1922ء کو مستورات کے سامنے پیش کی تھی جس پر 14 خواتین نے دستخط کیے تھے۔
(الفضل 11؍جنوری 1923ء صفحہ9)
سوال: 15؍دسمبر 1922ء کو آپؓ نے جو مضمون تحریر فرمایا اس کی اوّلین مخاطب کون تھیں؟
جواب: 15؍دسمبر 1922ء کو آپؓ نے جو مضمون تحریر فرمایا اس کی اوّلین مخاطب گو قادیان کی مستورات تھیں لیکن درحقیقت یہ ایک بین الاقوامی تنظیم کی بنیادی دستاویز تھی۔
سوال: اس مضمون میں آپؓ نے مستوارت کو ایک لائحہ عمل دیا۔ اس مقصد کے حصول کے لیے آپ نے کتنے نکات بیان فرمائے؟
جواب: آپؓ نے مستوارت کو جو ایک لائحہ عمل دیا۔ اس مقصد کے حصول کے لیے سترہ ضروری امور تجویز فرمائے۔
سوال: ابتدا میں اس تاریخ کے مندرجات پر کتنی خواتین نے دستخط کیے؟
جواب: ابتدا میں چودہ خواتین نے دستخط کیے یہ دستخط کنندگان حضورؓ کے ارشاد پر 25؍دسمبر 1922ء کو حضرت اماں جان سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہؓ کے گھر جمع ہوئیں۔ اس میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے بھی خطاب فرمایا اوراس میں لجنہ کا قیام عمل میں آیا۔
سوال: حضرت اماں جانؓ نے صدر منتخب ہونے کے بعد صدارت کس کو سونپی؟
جواب: صدر منتخب ہونے کے بعد آپؓ نے حضرت سیدہ اُم ناصر صاحبہ کا ہاتھ پکڑ کر کرسیٔ صدارت پر بٹھا دیا۔ چنانچہ حضرت سیدہ ام ناصرؓ اپنی وفات تک جو کہ 31؍جولائی 1958ء کو ہوئی یہ فرض نبھاتی رہیں۔
سوال: اس تنظیم کی پہلی جنرل سیکرٹری کا نام بتائیے؟
جواب: حضرت سیدہ امۃ الحئی بیگم صاحبہ (حرم حضرت مصلح موعودؓ) اس تنظیم کی پہلی جنرل سیکرٹری تھیں۔
سوال: لجنہ اماء اللہ کے قیام کے بعد سب سے پہلی مالی تحریک کیا تھی؟ جس کا خالصتاً تعلق مستورات سے تھا۔
جواب: 2؍فروری 1923ء کو حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے مسجد برلن جرمنی کی تعمیر کے لیے خواتین کو مالی قربانی کی تحریک فرمائی۔ جس پر لبیک کہتے ہوئے جماعت احمدیہ کی مستورات نے حیرت انگیز اخلاص اور قربانی کا مظاہرہ کیا۔ اس کے لیے حضورؓ نے 50ہزار روپیہ تین ماہ میں اکٹھا کرنے کا اعلان فرمایا۔ لجنہ اماء اللہ کے قیام کے بعد یہ سب سے پہلی مالی تحریک تھی جس کا خالصتاً تعلق مستورات سے تھا۔
سوال: لجنہ اماء اللہ تنظیم کا عہد بتائیں؟
جواب: میں اقرار کرتی ہوں کہ اپنے مذہب اور قوم کی خاطر اپنی جان مال، وقت اور اولاد کو قربان کرنے کے لیے تیار رہوں گی نیز سچائی پر ہمیشہ قائم رہوں گی اور خلافت احمدیہ کے قائم رکھنے کے لیے ہر قربانی کے لیے تیار رہوں گی۔ ان شاءاللّٰہ
سوال: لجنہ اماء اللہ کا ماٹو کیا ہے؟
جواب: ’’کوئی قوم اپنی عورتوں کی تعلیم کے بغیر ترقی نہیں کر سکتی‘‘
سوال: لجنہ کی سربراہ کو کیا کہتے ہیں؟
جواب: ملکی اور مقامی سطح پر لجنہ کی سربراہ صدر لجنہ اماء اللہ کہلاتی ہے۔
سوال: مجلس عاملہ میں شامل معاونات کو کیا کہتے ہیں؟
جواب: مجلس عاملہ میں شامل معاونات کو سیکرٹری کہتے ہیں۔
سوال: لوائے احمدیت کی تاریخ و پس منظر پر روشنی ڈالیے؟
لوائے احمدیت
1939ء میں تین خوبصورت اور حیرت انگیز اتفاقات اکٹھے ہوگئے تھے۔ پہلا یہ کہ عالمگیر جماعت احمدیہ کے قیام کو 50 سال پورے ہوئے۔ دوسرا حضرت مصلح موعودؓ کی عمر مبارک 50 سال ہوئی اور تیسرا یہ کہ خلافتِ ثانیہ کے 25 سال پورے ہوئے۔ ان خوشیوں کو شان و شوکت سے منانے کا اہتمام کرنے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جس نے قریباً 25 تجاویز پیش کیں جن میں سے ایک ’’لوائے احمدیت‘‘ تیار کرنے کی بھی تھی۔ حضرت مصلح موعودؓ نے اس تجویز کو منظور فرماتے ہوئے خصوصی ہدایات سے نوازا۔ چنانچہ ان ہدایات کی روشنی میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اصحاب و صحابیات نے عطایا پیش کرکے 130؍روپے کی رقم جمع کی۔ حضرت میاں فقیر محمد صاحبؓ امیر جماعت احمدیہ ونجواں ضلع گورداسپور نے حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کے ارشاد کی تعمیل میں کپاس کا کچھ بیج اپنے ہاتھ سے بویا، تیار ہونے پر چُنا، صحابیات سے دھنواکر اسے کتوایا اور پھر سوت لاکر حضرت اماں جانؓ کی خدمت میں پیش کیا۔
بعد ازاں حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب دردؓ سیکرٹری خلافت کمیٹی نے پیغام بھیج کر حضرت میاں صاحبؓ سے آپ کی کاشت کردہ روئی میں سے باقی بچی ہوئی روئی حضرت بھائی عبدالرحمان صاحبؓ کے ذریعے منگوالی جسے حضرت سیدہ ام طاہرؓ صاحبہ جنرل سیکرٹری لجنہ اماء اللہ نے دارالمسیح میں صحابیات سے کتوایا اور پھر صحابہؓ نے قادیان اور تلونڈی میں اس سوت سے کپڑا بنا۔ ان صحابہؓ میں حضرت میاں خیرالدین صاحبؓ دری باف بھی شامل تھے۔
لوائے احمدیت کا طول 18؍فٹ اور عرض 9؍فٹ ہے اور اس سیاہ رنگ کے پرچم کے درمیان میں مینارۃ المسیح، ایک طرف بدر اور دوسری طرف ہلال کی شکل سفید رنگ میں بنی ہوئی ہے۔ اسے لہرانے کیلیے قادیان کے جلسہ گاہ میں اسٹیج کے شمال مشرقی کونہ کے ساتھ پانچ فٹ چبوترہ بناکر 62 فٹ اونچا آہنی پول نصب کیا گیا۔
28؍دسمبر 1939ء کو 2 بج کر 4 منٹ پر سیدنا مصلح موعودؓ نے ’’لوائے احمدیت‘‘ لہرایا۔ اس سے قبل اسٹیج کا سائبان اتار دیا گیا تاکہ احباب واضح طور پر تقریب کا مشاہدہ کرسکیں۔ اس موقعہ پر حاضرین حضورؓ کے ساتھ ساتھ اس دعا کا ورد کرتے رہے:
رَبَّنَا تَقَبَّل مِنَّا اِنَّکَ اَنتَ السَّمِیع العَلِیم
لوائے احمدیت لہرائے جانے کے بعد سب احباب نے کھڑے ہوکر یہ عہد کیا:
’’میں اقرار کرتا ہوں کہ جہاں تک میری طاقت اور سمجھ ہے اور احمدیت کے قیام، اس کی مضبوطی اور اس کی اشاعت کے لیے آخر دم تک کوشش کروں گا کہ احمدیت یعنی حقیقی اسلام دوسرے سب دینوں اور سلسلوں پر غالب رہے اور اس کا جھنڈا کبھی سرنگوں نہ ہو بلکہ دوسرے سب جھنڈوں سے اونچا اڑتا رہے‘‘۔ آمین
حضرت مصلح موعودؓ کے ارشاد کے مطابق جھنڈے کی حفاظت کیلیے مجلس خدام الاحمدیہ نے 12 خدام مقرر کیے اور اگلے روز نماز جمعہ کے بعد یہ جھنڈا دو ناظران کے سپرد کردیا گیا اور اسے ایسے تالہ میں رکھا گیا جس کی دو چابیاں تھیں اور دونوں ناظران مل کر تالہ کھول سکتے تھے۔
(’’المحراب کراچی 1991ء‘‘ کی مدد سے تحریر کردہ مکرمہ صائمہ مریم ثمر صاحبہ کا یہ مضمون ماہنامہ ’’مصباح‘‘ ربوہ جون 1997ء میں شائع ہوا ہے)
سوال: احمدی خواتین کی تعلیم و تربیت کے لیے سب سے پہلا رسالہ کونسا تھا؟
جواب: احمدی خواتین کی تعلیم و تربیت کے لیے رسالہ مصباح 1926 میں متعارف کرایا گیا۔
سوال: لڑکیوں کی تعلیم و تربیت کے لیے سب سے پہلے اسکول کا نام بتائیے؟
جواب: قلیل مالی وسائل کے باوجود 1928ء میں قادیان میں نصرت گرلز ہائی سکول قائم کیا گیا تاکہ لڑکیوں کو تعلیم تک رسائی حاصل ہو سکے۔
سوال: خواتین کے لیے پہلے کالج کا قیام کب عمل میں آیا؟
جواب: 1951ء میں ربوہ میں خواتین کا کالج قائم کیا گیا۔
سوال: ان مساجد کے نام بتائیں جو لجنہ و ناصرات کی مالی قربانیوں سے تیار کی گئیں؟
جواب: مسجد مبارک ہیگ ہالینڈ، مسجد خدیجہ برلن، مسجد نصرت جہاں کوپن ہیگن، مسجد فضل لنڈن۔
سوال: حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے 26؍اپریل 1944ء کو منعقد ہونے والے مجلس عرفان میں اپنا ایک مبشر الہام بیان فرمایا تھا وہ کیا ہے؟
جواب: ’’آج رات مجھے یوں معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ مجھے مخاطب کر کے فرماتا ہے اگر تم پچاس فیصدی عورتوں کی اصلاح کر لو تو اسلام کو ترقی حاصل ہو جائے گی۔‘‘
(الازہار لذوات الخمار حصہ اوّل صفحہ381)
سوال: حضرت مصلح موعودؓ نے عورتوں کی تعلیم و تربیت کی ضرورت کے بارے میں کیا ارشاد فرمایا؟
جواب: آپ نے فرمایا: ’’عورتیں جماعت کا ایک ایسا حصہ ہیں کہ جب تک ان کی تعلیم و تربیت … مَردوں سے زیادہ نہ ہو میں سمجھتا ہوں کہ ہماری جماعت کی ترقی اور تربیت میں بڑی سخت روک رہے گی۔ ان کی مثال اس ہیرے والے کی ہوگی جو ہیرا رکھتا ہو مگر اس کے استعمال سے بے خبر ہو وہ اسے ایک گولی سمجھ کے پھینک دیتا ہے۔‘‘
سوال: محترمہ امة الحیٴ بنت حضرت خلیفة المسیح الاولؓ نے حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد ؓکو کس مقصد کے تحت خط لکھا تھا؟
جواب: کہ عورتوں کے درس و تدریس کا سلسلہ جاری رہنا چاہیے۔
سوال: ناصرات کا کیا مطلب ہے؟
جواب: ’’ناصرات الاحمدیہ‘‘ کے لغوی معنی ’’احمدیت کی مددگار بچیاں‘‘ ہیں۔
سوال: ناصرات الاحمدیہ کی تاریخ و پس منظر پر روشنی ڈالیے؟
جواب: حضرت مصلح موعودؓ کی صاحبزادی امۃالرشید صاحبہ فرماتی ہیں کہ لجنہ اماء اللہ کے قیام کے کچھ سالوں کے بعد ناصرات الاحمدیہ کی بنیاد ڈالی گئی جو کہ سات سے پندرہ سال تک کی بچیوں کی تنظیم ہے۔ جب لجنہ اماء اللہ کی تنظیم قائم ہوئی اور ان کے اجلاسات ہوتے تھے تو ہم بچیاں باہر کھیلتی رہتی تھیں۔ ایک دن میں نے ان کو اکھٹا کیا۔ اندر کمرے میں لجنہ کا اجلاس ہو رہا تھا میں نے باہر تخت پوش پر سب بچیوں کو بٹھایا اور کہا آؤ ہم بھی اجلاس کرتے ہیں۔ تھوڑی دیر بعد حضرت مصلح موعودؓ تشریف لائے ہمیں دیکھا تو پوچھا کیا ہو رہا ہے؟ میں نے کہا ہم چھوٹی لجنہ ہیں اور ہم اپنا اجلاس کر رہی ہیں۔ آپؓ بہت خوش ہوئے اور ہمیں ’’ناصرات الاحمدیہ‘‘ کا نام دیا جس کے لغوی معنی ’’احمدیت کی مددگار بچیاں‘‘ ہیں۔ ابتدائی طور پر جولائی 1928ء میں صاحبزادی امۃ الحمید صاحبہ بنت حضرت مرزا بشیر احمدؓ کی کوشش سے چھوٹی لجنہ قائم ہوئی اور کچھ عرصہ بعد صاحبزادی امۃ الرشید صاحبہ کی تحریک پر ناصرات الاحمدیہ تنظیم کی بنیاد پڑی۔
چوہدری خلیل احمد ناصر صاحب سابق انچارج احمدیہ مشن امریکہ کا بیان ہے کہ، صاحبزادی امة الرشید صاحبہ نے مجھ سے ایک سے زائد مرتبہ کہا کہ خدام الاحمدیہ تنظیم کی طرز پر احمدی لڑکیوں کی تنظیم قائم ہونی چاہیے ۔ چنانچہ باہم مشورہ کے بعد طے پایا کہ صاحبزادی موصوفہ ایک خط کے ذریعہ سے حضور ؓ سے سفارش کریں اور یہ بھی گزارش کریں کہ اس تنظیم کا نام بھی حضور خود تجویز فرمائیں۔ اس خط کا مسودہ تیار کرنے میں خاکسار کو خدمت کا موقع ملا۔ صاحبزادی امة الرشید صاحبہ کی کوششوں سے ہی ’’ناصرات الاحمدیہ‘‘ جو کہ لجنہ اماء اللہ تنظیم کا ہی ایک حصہ ہے کی بنیاد پڑی اس تنظیم کے مقاصد میں یہی شامل ہے کہ ایک بچی جب پندرہ سال کی عمر تک پہنچ کر لجنہ اماء اللہ کا حصہ بنے تو اس کی بنیادی تربیت اس درجہ تک ہو کہ بالغ عمری میں وہ عورتوں کی دینی اور دنیاوی ترقی میں نمایاں کردار ادا کرے اور معاشرے میں ان کے کھوئے گئے حقوق کے حق میں آواز بھی بلند کرے اوراپنے کردار اور عمل سے ان کو ان کا وہ مقام و مرتبہ جو اسلام نے انہیں عطا کیا ہے یاد دلائے۔ اس تنظیم کی سربراہ ملکی اور مقامی سطح پرسیکرٹری ناصرات کہلاتی ہے۔ ایک ناصرہ پندرہ سال کی شعوری عمر تک اپنی تنظیم سے منسلک رہنے کی تربیت پا کر وہ لجنہ اماء اللہ کی تنظیم میں قدم رکھ دیتی ہے۔
سوال: کس عمر کی بچیاں ناصرات کہلاتی ہیں؟
جواب: سات سے پندرہ سال کی بچیاں۔
سوال: کس لجنہ کی تحریک پر ناصرات کی تنظیم کی بنیاد رکھی گئی؟
جواب: صاحبزادی امۃ الرشید صاحبہ کی تحریک پر ناصرات الاحمدیہ کی تنظیم کی بنیاد پڑی۔
سوال: ناصرات الاحمدیہ عمر کے لحاظ سے کتنے درجوں میں منقسم ہیں؟
جواب: تین درجوں میں:
1. سات سے دس سال کی بچیاں
قانتات: فرماں برداری اختیار کرنے والیاں۔
2. دس سے بارہ سال کی بچیاں،
صادقات: سچ اور حق کا ساتھ دینے والیاں۔
3. بارہ سے پندرہ سال کی بچیاں۔
محصنات: نیکیوں میں آگے بڑھنے والیاں۔
سوال: ناصرات الاحمدیہ کا نصب العین (Motto) کیا ہے؟
جواب: (Modesty) اپنے لباس، رہن سہن اور آداب زندگی میں ’’شائستگی‘‘ اختیار کرنا ہے۔
بخاری کی حدیث میں آیا ہے کہ شائستگی اختیار کرنا ایمان کا حصہ ہے۔
سوال: ناصرات الاحمدیہ کا عہد کیا ہے؟
جواب: اَشْھَدُ اَنْ لَّآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَ اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
میں اقرارکرتی ہوں کہ اپنے مذہب، قوم اور وطن کی خدمت کے لیے ہر وقت تیار رہوں گی اور سچائی پر ہمیشہ قائم رہوں گی۔ ان شاء اللّٰہ
سوال: ناصرات الاحمدیہ کی تنظیم کا باقاعدہ آغاز کب ہوا؟
جواب: 1945ء میں باقاعدہ طور پر اس تنظیم کا آغاز ہوا۔
سوال: ناصرات الاحمدیہ کے اجلاسات کی اہم شقیں کیا تھیں؟
جواب: اجلاسات کے لیے تفصیلی پروگرام ترتیب کیا گیا جس کی اہم شقیں یہ تھیں۔
تلاوت: قرآن کریم کی تلاوت ہر بچی کے لیے لازمی تھی اور قرآن کریم کا شروع سے آخر تک دور مکمل کیا جائے اور غلطیوں کی درستی کی جائے۔
نظم: درثمین اور کلام محمود سے نظمیں پڑھی جائیں اور ان کے معنی بتائیں جائیں۔
کہانی: حضرت مسیح موعودؑ کی زندگی کے واقعات کہانی کے رنگ میں سنائی جائیں۔
تقاریر: سادہ اور عام فہم انداز میں مختلف عناوین پر زبانی تقاریر کروائی جائیں۔
سوال و جواب: آسان اور دلچسپ رنگ میں سوالات اور ان کے جوابات بتائے جائیں۔
امتحانات: مقررہ نصاب میں سے کچھ حصہ مقرر کر کے اس کا امتحان لیا جائے مثلاً نماز سادہ و باترجمہ، چہل احادیث، ادعیۃ الرسول ﷺ کی مسنون دعائیں، درثمین، کلام محمود کی نظمیں، اور سیرت حضرت مسیح موعودؑ و مصلح موعودؓ۔
یوم مسیح موعودؑ، یوم مصلح موعودؓ اور سیرۃ النبیؐ کے جلسے منعقد کروائے جائیں۔
سوال: ناصرات الاحمدیہ کے سالانہ اجتماعات کا آغاز کب ہوا؟
جواب: تاریخ لجنہ اماء اللہ جلد دوم میں رقم ہے کہ 1955ء میں محترمہ امۃ اللطیف خورشید صاحبہ سیکرٹری ناصرات الاحمدیہ مرکزیہ ربوہ مقرر ہوئیں تو آپ کی تحریک پر مسجد احمدیہ دہلی دروازہ لاہور میں ناصرات الاحمدیہ کا پہلا اجتماع پاکستان بننے کے بعد منعقد ہوا۔
سوال: تاریخ لوائے لجنہ پر روشنی ڈالیے؟
لجنہ پرچم کی تاریخ
دسمبر 1939ء میں جماعت کے سالانہ اجتماع میں احمدیہ پرچم اور خدام الاحمدیہ پرچم لہرانے کے بعد خلیفۃ المسیح الثانیؓ اجتماع کے خواتین کے حصے میں پہنچے اور دعا پڑھتے ہوئے کہا:
’’اے ہمارے رب! ہماری طرف سے یہ قبول فرما۔ یقیناً تو سب کچھ سننے والا، سب کچھ جاننے والا ہے۔‘‘
اس جھنڈے کو لہرایا گیا کہ جس نے اس جماعت کی خواتین کی نمائندگی کرنی تھی۔
لوائے لجنہ 35 فٹ اونچا تھا اور جھنڈے کی لمبائی 3 ¾ میٹر اور چوڑائی 2 ¼ میٹر تھی۔
احمدیہ پرچم کے گرافکس کے علاوہ اس میں کھجور کے تین درخت تھے جن کے نیچے ایک ندی بہتی تھی۔ جھنڈا ساٹن سے بنا تھا اور اس کے ڈیزائن کو مختلف رنگوں کے ریشمی دھاگوں کا استعمال کرتے ہوئے مشین سے سلائی کیا گیا تھا۔
خواتین اس دن اس قدر پرجوش تھیں کہ انہوں نے آزادی سے مذہبی نعرے لگانے شروع کردئیے۔
نعروں کا آغاز میمونہ صاحبہ نامی استانی نے کیا۔
خلفا کی ازواج اور حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ السلام کے خاندان سے تعلق رکھنے والی خواتین بھی ارد گرد جمع تھیں جن میں حضور کی والدہ سیدہ نصرت جہاں بیگم ؓبھی شامل تھیں۔
تقسیم ہند کے دوران اصل پرچم کو قادیان ہندوستان سے ربوہ، پاکستان کمیونٹی کے نئے ہیڈکوارٹر تک پہنچایا جانا تھا تاہم اس کی نقل و حمل کے دوران اسے غلط جگہ دی گئی۔ تحقیقات پر یہ بات سامنے آئی کہ:
1949ء میں لاہور سے ربوہ آنے والی ٹرین میں اسے پیچھے چھوڑ دیا گیا تھا اور یہ کہ اس کے بعد سے اسے دوبارہ بنانے کی کوئی کوشش کی گئی تھی یا نہیں اس کی تصدیق نہیں ہو سکی۔ ایسا کرنے کی تمام تر کوششوں کے باوجود یہ کبھی بحال نہیں ہو سکا۔
1998ء میں امة القدوس صاحبہ پاکستان کی سابق صدر لجنہ نے خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں خط لکھا کہ جھنڈے کو دوبارہ بنانے کی اجازت دی جائے کیونکہ جھنڈے کے ڈیزائن اور طول و عرض کی تفصیلی وضاحت درج اور قابل تصدیق تھی۔
اس طرح اسے ایک بار پھر 1999ء میں خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی اجازت سے دوبارہ بنایا گیا۔ حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے جواب دیا کہ ’’ٹھیک ہے، اس جھنڈے کو ایک بار پھر دوبارہ بنائیں۔‘‘
یہ ہدایات اسی سال 1999ء میں عمل میں آئیں اور لجنہ پرچم کو خورشید انجم صاحبہ نے دوبارہ بنایا۔
اسی سال یہ جھنڈا سالانہ لجنہ اماء اللہ پاکستان سپورٹس ٹورنامنٹ میں بھی لہرایا گیا اور دنیا بھر میں لجنہ کی تقریبات میں اس کا استعمال جاری ہے۔
سوال: لوائے لجنہ کی گرافکس/رنگ اور علامات کے بارے میں بتائیے؟
جواب: ہمارے جھنڈے میں بہت سی قوی علامتیں ہیں، جو تمام تر روحانی نوعیت کی ہیں اس کا مرکزی مرحلہ خواتین کے آئیکنز کے لیے مختص ہے۔
ہلال
جدید دور کی روحانی تاریکی میں ایک نئے دور کی علامت ہے۔
چھ نکاتی ستارہ
ارکان ایمان کی طرف اشارہ کرتا ہے، جو کہ چھ ہیں۔ (1) اللہ پر ایمان (2) اس کے فرشتوں پر ایمان (3) اس کی کتابوں پر ایمان (4) اس کے رسولوں پر ایمان (5) یوم آخرت پر ایمان (6) خیروشر کی تقدیر پر یقین۔
سفید مینار
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بارے میں پوری ہونے والی پیشین گوئی کی نمائندگی کرتا ہے۔
فَبَيْنَمَا هُوَكَذٰلِكَ إِذْ بَعَثَ اللّٰهُ الْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ، فَيَنْزِلُ عِنْدَ الْمَنَارَةِ الْبَيْضَاءِ شَرْقِيَّ دِمَشْقَ، بَيْنَ مَهْرُوْدَتَيْنِ، وَاضِعًا كَفَّيْهِ عَلَى أَجْنِحَةِ مَلَكَيْنِ، إِذَا طَاْطَأَ رَأْسَهُ قَطَرَ، وَإِذَا رَفَعَهُ تَحَدَّرَ مِنْهُ جُمَانٌ كَاللُّؤْلُؤِ
(صحیح مسلم، کتاب الفتن…باب ذکرالدجال حدیث نمبر7373)
اوراسی کیفیت میں وہ ہوگا کہ اللہ مسیح ابن مریم کوبھیجے گا۔ وہ دمشق کے شرقی سفید منارہ کے پاس نازل ہوگا۔ دو زرد چادروں میں دوفرشتوں کے کندھوں پرہاتھ رکھے ہوئے۔ جب وہ اپنے سرکوجھکائے گا تو پانی کے قطرے گریں گے اور جب وہ اسے اٹھائے گا تو موتی کی طرح چاندی جیسے قطرے ٹپکیں گے۔
سورج
مغرب سے طلوع ہونے والا سورج مغربی دنیا میں اسلام اور احمدیت کی کامیابی کی طرف اشارہ کرتا ہے جیسا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش گوئی کی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک سورج مغرب سے نہ نکلے گا پھر جب سورج مغرب سے نکلے گا تو سب لوگ ایمان لے آئیں گے مگر اس وقت کا ایمان لانا کسی کو فائدہ نہ دے گا جو اس سے پہلے (یقینی قیامت کی نشانی سے قبل) ایمان نہیں لایا تھا یا اس نے ایمان کے ساتھ کوئی نیکی نہیں کی تھی۔
(صحیح مسلم جلد اول:حدیث نمبر 396)
اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس پیشگوئی کے پورا ہونے کا ذکر فرمایا ہے۔ چنانچہ آپؑ تحریر فرماتے ہیں:
’’ایسا ہی طلوع شمس کا جو مغرب کی طرف سے ہو گا اس پر بہر حال ایمان لاتے ہیں لیکن اس عاجز پر جو ایک روٴیا میں ظاہر کیا گیا وہ یہ ہے جو مغرب کی طرف سے آفتاب کا چڑھنا یہ معنے رکھتا ہے کہ ممالک مغربی جو قدیم سے ظلمتِ کفر وضلالت میں ہیں آفتابِ صداقت سے منوّر کیے جائیں گے اور ان کو اسلام سے حصّہ ملے گا۔‘‘
(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد3 صفحہ377)
نخلستان
زچگی کی علامت ہے۔
(نَخْلِسْتان کے اردو معانی: کھجور کے درختوں کا باغ
خشک اور بے آب و گیاہ ریگستانوں کے درمیان کوئی سرسبز و شاداب علاقہ جہاں کوئی چشمہ یا کنواں یا درخت موجود ہوں، خشک مقام پر باغ، صحرا میں سرسبز جگہ کا قطع (پانی کی موجودگی کی وجہ سے)
کھجور کے تین درخت
یہ درخت تین بابرکت خواتین حضرت ہاجرہ، حضرت مریم علیہ السلام اور حضرت آمنہ کی نمائندگی کرتے ہیں، جنہوں نے صحرا میں خدا کے تین پیغمبروں کو جنم دیا۔
حضرت اسماعیل علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم۔
(شائستہ عزیز۔ لولیو سویڈن)