تبرکات حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے رضی اللہ عنہ
اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَاشَرِیْکَ لَہٗ وَ اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ۔
برادرانِ کرام!
اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَ رَحْمَۃُ اللّٰہ وَ بَرکَاتُہٗ
انصاراللہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع کے لئے مجھ سے خواہش کی گئی ہے کہ میں اس مبارک موقع پر حاضرین سے افتتاحیہ خطاب کروں۔ ایسی تقریب میں افتتاحیہ خطاب ایک بڑی اہم چیز ہے اورمیں اپنے اندر اس کی اہلیت نہیں پاتا۔ یہ مقام صرف امام کا ہے یا امام کے مقرر کردہ نائب کا۔ مگر شرکتِ ثواب کی غرض سے ایک نہایت مختصر سا مقالہ اپنے بھائیوں کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔ اللہ تعالیٰ قبول فرمائے اور مجھے اور آپ سب کو اس کے اچھے حصوں پر عمل کرنے کی توفیق دے۔ آمین
اس موقع پر انصاراللہ کے اجتماع کے لئے کسی پیغام کا انتخاب کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ کیونکہ یہ پیغام بصورتِ احسن انصاراللہ کے لفظ میں مرکوز ہے جس کے معنی خدائی خدمت گار کے ہیں۔ قرآن مجید نے انصاراللہ کی اصطلاح اولاً حضرت مسیح ناصریؑ کے مشن کے تعلق میں استعمال کی ہے۔ جہاں یہ ذکر آتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے مَنْ اَنْصَارِیْ اِلَی اللّٰہِ (الصف:15) کہہ کر اپنے حواریوں سے اپنے خداداد مشن میں مددگار بننے کا مطالبہ کیا۔ اور اس کے جواب میں حواریوں نے عرض کیا نَحْنُ اَنْصَارُ اللّٰہِ (الصف:15) یعنی اے خدا کے مسیح! ہم خدا کے کام میں آپ کے معاون و مددگار بننے کا وعدہ کرتے ہیں۔
اس کے بعد کی تاریخ سے ثابت ہے کہ گو بعض حواریوں سے کچھ کمزوریاں اور فروگزاشتیں بھی ہوئیں مگر انہوں نے بحیثیتِ مجموعی خد ا کے رستہ میں تکلیفوں اور مصیبتوں اور صعوبتوں کو برداشت کرنے اور اپنی سمجھ اور طاقت کے مطابق حضرت مسیح ناصری کے پیغام کو دنیا تک پہنچانے میں بڑی جانفشانی اور بڑے صبر و استقلال اور قربانی سے کام لیا۔ بلکہ وہ اپنے تبلیغی جو ش میں اور بعض بعد میں آنے والے لوگوں کی غلط تشریحات کے نتیجہ میں حضرت مسیح ناصریؑ کے منشاء سے بھی آگے نکل گئے۔ کیونکہ گو مسیح کا مشن صرف بنی اسرائیل کی کھوئی ہوئی بھیڑوں تک محدود تھا مگر مسیحی مشنری اس حد بندی کو توڑ کر دوسری قوموں تک بھی جا پہنچے اور اس تجاوز میں خطرناک ٹھوکر کھائی۔
مگر اس کے مقابل پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مشن ساری قوموں اور سارے ملکوں اور سارے زمانوں تک وسیع ہے۔ اور پھر محمدی نیابت کی وجہ سے آپ کا مقام بھی مسیح ناصری کی نسبت زیادہ بلند اور زیادہ ارفع ہے۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود ؑ خود فرماتے ہیں کہ:
ابنِ مریم کے ذکر کو چھوڑو
اس سے بہتر غلامِ احمؐد ہے
پس ایک طرف میدانِ عمل کی غیر معمولی وسعت اور دوسری طرف حضرت مسیح موعود ؑ کے پیغام کی غیر معمولی رفعت آپ صاحبان سے غیر معمولی جدو جہد اور غیر معمولی قربانی کا مطالبہ کرتی ہے۔ یاد رکھو کہ محض انصاراللہ کہلانے سے کچھ نہیں بنتا۔ اللہ تعالیٰ دلوں کو دیکھتا ہے اور اپنے بندوں کو ان کے دل کے تقویٰ اور ان کے اعمال کے پیمانے سے ناپتا ہے۔ آپ کی منزل ابھی دور ہے، بہت دور۔ پس اپنے قدموں کو تیز کرو بہت تیز بلکہ پرواز کے پر پیدا کرو کیونکہ یہ ہوائی اُڑان کا زمانہ ہے اور حضرت مسیح موعودؑ کو حضور کے ایک کشف میں ہوا میں اڑنے کا نظارہ بھی دکھایا گیا تھا۔ جس میں یہی اشارہ تھا کہ جماعت کو اپنی منزل تک پہنچنے کے لئے بڑی تیز رفتاری کے ساتھ ہوا میں اڑنا ہو گا۔
پھر آپ لوگ جانتے ہیں کہ اس وقت جماعت کا امام جس نے سینکڑوں کٹھن منزلوں اور خاردار جھاڑیوں میں سے جماعت کو کامیابی کے ساتھ گزارا ہے اور اس وقت تک خد ا کے فضل سے ہمارے امام کی قیادت میں جماعت کا ہر قدم ترقی کی طرف اٹھتا چلا آیا ہے وہ اب ایک لمبے عرصہ سے بسترِ علالت میں پڑا ہے۔ اور آپ لوگ اس وقت حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ بنصرہ کے روح پرور خطبات اور آپ کی زندگی بخش ہدایات اور اپنے روزمرہ کے کاموں میں آپ کے زرّیں ارشادات سے بڑی حد تک محروم ہیں اور حضور کی یہ بیماری بشری لوازمات کا ایک طبعی خاصہ ہے۔ مگر اس حالت میں آپ لوگوں پر یہ بھاری فرض عائد ہوتا ہے کہ جس طرح باپ کی بیماری میں فرض شناس بچے اپنے کاموں میں زیادہ بیدار اور زیادہ چوکس ہو کر لگ جاتے ہیں۔ اسی طرح آپ بھی اس وقت کے نازک حالات میں اپنے غیرمعمولی فرض کو پہچانیں اور اپنے عمل سے ثابت کردیں کہ امام کی بیماری میں آپ کا قدم سست نہیں ہوابلکہ تیز سے تیز تر ہو گیا ہے۔ اور اس کے ساتھ ہی حضرت خلیفۃ المسیح کی صحت اور شفایابی اور حضور کی فعال زندگی کی بحالی کے لئے بھی بیش از پیش دعائیں کریں تا ہمارا یہ امتحان جلد ختم ہو اور یہ خدائی برات اپنے دولہا کے ساتھ تیز قدم اٹھاتے ہوئے آگے بڑھتی چلی جائے۔
علاوہ ازیں ان ایام میں آپ لوگوں کو جماعت کے اتحاد کا بھی خاص بلکہ خاص الخاص خیال رکھنا چاہئے۔ قرآن مجید نے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کو بنیانِ مرصوص کے امتیازی نام سے یاد کیا ہے۔ اور بنیانِ مرصوص وہ ہوتی ہے جو آپس میں اس طرح پیوست ہو کہ کوئی چیز اس میں رخنہ نہ پیدا کر سکے اور یہ بات قربانی کی روح کے بغیر ہرگز حاصل نہیں ہو سکتی۔ اگر ہر شخص کو یہ خیال ہو کہ ہر حال میں میری ہی بات مانی جائے اور میری ہی رائے کو قبول کیاجائے تو یہ بدترین قسم کا تکبر ہے جو جماعت کے اتحاد کو تباہ کر کے رکھ دیتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو یہ فرمایا ہےکہ ’’سچے ہو کر جھوٹوں کی طرح تذلل اختیار کرو‘‘ اس میں یہی نکتہ مدّنظر ہے کہ بعض اوقات انسان کو اتحاد کی خاطر اپنے آپ کو حق پر سمجھتے ہوئے بھی اپنی رائے کو چھوڑنا پڑتا ہے۔ دوستوں کو چاہئے کہ اس نکتہ کو ہمیشہ یاد رکھیں۔
جہاد فی سبیل اللہ کے تعلق میں آپ کا کام دو میدانوں سے تعلق رکھتا ہے۔ ایک میدان تبلیغ کا میدان ہے یعنی غیر مسلموں تک اسلام کا پیغام پہنچانا اور اپنے مسلمان بھائیوں کے دلوں سے احمدیت کے متعلق غلط فہمیوں کو دور کرنا۔ یہ ایک بڑا نازک اور اہم کام ہے جس کے لئے آپ صاحبان کو خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ بے اصول لوگوں نے اسلام اور احمدیت کے متعلق غلط فہمیوں کا ایک وسیع جال پھیلا رکھا ہے۔ اس جال کے کانٹوں کو اپنے رستہ سے ہٹانا آپ لوگوں کا فرض ہے مگر اس تعلق میں اس قرآنی آیت کو کبھی نہیں بھولنا چاہئے کہ:
اُدۡعُ اِلٰی سَبِیۡلِ رَبِّکَ بِالۡحِکۡمَۃِ وَ الۡمَوۡعِظَۃِ الۡحَسَنَۃِ وَ جَادِلۡہُمۡ بِالَّتِیۡ ہِیَ اَحۡسَنُ
(النحل:126)
’’یعنی لوگوں کو نیکی کے رستہ کی طرف محبت اور حکمت اور نصیحت کے رنگ میں بلاؤ اور ایسا طریق اختیار نہ کرو جس سے دوسروں کے دل میں نفرت اور دوری کے خیالات پیدا ہوں۔‘‘
بلکہ اپنے اندر ایک ایسے روحانی مقناطیس کی صفت پیدا کرو جس سے سعید لوگ خود بخود آپ کی طرف کھچے چلے آئیں۔
دوسرا میدان تربیت سے تعلق رکھتا ہے۔ یعنی اپنے آپ کو اور اپنے دوستوں کو اور سب سے بڑھ کر اپنے اہل و عیال کو اسلام اور احمدیت کی دلکش تعلیم پر قائم کرنا یہ بھی ایک بہت بڑا کام ہے۔ بلکہ بعض لحاظ سے تبلیغ سے بھی زیادہ نازک اور اہم ہے۔ جماعت جوں جوں تعداد میں بڑھتی جاتی ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے سے بُعد ہوتا جاتا ہے اس کام کی اہمیت بھی بہت بڑھتی جاتی ہے۔ آپ لوگوں کو عہد کرنا چاہئے کہ آپ پوری توجہ کے ساتھ اس بات کی کوشش کریں گے کہ اپنی عورتوں کو خلافِ شریعت رسموں سے باز رکھیں اور اپنی اولاد کو نیکی کے رستہ پر چلائیں۔ اور اپنے بچوں میں سے کم از کم ایک بچہ کو علم اور عمل میں اپنے سے بہتر بنانے اور اپنے پیچھے بہتر حالت میں چھوڑنے کی تدبیر کریں۔ ہمارے سامنے یہ تلخ حقیقت موجود ہے کہ جماعت میں بعض اعلیٰ پائے کے اصحاب جو علم وفضل میں بہت اعلیٰ مقام رکھتے تھے وہ جب فوت ہوئے تو ان کے ساتھ ہی ان کا علمی اور روحانی ورثہ بھی ختم ہو گیا۔ ترقی کرنے والی جماعتوں کے لئے یہ صورتِ حال بڑی تشویشناک ہے۔ پس انصاراللہ کو چاہئے کہ اس بات کا محاسبہ کرتے رہیں اور مسلسل نگرانی رکھیں کہ ان کے پیچھے ان کی اولاد میں دین کا ورثہ ضائع نہ ہو۔ یہ وہ بات ہے جس کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی اپنی اولاد کے متعلق بے حد خیال تھا۔ چنانچہ آپ اپنی ایک نظم میں اپنے بچوں کے متعلق فرماتے ہیں:
یہ ہو میں دیکھ لوں تقویٰ سبھی کا
جب آوے وقت میری واپسی کا
اس دھوکے میں نہیں رہنا چاہئے کہ چونکہ ہم خود نیک اور دین دار ہیں اس لئے ہماری اولاد بھی لازماً نیک ہو گی۔ قرآن مجید فرماتا ہے:
یُخْرِجُ الْحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ وَیُخْرِجُ الْمَیِّتَ مِنَ الْحَیِّ
(یونس:32)
’’یعنی خدا کا یہ قانون ہے کہ مُردہ لوگوں میں سے زندہ لوگ پیدا ہو جاتے ہیں اور زندہ لوگوں کے گھر مُردہ بچے جنم لےلیتے ہیں۔‘‘
چنانچہ حضرت سلیمان ؑ کے متعلق خدا فرماتا ہے کہ:
اَلْقَیْنَا عَلٰی کُرْسِیِّہٖ جَسَدًا
(صٓ:35)
’’یعنی جب سلیمان جو خدا کا ایک عظیم الشان نبی تھا فوت ہوا تو اس کے تخت پر ایک گوشت کا لوتھڑا تھا۔ انسان نہیں تھا۔‘‘
پس یہ مقام خوف ہے اور اس کی طرف انصاراللہ کو خاص توجہ دینی چاہئے۔ دوستو اور عزیزو اپنے گھروں میں علم اور دین اور تقویٰ کی شمع روشن رکھو تا ایسا نہ ہو کہ آپ کے بعد یہ روشنی ختم ہو جائے اور صرف اندھیرا ہی اندھیرا رہ جائے۔ مجھے اس وقت حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ بنصرہ کا یہ دردناک شعر یاد آرہا ہے کہ:
ہم تو جس طرح بنے کام کیے جاتے ہیں
آپ کے وقت میں یہ سلسلہ بدنام نہ ہو
اسلام آپ کو دنیوی تعلیم حاصل کرنے اور دنیا کے میدان میں ترقی کی کوشش کرنے سے نہیں روکتا۔ چنانچہ قرآن خود یہ دعا سکھاتا ہے کہ:
رَبَّنَآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّ فِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ
(البقرہ: 202)
’’یعنی اے ہمارے خدا تو ہمیں دنیا کی نعمتوں سے بھی حصہ دے اور دین کی نعمتوں سے بھی حصہ دے اور ہمیں اس عذاب سے بچا کہ ہم دوسروں کی ترقی دیکھ کر حسد کی آگ میں جلتے رہیں۔‘‘
پس اسلام دنیا کی نعمتیں حاصل کرنے سے ہرگز نہیں روکتا۔ مگر اسلام یہ حکم ضرور دیتا ہے کہ جہاں دین اور دنیا میں ٹکراؤ ہو جائے وہاں دین کے پہلو کو مقدم کرو۔ اسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیعت کے عہد میں یہ اقرار لیا کرتے تھے کہ ’’میں دین کو دنیا پر مقدم کروں گا‘‘۔ اور فرمایا کرتے تھے کہ ایک سچے مومن کا یہی مقام ہے کہ دست باکار و دل بایار۔ کاش انصاراللہ اس نکتہ کو یاد رکھیں اور اسے اپنا حرزِ جان بنائیں۔ وہ بے شک دنیا کا علم حاصل کریں، دنیا کا رزق کمائیں اور اس میدان میں ترقی کریں۔ شادیاں رچائیں، اولاد پیدا کریں اور ہر قسم کی جائز تفریحات میں حصہ لیں مگر اس مرکزی نکتہ سے کبھی اِدھر اُدھر نہ ہوں کہ دین بہرحال دنیا پر مقدم رہنا چاہئے۔ اگر یہ نہیں تو ہمارا احمدیت کا دعویٰ جھوٹا ہے۔ حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ اپنے مخصوص انداز میں فرمایا کرتے تھے کہ ہر نبی اور ہر مامور من اللہ کا ایک کلمہ (یعنی اس کی تعلیم کا ایک مرکزی نقطہ) ہوا کرتا ہے۔ مرزا کا کلمہ یہ ہے کہ میں دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا۔ حضرت خلیفہ اولؓ کا یہ قول آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہے کیونکہ حضرت مسیح موعود ؑ کی ساری تعلیم کا نچوڑ واقعی ان مختصر سے الفاظ میں مرکوز ہے۔اور یقینا ًاس پر عمل کرنے والے انسان کی کایا پلٹ جاتی ہے۔ آپ لوگ اس پر مضبوطی سے قائم ہو جائیں پھر سب خیر ہے۔
ایک ضمنی مگر ضروری بات میں آپ صاحبان سے پردہ کے متعلق بھی کہنا چاہتا ہوں خواہ یہ انصاراللہ کے اجتماع کے لحاظ سے کچھ بے موقعہ ہی معلوم ہو۔ میں نے گزشتہ ایام میں لاہور کے قیام میں دیکھا ہے اور دوسرے شہروں کے متعلق سنا ہے کہ احمدی نوجوانوں کا ایک طبقہ دوسرے مسلمانوں کی ریس میں پردہ کے معاملہ میں کمزوری دکھا رہا ہے۔ یہ ایک خطرناک رجحان ہے جس کی طرف جماعت کو بہت توجہ دینی چاہئے۔ حضرت مسیح موعود ؑ کے متعلق خدا تعالیٰ کا یہ فرمان ہے کہ:
یُحْیِ الدِّیْنَ وَ یُقِیْمُ الشَّرِیْعَۃَ
(تذکرہ صفحہ55 ایڈیشن چہارم)
’’یعنی محمدی مسیح دین کو زندہ کرے گا اور شریعت کو قائم کرے گا۔‘‘
پھر اگر احمدی نوجوان اس معاملہ میں کمزوری دکھائیں اور شریعت کے احکام کو پسِ پشت ڈالیں تو کتنے افسوس کی بات ہے۔ میں یہ بات انصاراللہ سے اس لئے کہتا ہوں کہ جماعت کے نوجوانوں (لڑکوں اور لڑکیوں) کی باگ ڈور زیادہ تر انہی کے ہاتھ میں ہے۔ انہیں اس معاملہ میں اپنے بچوں کو بار بار سمجھانا چاہئے اور جس طرح ایک چوکس چرواہا اپنی بھیڑوں کو گھیر گھیر کر احاطہ کے اندر رکھتا ہے اسی طرح انصاراللہ کا فرض ہے کہ جماعت کے نوجوانوں کو سمجھانے سے اور نصیحت کرنے سے اور غیرت دلانے سے اسلامی پردہ کی حدود پر قائم رکھیں۔ انہیں یہ بھی بتایا جائے کہ تمہاری اس فیشن پرستی سے جماعت بدنام ہوتی ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم اور تنظیم پر حرف آتا ہے اور پھر اس وجہ سے تم گنہگار بھی بنتے ہو۔ اسلام ہرگز یہ نہیں کہتا کہ عورتوں کو گھروں کے اندر قیدیوں کی طرح بند رکھو۔ وہ جائز ضرورت سے باہر نکل سکتی ہیں اور تمام جائز کاموں میں حصہ لے سکتی ہیں۔ تعلیم حاصل کرسکتی ہیں، نوکری کر سکتی ہیں، سیروسیاحت کر سکتی ہیں۔ مگر ہر حال میں پردہ کی حدود قائم رہنی ضروری ہیں۔
پردہ کے متعلق یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ جس طرح ہر چیز کا ایک جسم ہوتا ہے اور ایک روح ہوتی ہے۔ اسی طرح پردہ کا جسم تو یہ ہے کہ اپنی قدرتی اور مصنوعی زینت کو قریبی رشتہ داروں کے سوا کسی غیر مرد پر ظاہر نہ ہونے دیا جائے۔ اور پردہ کی روح غضِّ بصر ہے یعنی غیر مردوں کے سامنے آنکھوں کو نیچا اور نیم خوابیدہ رکھنا۔ پس ان دونوں باتوں کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔ بعض لوگ قرآنی آیت اِلَّا مَا ظَھَرَ مِنْھَا (النور:32) کی غلط تشریح کرتے ہوئے خیال کرتے ہیں کہ عورت کا چہرہ پردہ میں شامل نہیں۔ مگر یہ ایک صریح غلطی ہے جس کی کسی قرآنی آیت یا کسی صحیح حدیث میں سند نہیں ملتی۔ عقلاً بھی ظاہر ہے کہ اگر چہرہ کا پردہ نہیں تو پھر پردہ کس چیز کا نام ہے؟ البتہ چہرہ کا وہ حصہ جو رستہ دیکھنے کے لئے ضروری ہے یعنی آنکھ، اور اِسی طرح چہرہ کا وہ حصہ جو سانس لینے کے لئے ضروری ہے یعنی ناک، وہ حسبِ ضرورت کھلا رکھا جاسکتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ اگر عورت اپنا سر اور ماتھا اوپر کی طرف سے اور اپنے ہونٹ اور ٹھوڑی اور چہرہ کا ملحقہ حصہ نیچے کی طرف سے ڈھانک کر رکھے تو عام حالات میں منہ کا اسی قدر پردہ کافی ہے۔ اسی طرح چہرہ کا وہ حصہ جو صحت اور حفاظت وغیرہ کے خیال سے کھلا رہنا ضروری ہے کھلا رہتا ہے اور پردہ بھی ہو جاتا ہے۔ اور میں نے دیکھا ہے کہ اگر اس قسم کا پردہ صحیح طور پر کیا جائے تو عورت پہچانی نہیں جاسکتی اور پردہ کی غرض و غایت قائم رہتی ہے۔ حضرت مسیح موعود ؑ اس کی شکل کچھ اس طرح بتایا کرتے تھے۔ دوست اچھی طرح دیکھ کر سمجھ لیں (اس موقع پر حضرت میاں صاحب نے چہرہ کے اوپر کے حصہ پر ایک ہاتھ رکھ کر اور چہرہ کے نیچے کے حصہ پردوسرا ہاتھ رکھ کر اور اس کی انگلیاں اوپر کی طرف اٹھا کر پردہ کی عملی صورت ظاہر فرمائی) ہاں اگر صحت اور حفاظت کے پہلو کو واجبی طور پر ملحوظ رکھتے ہوئے چہرہ کا زیادہ حصہ پردہ میں رہ سکے تو یہ بہتر ہو گا کیونکہ چہرہ بہرحال زینت کا بہترین حصہ ہے۔
میں امید کرتا ہوں کہ انصاراللہ اپنے نوجوان عزیزوں میں صحیح اسلامی پردہ رائج کرنے اور انہیں اس پردہ پر قائم رکھنے کی پوری پوری کوشش کریں گے۔ تاکہ ہماری جماعت دوسرے مسلمانوں کی خلافِ شریعت رو سے بہنے سے بچ جائے۔
بالآخر میں دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ انصاراللہ کو صحیح معنی میں انصاراللہ بنائے۔ وہ دین کے سچے خادم اور جماعت کے مخلص اور فدائی کارکن بن کر رہیں اور ان کی نسلیں بھی دین کی خادم بنیں۔ اور خدا تعالیٰ انصار کے اس اجتماع کو ہر رنگ میں مبارک اور کامیاب کرے اور ان کے مشوروں میں برکت ڈالے۔ تاکہ جو دوست اس وقت یہاں جمع ہیں وہ واپس جاتے ہوئے نئی روح اور نیا ولولہ اور نئی زندگی لے کر جائیں اور جماعت کا قدم ترقی کی طرف اٹھتا چلا جائے۔ آمین یا ارحم الراحمین۔ اب ہمیں مسنون طریق پر دعا بھی کر لینی چاہئے۔
(محررہ 28 اکتوبر1960ء)
(روزنامہ الفضل ربوہ 3 نومبر 1960ء)