• 16 مئی, 2024

کیا پراسرار اہراموں کی تعمیر ’’خلائی مخلوق‘‘ کا کارنامہ تھا؟

گزشتہ سال اگست2020 میں دنیا کے امیر ترین شخص ایلون مسک کی ایک ٹویٹ نے دنیا بھر میں ہلچل مچا دی تھی جس میں انہوں نے کہا تھا کہ اہرام مصر کی تعمیر میں خلائی مخلوق کا ہاتھ تھا، ایلون کی اس ٹیوٹ کے پس منظر میں سائنس دانوں کے وہ نظریات تھے جن میں ان اہراموں کی تعمیر کو غیر انسانی ہاتھوں کا کارنامہ سمجھا جاتا تھا ۔ ان اہراموں کی ساخت اور طرز تعمیر کے بارے میں پڑھنے کے بعد جب عقل حیران اور پریشان رہ جاتی ہے تو ان کو دیکھنے کے بعد کیا حالت ہوگی؟ کیا چار ہزار سال قبل کا انسان اس قدر سائنسی مشینیں اور دیگر آلات رکھتا تھا کہ وہ اس دور میں انتہائی بلند و بالا عمارات کی تعمیر کر سکے؟ ایسی عمارت جس کی بلندی کا ریکارڈ صدیوں تک نہ ٹوٹ سکے، کئی کئی ٹنوں کے پتھر میلوں دور سے ڈھو کر لا سکے اور پھر ان کو تعمیر کے دوران بلندی تک پہنچا سکے؟ ایلون کی ٹویٹ کے ردعمل میں مصر کی حکومت نے شدید اور فوری ردعمل دکھایا تھا اور ان کو مصر میں آنے کی دعوت دی تھی کہ مصر آئیں اور دیکھیں اور اس دعویٰ کو دہرایا تھا کہ اہرام مصر ،مصریوں نے ہی تعمیر کئے تھے اور یہ کسی خلائی مخلوق کا کارنامہ نہیں تھے ۔

مصر کے پراسرار اہراموں کی تعمیر کو کئی ہزار سال گزر چکے ہیں لیکن ان کی پراسراریت آج بھی قائم ہے ۔ اکیسویں صدی میں داخل ہونے کے بعد بھی وہ ایک معمہ بنے ہوئے ہیں ، آج کی جدید ترین سائنس اہرام مصر کے حقیقت اور اس کی تعمیر کے راز کو جاننے کے لئے سرتوڑ کوشش کر رہی ہے ۔ گاہے بگاہے مختلف خبریں سننے اور پڑھنے کو ملتی رہتی ہیں کہ اہرام مصر بارے نئی پیش رفت ہوئی ہیں لیکن جلد ہی پتہ چلتا ہے کہ کوئی ٹھوس نتیجہ سامنے نہیں آیا اور یوں اہرام مصر آج بھی انسانی عقل، سائنس کے لئے ایک چیلنج ہیں ، اہرام مصر مقبروں اور اندرونی پراسرار سرنگوں کا ایک ناقابل یقین جال اپنے اندرسموئے ہوئے ہیں ۔ ان کے بارے ہزاروں کہانیاں ، افسانے گھڑے جا چکے ہیں ، تحقیقی رپورٹس اور مضامین لکھے جا چکے ہیں اور فلمیں بھی بن چکی ہیں لیکن اس کے باوجود ان کی تعمیر کےبارے معمہ جوں کا توں موجود ہے ۔ اہرام مصر کی انتہائی پراسرارتعمیر اور ساخت نے ان کو دنیا کے سات عجائبات میں شامل کرا رکھا ہے جس کے باعث وہ دنیا بھر کے سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں ۔ لیکن اب تک جو بھی معلومات جدید تحقیق کی روشنی میں سامنے آئی ہیں اس نے سائنس دانوں اور ماہرین اثار قدیمہ کو مزید درجہ حیرت میں ڈالا ہوا ہے اور ان کی پراسرایت میں کمی آنے کی بجائے اس میں مزید اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ تحقیقی اداروں کی طرف سے متعدد بار یہ دعوے کئے گئے کہ وہ کچھ رازوں کھوج لگانے میں کامیاب ہو گئے ہیں لیکن پھر ان دعووں کا کچھ پتہ نہ چلا کہ کدھر گئے ۔ لیکن اس کے باجود اقوام عالم اہرام مصر کی حقیقت جاننے کے لئے سر توڑ کوششیں کر رہی ہیں اور دن بدن کچھ نہ کچھ نئی معلومات مل بھی رہی ہیں تاہم حقیقت یہی ہے کہ ابھی تک ان اہراموں کی پراسراریت جوں کی توں موجود ہے ۔ یاد رہے کہ مصر شمالی افریقہ کا ایک ملک ہے، اس کی تہذیب دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں میں سرفہرست ہے جو دریائے نیل کے کنارے آباد تھی، ان کے بارے بتایا جاتا ہے کہ یہ 3500قبل مسیح کا ایک معاشرہ تھا ۔ اس کی ابتداء دریائے نیل کے کنارے سے ہوئی جہاں انسانوں نے گروہوں کی شکل میں رہنا شروع کیا اور وہاں کاشتکاری شروع کردی تھی اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہیں سے قدیم مصری تہذیب نے جنم لیاتھا۔ اس وقت اہراموں کی کل تعداد138 بتائی جاتی ہے ۔ اور ان میں سب سے مشہور گیزا کا عظیم الشان ہرم ہے ۔

اہرام کے اندر گیلری کا منظر

اہرام مصر ہیں کیا ؟ اور یہ کیسے وجود میں آئے ؟ ان سوالوں کے درست جوابات کی جستجو ابھی تک جاری ہے لیکن کچھ معاملات پر سب ماہرین کا اتفاق رائے پیدا ہو چکا ہے، ان میں ایک بات یہ ہے کہ یہ اہرام مصر حقیقت میں فراعین مصر اور شاہی خاندان سے تعلق رکھنے والے اہم افراد کا مدفن ہیں ۔ مخروطی شکل کے یہ مقبرے جو اہرام مصر کے نام سے دنیا میں مشہور ہیں ، ان اہرام مصر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ وہ یادگاریں ہیں جن میں بادشاہوں کی نعشوں کو محفوظ کرکے رکھا جاتا تھا اور ان کے ساتھ ان کے ہتھیار، قیمتی زیورات وغیرہ بھی محفوظ کردیئے جاتے تھے۔ اس وقت قاہرہ کے نواحی علاقہ غزہ میں وہ پیرا میڈز (اہرام) موجود ہیں اور ان میں مشہور اہرام سرخ ہرم اور خوفو ہرم شامل ہیں ۔ جو دنیا کے عجائبات میں شامل ہیں ۔ ان میں سب سے بڑا اور عجائبات کا جوبے تاج بادشاہ خوفو ہرم ہے ۔ خوفو ہرم کی موجودہ بلندی 455 فٹ ہے، کبھی اس کی بلندی 481 فٹ تھی، اور یہ13 ایکڑ تک کے رقبہ میں پھیلا ہوا ہے۔خوفو ہرم کا وزن اندازا5.9 ملین ٹن بتایا جا تا ہے، اور یہ 20 سال کے عرصہ میں تعمیر ہوا تھا، ایک اندازے کے مطابق 800 ٹن پتھر روز لگایا جاتا تھا،2.3 ملین بلاکس پتھر اس میں لگائے گئے تھے ۔ یہ جن بڑے بڑے پتھروں یا بلاکس سے بنایا گیا ہے ان میں ہر ایک کا وزن25 ٹن سے کہیں زیادہ ہے ۔ چند سال قبل شائع ہونے والی تحقیقی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ اہرام کی تعمیر میں استعمال ہونے والا پتھر مقام تعمیر سے 8 کلو میٹر دور کہیں نکالا جاتا تھا اور ان بھاری چونے کے پتھروں سے پھر وہاں لایا جاتا تھا اوریہ اہرام انتہائی عجیب و غریب قسم کی تعمیرات میں شامل ہوتے ہیں جن میں ٹنوں وزن والے پتھر استعمال ہوئے ہیں اور آج انسانی عقل حیران ہے کہ ہزاروں سال پہلے کیسے ان پتھروں کو دور سے لاکر اتنی اونچائی تک پہنچا یا گیا ؟ اس سوال کا کسی حد تک جواب2017ء میں اس وقت دنیا کو سننے اور پڑھنے کو ملا جب ان اہرام مصر کی تعمیرکے بارے میںنئی تحقیق سامنے آئی تھی ۔ اس نئی تحقیق کے مطابق سائنس دانوں کو کچھ نئی قدیم اشیاء دریافت ہوئی ہیں جن پر تحقیق کرنے کے بعد نت نئے انکشافات ہوئے ہیں۔ جن سے ان اہراموں کی تعمیر بارے پہلی بار نئی باتیں سامنے آئی ہیں ۔ نئی دریافتوں اور تحقیقات کے مطابق اس دور میں مصری شہریوں نے خاص قسم کی کشتیاں تیار کی تھیں جن کے ذریعے سے ان بھاری بھرکم پتھروں کو ڈھویا جاتا تھا اور دور سے تعمیر کے مقام پر لاہا جاتا تھا ۔ برطانیہ کے چینل فور پر دکھائی جانے والی ایک ڈاکومنٹری جو اہرام مصر پر بنائی گئی تھی کے مطابق ’’آثار قدیمہ کے ماہرین نے چار سال قبل پاپیریس کا مخطوط، ایک کشتی کا ڈھانچہ، اور پانی کی گزرگاہ دریافت کی تھی جو اہرام مصر کے پاس تھی جس سے یہ گتھی سلجھنے میں مدد ملی کہ مصریوں نے کیسے یہ اہرام تعمیر کئے تھے اور بھاری بھرکم پتھر کیسے میلوں دور سے وہاں تک لائے گئے تھے ۔آثارقدیمہ کے ایک ماہر پیئر ٹیل جنہوں نے اس دریافت شدہ مخطوطے کی حقیقت جاننے کے لئے چار سال اس پر تحقیق کی تھی، بی بی سی کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ ’’یہ مخطوطہ غالبا دنیا کا سب سے پرانامخطوطہ ہے اور اس کے لکھنے والے کا نام میریر تھا اور وہ40 ملاحوں کے گروہ کا سربراہ تھا جس کا کام دریائے نیل کے ساتھ بنائی گئی پانی کی گزرگاہوں سے پتھر ڈھونڈ کر لانا تھا ۔ 30 سال سے ایسی کھدائی کرنے والے ایک ماہر مارک لہندر کا کہنا ہے کہ ہم نے اس نئی تحقیق سے علاقے اور گزرگاہ کی نشاندہی کر لی ہے جہاں سے پتھر غزہ کے میدان میں لائے جاتے تھے، یہ امر قابل ذکر ہے کہ اہرام مصر کی تعمیر کے لئے بیس سالوں میں بیس لاکھ سے زائد بھاری بھرکم پتھروں کو غزہ ( گیزا) کے میدان میں لایا گیا تھا۔

(بی بی سی اردونیوز26 ستمبر2017)

چند سال قبل بھی جدید اور نئی تحقیق کے بعد ’’خوفو ہرم‘‘ کے بارے میں نئے انکشافات سامنے آئے تھے اور اخبارات کی زینت بنے تھے۔ ان خبروں کے مطابق ماہرین نے ’’خوفو ہرم‘‘ کے اندر ایک خلاء کو دریافت کیا ہے جو تیس میٹر لمبا ہے اور اس کو اس دور میں راہداری کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔ سائنسدانوں کے مطابق یہ خالی جگہ ہرم کی گراؤنڈ گیلری کے اوپر واقع ہے اور مزید معلومات کے لئے ریڈیو گرافی کی مدد سے ہرم کے پتھروں پر تحقیق کی جا رہی ہے، سائنس دانوں کے مطابق انیسویں صدی کے بعد پہلی بار اس طرح کی نئی بات سامنے آئی ہے، اس تحقیق میں یہ بھی پتہ لگا تھا کہ بادشاہ کا چیمبر کہاں تھا اور ملکہ کس جگہ بیٹھا کرتی تھی ۔ اہرام کی تعمیر کے سربستہ رازوں سے پردہ اٹھانے کے لئے دنیا کی بڑی بڑی یونیورسٹیوں میں تحقیق ہو رہی ہیں لیکن یہ بات کسی وثوق سے نہیں کہی جاسکتی کہ ان اہراموں کی تعمیر کے بارے میں صدیوں سے چھپے رازوں سے پردہ کب اٹھے گا۔

(از منور علی شاہد (جرمنی))

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 8 مارچ 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 9 مارچ 2021