• 25 اپریل, 2024

کچرے سے بجلی بنانے والا ملک

سنگاپور
کچرے سے بجلی بنانے والا ملک

سنگاپور 683 مربع کلومیٹر پر محیط ایک چھوٹا سا خوبصورت ملک ہے جس کی آبادی صرف 60 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔1965ء میں ملائیشیا سے علیحدہ ہونے کے بعد اس چھوٹے سے ملک نے ترقی کی حیرت انگیز منازل طے کی ہیں۔اس وقت سنگاپور کا شمار ترقی یافتہ اور صاف ستھرے ملکوں میں ہوتا ہے۔ ملائیشا سے علیحدگی کے بعد یہاں بے روزگاری اور شہریوں کے لیے ناکافی رہائشی سہولیات جیسے مسائل کا سامنا تھا۔70 کی دہائی میں سنگاپور کو جدید خطوط پر استوار کرنا شروع کیا گیا۔صنعت کو فروغ دیا گیا لوگوں کے لیے گھر بنائے گئے اور تعلیم پر بہت زیادہ سرمایہ کاری کی گئی۔تعلیم کو اپنی ترجیحات میں شامل کرنے کے ثمرات کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اعلی تعلیم کے حامل ممالک کی درجہ بندی میں سنگاپور کا نمبر چھٹا ہے۔اور کاروبار کے لیے سازگار ماحول فراہم کرنے میں سنگاپور دنیا کے تمام ممالک میں سرفہرست ہے۔سنگاپور کا شمار دنیا کے تیسرے کرپشن فری ملک میں ہوتا ہے۔مستقبل کے لیے پیش بندی کرنے والے ممالک کی فہرست میں سنگاپور کا نمبر چوتھا ہے۔یہ دنیا کا پانچوں محفوظ ترین ملک ہے۔اس کے علاوہ سنگاپور کی وجہ شہرت یہاں صفائی ستھرائی کا عمدہ نظام ہے جس کی بدولت یہاں کے گھر،عوامی و سرکاری عمارتیں،سڑکیں،بس اسٹاپ سے لے کر پارک اور گلیوں سمیت ہر چیز کوڑے کرکٹ سے بالکل پاک ہے۔صفائی کے اس معیار کا یہ مطلب نہیں کہ یہاں کچرا بالکل پیدا نہیں ہوتا۔یہاں بھی کچرا پیدا ہوتا ہے مگر سنگاپور نے کچرے کو ٹھکانے لگانے کا قابل تقلید حل اختیار کر رکھا ہے۔

دنیا بھر میں ہر سال دو بلین ٹن سے زیادہ کچرا پیدا ہوتا ہے۔یہ کچرا اتنا زیادہ ہے کہ اس سے 8 لاکھ اولمپک سائز کے سوئمنگ پول بھرے جا سکتے ہیں۔اس سارے کچرے کا ایک تہائی حصہ کھلے عام پھینک دیا جاتا ہے یا جلا دیا جاتا ہے جس سے بہت زیادہ آلودگی پیدا ہوتی ہے اور بے شمار بیماریوں کا باعث بنتی ہے۔کچرے کی پیداوار میں اضافہ یوں ہی جاری رہا تو اگلے چند سالوں میں کچرے کی سالانہ پیداوار دو بلین ٹن سے بڑھ کر ساڑے تین بلین ٹن تک پہنچ جائے گی۔کئی ترقی یافتہ ممالک میں کچرے کو ری سائیکل کرکے کار آمد بنایا جاتا ہے۔ان ممالک میں سے سنگاپور ایک ایسا ملک ہے جو کچرے سے بجلی بناتا ہے۔یہاں کچرا جمع کرنے کا ایک منظم نظام موجود ہے جس کے تحت ملک بھر سے بڑی عمدگی کے ساتھ کچرا جمع کیا جاتا ہے۔کچرا جمع کرنے کے بعد بجلی بنانے والا پلانٹ تک پہنچایا جاتا ہے جہاں کچرے کو محفوظ طریقے سے جلایا جاتا ہے۔اس پلانٹ کے اندر مسلسل آگ دہکائی جاتی ہے۔آگ کا درجہ حرارت 1000 ڈگری سیلسیس تک ہوتا ہے جو ہر چیز کو جلا کر راکھ بنا دیتا ہے جس کے نتیجے میں بجلی پیدا ہوتی ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اس پلانٹ میں کچرا جلانے سے آلودگی پیدا نہیں ہوتی۔جب ہم پلاسٹک سے بنی اشیاء جلاتے ہیں تو ان سے زہریلا دھواں خارج ہوتا ہے۔لیکن بجلی بنانے والے پلانٹ میں کچرا جلانے سے پیدا ہونے والے دھوئیں کو بھی فلٹر کیا جاتا ہے۔

اس پراسس میں دھواں نا صرف فلٹر ہوتا ہے کہ بلکہ فلٹر ہونے کے بعد خارج ہونے والی ہوا سنگاپور کی فضاء میں موجود ہوا سے بھی زیادہ صاف ہوتی ہے۔فلٹر شدہ ہوا کو فضاء میں چھوڑنے کے لیے پلانٹ کے اوپر بڑی بڑی چمنیاں لگائی گئی ہیں جن سے فلٹر شدہ صاف ہوا ہر وقت فضاء میں شامل ہوتی رہتی ہے۔سنگاپور کے روزانہ پیدا ہونے والے کچرے کا 90 فیصد حصہ چند گھنٹوں میں بالکل ختم ہو جاتا ہے۔کچرے کا باقی 10 فیصد راکھ کی صورت میں تبدیل ہوجاتا ہے۔یہ راکھ بھی دھوئیں کی مانند زہریلی ہوتی ہے۔اس راکھ کو ٹرکوں میں بھر کے مصنوعی جزیر میں پھینک دیا جاتا ہے جس کا پانی سمندری پانی سے نہیں ملتا۔یہ راکھ زیر آب رہتی ہے اور کسی قسم کی آلودگی کا باعث نہیں بنتی۔یہ سارا پراسس اتنا صاف ستھرا ہے کہ اس سے جزیرے کے ہربھرے جنگلوں اور جزیرے کے پانیوں میں سمندری حیات سمیت کسی کو بھی کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔جہاں ایک پلاسٹک بیگ کو قدرتی طور پر ختم ہونے میں 500 سال کا عرصہ درکار ہوتا ہے وہیں سنگاپور میں یہ پلاسٹک بیگ ایک دن میں جل کر بجلی پیدا کرنے کے بعد راکھ میں تبدیل ہو کر مصنوعی جزیرے میں زیر آب پہنچ چکا ہوتا ہے۔

(مدثر ظفر)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 8 مارچ 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ