• 20 مئی, 2024

آداب معاشرت (نیک مجالس کی فوقیت اور اس کے آداب) (قسط 10)

آداب معاشرت
نیک مجالس کی فوقیت اور اس کے آداب
قسط 10

ان مجالس میں بیٹھو جن کو دیکھ کرتمہیں خدا یاد آئے، دینی علم بڑھے اور جن کا عمل تمہیں آخرت کی یاد دلائے۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو!اللہ کا تقوی اختیار کرو اور صادقوں کے ساتھ ہوجاؤ۔

(التوبہ : 119)

ہمارے پیارے آقا حضرت محمد مصطفیٰﷺفرماتے ہیں:آخری زمانہ میں لوگ مساجد میں حلقے بناکر بیٹھیں گے۔إِمَامُہُمُ الدُّنْیَا ان کا امام دنیا ہوگی۔ پس تم ان کے ساتھ نہ بیٹھو، اللہ کوان کے بیٹھنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

(المعجم الکبیر، بَاب أَحَادِیثُ عَبْدِ اللہِ بْنِ الْعَبَّاسِ)

آپؐ فرماتے ہیں:الْمَجَالِسُ ثَلَاثَۃ غَانِمٌ،وَسَالِمٌ،وَشَاجِبٌ۔ مجالس کی تین اقسام ہیں۔ جن میں شامل ہونے والا ایک گروہ غَانِم، کامیاب اور فائدہ اٹھانے والا ہے، اور دوسرا سَالم نہ فائدہ اٹھانے والا اور نہ نقصان میں مبتلا ہونے والا اور تیسرا گروہ شَاجِب ہے جو ہلاک ہونے والا ہے۔ سو غَانِم کامیاب اور فائدہ اٹھانے والا وہ گروہ ہے جو اپنی مجالس میں کثرت سے خدا تعالیٰ کا ذکر کرے اور سَالم نہ فائدہ اور نہ نقصان اٹھانے والا وہ گروہ ہے جو خاموش رہے اور کسی کے خلاف بات نہ کرے اور تیسرا شَاجِب ہلاک ہونے والا وہ گروہ ہے جس کے اقوال واعمال دونوں خدا تعالیٰ کی معصیت سے پُر ہوں۔

(إتحاف الخیرۃ المہرۃ بزوائد المسانید العشرۃ 6/ 375)

کسی نے ایک دفعہ حضور ﷺسے پوچھا کہ بہترین ہم نشیں کون ہیں؟ کن لوگوں کی مجلس میں ہم بیٹھیں؟ اس پر آپؐ نے فرمایا ان لوگوں کی مجلس میں بیٹھو جن کو دیکھ کر تمہیں خدا یاد آئے اور جن کی گفتگو سے تمہارا دینی علم بڑھے اور جن کا عمل تمہیں آخرت کی یاد دلائے۔ (مسند أبی یعلی الموصلی، أَوَّلُ مُسْنَدِ ابْنِ عَبَّاسٍ، رقم الحدیث : 2408) آپؐ فرماتے ہیں کہ وہ مجلس جس میں اللہ کا ذکرنہ کیا گیا نہ شرکائے مجلس میں سے کسی نے اللہ کے نبیﷺپر درود بھیجا،وہ مجلس اللہ کے عذاب کی مستحق ہوگی۔ اب یہ اس کی مرضی ہے چاہے عذاب میں مبتلا کردے اور چاہے معاف فرمادے۔

(سنن الترمذی، کتاب الدعوات عن رسول اللّٰہ،ما جاء فی القوم یجلسون)

بعض صحابہؓ کا دستور تھا کہ وہ باقاعدہ ذکر الٰہی کی مجالس کا قیام کیا کرتے تھے اور دوسروں کو کہتے کہ آؤ ہم چند گھڑیاں اپنے رب پر ایمان کی باتیں کریں۔(مسند أحمد، کتاب باقی مسند المکثرین)آپؐ فرماتے ہیں:اللہ کے چند فرشتے ہیں جو رستوں میں گھومتے ہیں اور ذکر کرنے والوں کو ڈھونڈتے ہیں۔ جب وہ کسی قوم کو ذکر الٰہی میں مشغول پاتے ہیں تو وہ فرشتے ایک دوسرے کو پکار کر کہتے ہیں، آؤ! ہمیں اپنا مقصود مل گیا ہے اور پھروہ ان ذکر الٰہی کرنے والوں کو اپنے پروں سے آسمان تک ڈھانپ لیتے ہیں اور ایسے لوگوں میں اگر کوئی راہ گزر بھی آکر بیٹھ جائے تو اسے بخش دیا جاتا ہے کیونکہ ھُمُ الْجُلَسَاءُ لَا یَشْقَی بِہِمْ جَلِیسُہُمْ یہ وہ لوگ ہیں جن کے ساتھ بیٹھنے والے بھی اجر سے محروم نہیں رہتے۔

(صحیح البخاری،کتاب الدعوات،فضل ذکراللّٰہ)

حضرت مسیح موعودعلیہ السلام فرماتے ہیں:
’’جب انسان ایک راستباز اور صادق کے پاس بیٹھتا ہے تو صدق اس میں کام کرتا ہے لیکن جو راستبازوں کی صحبت کو چھوڑ کر بدوں اور شریروں کی صحبت کو اختیار کرتا ہے تو ان میں بدی اثر کرتی جاتی ہے۔‘‘

حضرت خلیفۃ المسیح الثَّانیؓ فرماتے ہیں:اس شخص کی مثال جو اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتا ہے اور جو نہیں کرتا ایسی ہی ہے جیسے زندہ اور مردہ کی۔یعنی وہ جو اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتا ہے وہ زندہ ہوتا ہے اور جونہیں کرتا وہ مردہ۔ اس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ ذکر اللہ کس قدر اہم اور ضروری ہے۔‘‘

ہمارے پیارے اِمام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مجالس کے آداب کے سلسلہ میں احادیث مبارکہ کاتذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا جب کوئی قوم مسجد میں کتاب اللہ کی تلاوت اور باہم درس وتدریس کے لئے بیٹھی ہوتو ان پر سکینت نازل ہوتی ہے۔رحمت باری ان کو ڈھانپ لیتی ہے اور فرشتے ان کو اپنے جِلَو (سایہ)میں لے لیتے ہیں۔ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ جولوگ کسی مجلس میں بیٹھتے ہیں اور وہاں ذکر الٰہی نہیں کرتے وہ اپنی ا س مجلس کو قیامت کے روز حسرت سے دیکھیں گے۔‘‘

(خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 16؍جولائی 2004ء)

(حنیف محمود کے قلم سے)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 8 مارچ 2023

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ