• 20 مئی, 2024

فضل خدا کا سایہ ہم پر رہے ہمیشہ

فضل خدا کا سایہ ہم پر رہے ہمیشہ
ہر دن چڑھے مبارک ہر شب خیر گزرے

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دختر نیک اختر حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم رضی اللہ عنہا اس شعر کے بارے میں فرماتی ہیں:
مندرجہ ذیل شعر میرے میاں نواب صاحب مرحوم کی فرمائش پران کے کیلنڈرپر لکھنے کے لئے جن کو وہ ہمیشہ نئے سال کے کیلنڈر کے سر ورق پر لکھتے تھے۔

فضل خدا کا سایہ ہم پر رہے ہمیشہ
ہر دن چڑھے مبارک ہر شب خیر گزرے

سال نوکے آغاز کے ساتھ ہی جہاں اور بہت سے پیغامات ہمیں اپنے دوست احباب، عزیز و اقارب اور پیاروں سے موصول ہوتے ہیں وہاں حضرت سیّدہ نواب مبارکہ بیگم رضی اللہ عنہا کا یہ شعر جو میرے مضمون کا عنوان ہے نئے سال کی مبارکبادی کے طور پر کثرت سے استعمال ہوتا ہے۔اگر اس شعر کی گہرائی وگیرائی میں ڈوب کر دیکھا جائے تو یہ ایک مکمل دعا ہے۔ جس کے اوپر خدا کے فضل کا سایہ ہو وہ بھی ایک دودن کے لیے نہیں، بلکہ ہمیشہ ہمیش کے لیے اور جس کا ہر دن مبارک اور ہر رات بخیر گزرے، اسے اور کیا چاہئے ! ایسے شخص کی تودنیا اور آخرت دونوں ہی سنور گئیں۔ خدا کے فضل کا سایہ کیسے حاصل کیا جائے ؟ وہ کون سے گرہیں جن کو اختیار کرکےخالق کائنات کے فضلوں کے سائے تلے آیا جاسکتا ہے اس کے بارے میں مسیح موعود علیہ السلام کا بیان فرمودہ یہ نسخہ بہت ہی کارآمد ہے۔ آپؑ فرماتے ہیں: خداتعالیٰ نہایت کریم و رحیم ہےجو شخص اُس کی طرف صدق اور صفا سے رجوع کرتا ہے۔وہ اُس سے بڑھ کر اپنا صدق و صفا اُس سے ظاہر کرتا ہے۔اُس کی طرف صدق دل سے قدم اُٹھانے والاہر گز ضائع نہیں ہوتا۔

(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22صفحہ 16)

اسلام نے ہمیں نیا سال منانے کا حقیقی طریق سکھایا ہے جو دوسرے مذاہب سےبا لکل جدا ہے۔چنانچہ ایک مومن یہ دعا کرتے ہوئے نئے مہینے یا نئے سال میں داخل ہوتا ہے کہ : اللَّهُمَّ أَدْخِلْهُ عَلَيْنَا بِالْأَمْنِ وَالْإِيمَانِ، وَالسَّلَامَةِ وَالْإِسْلَامِ، وَرِضْوَانٍ مِنَ الرَّحْمَنِ، وَجِوَارٍ مِنَ الشَّيْطَانِ

(الطبرانی المعجم الاوسط)

ترجمہ: اے اللہ!اس (نئے مہینے یا نئے سال) کو ہمارے اوپر امن و ایمان، سلامتی و اسلام اور اپنی رضامندی،نیز شیطان سے پناہ کے ساتھ داخل فرما۔

پس نیا سال ہو یا نیا مہینہ یا نیا دن ایک مومن ہمیشہ اللہ کے فضل کا طالب ہوتا ہے۔اللہ کے فضلوں کو جذب کرنے کے تمام طریق قرآن کریم اور انسان کامل ﷺ کے ذریعہ ہمیں سکھا دیئے گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : وَالۡمُؤۡمِنُوۡنَ وَالۡمُؤۡمِنٰتُ بَعۡضُہُمۡ اَوۡلِیَآءُ بَعۡضٍ ۘ یَاۡمُرُوۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَیَنۡہَوۡنَ عَنِ الۡمُنۡکَرِ وَیُقِیۡمُوۡنَ الصَّلٰوۃَ وَیُؤۡتُوۡنَ الزَّکٰوۃَ وَیُطِیۡعُوۡنَ اللّٰہَ وَرَسُوۡلَہٗ ؕ اُولٰٓئِکَ سَیَرۡحَمُہُمُ اللّٰہُ ؕ اِنَّ اللّٰہَ عَزِیۡزٌ حَکِیۡمٌ

(التوبہ:71)

مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے دوست ہیں وہ اچھی باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بری باتوں سے روکتے ہیں اور نماز کو قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں۔ یہی ہیں جن پر اللہ ضرور رحم کرے گا۔ یقیناً اللہ کامل غلبہ والا (اور) بہت حکمت والا ہے۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اس آیت کی تفسیر میں بیان فرماتے ہیں:
’’اس آیت میں، جیسا کہ ترجمہ سے سب نے سن لیا، مومن مردوں اور مومن عورتوں کی صفات کا ذکر کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ خوبصورت نشانیاں یا صفات جس گر وہ یا جماعت میں پیدا ہو جائیں وہ حقیقی ایمان لانے والوں اور ایمان لانے والیوں کی جماعت ہے۔ جیسا کہ ہم نے دیکھا اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں مومنین کی جماعت کی سات خصوصیات بیان فرمائی ہیں۔ پہلی خصوصیت یہ کہ ایک دوسرے کے دوست ہوتے ہیں۔ ایسے محبت کرنے والے ہوتے ہیں جو ہر وقت ایک دوسرے کی مدد پر کمر بستہ ہوں۔ دوسری بات یہ بیان فرمائی کہ وہ اچھی باتوں کا حکم دیتے ہیں، نیکیوں کا پرچار کرنے والے ہیں۔ جہاں وہ اپنے لئے اللہ تعالیٰ سے خیر چاہتے ہیں، دوسروں کے لئے بھی خیر چاہنے والے ہیں اور چاہتے ہیں کہ نیکیاں قائم کرکے اور پیار اور محبت قائم کرکے ایک ایسی جماعت بنا دیں جو اللہ تعالیٰ کے احکامات پر سچے دل سے عمل کرنے والی ہو۔

تیسری بات یہ بیان فرمائی کہ بری باتوں سے روکتے ہیں۔ ہر ایسی بات جس کے کرنے سے اللہ تعالیٰ کے احکامات کی نفی ہوتی ہے اس سے روکتے ہیں۔ ظالم اور مظلوم دونوں کی مدد کرنے والے ہیں۔ ظالم کو ظلم سے روکنے والے ہیں اور مظلوم کی دادرسی اور مدد کے لئے ہر وقت تیار رہتے ہیں۔ اس کے لئے اگر قربانی بھی کرنی پڑے تو اس سے بھی دریغ نہیں کرتے تاکہ امن، سلامتی، محبت پیار اور بھائی چارے کی فضا قائم ہو۔

اور چوتھی بات یہ بیان فرمائی کہ نماز قائم کرتے ہیں۔ نماز جو کہ دین کا ستون ہے جس کے بارے میں حکم ہے کہ اس کا خاص خیال رکھو ورنہ مومن ہونے کا دعویٰ بے معنی ہے۔۔۔پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے نماز کو سنوار کر پڑھنا، وقت پر پڑھنا، جماعت کے ساتھ پڑھنا، یہ ایک مومن کی خصوصیات ہیں اور ہونی چاہئیں۔۔۔ ہمیشہ یاد رکھو کہ مومن مردوں اور مومن عورتوں کی یہ خصوصیات اس خدا نے بیان کی ہیں جو بہت حکمت والا اور کامل غلبہ والا ہے۔ پس اس حکیم اور عزیز خدا سے تعلق جوڑ کر اور اس کے حکموں پر عمل کرکے ہمارے اندر بھی حکمت اور دانائی پیدا ہو گی تبھی ہمارے اندر اس حکمت کی وجہ سے جو خداتعالیٰ اور اس کے رسول کے احکامات پر عمل کرنے سے پیدا ہوئی یا ہو گی، جماعتی مضبوطی، انصاف اور عدل قائم ہو گا۔ اس حکمت کی وجہ سے من حیث الجماعت ہمارے اندر سے جہالت کا خاتمہ ہو گا اور ہم عقل اور حکمت سے چلتے ہوئے جہاں اپنے آپ کو مضبوط کرتے چلے جائیں گے، آپس میں محبت اور بھائی چارے کو بڑھانے والے بنیں گے، وہاں اس پُر حکمت پیغام کو، اُس پیغام کو جو خدائے واحدویگانہ کا فہم و ادراک حاصل کروانے والا پیغام ہے، اس پیغام کو جسے اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے آنحضرتﷺ کے عاشق صادق اور امام الزمان کو دنیا میں ہر بشر تک پہنچانے کے لئے بھیجا ہے اس مسیح و مہدی کی غلامی میں دنیا میں اس پیغام کو ہم پھیلانے والے بنیں گے اور پھر نتیجتاً اس غلبہ کو دیکھنے والے بنیں گے جس کا اللہ تعالیٰ نے اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے وعدہ فرمایا ہے۔ اپنے اندر یہ خصوصیات پیدا کرکے ہم اُن انعامات کے وارث بنیں گے جن کا خداتعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے وعدہ فرمایا ہے۔‘‘

(خطبہ جمعہ 9؍نومبر 2007ء)

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جہاں انسان کے بودوباش میں روزبروز جدت آرہی ہے وہاں طرح طرح کے رسم و رواج، مختلف کلچرز اور تمدن میں نئے نئے تہوار جنم لے رہے ہیں جن کی نقل کرنے والے جہاں اخلاقی حدود و قیود سے عاری ہورہے ہیں وہاں ان بد رسومات کی وجہ سے اپنے پیدا کرنے والے اور اپنے مذہب سے بھی کوسوں دور جارہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنی کتاب ہدایت میں فرماتا ہے:

وَلَا تُؤۡمِنُوۡۤا اِلَّا لِمَنۡ تَبِعَ دِیۡنَکُمۡ ؕ قُلۡ اِنَّ الۡہُدٰی ہُدَی اللّٰہِ ۙ اَنۡ یُّؤۡتٰۤی اَحَدٌ مِّثۡلَ مَاۤ اُوۡتِیۡتُمۡ اَوۡ یُحَآجُّوۡکُمۡ عِنۡدَ رَبِّکُمۡ ؕ قُلۡ اِنَّ الۡفَضۡلَ بِیَدِ اللّٰہِ ۚ یُؤۡتِیۡہِ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَاللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیۡمٌ

(النساء:74)

اور کسی کی بات پر ایمان نہ لاؤ سوائے اس کے جو تمہارے دین کی پیروی کرے۔ تُو کہہ دے کہ یقیناً ہدایت تو اللہ ہی کی ہدایت ہے۔ یہ (ضروری نہیں) کہ کسی کو وہی کچھ دیا جائے جیسا تمہیں دیا گیا یا (اگر نہ دیا جائے تو گویا اُن کا حق ہوجائے گا کہ) وہ تمہارے ربّ کے حضور تم سے جھگڑا کریں۔ تُو کہہ دے یقیناً فضل اللہ کے ہاتھ میں ہے وہ اسے جس کو چاہتا ہے دیتا ہے اور اللہ بہت وسعت بخشنے والا (اور) دائمی علم رکھنے والا ہے۔

یَّخۡتَصُّ بِرَحۡمَتِہٖ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَاللّٰہُ ذُو الۡفَضۡلِ الۡعَظِیۡمِ

(اٰل عمرٰن:75)

وہ اپنی رحمت کے لئے جس کو چاہے خاص کر لیتا ہے اور اللہ بہت بڑے فضل والا ہے۔

اللہ تعالیٰ کےاپنے بندوں پر بے شمار احسانات ہیں جن کا شمار ممکن نہیں۔اللہ کے احکامات کی بجا آوری کے نتیجے میں اس کی طرف سے ہونے والے فضلوں کو انسان سمیٹ نہیں سکتا۔ جب بندۂ مومن خدا کے فضلوں کی موسلادھار بارش اپنے اور اپنے اہل خانہ پر دیکھتا ہے تو شکر گذاری کے طور پر پہلے سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس کے ذکر اور شکر میں مشغول ہوجاتا ہے تب اس کا مالک حقیقی وَاِذۡ تَاَذَّنَ رَبُّکُمۡ لَئِنۡ شَکَرۡتُمۡ لَاَزِیۡدَنَّکُمۡ (ابراہیم:8)اور جب تمہارے ربّ نے یہ اعلان کیا کہ اگر تم شکر ادا کرو گے تو میں ضرور تمہیں بڑھاؤں گا۔ کےمصداق اُسے مزیدنوازتا ہے اور اس طرح خدا تعالیٰ کے افضال کا ایک لا متناہی سلسلہ ایسے مومنوں کے لیے شروع ہو جاتا ہے۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ‘‘اگر تم خدا کے ہو جاؤ گے تو یقیناً سمجھو کہ خدا تمہارا ہی ہے تم سوئے ہوئے ہوگے اور خدا تعالیٰ تمہارے لئے جاگے گا تم دشمن سے غافل ہوگے اور خدا اُسے دیکھے گا اور اس کے منصوبے کو توڑے گا تم ابھی تک نہیں جانتے کہ تمہارے خدا میں کیا کیا قدرتیں ہیں۔‘‘

(کشتی نوح، روحانی خزائن جلد19 صفحہ22)

اللہ تعالیٰ کی معرفت، گناہوں سے نجات، نیکیوں کی توفیق اور دعا کے معیار کے بارے میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:
’’اصل حقیقت یہ ہے کہ کوئی انسان نہ تو واقعی طور پر گناہ سے نجات پا سکتا ہے اور نہ سچے طور پر خدا سے محبت کر سکتا ہے اور نہ جیسا کہ حق ہے اس سے ڈر سکتا ہے جب تک کہ اُسی کے فضل اور کرم سے اُس کی معرفت حاصل نہ ہو اور اس سے طاقت نہ ملے اور یہ بات نہایت ہی ظاہر ہے کہ ہر ایک خوف اور محبت معرفت سے ہی حاصل ہوتی ہے۔ دنیا کی تمام چیزیں جن سے انسان دل لگاتا ہے اور اُن سے محبت کرتا ہے یا اُن سے ڈرتا ہے اور دُور بھاگتا ہے۔ یہ سب حالات انسان کے دل کے اندر معرفت کے بعد ہی پیدا ہوتے ہیں۔ ہاں یہ سچ ہے کہ معرفت حاصل نہیں ہو سکتی جب تک خدا تعالیٰ کا فضل نہ ہو اور نہ مفید ہو سکتی ہے جب تک خدا تعالیٰ کا فضل نہ ہو اور فضل کے ذریعہ سے معرفت آتی ہے۔ تب معرفت کے ذریعہ سے حق بینی اور حق جوئی کا ایک دروازہ کھلتا ہےاور پھر بار بار دَورفضل سے ہی وہ دروازہ کھلا رہتا ہے اور بندنہیں ہوتا۔ غرض معرفت فضل کے ذریعہ سے حاصل ہوتی ہے اور پھر فضل کے ذریعہ سے ہی باقی رہتی ہے۔ فضل معرفت کو نہایت مصفّیٰ اور روشن کر دیتا ہے اور حجابوں کو درمیان سے اٹھا دیتا ہے اور نفس امّارہ کے لئے گردوغبار کو دور کر دیتا ہے اور رُوح کو قوت اور زندگی بخشتا ہے اور نفسِ امّارہ کو امارگی کے زندان سے نکالتا ہے اور بدخواہشوں کی پلیدی سے پاک کرتا ہے اور نفسانی جذبات کے تُند سیلاب سے باہر لاتا ہے۔ تب انسان میں ایک تبدیلی پیدا ہوتی ہے اور وہ بھی گندی زندگی سے طبعاً بیزار ہو جاتا ہے کہ بعد اس کے پہلی حرکت جو فضل کے ذریعہ سے رُوح میں پیدا ہوتی ہے وہ دعا ہے۔ یہ خیال مت کرو کہ ہم بھی ہر روز دعا کرتے ہیں اور تمام نماز دُعا ہی ہے جو ہم پڑھتے ہیں۔ کیونکہ وہ دعا جو معرفت کے بعد اور فضل کے ذریعہ سے پیدا ہوتی ہے وہ اور رنگ اور کیفیت رکھتی ہے۔ وہ فنا کرنے والی چیز ہے۔ وہ گداز کرنے والی آگ ہےوہ رحمت کو کھینچنے والی ایک مقناطیسی کشش ہے۔ وہ موت ہے پر آخر کو زندہ کرتی ہے۔ وہ ایک تند سیل ہے پر آخر کو کشتی بن جاتی ہے۔ہر ایک بگڑی ہوئی بات اس سے بن جاتی ہے اور ہر ایک زہر آخر اس سے تریاق ہو جاتا ہے۔‘‘

(لیکچر سیالکوٹ، روحانی خزائن جلد20صفحہ221-222)

ایک اور موقع پر فرمایا: ’’مَیں سچ سچ کہتا ہوں کہ انسان کا تقویٰ، ایمان، عبادت، طہارت سب کچھ آسمان سے آتا ہے اور یہ خدا تعالیٰ کے فضل پر موقوف ہے وہ چاہے تو اس کو قائم رکھے اور چاہے تو دُور کردے۔‘‘

(ملفوظات جلد4صفحہ 213-214)

آج کی مادہ پرست دنیا میں جہاں ہر طرف نفسا نفسی کا عالم ہےآفات، شدائدو مصائب، بےحیائیاں اور برائیاں ایک خوفناک اژدھے کی طرح منہ کھولے کھڑی ہیں۔اسلام کے اس دور آخرین میں اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہم اور ہماری آئندہ آنے والی نسلیں اللہ کے فضل کو جذب کرتے ہوئے اس کے سائے تلے پروان چڑھیں اور اپنے ہر دن کو مبارک اور ہرشب کو خیر کا باعث بنانے والی ہوں تو پھر مسیح محمدیؐ کے ساتھ اور آپ کے خلفائے عظام کی بیعت اور اطاعت میں رہتے ہوئے زندگیاں گزارنی ہوں گی۔

حضور علیہ السلام اس بارے میں مزید فرماتے ہیں :
’’اس وقت بھی چونکہ دنیا میں فسق و فجور بہت بڑھ گیا ہے اور خدا شناسی اور خدا رسی کی راہیں نظر نہیں آتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس سلسلہ کو قائم کیا ہے اور محض اپنے فضل و کرم سے اس نے مجھ کو مبعوث کیا ہے تا مَیں ان لوگوں کو جواللہ تعالیٰ سے غافل اور بے خبر ہیں اس کی اطلاع دوں اور نہ صرف اطلاع بلکہ جو صدق اور صبر اور وفاداری کے ساتھ اس طرف آئیں انہیں خدا تعالیٰ کو دکھلادوں۔‘‘

(ملفوظات جلد3صفحہ 5)

اسی طرح آپؑ فرماتے ہیں :’’خدا سے ڈرتے رہو اور تقویٰ اختیار کرو اور مخلوق کی پرستش نہ کرو اور اپنے مولیٰ کی طرف منقطع ہو جاؤ اور دنیا سے دل برداشتہ رہو اور اُسی کے ہو جاؤ اور اسی کے لئے زندگی بسر کرو اور اس کے لئے ہر ایک ناپاکی اور گناہ سے نفرت کرو کیونکہ وہ پاک ہے چاہئے کہ ہر ایک صبح تمہارے لئے گواہی دے کہ تم نے تقویٰ سے رات بسر کی اور ہر ایک شام تمہارے لئے گواہی دے کہ تم نے ڈرتے ڈرتے دن بسر کیا۔ دنیا کی لعنتوں سے مت ڈرو کہ وہ دھوئیں کی طرح دیکھتے دیکھتے غائب ہو جاتی ہیں اور وہ دن کو رات نہیں کر سکتیں بلکہ تم خدا کی لعنت سے ڈرو جو آسمان سے نازل ہوتی اور جس پر پڑتی ہے اس کی دونوں جہانوں میں بیخ کنی کر جاتی ہے تم ریاکاری کے ساتھ اپنے تئیں بچا نہیں سکتے کیونکہ وہ خدا جو تمہارا خدا ہے اس کی انسان کے پاتال تک نظر ہے کیا تم اس کو دھوکا دے سکتے ہو پس تم سیدھے ہو جاؤ اور صاف ہو جاؤ اور پاک ہو جاؤ اور کھرے ہو جاؤ اگر ایک ذرہ تیرگی تم میں باقی ہے تو وہ تمہاری ساری روشنی کو دور کر دے گی اور اگر تمہارے کسی پہلو میں تکبر ہے یا ریا ہے یا خود پسندی ہے یا کسل ہے تو تم ایسی چیز نہیں ہو کہ جو قبول کے لائق ہو ایسا نہ ہو کہ تم صرف چند باتوں کو لے کر اپنے تئیں دھوکہ دو کہ جو کچھ ہم نے کرنا تھا کر لیا ہے کیونکہ خدا چاہتا ہے کہ تمہاری ہستی پر پورا پورا انقلاب آوے اور وہ تم سے ایک موت مانگتا ہے جس کے بعد وہ تمہیں زندہ کرےگا۔‘‘

(کشتی نوح، روحانی خزائن جلد19 صفحہ12)

امیر المؤمنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزخطبہ جمعہ 30؍ دسمبر2016ء میں فرماتے ہیں:
’’ہم احمدی خوش قسمت ہیں کہ جنہیں اللہ تعالیٰ نے مسیح موعود اور مہدی معہود کو ماننے کی توفیق عطا فرمائی جنہوں نے ہمارے سامنے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی تعلیم کا نچوڑ یا خلاصہ نکال کر رکھ دیا اور ہمیں کہا کہ تم اس معیار کو سامنے رکھو تو تمہیں پتا چلے گا کہ تم نے اپنی زندگی کے مقصد کو پورا کیا ہے یا پورا کرنے کی کوشش کی ہے یا نہیں؟ اس معیار کو سامنے رکھو گے تو صحیح مومن بن سکتے ہو۔ یہ شرائط ہیں ان پہ چلو گے تو صحیح طور پر اپنے ایمان کو پرکھ سکتے ہو۔ ہر احمدی سے آپ نے عہد بیعت لیا اور اس عہد بیعت میں شرائط بیعت ہمارے سامنے رکھ کر لائحہ عمل ہمیں دے دیا جس پر عمل اور اس عمل کا ہر روز ہر ہفتے ہر مہینے اور ہر سال ایک جائزہ لینے کی ہر احمدی سے امید اور توقع بھی کی۔

پس ہم سال کی آخری رات اور نئے سال کا آغاز اگر جائزے اور دعا سے کریں گے تو اپنی عاقبت سنوارنے والے ہوں گے اور اگر ہم بھی ظاہری مبارکبادوں اور دنیاداری کی باتوں سے نئے سال کا آغاز کریں گے تو ہم نے کھویا تو بہت کچھ اور پایا کچھ نہیں یا بہت تھوڑا پایا۔ اگر کمزوریاں رہ گئی ہیں اور ہمارا جائزہ ہمیں تسلی نہیں دلا رہا تو ہمیں یہ دعا کرنی چاہئے کہ ہمارا آنے والا سال گزشتہ سال کی طرح روحانی کمزوری دکھانے والا سال نہ ہو۔ بلکہ ہمارا ہر قدم اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے اٹھنے والا قدم ہو۔ ہمارا ہر دن اُسوہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر چلنے والا دن ہو۔ ہمارے دن اور رات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے عہد بیعت نبھانے کی طرف لے جانے والے ہوں۔ وہ عہد جو ہم سے یہ سوال کرتا ہے کہ کیا ہم نے شرک نہ کرنے کے عہد کو پورا کیا۔ بتوں اور سورج چاند کو پوجنے کا شرک نہیں بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق وہ شرک جو اعمال میں ریاء اور دکھاوے کا شرک ہے۔ وہ شرک جو مخفی خواہشات میں مبتلا ہونے کا شرک ہے۔‘‘

(مسند احمد بن حنبل جلد4 صفحہ800-801۔ حدیث محمود بن لبید حدیث نمبر24036۔ عالم الکتب بیروت 1998ء)

(روز نامہ الفضل آن لائن 6؍جنوری 2017ء)

اللہ کرے کہ ہر نیا آنے والا سال جہاں ہمارے لیے اُس کے فضلوں کے در کھولے وہیں ہمیں کامیابیوں اور کامرانیوں سے نوازتے ہوئے کامیاب مومن بنادے۔ آمین۔ قَدۡ اَفۡلَحَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ۔الَّذِیۡنَ ھمۡ فِیۡ صَلَاتِہِمۡ خٰشِعُوۡنَ۔وَالَّذِیۡنَ ہھمۡ عَنِ اللَّغۡوِ مُعۡرِضُوۡنَ۔ وَالَّذِیۡنَ ہُمۡ لِاَمٰنٰتِہِمۡ وَعَہۡدِہِمۡ رٰعُوۡنَ۔وَالَّذِیۡنَ ھُمۡ عَلٰی صَلَوٰتِہِمۡ یُحَافِظُوۡنَ۔

(المؤمنون:10,9,4,3,2)

یقیناًمومن کامیاب ہوگئے۔وہ جو اپنی نماز میں عاجزی کرنے والے ہیں۔اور وہ جو لغو سے اِعراض کرنے والے ہیں۔اور وہ لوگ جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد کی نگرانی کرنے والے ہیں۔اور وہ لوگ جو اپنی نمازوں پر محافظ بنے رہتے ہیں۔

(بشریٰ نذیر آفتاب۔سسکاٹون، کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 8 مارچ 2023

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ