کوئی بارش وہ برسا مولا پھر موسم سارے چمک اٹھیں
پھر لوگ مبارک بادیں دیں پھر سجده گاہیں دمک اٹھیں
کیا بھول ہوئی انسانوں سے ہم عرض کریں یہ رو رو کر
اب معاف بھی کر تقصیروں کو ہم تھکے جنازے ڈهو ڈھو کر
اک بات کھٹکتی ہے سائیں کچھ لوگ خدا بن بیٹھے تھے
کچھ دشت بگولوں کے ذرے خود کیا سے کیا بن بیٹھے
اک نادیده سے مچھر نے اوقات کرا دی یاد ہمیں کیا
منظر تھے کیا موسم تھے ہر بات کرا دی یاد ہمیں
اب تنہائی میں یاد آیا ہم بھولے تھے اوقات سائیں
پر جانے دے ہم چاکر ہیں کر پیار کی پھر برسات سائیں
ہم لوگ فقير ترے در کے تو مالک ہے ستار بھی ہے
تو پالن ہار ہمارا ہے تو مرشد بھی غفار بھی ہے
کوئی بارش وہ برسا مولا پھر موسم سارے چمک اٹھیں
پھر لوگ مبارک بادیں دیں پھر سجدہ گاہیں دمک اٹھیں
(مبارک صدیقی۔یوکے)