• 26 اپریل, 2024

محترم منیر احمد فرخ، سابق امیر جماعت اِسلام آباد

محترم منیر احمد فرٖ خ سابق امیر جماعت اسلام آباد مورخہ 9 مارچ 2021 پاکستانی وقت کے مطابق تقریبا ًصبح 5:30 بجے کینیڈا میں وفات پا گئے ہیں۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون

محترم منیر احمد فرخ صاحب کو جماعت احمدیہ اسلام آباد کا پانچواں امیر ہونے کا اعزاز حال ہے ۔اس سے پہلے آپ نے نائب امیر اور بعض دیگر جماعتی عہدوں پر اہم خدمات دین بجالانے کی توفیق پائی۔ آپ 2 مئی 2013 کو علالت کے باعث حضور انور کی اجازت کے بعدبغرض علاج کینیڈا روانہ ہوگئے اور تا دم وفات وہاں ہی مقیم ہو کر رہ گئے ۔

آپ کے خاندان میں احمدیت آپ کے دادا حضرت منشی احمد بخش صاحب میاں وال مولیاں ضلع جالندھر (انڈیا) رفیق حضرت مسیح موعودؑ کے ذریعے آئی تھی جو پیشہ کے لحاظ سے پٹواری تھے۔ جنہوں نے1903میں قادیان جاکر بیعت کی سعادت پائی ۔

والد محترم ڈاکٹر چوہدری عبدالاحد صاحب نے ایگریکلچر میں ایم ایس سی کیا اور پھر ڈاکٹر یٹ (پی ایچ ڈی) کی ڈگری حاصل کی۔ تقسیم ہند سے پہلے کسی مسلمان کے لئے پی ایچ ڈی کرنابہت غیر معمولی بات تھی بعد میں آپ امیر جماعت لائل پور (موجودہ فیصل آباد) بھی رہے۔ 1944میں سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓنے احمدی نوجوانوں کو زندگی وقف کی تحریک فرمائی تو انہی نوجوانوں میں ڈاکٹر چوہدری عبدالاحد صاحب بھی شامل تھے۔ آپ اعلیٰ سرکاری ملازمت چھوڑ کر قادیان آگئے حضور نے انہیں ڈائریکٹر فضل عمر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ مقرر فرمایا۔ اس کے ساتھ ہی تعلیم الاسلام کالج میں بطور سائنس لیکچرار تعیناتی ہوئی۔ تقسیم ہند کے بعد بھی اسی ادارہ سے منسلک رہے 1975میں 64 سال کی عمر میں وفات پائی ۔

محترم احمد فرخ صاحب کے نانا محترم منشی الیاس الدین صاحب صدر جماعت بہلولپور ضلع لائل پور تھے۔ آپ کی والدہ کا نام امینہ بیگم صاحبہ تھا جو بطور سیکرٹری مال لجنہ اماء اللہ حلقہ ماڈل ٹا ؤن لمبا عرصہ کام کرتی رہیں اور 1984 میں اسلام آباد میں وفات پائی ۔بہشتی مقبرہ ربوہ میں تدفین ہوئی۔ محترم منیر احمد فرخ صاحب کی اہلیہ امتہ السبوح صاحبہ ہیں جو حضرت حاجی مستری محمد موسیٰ صاحب آف نیلہ گنبد لاہور رفیق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پوتی ہیں۔ آپ کو نائب صدر لجنہ اماءاللہ ضلع اسلام آباد خدمت کی توفیق ملی اور اپنے میاں کے ساتھ مئی 2013ء میں کینیڈا شفٹ ہو گیئں۔

آپ کے ایک بیٹے مکرم مبشر احمد فرخ صاحب کو گذشتہ 9 سال سے قائد مجلس خدام الاحمدیہ ضلع اسلام آباد خدمت کی توفیق ملی رہی ہے جبکہ ایک بیٹا اور دو بیٹیاں کینیڈا میں ہی رہائش پذیر ہیں۔ منیر احمد فرخ صاحب 1937کو لائل پور (موجودہ) فیصل آباد میں پیدا ہوئے۔ 1953میں ٹی آئی ہائی سکول چنیوٹ حال ربوہ سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ لاہور سے انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی۔نجی کمپنیوں اور پاک آرمی میں ملازمت کے بعد 1966 میں پی ٹی سی ایل میں باقاعدہ سروس کا آغاز کیا۔ ملک کے بیشتر شہروں میں خدمات سر انجام دیں۔ 1977 میں ڈائر یکٹر جنرل پاکستان ٹیلی کمیو نیکیشنز لمیٹڈ کے اعلیٰ عہدہ سے ریٹائرڈ ہوئے اور اسلام آباد میں مستقل رہائش اختیار کر لی۔ 1974 کے پر آشوب دور میں راولپنڈی کے قائد مجلس رہے۔ صدر حلقہ ، سیکرٹری نصرت جہاں سکیم، سیکرٹری جائیداد، سیکرٹری سمعی بصری، قائد ضلع اسلام آباد، نائب امیر کی حیثیت سے خدماتِ سلسلہ بجا لائیں اور 3 اپریل 1999 کو آپ نے بطور امیر ضلع و شہر کی باقاعدہ ذمہ داری سنبھالی۔ جو تقریبا 14 سال رہی۔ ان کے دور امارت میں ضلع اسلام آباد کی جماعت نے جو ترقی کی وہ قا بل رشک ہے اور ہمیشہ یا د رکھی جائےگی۔

خاکسار نے دفتر کے ایک کلرک کی حیثیت سے محترم منیر احمد فرخ صاحب کے زیر سایہ تقریبا ً14 سال کام کیا ہے اور ان کے بہت ہی قریب رہنے کی توفیق ملی۔اپنی امارت کے دوران آپ نے بیت الذکر کمپلیکس کی تعمیر کا آغاز کیا اور تقریباً 13سالوں میں بیت الذکر کا نقشہ ہی بدل دیا۔ بیت الذکر میں موجود تمام سہولتوں کے ساتھ، دفاتر، مربی ہاؤس، سٹاف کوارٹر، لائبریری، ڈسپنسری، واش رومز کے علاوہ لجنہ اماء اللہ کے لیے ہالزاور ان میں لجنہ کے دفاتر، چلڈرن ایریا شامل ہیں، اس ساری تعمیر کے دوران دن رات نگرانی کرنے کے لئے آپ بیت الذکر چکر لگاتے۔ چونکہ بڑی مشینوں اور ٹرکوں کے کام کی اسلام آبادمیں صرف رات کو ہی اجازت ہے، اس لئے بیت الذکر میں کھدائی رات کو ہی ہوتی تو آپ رات کو آکر معائنہ فرماتے۔

2005 میں پاکستان کے شدید زلزلہ کے بعد پورے پاکستان سے راشن اور دیگر سامان کے لئے بیت الذکر اسلام آباد کو بیس کیمپ بنایا گیا تھا اور پو رے پا کستان سے راشن اور دیگر امدادی سامان پہلے اسلام آباد آتا پھر اس کی تقسیم کے لئے آگے زلزلہ سے متاثرہ علاقہ جات کو بھجوایا جاتا۔ ان ہنگامی حالات میں آپ نے دن رات ایک کیا اور سامان کی ترسیل میں مرکز کی ہر ممکن معاونت کی۔

جب بھی آپ دستخط کرتے تو فرماتے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث فرمایا کرتے تھے ہر دستخط کرنے سے پہلے بسم اللہ پڑھ لیا کرو تو برکت پڑتی ہے۔

خلیفۂ وقت سے محبت دیدنی تھی۔ چھوٹےسے چھوٹا کام کرنے سے پہلے حضور انور کی خدمت میں خط لکھتے خاص کر تعمیر کے دوران ہفتہ وار رپورٹ دیتے اور دعا کی درخواست کرتے۔

اپنی بیماری کے دوران جب بھی خلیفۃ المسیح کو خط لکھواتے تو بار بار بعض لفظ کٹواتے کہ یہ خلیفۂ وقت کے شایان شان نہیں اور ڈرافٹنگ کرواتے تو اکثر روپڑتے۔

خدا پر توکل کمال کا تھا۔ اگر آپ نے ارادہ کر لیا ہے کوئی تعمیر کاکام کرنا ہے یا جماعت کی ترقی کے لئے قدم اٹھانا ہے تو مجلس عاملہ مخالفت بھی کرتی کہ اتنے پیسے کہاں سے آئیں گے تو آپ فرماتے مجھے خدا پر پکا یقین ہے کہ وہ یہ کام مکمل کرنے میں میری مدد کرے گا اور کام ہو جائے گا۔ کام کی تکمیل کے بعد بعض لوگ جو مخالفت کرتے تھے خوش ہو کر اپنےبچوں یا عزیز و اقارب کوجو دیگر شہروں یا ملکوں سے آتے تھےتو انہیں بیت الذکر کا کام دکھانے لاتے اور اپنے بچوں اور عزیزوں کو مالی معاونت کی تحریک کرتے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ پرتوکل کی وجہ سے خداہر کام میں آسانیاں پیدا کرتا رہا۔

جماعت کے مستقبل کی ضروریات کو سامنے رکھ کر اس کی پلاننگ کرتے اور مختلف سیکٹر زمیں پلاٹ اور کھلی جگہ خریدنے کی کوشش کرتے۔ تعمیر اور زمین کی خریداری کے سارے مرحلوں میں جماعت کے بہت سے لوگوں سے عطیہ کے علاوہ قرض لیا گیا جو کروڑوں روپے کا تھا لیکن آپ نے اپنی امارت کے دوران ہی سارا قرض بھی واپس کر دیا۔

آپ خود بھی وقف زندگی تھے بعد از ریٹائرمنٹ آپ نے زندگی وقف کی تھی۔ مربیان اور واقف زندگی کا بہت خیال رکھنے کو کہتے، فرماتے کہ انہوں نے زندگیاں خدا کے لیے وقف کی ہوئی ہیں انکا خیال رکھنا ہمارا فرض ہے۔

کارکنان سے بہت محبت سے پیش آتے ۔ انکی ہر ضرورت کا خیال رکھتے۔ ان کے دور میں گو ہم چند ہی کارکن تھے مگر آپ نے جماعت اسلام آباد کے کارکنان کے لئے باقا عدہ پالیسی بنائی۔ جس پر من و عن عمل کروایا۔
گو دل کے بہت ہی حلیم تھے مگر انتظامی معاملات میں بہت سخت تھے۔فرماتے ایک تو کام کرنے والے کا رکن ہیں۔ جنہوں نے کام کرنا ہی کرنا ہے۔ کمال تویہ ہے کہ جو کام نہ کرتے ہوں ان سے محبت اور پیار سے کام لیں ۔ اسی طرح اگر کبھی کارکنان میں اکٹھے کام کرنے کی وجہ سے کوئی ناچاقی ہو جاتی تو بلا کر دونوں فریقوں کی باتیں سنتے یہ کبھی بھی نہ کہتے کہ فلاں کا قصور ہے بلکہ یہ کہتے کہ آپ دونوں میں غلط فہمی پیدا ہوگئی ہے۔ چلو گلے ملو۔

ایک دفعہ خاکسار کو ڈانٹا ۔بعد میں جب انہیں پتہ چلا کہ خاکسار کا اس میں کو ئی قصور نہیں تو دوسرے دن آکر خاکسار کی ایسی دلجوئی کی جیسے معافی مانگ رہے ہوں اور خاکسار بار بار کہتا امیر صاحب آپ نے ٹھیک ڈانٹا ہے مگر وہ کہتے ،نہیں ، مجھے پتہ ہے۔

مذاق بھی بہت زیادہ تھا۔ دفتر میں چائے کے وقفہ کے دوران موجود لوگوں سے فرماتے ۔ کوئی لطائف وغیرہ سنایا کرو۔ بالکل خاموش نہ بیٹھا کرو، چائے گپ کے لئے ہوتی ہے نہ کہ سوگ کے لئے۔

بچوں سے بہت پیارے کرتے تھے، ہر وقت آپ کے دفتر کے دراز میں چاکلیٹ اور ٹافیاں بھری ہوئی ہوتی تھیں۔ بالخصوص میرے بچوں جن کی رہائش بیت الذکر میں ہی تھی دفتر ضرور بلاتے۔ اگر میں بچوں کو منع کرتا کہ روز دفتر جانا اچھا نہیں لگتا تو آپ ناراض ہوتے کہ بچوں کو کیوں منع کیا ہے۔

اللہ تعالیٰ انہیں کروٹ کروٹ جنت عطا فرمائے اور ہمیں آپ کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے۔ آمین

(ابو رُستگار)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 8 اپریل 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 9 اپریل 2021