• 3 مئی, 2024

بچوں کو بھی قرآن کریم پڑھنے کی عادت ڈالیں

بچوں کو بھی قرآن کریم پڑھنے کی عادت ڈالیں اور خود بھی پڑھیں۔ ہر گھر سے تلاوت کی آواز آنی چاہئے۔ پھر ترجمہ پڑھنے کی کوشش بھی کریں۔ اور سب ذیلی تنظیموں کو اس سلسلے میں کوشش کرنی چاہئے، خاص طور پر انصاراللہ کو کیونکہ میرے خیال میں خلافت ثالثہ کے دور میں ان کے ذمے یہ کام لگایا گیا تھا۔ اسی لئے ان کے ہاں ایک قیادت بھی اس کے لئے ہے جوتعلیم القرآن کہلاتی ہے۔ اگر انصار پوری توجہ دیں تو ہر گھر میں باقاعدہ قرآن کریم پڑھنے اور اس کو سمجھنے کی کلاسیں لگ سکتی ہیں۔ ایک روایت میں آتا ہے، حضرت ابو موسیٰ ؓ سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو مومن قرآن کریم پڑھتا ہے اور اس پر عمل کرتا ہے اس کی مثال ایک ایسے پھل کی طرح ہے جس کا مزہ بھی عمدہ اور خوشبو بھی عمدہ ہوتی ہے۔ اور وہ مومن جو قرآن نہیں پڑھتا مگر اس پر عمل کرتا ہے اس کی مثال اس کھجور کی طرح ہے کہ اس کا مزہ تو عمدہ ہے مگر اس کی خوشبو کوئی نہیں۔ اور ایسے منافق کی مثال جو قرآن پڑھتا ہے اس خوشبو دار پودے کی طرح ہے جس کی خوشبو تو عمدہ ہے مگر مزاکڑوا ہے۔ اور ایسے منافق کی مثال جو قرآن نہیں پڑھتا ایسے کڑوے پھل کی طرح ہے جس کا مزا بھی کڑوا ہے جس کی خوشبو بھی کڑوی ہے۔

(بخاری کتاب فضائل القرآن باب اثم من رأی بقراۃ القرآن او تأکل بہ، او فجر بہ)

اس حدیث سے قرآن کریم کی مزید وضاحت یہ ہوتی ہے کہ نہ صرف تلاوت ضروری ہے بلکہ اس کو سمجھ کر اس پر عمل کرنابھی ضروری ہے۔ جو قرآن کریم پڑھتے بھی ہیں اور اس پر غور بھی کرتے ہیں اور اس پر عمل بھی کرتے ہیں وہ ایسے خوشبودار پھل کی طرح ہیں جس کا مزا بھی اچھا ہے اور جس کی خوشبو بھی اچھی ہے۔ کیسی خوبصورت مثال ہے۔ کہ ایسا پھل جس کا مزا بھی اچھا ہے جب انسان کوئی مزیدار چیز کھاتا ہے تو پھر دوبارہ کھانے کی بھی خواہش ہوتی ہے۔ تو قرآن کریم کو جو اس طرح پڑھے گا کہ اس کو سمجھ آ رہی ہو گی اس کو سمجھنے سے ایک قسم کا مزا بھی آ رہا ہو گا اور جب اس پر عمل کر رہاہو گا تو اس کی خوشبو بھی ہر طرف پھیلا رہا ہو گا۔ اس کے احکام کی خوبصورتی ہر ایک کو ایسے شخص میں نظر آ رہی ہو گی۔

پس ایسے لوگ ہی ہوتے ہیں جو تقویٰ میں ترقی کرنے والے اور راہ ہدایت پانے والے ہوتے ہیں۔ ان کے گھر کے ماحول بھی جنت نظیر ہوتے ہیں۔ ان کے باہر کے ماحول بھی پرسکون ہوتے ہیں۔ وہ بیوی بچوں کے حقوق بھی ادا کر رہے ہوتے ہیں۔ وہ ماں باپ کے حقوق بھی ادا کر رہے ہوتے ہیں۔ وہ صلہ رحمی کے بھی اعلیٰ معیار قائم کر رہے ہوتے ہیں۔ وہ ہمسایوں کے بھی حقوق ادا کر رہے ہوتے ہیں۔ وہ اپنے دنیاوی کاموں کے بھی حق ادا کر رہے ہوتے ہیں اور وہ جماعتی خدمات کو بھی ایک انعام سمجھ کر اس کی ادائیگی میں اپنے اوقات صرف کر رہے ہوتے ہیں۔ اور سب سے بڑھ کر وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والے، رحمان کے بندے ہوتے ہیں۔ ان کے بچے بھی ایسے باپوں کو ماڈل سمجھ رہے ہوتے ہیں اور ان کی بیویاں بھی ان سے خوش ہوتی ہیں اور پھر ایسی بیویاں ایسے خاوندوں کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کرتی ہیں، اپنے عملوں کو بھی ان کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرتی ہیں اور اس طرح ایسے لوگ بغیر کچھ کہے بھی خاموشی سے ہی ایک اچھے راعی، ایک اچھے نگران کا نمونہ بھی قائم کر رہے ہوتے ہیں۔ ان کا ہمسایہ بھی ان کی تعریف کے گیت گا رہا ہوتا ہے اور ان کا ماحول اور معاشرہ بھی ایسے لوگوں کی خوبیاں گنوا رہا ہوتا ہے۔ ان کا افسر بھی ایسے شخص کی فرض شناسی کے قصے سنا رہا ہوتا ہے اور اس کا ماتحت بھی ایسے اعلیٰ اخلاق کے افسر کے گن گا رہا ہوتا ہے اور اس کے لئے قربانی دینے کے لئے بھی تیار ہوتا ہے۔ اور اس کے دوست اور ساتھی بھی اس کی دوستی میں فخر محسوس کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ خوبیاں ہیں جو قرآن پڑھ کر اس پر عمل کرکے ایک مومن حاصل کر سکتا ہے۔ بلکہ اور بھی بہت ساری خوبیاں ہیں۔ یہاں تو میں ساری گنوا نہیں سکتا۔ تو جس کو یہ سب کچھ مل جائے وہ کس طرح سوچ سکتا ہے کہ وہ قرآن کریم پڑھ کر اس پر عمل نہ کرے جب عمل کرنے کے بعد یہ سب کچھ حاصل ہو رہا ہے۔ اور پھر جو دوسری مثال اس میں دی کہ جو اتنی نیکی رکھتا ہے گو وہ باقاعدہ گھر میں تلاوت تو نہیں کر رہا ہوتا، ترجمہ پڑھنے والا تو نہیں ہے، اس پر غور کرنے والا تو نہیں ہے لیکن جب بھی جمعہ پر آتا ہے، درسوں پر آتا ہے، نیک لوگوں کی صحبت میں بیٹھتا ہے، وہاں قرآن کریم کی کوئی ہدایت کی بات سن لیتا ہے تو پھر اس پر عمل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ تو وہ اس کا مزا تو نہیں لیتا جو قرآن کریم کو پڑھنے، سمجھنے اور غور کرنے سے حاصل ہوسکتا ہے لیکن اپنے اندر تبدیلیاں پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اس سے بھی وہ کچھ نہ کچھ حصہ لے رہاہوتا ہے۔

اس مثال میں جس طرح بیان کیا گیا ایسے لوگ ہیں جو دنیا کے دکھاوے کے لئے قرآن کریم پڑھتے ہیں تو قرآن کریم کی خوشبو اس کو پڑھنے کی وجہ سے ماحول میں قائم ہو گی۔ کوئی نیک فطرت اس سے فائدہ اٹھا لے گا۔ لیکن وہ شخص جو دکھاوے کی خاطر یہ سب کچھ کر رہاہے اس شخص کو اس کا پڑھنا کوئی مٹھاس، کوئی خوشبو میسر نہیں کر سکتی۔ کوئی فائدہ اس کو نہیں پہنچے گا۔ اور پھر وہ شخص جو نہ قرآن پڑھتا ہے اور نہ اس پر عمل کرتا ہے، اس میں تو فرمایا کہ ایسی منافقت بھر گئی ہے کہ جس میں نہ خوشبو ہے اور نہ مزاہے۔ نہ وہ خود فیض پا سکتا ہے اور نہ ہی کوئی دوسر ااس سے فیض پا سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو ایسا بننے سے محفوظ رکھے۔

(خطبہ جمعہ فرمودہ 24 ستمبر 2004ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

درخواست دعا

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 9 مئی 2022