• 25 اکتوبر, 2024

آج کی دعا

رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِی الدُّنۡیَا حَسَنَۃً وَّفِی الۡاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ

(البقرہ: 202)

ترجمہ: اے ہمارے ربّ! ہمیں دنیا میں بھى حَسَنہ عطا کر اور آخرت میں بھى حَسَنہ عطا کر اور ہمىں آگ کے عذاب سے بچا۔

یہ قرآن مجید کی بہت پیاری دعا ہے جس میں دنیا وآخرت کی حسنات کے عطا کئے جانے اور آگ کے عذاب سے بچائے جانے کے لئے خدا تعالیٰ کے حضور التجا ہے۔

حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مسلمان کی عیادت فرمائی جوبیماری کے باعث کمزور ہوتے ہوئے بہت دبلا پتلا ہو گیا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے مخاطب کرکے فرمایا کیا تم کوئی خاص دعا کرتے ہو اس نے جواب دیا ہاں۔ پھر اس نے بتایا کہ مَیں یہ دعا کرتا ہوں کہ اے اللہ! جو سزا تو مجھے آخرت میں دینے والا ہے وہ مجھے اس دنیا میں دے دے۔ یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سُبْحَانَ اللّٰہِ! تم اس کی طاقت نہیں رکھتے کہ خدا کی سزا اس دنیا میں حاصل کرو۔ تم یہ دعا کیوں نہیں کرتے کہ

رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِی الدُّنۡیَا حَسَنَۃً وَّفِی الۡاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ

کہ اے اللہ! تو ہمیں اس دنیا میں بھی بھلائی عطا فرما اور آخرت میں بھی بھلائی عطا فرما اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔ راوی کہتے ہیں کہ جب اس بیمار نے یہ دعا کی تو اللہ کے فضل سے شفایاب ہو گئے۔

(مسلم کتاب الذکر والدعاء، باب کراھۃ الدعاء بتعجیل العقوبۃ فی الدنیا، حدیث:6835)

ہمارے بہت پیارے آقا سیّدنا حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایَّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے خطبہ جمعہ 29ستمبر 2006ء میں بھی جماعت کو اس دعا کی تحریک فرمائی ہے۔ اس دعا کی وضاحت کرتے ہوئے پیارے آقا فرماتے ہیں
اس دنیا میں بھی جو انسان کے ساتھ متفرق قسم کے مسائل لگے ہوئے ہیں بعض دفعہ وہ دل کو بے چین کر دیتے ہیں۔ جب انسان ان مسائل میں الجھا ہوتا ہے، بعض لوگ یوں سمجھتے ہیں کہ اس آگ میں جل رہے ہیں۔ لوگ بڑے پریشانی کے خطوط بھی لکھتے ہیں۔ پس یہ دعا اگر صحیح معنوں میں کی جائے گی توشرک سے بچاتے ہوئے آخرت کے عذاب سے بھی بچا رہی ہو گی۔ کیونکہ جب دعا کرنے والا خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کے آگے جھک رہا ہو گا اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرنے کی دعا مانگتے ہوئے اس دنیا کی پریشانیوں کی آگ سے اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کررہا ہو گا تو اللہ تعالیٰ پھر فضل فرماتا ہے۔ پس یہ بڑی جامع دعا ہے اور جس طرح پہلی دعا جو مَیں نے شروع میں پڑھی تھی۔ جس کے متعلق مَیں نے کہا تھا کہ درود شریف کے ساتھ عموماً وہی دعا لکھی ہوتی ہے۔ دعائیں اور بھی پڑھی جا سکتی ہیں۔ لیکن پہلی دعا کی طرح یہ دعا بھی نماز میں پڑھی جاتی ہے اور عام طورپر یہ دونوں دعائیں ہی جماعت کی کتابوں میں لکھی ہوئی ہیں جو مَیں نے شروع میں اور آخر پر پڑھیں۔ اس لئے احمدی اس کو زیادہ پڑھتے ہیں۔ اس لئے ہر قسم کی آگ سے بچنے کے لئے اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا وارث بننے کے لئے عبادت بڑی ضروری ہے جس کی شکل اللہ تعالیٰ نے ہمیں پہلی دُعا میں قیام نماز بتائی۔

(خطبہ جمعہ فرمودہ 29 ستمبر 2006ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 20 اکتوبر 2006ء صفحہ8)

(مرسلہ:مریم رحمٰن)

پچھلا پڑھیں

درخواست دعا

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 9 مئی 2022