خلافت روحِ انساں کی طبیعت کو بدلتی ہے
یہ روحوں کو ہے گرماتی یبوست کو بدلتی ہے
بچا کے خشک سالی سے سدا شاداب کرتی ہے
بھری رت سے یہ مؤمن کی زراعت کو بدلتی ہے
گناہ کے زہرِ قاتل کا عجب تریاق بے پایاں
مرض دل کے فنا کر کے عفونت کو بدلتی ہے
بہا کے علم وعرفاں کے خزینے مؤمنوں پر یہ
بڑی حکمت سے ان کی سب فراست کو بدلتی ہے
صدا میں اس کی یکسر عجب تاثیرِ قدسی ہے
پڑے جس دل پہ اس کی سب قساوت کو بدلتی ہے
خلوصِ دل سے اس حبلِ خداسے جُڑ کے دیکھو تو
یقیناً ہر بشر کو اور جمیعت کو بدلتی ہے
سکھائے عاجزی ہر پل کرے اخلاق میں محکم
خلافت مؤمنوں کی ہر طریقت کو بدلتی ہے
بتائےمعرفت کے گُر کرے نور یقیں سے پُر
دمِ عیسیٰ سے شیطانی کدورت کو بدلتی ہے
خدا کے اذن سے اس کی دعا مقبول ہوتی ہے
مٹا دیتی ہے مایوسی صعوبت کو بدلتی ہے
خلافت ظلمتوں میں روشنی کی لَو جلاتی ہے
عطا کرتی بصیرت ہے بصارت کو بدلتی ہے
ڈھا پائیں نہ شیطاں بھی جو تعمیرِ حصینِ روح
سِرے سے قلب و جاں کی وہ عمارت کو بدلتی ہے
بڑے فضل و کرم سے اب یہ نعمت پھر ملی ہم کو
بکھیرے گل محبت کے جو نفرت کو بدلتی ہے
خلوصِ دل سے طاعت میں جھکائے سر کھڑا نایکؔ
خلافت کی قدم بوسی ہزیمت کو بدلتی ہے
(سلیق احمد نایکؔ۔ قادیان)