• 19 اپریل, 2024

قادیان کی یادیں

حضرت مولوی عزیز دین ولد شیخ رکن الدین پٹی ضلع لاہور کے باشندہ تھے۔ 1888ء میں آپ کو حضرت اقدس علیہ السلام کی زیارت کی توفیق اور 1892ء میں بیعت کی سعادت حاصل ہوئی۔آپ کی مندرجہ ذیل روایت رجسٹر رفقاء نمبر11سے لی گئی ہے۔

1888ء۔1889ء میں میں بگیانہ تحصیل چونیاں میں مدرس ہو کر آیا۔ اس جگہ اکثر لوگ موحد تھے۔ ان دنوں میں انہوں نے شور ڈالا کہ قادیان میں ایک مرزا ہو گیا ہے اور وہ غیب کی خبریں بتاتا ہے اور اپنے آپ کو مجدد کہتا ہے۔ اور بہت لوگ اس کے معتقد ہو گئے ہیں میں نے کہا کہ میں ہمیشہ دسمبر کی تعطیلات میں اپنے رشتہ داروں کی طرف جو خاص بٹالہ کے گرد و نواح میں ہیں جاتا ہوں اب مجھ کو اس بات کی صدیق(تصدیق) کے واسطے یہ بات سمجھ میں آئی ہے کہ دیکھا جاوے کہ یہ کیا معاملہ ہے میں نے رات کو خواب میں دیکھا کہ میں مکہ کے حج کو چلا ہوںاورمکہ پہنچ کر مکانات دیکھے ہیں۔ صبح اٹھ کر میں نے سوچا کہ میں ضرور قادیان کو جا کر دیکھوں گا کہ یہ کیا معاملہ ہے پھر میں دسمبر کی تعطیلات میں آگیا۔ 88ء یا 89ء میں اس وقت سے لے کر آج دسمبر 1938ء تک برابر دسمبر کے آخری عشرہ میں قادیان آتا رہا ہوں۔ آج تک ایک ناغہ بھی نہیں کیا۔ اس وقت میری عمر 81 برس کی ہے۔

خیر میں قادیان آیا اور آکر ڈھاب اور مکان اور بازار اور یکوں کا اڈا دیکھا اور جب حضرت مسیح موعودؑ کے مکانات دیکھے تو فوراً میرے دل میں آیا کہ یہ باتیں تو میں نے مکہ میں خواب میں دیکھی تھیں۔ یہ جگہ ضرور متبرک معلوم ہوتی ہے پھر میں حضرت مسیح موعودؑ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ چاربجے شام کا وقت تھا۔ السلام علیکم کہا اور مصافحہ کیا جب آپ کا چہرہ مبارک دیکھا تو میں نے فوراً اپنے دل میں سوچ لیا کہ یہ شخص جھوٹ بولنے والا نہیں ہے اور جو کچھ کہتا ہے سب سچ ہے۔ رات رہا اور صبح ان کے ساتھ باہر سیر کے واسطےمسجد نور کے پاس سے بوہڑ تک گیا۔ چھ سات آدمی اور بھی تھے حضورؑ مسئلے مسائل کا حل بتاتے گئے چار چار قدم چل کر ٹھہر جاتے تھے گرد بھی پانچ سات آدمیوں کی پڑتی جائے۔ پانچ چھ دن یہی حال رہا۔ ایک دن اس بوہڑ کے نیچے کھڑے ہو کر حضورؑ نے فرمایا کہ ’’میں اس جگہ بڑے بڑے محل اور مکانات دیکھتا ہوں اور کئی سیٹھ بڑے بڑے پیٹ والے جواہرات اور موتی آگے رکھے ہوئے بازاروں میں اپنی دکانوں پر بیٹھے ہوئے ہیں اور یہ شہر بیاس تک معلوم ہوتا ہے۔‘‘ پھر وہاں سے واپس آگئے۔ دوسرے دن میں اجازت لے کر واپس چلا گیا۔

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک آدمی نے آکر کہا کہ فلاں شخص جو روٹیاں پکاتا ہے۔ نانبائی۔ یہ روٹیاں چرا لیتا ہے۔ حضورؑ نے دوسری طرف منہ کر لیا اس نے سمجھا۔ شاید حضورؑ نے سنا نہیں۔ چنانچہ اس نے بھی دوسری طرف سے ہو کر کہا۔ کہ حضور یہ روٹیاں چرا لیتا ہے۔ حضرت صاحب نے پھر منہ دوسری طرف پھیر لیا۔ تیسری دفعہ اس نے پھر کہا تو حضورؑ فرمانے لگے۔ میں نے سن لیا ہے آپ کوئی ایسا نانبائی لائیں جو روٹیاں نہ چرائے۔ ذرا خیال تو کرو کہ جو نانبائی ایک روٹی کے واسطے دو دفعہ دوزخ میں غوطہ لگاتا ہے اگر دو چار روٹیاں لے جاوے تو کیا حرج ہے وہ آدمی خاموش ہو گیا۔

ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سےحضرت مفتی محمد صادقؓ نے جو اس وقت لاہور میں ملازم تھے۔ صبح کے وقت جانے کی اجازت مانگی۔ حضورؑ نے فرمایا آپ نہ جائیں۔ آج یہاں رہیں۔ پھر مفتی صاحب نے دوپہر کے وقت عرض کی کہ حضور نوکری کا کام ہے آج پہنچنا ضروری تھا۔ اب تو وقت بھی گزر گیا ہے حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا وقت کی کوئی فکر نہ کریں آپ ابھی چلے جائیں انشاء اللہ ضرور پہنچ جائیں گے۔

مفتی صاحب بٹالہ کی طرف روانہ ہو گئے اور میں بھی ان کے ساتھ بٹالہ چلا وقت چار بجے کا ہو گیا۔ ان ایام میں بٹالہ سے لاہور کو دو بجے گاڑی جاتی تھی مایوس تو سبھی تھے مگر جب سٹیشن پر پہنچے تو معلوم ہوا کہ گاڑی دو گھنٹے لیٹ ہے چنانچہ وہ گاڑی آئی اور ہم سوار ہو کر لاہور کی طرف روانہ ہو گئے یہ جلسہ کے ایام کی بات نہیں بلکہ کوئی اور وقت تھا۔

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ حضورؑ نے بیعت کا اعلان کر دیا تھا۔ میں بٹالہ جو آیا۔ تو مولوی محمد حسین بازار میں قصاب کی دکان پر گوشت لے رہا تھا۔ مجھے دیکھ کر بہت خوش ہوا۔ اور ایک پاؤ بھر گوشت اور بھی لے لیا۔جا کرنمازیں پڑھیں شام کے بعد کہنے لگا کہ آپ کہاں جائیں گے۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ مولوی محمد حسین پر مجھ کو بڑا اعتقاد تھا۔ جب یہ ہماری طرف جایا کرتے تھے تو میں ان کی بڑی خدمت کیا کرتا تھا۔ ان کے لئے گھی کے ٹین مہیا کر کے دیا کرتا تھا۔ اور ہمارے علاقہ کا چوہدری ماجھی خان چونکہ ایک بہت بڑا رئیس تھا وہ مولوی صاحب کی بہت ہی خدمت کیا کرتا تھا۔ میں نے کہا کہ قادیان جاؤں گا کہنے لگا خبردار۔ بالکل ہرگز وہاں نہ جانا۔ وہاں تو ایک دکانداری بنی ہوئی ہے۔ میں نے کہا۔خواہ دکانداری بنی ہوئی ہے لیکن میں نے ضرور جانا ہے۔ آپ کوئی فکر نہ کریں کہنے لگا۔ اگر تم جاؤ گے تو بیعت میں شامل نہ ہو جانا کیونکہ اس میںبہت نقصان ہے میں نے کہا بہت اچھا مگر میں جاتا ضرور ہوں کہنے لگا کوئی چیز نہ کھانا میں نے کہا۔ بہت اچھا۔ دو روٹیاں مجھ کو پراٹھے پکا دیویں اور میں وہاں اگر دو دن یا ایک دن بھی رہوں تو انہیں پر گزارہ کر لوں گا۔ انہوں نے اور گوشت منگوایا اور قیمہ وغیرہ کر کے دو پراٹھے بہت عمدہ پکا کر ان میں قیمہ رکھ دیا۔ رات بھر مجھے بہت تبلیغ کرتے رہے کہ آپ نہ جائیں مگر چونکہ میں نے نہ مانا۔ اس لئے سویرے روٹی کھا کر چل پڑا۔ بوچڑ خانے تک جو سڑک پر واقع ہے میرے ساتھ آئے اور کہتے رہے کہ آنکھ میں آنکھ نہ ملانا۔ میںنے کہا میں آنکھ نیچے رکھوں گا۔ لیکن پھر میں نے کہا اگر اس بات میں وہ کامیاب ہو جاتے ہیں تو یہ ایک معجزہ ہے کہنے لگا کہ ان باتوں کو چھوڑ دو۔ مگر تم خبردار رہنا۔ آخر السلام علیکم کہہ کر واپس ہوئے اور میں وہاں سے چل پڑا۔ جب نہر پر پہنچا تو مجھے بھوک لگی میں نے ایک پراٹھاکھا لیا۔ باقی باندھ لیا جب قادیان میں پہنچا اور حضورؑ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ تو یہ سارا ماجرا بیان کیا۔ آپ ہنسں پڑے اور مسکرا کر فرمایا۔ کہ اچھا کچھ بات نہیں۔ اس وقت حضرت صاحب کئی دفعہ مسجد میں ہی کھانا منگوایا کرتے تھے۔ میں نے بھی کھانا کھایا۔

دوسرے دن میں نے بیعت کر لی۔ کیونکہ میرا دل رہ نہ سکا۔ پھر دو چار دن کے بعد میں واپس ہو کر شام کے وقت مولوی محمدحسین سے جا ملا۔ انہوں نے کہا سناؤ۔ کیا بات ہے میں نے کہا کہ مولوی صاحب میں جھوٹ نہیں بولتا۔ میں نے تو بیعت کر لی ہے کہنے لگے یہ تو تم نے اپنی جان پر ظلم کیا۔ میں نے کہا کہ مولوی عبداللہ صاحب غزنوی کی بھی لوگ بیعت کرتے ہیں۔ ان کو تو کسی نے منع نہیں کیا اور لکھو کے والے حافظ صاحب ہیں ان کی بھی لوگ بیعت کرتے ہیں اور مرید ہیں آخر حرج کیا ہے کہ مرزا صاحب کی بیعت کر لی جائے۔ کہنے لگا کہ میں اب فتوے کا انتظام کر رہا ہوں۔ چنانچہ ایک دن مولوی محمد حسین مسجد چینیاں والی لاہور میں گیا اور وہاں سے بھی فتوے پر دستخط کروائے۔ جب لکھوکے میں گیا تو وہاں حافظ محمد صاحب تھے۔ ان سے کہا کہ آپ بھی اس فتوے پر دستخط کر دیں۔ وہ کہنے لگا کہ تم تو جوان ہو اور میں بوڑھا۔ قبر میں پاؤں لٹکائے ہوئے ہیں مجھ کو توبہ کرنے کا موقع نہیں ملے گا اس لئے میں دستخط نہیں کرتا۔ وہاں سے مایوس ہو کر آگیا اور کسی کو نہ بتایا۔جتنی دفعہ مجھے حضرت مسیح موعودؑ سے آکر ملاقات کا موقع ملا ہے قریباً پچاس ساٹھ یا ستر دفعہ کا واقعہ ہو گا۔ آتے ہی حضرت مسیح موعودؑ کے پاس اپنی پگڑی اُتار کر رکھ دیتا تھا۔اور حضرت صاحب کے دونوں ہاتھوں کو اپنے سر پر ملتا تھا اور جب تک میں ہاتھ نہیں چھوڑتا تھا۔ حضرت صاحب نے کبھی ہاتھ کھینچنے کی کوشش نہیں کی اس کا نتیجہ یہ ہے کہ میری عمر اکیاسی سال کی ہے میں کبھی بیمار نہیں ہوا۔ البتہ ایک دو چوٹیں معمولی سی لگی ہیں قادیان میں ہی۔

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 8 جون 2020

اگلا پڑھیں

Covid-19 عالمی اپڈیٹ 9 جون 2020ء