• 27 اپریل, 2024

آسٹریلیا کا منفرد جانور۔کینگرو

کینگروایک ایسا انوکھا اور منفرد قسم کا جانور ہے جوصرف آسٹریلیا میں پایا جاتا ہے۔ اس لحاظ سے یہ آسٹریلیا کی پہچان ہے اور اس ملک کے سرکاری طغرے (Coat of Arms) میں اس کی تصویر بھی شامل ہے۔

کینگرو ایک سبزی خور،جگالی کرنےوالا جانور ہے۔ اس کی کئی اقسام پائی جاتی ہیں۔ یہ مختلف جسامت اوررنگوں کا ہوتاہے۔ اس کے نام کی وجہ تسمیہ یہ بتائی جاتی ہے کہ قدیمی آسٹریلین ایبوریجنی باشندے اسے اپنی زبان میں ’’گنگرو‘‘ (Gungurru) کہتے ہیں جو انگریزی میں بگڑکر Kangaroo بن گیا۔

کینگروکی سب سے بڑی نسل سرخ کینگرو کہلاتی ہے ۔ اس کا وزن 90 کلو تک، اونچائی ایک اعشاریہ آٹھ میٹر تک اور منہ سے دُم تک لمبائی 9 فٹ تک ہوسکتی ہے۔ ان کی اوسط عمر 23 برس تک ہوتی ہے۔

کینگرو کی ایک نسبتاً چھوٹی نسل ’والابی‘ (Wallabies) کہلاتی ہے۔ ایک اورچھوٹی نسل شجری کینگرو (Tree Kangaroo) کہلاتی ہے کیونکہ یہ درختوں پہ باآسانی چڑھ جاتی ہے بلکہ زیادہ تر وقت درختوں پر ہی گزارتی ہے۔ اس کے جسم اور دُم پر گھنے بال ہوتے ہیں۔ یہ کینگرو ایک درخت سے دوسرے درخت تک 20 فٹ تک کی چھلانگ لگا لیتے ہیں۔اسی طرح 60 فٹ کی بلندی سے چھلانگ لگاکربراہ راست زمین پراترسکتے ہیں۔ اس نسل کے کینگرو ہمسایہ ملک نیوگنی میں بھی دریافت ہوئے ہیں۔

کینگرو کی ایک اور قسم بہت ہی ننھی منی ہوتی ہے ۔اس نسل سے تعلق رکھنے والے ’’چوہا کینگرو‘‘ (Rat Kangaroo) کہلاتے ہیں کیونکہ یہ ایک عام چوہے کے سائزکے ہوتے ہیں۔ اس نسل کے معدوم ہونے کا خطرہ پیدا ہوچکا ہے کیونکہ گوشت خور جانور اور پرندے انہیں باآسانی شکارکرلیتے ہیں۔ یہ بھی سپرنگ کی طرح پچھلی 2ٹانگوں پر اُچھل اُچھل کر چلتے ہیں۔

آسٹریلیا میں کھدائی کے دوران ایسے معدوم نسل کے کینگروؤں کے ڈھانچے بھی ملے ہیں جو دیو ہیکل قدوقامت کے حامل ہوتے تھے اور لاکھوں برس پہلے یہاں ان کی بہتات ہُواکرتی تھی۔

کینگروکی اگلی ٹانگیں چھوٹی جبکہ پچھلی بہت بڑی اورطاقتورہوتی ہیں۔ اس کی دُم بھی لمبی اور نہایت طاقتورہوتی ہے جو اسےچھلانگیں لگانے نیز حملہ آور ہوتےوقت اس کا سارا وزن سہارنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ کینگرو کو زمین پہ نقل وحرکت کرنے کے لیئے پچھلی دونوں ٹانگوں پر چھلانگیں لگانا پڑتی ہیں۔ بڑے سائز کے کینگروکی ایک چھلانگ بسا اوقات 8 میٹرلمبی اور پونے دو میٹر اونچی ہو سکتی ہے۔اس بنا پر یہ قریباً 60 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے دوڑنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

کینگروپانی میں تیرنا بھی جانتے ہیں اوراس مقصدکے لئے یہ اپنی پچھلی دونوں ٹانگیں باری باری چلاتے ہیں جبکہ زمین پر چھلانگیں لگانے کے لئے دونوں ٹانگوں کوبیک وقت استعمال کرتے ہیں۔

کینگرو عموماً فیملی بنا کر رہتے ہیں۔ ایک خاندان متعددمادہ کینگروؤں اور ان کے بچوں پر مشتمل ہوتا ہے، اوران کاسربراہ ایک نر کینگرو ہوتاہے۔سربراہ کینگرو اپنے خاندان میں کسی دوسرے نر کینگرو کو شامل ہونے نہیں دیتا اور کوئی دخل در اندازی کرتا ہے تو ’کِک باکسنگ‘ (Kick Boxing) کی طرح مارمارکر بھاگ جانے پر مجبورکردیتا ہے۔اس لڑائی میں وہ اگلی ٹانگوں کے نوکیلے پنجوں کو بھی خوب استعمال میں لاتاہے۔

ان کی کِک باکسنگ کا شکار بسا اوقات ان کے قریب آنے والے انسان بھی ہوجاتے ہیں اور کئی تو پیٹ کے اعضا پھٹ جانے کے نتیجے میں جاں بحق بھی ہوجاتے ہیں۔ کیونکہ یہ اچھل کر اپنی پچھلی دونوں ٹانگیں بڑے زور سے مدمقابل کے پیٹ میں مارتے ہیں۔اس لئے بظاہر معصوم نظرآنے والے ان جانوروں سے فاصلے پہ کھڑا ہونے میں ہی عافیت ہوتی ہے۔ پارکوں، چڑیاگھروں وغیرہ میں انہیں جنگلے کے پیچھے ہی رکھا جاتا ہے۔

کینگرو دودھیل جانورہے۔ مادہ کینگرو کو قدرت نے پیٹ کے آگے ایک تھیلی بنا کردی ہوئی ہے جس کے اندر وہ اپنے بچے کودودھ پلاتی،پالتی پوستی بھی ہے اور اسی میں لے کرچلتی پھرتی بھی ہے۔

واضح رہے کہ کینگرو کا بچہ محض ایک ماہ کے حمل کے بعد پیدا ہوجاتا ہےجبکہ اس کی آنکھیں ابھی نہیں بنی ہوتیں لیکن باوجوداندھا ہونے اور محض ایک یا ڈیڑھ انچ کی جسامت رکھنے کے، پیدائش کے معاً بعد ماں کے بالوں میں سےرینگتا ہوااس تھیلی کے اندر پہنچ جاتا ہے،جہاں نہ صرف دودھ کا انتظام موجود ہوتاہےبلکہ حرارت اورتحفظ کا بندوبست بھی۔ کینگروکے بچے خاصے بڑے ہونے تک ماں کے ساتھ اسی تھیلی کے اندررہتے ہیں۔خود چلنے پھرنے اورکھانے پینے کی عُمر (تقریباً 4ماہ) کو پہنچنے پرچھلانگ مارکرباہر نکل آتے ہیں، اور تھکاوٹ یا نیند کا شکار ہوں یا خطرہ دیکھیں تو فَٹ سے تھیلی کے اندر چلےجاتے ہیں۔ 10 ماہ کا ہو جانے کے بعد وہ تھیلی سے باہر مکمل طورپر آزادانہ زندگی گزارنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔

مقامی ایبوریجنی باشندے صدیوں سے کینگرو کا گوشت کھاتے اور اس کی کھالوں کوسترپوشی، بستر وغیرہ کے طورپر استعمال میں لاتے رہے ہیں۔یہ لوگ کینگرو کی دُم کو خاص اہمیت دیتے ہیں۔ اور اسے جسمانی طاقت اور بحالی صحت کے لئے انتہائی مفید سمجھتے ہیں۔ ایک دوسرے کو کنگروکی دُم بطورتحفہ بھی دیتے ہیں جو بہت قیمتی اور قابلِ قدرتحفہ سمجھاجاتا ہے۔

آسٹریلیا کی سپرمارکیٹ اور گوشت کی دکانوں میں کینگرو کا گوشت بھی عام دستیاب ہوتا ہے جس میں چربی کی مقدار نہ ہونے کے برابر، جبکہ عمدہ پروٹین اور فولاد وافرمقدار میں موجود ہوتی ہے۔

کینگروکی کھالوں سے فَروالے کوٹ، قالین، جوتے، کرکٹ کی گیندیں اور دیگر بہت ساری مصنوعات تیارہوتی ہیں۔


(ڈاکٹر طارق احمد مرزا۔آسٹریلیا)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 8 جون 2020

اگلا پڑھیں

Covid-19 عالمی اپڈیٹ 9 جون 2020ء