• 26 اپریل, 2024

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام یوںفرماتے۔کثرت سےدرود شریف پڑھا کرواور کثرت سے استغفار کیا کرو۔ (رجسٹر روایات)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔
حضرت میاں امیرالدین صاحب احمدی گجراتی بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ مَیں نے اپنے قرضدار ہونے کی شکایت حضرت صاحب کے پاس کی۔ آپ نے فرمایا کہ کثرت سے درود شریف پڑھا کرو۔ اب وہ بہت سارے لوگ جو اپنے مسائل کے بارہ میں لکھتے ہیں، معاشی مسائل کے بارے میں لکھتے ہیں، اُن کو عموماً حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام یہی بتاتے تھے کہ پانچ نمازیں پڑھا کرو اور درود شریف پڑھا کرو۔ فرمایا کہ کثرت سے درود شریف پڑھا کرو اور کثرت سے استغفار کیا کرو۔ بس یہی میرا وظیفہ تھا کہ مجھ کو مولیٰ کریم نے برکت دی اور قرض سے پاک ہو گیا۔ اور جب مَیں قادیان میں آتا تھا تو چھوٹی مسجد میں جو اس وقت بڑی ہو چکی تھی (یعنی مسجد مبارک) جبکہ چھ آدمی صف میں اُس میں کھڑے ہوتے تھے۔ اوقاتِ نماز میں اُس مسجد میں مَیں کھڑکی کے آگے بیٹھ رہتا تھا۔ (اُس کھڑکی سے جہاں سے حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوۃ والسلام تشریف لاتے تھے۔) اس غرض سے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس میں سے آتے تھے تو جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نماز کے لئے تشریف لاتے تو مَیں فوراً کھڑا ہو جاتا اور نماز میں آپ کے بائیں بازو کے ساتھ کھڑا ہوتا اور یہ وہ وقت تھا جبکہ ساتھ ہی کا کمرہ جو مسجد کے ساتھ ہے اُس میں حضرت صاحب اور چند مہمان جو اُس وقت ہوا کرتے تھے جو پانچ سے زائدنہ ہوتے تھے، اس کمرے میں آپ چاول یا کھانا اپنے ہاتھ سے خود کھلاتے تھے۔ تمام پیشگوئیاں میرے سامنے پوری ہوئیں اور مَیں اُن کا گواہ ہوں۔

(مأخوذ ازروایات حضرت میاں امیر الدین صاحبؓ احمدی گجراتی رجسٹر روایات غیر مطبوعہ جلد3 صفحہ189)

کہتے ہیں پھر مَیں یہ بھی ایک موقعہ عرض کئے دیتا ہوں کہ جب طاعون کے متعلق جلسہ ہوا ہے تو مَیں بھی اُس میں شریک تھا اور وہ ’’بوہڑ‘‘ جو قادیان سے مشرق کی طرف جھیل کے کنارے پر ہے اُس کے نیچے جا کر جلسہ ہوا تھا اور آپ نے اس بوہڑ کے نیچے کھڑے ہو کر تقریر فرمائی تھی۔ میرے قیاس میں اس وقت جلسے میں شریک ہونے والے آدمی قریباً تین چار سو تھے، کمی و بیشی وَاللّٰہُ اَعْلَم۔ پھر اس کے بعد مَیں نے جماعت کو بڑھتے ہوئے دیکھا اور وہ وقت آ گیا کہ جب جلسہ دسمبر کے مہینے میں قائم کیاگیا تو بہت خلقت آنے لگی۔

(مأخوذ ازروایات حضرت میاں امیر الدین صاحبؓ احمدی گجراتی رجسٹر روایات غیر مطبوعہ جلد3 صفحہ191)

ایک دن شام کے وقت کھانا کھلانے کے واسطے یہ تجویز تھی کہ حضرت صاحب نے حکم دیا ہوا تھا اور اس مکان پر جو کہ چھتی ہوئی گلی کے مغرب کی طرف ہے وہاں کھلایا گیا، اور اس وقت ایک ضلع کے آدمیوں کو بند کر کے کھانا کھلاتے تھے، اُس وقت گوجرانوالہ کے آدمی کھا رہے تھے اور دروازہ بند تھا۔ مَیں بھوک سے تنگ آ کر اُس جگہ گیا، مجھے داخل نہ کیا گیا۔ مَیں واپس آ کر بھوکا سو رہا۔ رات کو حضرت صاحب کو الہام ہوا۔ (انہوں نے جو لکھا ہے۔ یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ اَطْعِمِ الْقَانِعَ وَالْمُعْتَرَّ۔ تذکرہ میں جو الہام ہے اور دوسری روایات میں بھی یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ اَطْعِمُوْاالْجَائِعَ وَالْمُعْتَرَّ ہے۔ کہ اے نبی! بھوکوں اور محتاجوں کو کھانا کھلا۔ پھر صبح حضرت صاحب نے دریافت فرمایا کہ کھانے کی کیا تجویز ہو رہی ہے۔ تو عرض کیا گیا کہ ایک ضلع کے آدمیوں کو بلا کر دوسرے کو بلاتے ہیں۔ میرے سامنے حضرت صاحب نے یہ فرمایا کہ ’’دروازے کھول دو، جو آئے اُس کو کھانے دو‘‘۔

(مأخوذ ازروایات حضرت میاں امیر الدین صاحبؓ احمدی گجراتی رجسٹر روایات غیر مطبوعہ جلد3 صفحہ191، 192)

حکیم عبدالصمد صاحب بھی اپنی روایت بیان کرتے ہیں اُس میں بھی اس کا کچھ حصہ آ جائے گا جو عبدالغنی صاحب دہلی کے بیٹے تھے۔ کہتے ہیں کہ مَیں 1907ء میں قادیان میں حاضر ہوا۔ عصر کے بعد کھانا کھانے کے لئے جب ہم لنگر خانہ میں جانے لگے تو کچھ لوگ دروازے میں کھڑے تھے۔ مَیں بھی وہیں کھڑا ہو گیا۔ دروازہ کھلنے پر لوگوں نے اندر جانا چاہا۔ ایک لڑکے نے اُن کو دھکے دے کر دروازہ بند کر دیا۔ وہ لوگ بہت شرمندہ اور نادم ہو کر واپس چلے گئے۔ مَیں پھر تھوڑی دیر کے بعد واپس گیا تو دروازہ کھلا ہوا تھا۔ صبح کی نماز کے بعد معلوم ہوا کہ حضرت صاحب تشریف لائے ہیں۔ مَیں مسجد مبارک کے پرانے زینہ کے پاس کھڑا ہو گیا۔ اوپر سے حضرت صاحب تشریف لے آئے۔ بہت سا مجمع تھا۔ حضرت صاحب نے فرمایا کہ کل کوئی قصہ ہوا ہے یا فرمایا کوئی جھگڑا ہوا ہے۔ مجھے صحیح الفاظ یاد نہیں۔ حضرت خلیفہ اولؓ نے عرض کیا کہ مجھ کو معلوم ہوا تھا کہ منتظمین کی غلطی تھی، بعض معزز آدمی اندر جانا چاہتے تھے، ایک لڑکے نے دھکا دے کر لنگر کا دروازہ بند کر دیا۔ وہ معزز لوگ تھے وہ ناراض ہو کر اپنی اپنی جگہ پر چلے گئے۔ پھر ان کو کھانا بھیجا گیا۔ بعض نے کھا لیا مگر بعض نے نہیں کھایا۔ اس پر حضرت صاحب نے فرمایا کہ جن لوگوں کی غلطی سے یہ حرکت ہوئی ہے اُن کو شرم کرنی چاہئے اور وہ لوگ بڑے خوش قسمت ہیں جن کی چیخ و پکار کی آواز آسمان پر سنی گئی۔ اس کے بعد فرمایا کہ آج رات اللہ تعالیٰ نے ہم کو ایسے الفاظ سے مخاطب کیا ہے کہ اس سے پہلے کبھی نہیں کیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرماتا ہے۔ یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ اَطْعِمُوْا الْجَائِعَ وَالْمُعْتَرَّ۔ کہ اے نبی! تو بھوکوں اور بیقراروں کو کھانا کھلا۔ حضرت صاحب نے یہ بھی فرمایا کہ یہ الفاظ تکمیل کے ہیں۔ مَیں اُس وقت اس فقرے کے معنی نہیں سمجھا تھا۔ (یعنی اللہ تعالیٰ نے یہ رُتبہ بخشا ہے اور یہ خطاب فرمایا ہے یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ۔ ایک پورا ہونے والی بات ہے اور پورا ہو رہی ہے۔) اب مجھے سمجھ آتا ہے کہ اس سے مراد یہ تھی کہ ایک وقت آئے گا جب لوگ حضرت صاحب کا درجہ گھٹانے کی کوشش کریں گے مگر اللہ تعالیٰ کے نزدیک آپ کامل نبی تھے۔ یہ جلسہ سالانہ کا واقعہ ہے۔ لنگر خانہ اس وقت اُس مکان میں تھا جہاں آج کل حضرت سیدہ مریم بیگم صاحبہ رہتی ہیں۔ اور حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کے مکان کے بالکل مقابل میں اس کا دروازہ کھلتا ہے۔

(مأخوذ ازروایات حضرت حکیم عبدالصمد صاحبؓ رجسٹر روایات غیر مطبوعہ جلد 12صفحہ 19تا21)

ایک دفعہ مَیں ایک پورا خطبہ اس بات پر بھی دے چکا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نبی ہیں اور جن لوگوں کو کسی بھی قسم کی غلط فہمی ہے یا بعض لوگ بزدلی یا مداہنت میں غیروں کے سامنے، بات کرتے ہوئے، بحث کرتے ہوئے، اظہار کر جاتے ہیں اُن کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو نبی کہہ کر پکارا ہے اور اللہ کے فضل سے آپ نبی ہیں لیکن غیر شرعی نبی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا میں آئے ہوئے اور آپ سے کامل محبت اور عشق کرنے والے نبی۔ لکھتے ہیں کہ مجھے یاد ہے کہ بعض لوگ جن کو دھکا دیا گیا تھا وہ لوگ جو واپس چلے گئے تھے، وہ آبدیدہ ہو گئے اور بے اختیار اُن کی زبان سے نکلا کہ مولیٰ ہم یہاں کھانا کھانے تو نہیں آئے تھے بلکہ تیرے حکم کی تعمیل میں تیرے مسیح کے دَر پر آئے تھے۔

(مأخوذ ازروایات حضرت حکیم عبدالصمد صاحبؓ رجسٹر روایات غیر مطبوعہ جلد 12صفحہ21)

پس کارکنان کو ہمیشہ خوش اخلاقی کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔

(خطبہ جمعہ 24؍ جون 2011ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 8 جون 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 9 جون 2021