• 18 مئی, 2024

خدمت دین کی اہمیت و فضیلت

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں ایک شخص پنڈت شنکر داس نے مسجد اقصیٰ قادیان سے ملحقہ رستہ کے ساتھ ایک وسیع اور بلند و بالا وعمارت تعمیر کروائی اور پھر اس عمارت میں اپنے تمام اہل و عیال کے ساتھ سکونت اختیار کر لی۔ یہ عمارت مسجد اور دارالمسیح کے قریب تھی اس لئے ہر آنے جانے والے کا اس عمارت کی طرف دھیان جانا اور اس کو فکر و تشویش کی نگاہ سے دیکھنا لازمی امر تھا۔ جب اس بات کا ذکر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام سے کیا گیا تو آپ ؑ نے الٰہی علم کے مطابق فرمایا کہ یہ کوئی فکر کی بات نہیں ہے۔ شاہی کیمپ کے پاس کوئی شخص نہیں ٹھہر سکتا۔ جب حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے یہ فرمایا اس وقت یہ گھر خوب آباد تھا اور اس کے مکین نہائت خوشحال زندگی گزار رہے تھے۔ لیکن بعد ازاں اس خاندان پر ایسا ادبار آیا کہ ان کی مالی حالت سال بہ سال بد سے بد تر ہوتی گئی۔ یہاں تک کے حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد المصلح موعود خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میں سال 1932ء کے دوران یہ عمارت سلسلہ عالیہ احمدیہ کو خریدنے کی توفیق حاصل ہوئی اورصدر انجمن احمدیہ کے دفاتر جو مختلف جگہوں پر تھے وہ اس عمارت میں منتقل ہو گئے۔یہ خدا تعالیٰ کا ایک بڑا نشان تھا جو ظاہر ہوا۔

اس عمارت کی افتتاح کے موقع پر حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد المصلح موعود خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جماعت کی آئندہ ترقیات کے ذکرپر مبنی ایک پُر معارف خطاب فرمایا۔ اس خطاب میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نےحضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے دو الہامات کا ذکر فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا۔

میں نے اس مکان کے دروازہ پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دو الہام لکھنے کا مشورہ دیا تھا۔ اس وقت انہی کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ یہ الہام ایسے ہیں کہ ان میں سے ایک تو سلسلہ کے کاموں کی ابتدائ کی طرف اشارہ کرتا ہے اور دوسرا انتہائی کی طرف۔ جب مجھ سے دریافت کیا گیا کہ میں کوئی ایسا الہام بتائوں جسے اس مکان کے دروازہ پر لکھا جائے تو معاً میرے دل میں یہ الہام ڈالے گئے۔ پہلا الہام یہ ہے ینصرک رجال نوحی الیھم من السماء

(تذکرہ صفحہ50 ایڈیشن چہارم)

اس کا مطلب ہے کہ خدا تعالیٰ حضرت مسیح موعود ؑ کو فرماتا ہے۔ تیری مدد ایسے آدمی کریں گے جن کی طرف ہم آسمان سے وحی کریں گے۔۔

(انوار العلوم جلد12 صفحہ501-502)

آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ مزید فرماتے ہیں:۔
اول یہ کہ جب فرمایا۔ ینصرک رجال۔ تو اس میں یہ بتایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام عظیم الشان کام کرنے کے لئے مقرر کئے گئے ہیں۔ کیونکہ معمولی کام جسے کوئی اکیلا کر سکے اس کے سرانجام دینے کے لئے دوسرے آدمیوں کی ضرورت نہیں ہوتی۔ تو اُس وقت جب کہ اپنے گائوں کے لوگ بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو نہ جانتے تھے خداتعالیٰ نے یہ فرمایا کہ آپ کو ایسے کام پر مامور کیا جائے گا جسے اکیلا نہ کر سکے گا۔ بلکہ اس کے کرنے کیلئے بہت سے مددگاروں کی ضرورت ہوگی۔ یہ بات سلسلہ کی عظمت اور وسعت پر دلالت کرتی ہے۔

دوسرا مفہوم ینصرک میں ک ضمیر میں یہ بتایا کہ قومی کارکن عام طورپر ایسے ملتے ہیں جو خود غرضی سے کام کرتے ہیں۔ ایک شخص جو فوج میں بھرتی ہوتا ہے مگر اس کی غرض یہ ہوتی ہے کہ سپاہی سے لانس، لانس سے نائیک، نائیک سے حوالدار، حوالدار سے جمعدار اور جمعدار سے صوبیدار بن جائے۔ اللہ تعالیٰ نے اس الہام میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کو یہ فرمایا کہ اہم تمہاری امداد کے لئے ایسے لوگوں کو کھڑا کر دیں گے جو اپنی ذات کیلئے کسی قسم کی بڑائی نہیں چاہیں گے بلکہ اس کام کو کریں گے جس پر تجھے مقرر کیا گیا ہے۔ گویا اس میں پیشگوئی ہے کہ ایسے لوگ اس لئے پیدا کئے جائیں گے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی لگائی ہوئی داغ بیل کو قائم کریں۔ پھر فرماتا ہے۔

ینصرک رجال یہاں رجال کا لفظ رجولیت کی طرف اشارہ کرنے کے لئے رکھا گیا ہے۔ یعنی ایسے آدمی کھڑے کئے جائیں گے جو کام کرنے کی اہلیت اور قابلیت رکھیں گے۔ پھر فرمایا۔

ینصرک رجال نوحی الیھم من السماء اس میں چوتھی بات یہ بیان کی کہ آئندہ زمانہ میں بھی ایسے لوگ ہوتے رہیں گے جو الہام اور وحی سے کھڑے ہوں گے۔ من السماء اس لئے فرمایا کہ وحی کئی قسم کی ہوتی ہے۔ ایک قلبی وحی ہوتے ہے جیسے مکھی کو ہوتی ہے۔ من السمائ کہہ کر اس بات پر زور دیا کہ وہ وحی آسمان سے نازل ہو گی۔ کئی وحیوں کے سامان دنیا میں پیدا ہوتے ہیں۔ مگر اس کے متعلق فرمایا۔

ہم آسمان سے وحی نازل کریں گے۔ یعنی سلسلہ الہام کثرت سے جاری ہو گا۔

اس سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا مقام بھی ظاہر ہے۔ کسی مجدد کے ماننے والے الہام کے ذریعہ نہیں کھڑے ہوتے۔ یہ خصوصیت انبیاء کے ہی ماننے والوں کیلئے ہے۔

غرض اتنی باتیں اس الہام میں بتائی گئی ہیں۔ یاد رکھنا چاہیئے کہ ہر شخص کے کام کے درجے ہوتے ہیں اور جب اس کا درجہ بیان کیا جاتا ہے تو انتہائی بیان کیا جاتا ہے۔ اس الہام میں بھی انتہائی درجہ بیان کیا گیا ہے۔ فرمایا نوحی الیھم من السمائ ان پر آسمان سے وحی نازل ہو گی مگر وہ بھی ہوسکتے ہیں جنہیں وحی من السمائ نہ ہو لیکن وحی من الارض ہو ان کے دلوں میں تحریک ہو اور وہ اس کام کیلئے کھڑے ہو جائیں۔

(انوار العلوم جلد12 صفحہ502-503)

حضور انور نے ارشاد فرمایا کہ۔ غرض اس الہام میں ایک عظیم الشان پیشگوئی کی گئی ہے۔ اسے مد نظر رکھتے ہوئے میں نے اس الہام کو لکھنے کے لئے کہا تھا تا کارکنوں کو معلوم ہو کہ جو (خدمت دین کا) کام و ہ کرتے ہیں وہ وحی الٰہی کے ماتحت ہے۔ خواہ وہ وحی ان کو براہ راست نہ ہو بلکہ دوسروں کو ہو۔ حدیث میں آتا ہے۔ بعض کو وحی ہوتی ہے اور بعض کے لئے وحی کی جاتی ہے۔ (ترمذی ابواب الرویا باب ذھبت النبوۃ و بقیت المبشرات) غرض خدا تعالیٰ اپنے خاص کاموں کے لئے لوگوں کو تحریک کیا کرتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الہام میں یہی بات بیان کی گئی اور میں نے یہ الہام لکھا کر کارکنوں کو توجہ دلائی کہ ان کا کام کتنا مقدس اور کتنا اہم ہے اور اللہ تعالیٰ ان سے کس قسم کی امید رکھتا ہے۔ اول تو یہ کہ ان کا کام لغو اور بے فائدہ نہ ہو۔ بلکہ ایسا ہو جس سے نصرت حاصل ہو۔ اگر ان کے کام سے سلسلہ کی نصرت نہیں ہوتی تو ایسے کام سے کوئی فائدہ نہیں۔ پس ان کے کام ایسے نہ ہوں جو دوسروں کیلئے ٹھوکر اور نقصان کا موجب ہوں۔

دوم یہ کہ وہ اخلاص رکھتے ہوں۔ سلسلہ کے کام کو سب کاموں پر مقدم کرتے ہوں۔ سوم یہ کہ رجال ہوں۔یعنی قوت و طاقت، عقل و فہم سے کام کرنے والے ہوں۔ چوتھے ایسے طرز سے کام کریں کہ وحی ہونے لگ جائے۔ وحی کیلئے ضروری نہیں کہ آسمان سے ہی نازل ہو یہ تو وحی کا انتہائی درجہ ہے باقی ہر قسم کی وحی اس کے اندر شامل ہے۔ جب کہ ایم۔ اے کی ڈگری میں بی۔ اے اور ایف اے۔ سب امتحان شامل ہیں تو آسمانی وحی سے نچلے درجے کی سب وحیاں اس میں آجاتی ہیں۔ جس قسم کا کوئی انسان کام کرتا ہے اس کے مطابق خفی، جلی، قلبی وحی کے ذریعہ نئے نئے طریق اسے اللہ تعالیٰ سکھاتا ہے۔

(انوار العلوم جلد12 صفحہ503-504)

آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ مزید فرماتے ہیں۔
آخری بات یہ ہے کہ وہ وحی ترقی کرتے کرتے من السماء کے درجے تک پہنچ جائے۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ جو سچے دل سے اور اخلاص سے کارکن کام کریں گے ان پر وحی من السماء کا دروازہ کھول دے گا۔ یہ تو کام کی ابتدائی ہے کہ کس قسم کے لوگ سلسلہ میں آئیں گے اور کس طرح کام کریں گے۔ دوسرے الہام میں یہ مقصود بتایا کہ۔ میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچائوں گا۔

(تذکرہ صفحہ312 ایڈیشن چہارم)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مقصد خدا تعالیٰ یہ بتاتا ہے کہ تیری تبلیغ دنیا کے کناروں تک پہنچ جائے۔ اب اگر دنیا میں کوئی جگہ ایسی رہ جائے جہاں آپ کا پیغام نہ پہنچا ہو تو گویا مقصد ابھی پورا نہیں ہوا۔ ہمارا مقصد یہی ہے کہ ہر جگہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تبلیغ پہنچائیں۔ امور عامہ، تعلیم و تربیت، قضائ وغیرہ کسی کا کام ہو یہ سب دعوت و تبلیغ کے ما تحت آ جائیں گے۔ خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود ؑ کے متعلق ’’تیری تبلیغ‘‘ کے الفاظ استعمال کر کے یہ بتایا کہ:
تیرے نام کو زمین کے کناروں تک پہنچائوں گا۔ یعنی اس تبلیغ کو جو تیری طرف منسوب ہو گی۔

یہ بتایا کہ جو تبلیغ تُو کر رہا ہے و ہی تبلیغ ِ اسلام ہے۔ اسے دنیا تک پہنچائوں گا۔ گویا اسلام اور احمدیت کی تبلیغ ہمارا فرض ہے۔

پس ساری دنیا کو اسلام کا حلقہ بگوش بنانا ہمارا کام ہے۔ مگر قرآن سے پتہ لگتا ہے کہ تمام کے تمام لوگ اسلام نہیں لائیں گے۔ ادھر ہمیں یہ حکم ہے کہ جب تک یہ سب نہ مان لیں تمہارا کام ختم نہیں ہوتا اس لئے مطلب یہ ہوا کہ قیامت تک ہمیں کام کرنا ہے اور کسی وقت ہمیں اپنے کام کو ختم نہیں سمجھنا۔ کیونکہ کام کو ختم سمجھ لینے کی وجہ سے انسان سُست ہو جاتا ہے۔ عام طور پر لوگ تکالیف اور مصائب سے گھبراتے ہیں مگر ساری کامیابی اور سب ترقی مصائب اور تکالیف سے ہی وابستہ ہوتی ہے۔ اس دنیا میں انبیاء کیلئے بھی تکالیف ہوتی ہیں بلکہ ان کیلئے زیادہ ہوتی ہیں۔

پس ہمارا کام ایسا ہے جو مصائب اور تکالیف کو زیادہ کرنے والا ہے مگر یہی بات جماعت میں زندگی اور بیداری پیدا کرنے کا موجب ہوتی ہے۔ جب دشمن اعتراض کرتا ہے تو غور کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے اور نئے نئے معارف کُھلتے ہیں۔ مسلمانون نے جب تبلیغ اسلام چھوڑ دی تو سُست ہو گئے۔ لیکن جب تک تبلیغ میں مصروف رہے۔ نئے نئے معارف کُھلتے رہے اور اب بھی تبلیغ میں مصروف رہنے پر کُھلتے رہیں گے۔ پس ہماری جماعت کو یہ سمجھنا چاہئے کہ جب تک دنیا میں ایک آدمی بھی اسلام سے باہر رہتا ہے ہمارا کام ختم نہیں ہوتا۔ یہ سمجھنے سے جراٴت اور دلیری پیدا ہوتی ہے لیکن جب یہ مقصد سامنے نہ ہوگا تنزل اور تباہی شروع ہو جائے گی۔

عیسائیت کو دیکھ لو۔ اتنا بودا مذہب ہونے کے باوجود چونکہ عیسائی تحقیق و تد قیق جاری رکھتے ہیں اس لئے ترقی کرتے جاتے ہیں۔ مگر مسلمان ایسا نہیں کرتے۔ کیونکہ انہوں نے تبلیغ چھوڑ دی اس لئے تنزل کرتے گئے۔ عیسائی اپنے مذہب کی جب تبلیغ کرتے ہیں اور ان پر اعتراض ہوتے ہیں تو وہ مسائل پر غور کرتے ہیں لیکن مسلمان نہ دوسروں کے سامنے اسلام پیش کرتے ہیں نہ کوئی اعتراض کرتا ہے اور نہ انہیں غور کرنے کا موقع ملتا ہے۔

ہمارا مقصد یہ رکھا گیا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچائیں۔ یعنی تمام دنیا میں تبلیغ پھیلانا ہمارا فرض ہے۔ سب کارکنوں کو خواہ وہ کسی کام پر ہوں اسے مد مد نظر رکھنا چاہیے کہ تبلیغ زمین کے کناروں تک پہنچے۔

اس کے بعد میں دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ ہمیں اپنے فرائض ادا کرنے ی توفیق عطا فرمائے۔

(انوار العلوم جلد 12صفحہ 504-505)

یہ ہیں وہ خدمت دین کے معیار جو حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہم میں دیکھنا چاہتے تھے۔ اگر ہم اس معیار پر پورا اُترنے والے ہونگے تبھی ہم حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مقصد میں معاون و ممدگار ثابت ہوں گے۔ پس ہمیں چاہیئے کہ اپنی تمام تر قابلیتوں اور صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنے آپ کو خدمت دین کے لئے پیش کریں اور خلوص دل کے ساتھ جماعت کی ترقی کے لئے دعائیں کرتے ہوئے خدمت دین کریں۔ ہماری اکثریت ہمیں اُس وقت تک کوئی فائدہ نہیں پہنچائے جب تک ہم سچے تقویٰ اور اخلاص و وفا کے ساتھ اطاعت کا دامن مضبوطی سے تھامے ہوئے خدمت دین کے لئے جان، مال، وقت اور عزت کو قربان کرنے والے نہ بنیں گے۔

آخر پر میں غزوہ حنین کا ایک واقعہ بیان کرنا چاہوں گا۔غزوہ حنین کے موقع پر جب مسلمانوں کا لشکر کفار کے مقابل پر تعداد میں زیادہ تھا اور مسلمانوں کو اپنی واضح فتح پر یقین تھا۔اس دوران جب جنگ اپنے زوروں پر تھی تو کفار کے ایک زوردار حملے سے جب اسلامی لشکر میں انتشار پیدا ہو گیا تو رسول کریمﷺ نے حضرت عباس ؓ سے کہا۔ عباس آواز دو کہ اے انصار!اے بیعت رضوان میں شامل ہونے والے لوگو! خدا کا رسول تُم کو بلاتا ہے۔ صحابہ کہتے ہیں جب یہ آواز ہمارے کانوں میں پہنچی تو ہماری حالت یہ تھی کہ ہمارے گھوڑے میدانِ جنگ سے بھاگے چلے جارہے تھے۔ ہم اُنہیں روکتے تھے مگر وہ رُکتے نہ تھے ہم اُونٹوں کو موڑتے تھے مگر وہ مُڑتے نہ تھے۔ جب ہمارے کانوں میں یہ آواز آئی کہ اے انصار!خدا کا رسول تُم کو بلاتا ہے تو جن کی سواریاں مُڑ سکیں اُنھوں نے اپنے پورے زور سے سواریاں موڑ لیں اور جن کی سواریاں نہ مُڑیں اُنہوں نے تلواریں نکال کر اپنے اُونٹوں اور گھوڑوں کی گردنیں کاٹ دیں اور لَبَّیْکَ یَا رَسُولَ اللّٰہِ لَبَّیْکَ کہتے ہوئے پیدل ہی رسول کریمﷺ کی طرف دوڑ پڑے۔

(سیرت ابن ہشام جلد3 صفحہ10 مطبوعہ مصر 1295ھ)

پس ہم سب کو چاہئے کہ اپنے عہد بیعت کو نبھاتے ہوئے جب کبھی خدمت دین کے لئے ہماری ضرورت پیش آئے تو پھر چاہے ہمارے دنیاوی اور نفسانی خواہشات کے گھوڑے کتنے ہی تیز کیوں نہ دوڑ رہے ہوں اگر ہم اُن دنیاوی خواہشات پر قابو نہ پا سکیں تو اُن دنیاوی خواہشات کا سر قلم کر کے لبیک کہتے ہوئے اپنے آپ کو خدمت دین کے لئے پیش کریں۔ اسی طرح ہم صحابہ کا نمونہ دکھانے والے بنیں گےاور خلافت احمدیہ کا سلطان نصیر وجود بننے کی ہمیں توفیق حاصل ہو گی۔

(حماد احمد ریحان)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 8 جون 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ