• 26 اپریل, 2024

This Week with Huzoor (11؍ مارچ 2022ء)

This Week with Huzoor
نشر کردہ مورخہ 11؍ مارچ 2022ء

گزشتہ ہفتہ کے دوران امریکہ کی مجالس خدام الاحمدیہ اور اطفال الاحمدیہ کے ارکان کو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ virtual ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ نیز حضور انور نے International Association of Ahmadi Architects and Engineers (مخفف IAAAE۔ یعنی احمدی آرکیٹیکٹس اور انجینئرز کی بین الاقوامی انجمن) کے سالانہ سمپوزیم سے بھی خطاب کیا۔

مورخہ 5؍مارچ 2022ء
ہفتہ کے روز کی ملاقات

ہفتہ کے روز امریکہ کی مجلس اطفال الاحمدیہ کے ارکان مسجد بیت الحمید Los Angeles (لاس اینجلس) میں اکٹھے ہوئے اور ان کو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ virtual ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ ایک مختصر پروگرام کے بعد، اطفال کو حضور انور کی خدمت میں مختلف موضوعات پر سوالات پوچھنے کا موقع ملا۔

طفل: میرا سوال ہے کہ بعض اوقات بڑے یہ کہتے ہیں کہ بچوں کی دعائیں زیادہ قبول ہوتی ہیں۔ پیارے حضور اس بات کو بہتر سمجھنے میں ہماری راہنمائی کریں۔

حضور انور: دیکھو، کیونکہ بچے معصوم ہوتے ہیں، اسی لئے ایسا کہا جاتا ہے اور (اس پر) ایک حدیث بھی ہے کہ کیونکہ بچے معصوم ہوتے ہیں، اس لئے ان کی دعائیں قبول ہوتی ہیں۔ جبکہ بڑے، کہ جنہوں نے بہت سی خطائیں کی ہوئی ہوں، یا جو اپنی نمازیں پوری توجہ سے ادا نہ کرتے ہوں، یا جو دنیوی کاموں میں مگن ہوں، یا جو اپنے خالق، اللہ تعالیٰ کی طرف اُن کے جو فرائض ہیں ان کا حق ادا نہ کرتے ہوں، تو اس کا یہی مطلب ہوتا ہے کہ وہ اُس وقت ہی دعا کرتے ہیں کہ جب وہ ضرورتمند ہوں یا اُن کو کچھ درکار ہو۔ لیکن بچوں کا معاملہ ایسا ہے کہ وہ زیادہ تر دنیوی کاموں میں مگن نہیں ہوتے اور وہ اپنی اس عمر میں معصوم ہوتے ہیں۔ تو جب وہ اللہ سے یہ دعا کرتے ہیں کہ اللہ اُن کی دعائیں قبول کرے، تو اُن کی معصومیت کےسبب اور کیونکہ اُن کی یہ دعا اُن کے دل سے نکل رہی ہوتی ہے، تو اللہ معصوم لوگوں سے پیار کرتا ہے۔ بڑے بھی کہ جو بہت نیک ہوں، وہ (بھی) معصوم ہوتے ہیں، اللہ اُن کی دعائیں بھی قبول کرتا ہے۔ لیکن آج کل کی دنیا میں زیادہ تر ہم دیکھتے ہیں کہ (بڑے) لوگ دنیوی کاموں میں مگن ہوتے ہیں جبکہ چھوٹے بچے دنیوی امور کی نسبت زیادہ نہیں جانتے اور وہ معصوم ہوتے ہیں، انہوں نے خطائیں نہیں کی ہوتیں، اسی لئے اللہ ان کی دعائیں قبول کرتا ہے۔ ٹھیک ہے؟

طفل: پیارے حضور! آپ تکبر اور اعتماد میں فرق سمجھائیں اور یہ کہ کوئی اس بات کو کیسے یقینی بنا سکتا ہے کہ وہ متکبر نہیں بن رہا؟

حضور انور:تکبر کیا ہوتا ہے؟ کیا آپ جانتے ہیں کہ تکبر کیا ہوتا ہے؟

طفل 2:مجھے لگتا ہے کہ تکبر کا ایک جزو بعض باتوں میں ضرورت سے زیادہ پُر اعتماد ہونا ہوتا ہے۔

حضور انور: زیادہ پُر اعتماد ہونا نہیں۔ تکبر یہ ہے کہ آپ یہ سمجھیں کہ جو کچھ آپ کہہ رہے ہیں وہ صحیح ہے اور جو کچھ بھی دوسرے لوگ کہہ رہے ہیں وہ غلط ہے۔ یہ غلط نہیں اگر آپ یہ سمجھیں کہ آپ صحیح ہیں۔ لیکن ایسا برتاؤ کرنا غلط ہے جس سے یہ معلوم ہو کہ آپ مخالف رائے کو برداشت نہیں کر سکتے۔ اور آپ اُن کے ساتھ جھگڑنا شروع کردیں یا ایسے انداز سے بحث شروع کردیں کہ جو مناسب نہیں۔ اور یہ کہ آپ ہمیشہ یہ سمجھیں کہ آپ ہی ہمیشہ درست ہیں۔ یہ تکبر ہے۔ جبکہ خود اعتمادی یہ ہوتی کہ جب بھی آپ بات کریں تو، آپ مؤثر دلائل سے بات کریں کہ جو کافی ہوں۔ چنانچہ اگر آپ کو یہ لگتا ہو کہ آپ جو کچھ کہہ رہے ہیں، آپ کے پاس (اس کی) دلیل بھی ہے، تو آپ اپنے دلائل کو سامنے رکھ سکتے ہیں اور اگر سامنے والا شخص آپ کے دلائل مان لیتا ہے تو بہت اچھا ہے۔ لیکن اگر آپ کو علم ہو کہ آپ کو اُس موضوع کے متعلق مکمل آگاہی ہے اور آپ کو یہ اعتماد ہوتا ہے کہ آپ اسے ثابت کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ یہ خود اعتمادی ہے۔ لیکن اگر آپ کسی کے ساتھ بحث کریں اور آپ کے دلائل کو قبول نہ کیا گیا ہو، یا دوسرے آپ کی بات ماننے سے انکار کر دیں۔ اور اس پر آپ غصہ ہوجائیں اور اُن سے جھگڑنے لگیں تو یہ تکبر ہے۔ تو یہ وہ فرق ہے۔ آپ میں اعتماد ہونا چاہئے اور خود اعتمادی کے لئے آپ کو اپنا علم بڑھانا ہوگا۔ لیکن بعض اوقات متکبر لوگوں کے پاس علم نہیں ہوتا اور اس کے باوجود وہ سمجھتے ہیں کہ وہ صحیح ہیں۔ چنانچہ وہ جو پُر اعتماد ہوتے ہیں اُن کے پاس اُن کی بات کی تائید میں علم بھی ہوتا ہے، اور چاہے کوئی آپ کے دلائل کو قبول کرے یا نہ کرے، آپ کو معلوم ہوتا ہے، آپ اُس موضوع کے متعلق باخبر ہیں۔ نیز بجائے لڑنے اور جھگڑنے یا اُن سے بحث کرنے کے آپ رُک جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ٹھیک ہے، تم جو بھی کہہ رہے ہو، میں مان جاتا ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام نے بھی بیان کیا ہے کہ ایک بادشاہ تھا۔ ایک قصہ بیان کیا جاتا ہے کہ ایک بادشاہ تھا جو اپنے ہاتھ سے قرآن کریم لکھا کرتا تھا۔ ایک دفعہ اُس کے پاس ایک عالم آیا اور اُس نے بادشاہ کے ہاتھ کا لکھا ہوا قرآن کریم دیکھا۔ اُس عالم نے بادشاہ کو کہا کہ تم نے یہ لفظ صحیح نہیں لکھا۔ تو بادشاہ نے صرف اُس لفظ کے گرد گول دائرہ بنا دیا اور جب وہ نام نہاد عالم چلا گیا تو بادشاہ نے اُس گول دائرہ کو مٹا دیا۔ جو لوگ بادشاہ کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے، انہوں نے پوچھا کہ تم نے کیوں پہلے اس لفظ پر گول دائرہ لگایا اور اب اسے مٹا دیا ہے؟ بادشاہ نے کہا کہ میں نے یہ لفظ ٹھیک لکھا تھا۔ میں درستگی پر تھا۔ لیکن اُس نام نہاد عالم کا خیال تھا کہ وہ صحیح ہے تو میں نے بجائے اُس سےبحث کرنے کے اِس لفظ کے گرد گول دائرہ بنا دیا تاکہ وہ بھی خوش رہے کہ میں نے اُس کا نشان لگا دیا ہے۔ نہ ہی اُس نے غلط انداز میں بحث کی اور نہ ہی تکبر دکھایا بلکہ بادشاہ نے اعلیٰ درجہ کی عاجزی دکھائی۔ بادشاہ ہونے کے باوجود اُس نے بحث نہیں کی۔ تو یہ خود اعتمادی ہے۔ اور اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ہم کیسے تکبر سے بچ سکتے ہیں۔

طفل 3: میرا سوال ہے کہ ہم کس طرح زیادہ خوش رہ سکتے ہیں؟

حضور انور: تمہاری عمر کیا ہے؟

طفل 3: نو سال۔

حضور انور:نوسال! آپ کو ہمیشہ مطمئن رہنا چاہئے۔ ہمیشہ یہ سوچو کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بہت سی چیزوں سے نوازا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اچھی صحت عطا کی ہے اور آپ کو اچھی جسامت عطا کی ہے اور آپ کو خوبصورت شکل عطا کی ہے اور آپ کی قوت بصیرت بھی اچھی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو کان عطا کئے ہیں جس سے آپ سن سکتےہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو منہ اور زبان دیئے ہیں جس کے ذریعہ سے آپ اچھی بات یکر سکتے ہیں اور ہر وقت اللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا کر سکتے ہیں اور اُس (اللہ) نے آپ کو تمام سہولیات عطا کی ہیں اور اس نے آپ کو مواقع میسر کئے ہیں کہ سکول جا سکیں اور اپنے آپ کو تعلیم یافتہ بنائیں۔ اُس (اللہ) نے آپ کو اچھے والدین دیئے ہیں اور اچھے بہن بھائی۔ تو یہ امور آپ کو خوشی دیتے ہیں۔ کیا آپ کے بہن بھائی ہیں؟

طفل 3: جی میرے دو چھوٹے بھائی ہیں۔

حضور انور: اگر وہ آپ سے اچھا سلوک نہ بھی کریں تب بھی ہمیشہ خوش رہو اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرو کہ اُس نے آپ کو بے شمار چیزیں دی ہیں۔ دیکھو اس دنیا میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جنکے بنیادی حقوق بھی سلب ہو رہے ہیں۔ اُن کو اتنا کھانا بھی نہیں ملتا کہ وہ زندہ رہ سکیں۔ انہیں سکول جانے کا موقع نہیں ملتا۔ کبھی کبھی وہ تالاب کا گندہ پانی پیتے ہیں۔ جبکہ آپ بوتل یا اپنے نلکے سے صاف پانی پی رہے ہوتے ہیں۔ چنانچہ اگر آپ سوچیں کہ اللہ تعالیٰ نے کیسے آپ کو بے شمار چیزوں سے نوازا ہے تو آپ خوش ہوں گے۔ اور اگر آپ اللہ کے شکر گزار رہوں گے تو اللہ تعالیٰ آپ کو ہمیشہ خوش رکھے گا۔ ٹھیک ہے؟ ہمیشہ اُن لوگوں کی طرف دیکھیں جو اِن تمام سہولیات سے محروم ہیں۔ جبکہ آپ کو یہ تمام چیزیں میسر ہیں۔ دیکھیں، اسی لئے آنحضرت ﷺ کی ایک حدیث ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ جب مذہب، تقویٰ، نیکی کا معاملہ ہو تو ہمیشہ اُن لوگوں کی طرف دیکھو جو تم سے بہتر ہوں۔ اور جب دنیوی امور کا معاملہ ہو تو ہمیشہ اُن لوگوں کی طرف دیکھو جو آپ سے نیچے ہوں، ایسے لوگ جن کے پاس آپ سے کم سہولیات ہوں۔ یہ بات آپ کو اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بنائے گی اور تم خوش رہو گے۔ ٹھیک ہے؟

خطاب

بعد ازاں، اسی روز، حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے IAAAE کے انٹرنیشنل سمپوزیم سے اختتامی خطاب فرمایا۔ اپنے خطاب میں حضور نے اُن دور رس اور تباہ کن اثرات سے انتباہ فرمایا کہ جو اگر Ukraine (یوکرین) کے حالات مزید خراب ہونے پر پیدا ہوسکتے ہیں۔ حضور نے فرمایا کہ:
‘‘ اگر عالمی جنگ ہوتی ہے تو یہ احمدی مسلمانوں کی ذمہ داری ہوگی کہ معاشرے کی از سر نَو تعمیر کریں۔ جہاں ہمیں یہ دعا کرنی چاہئے کہ دنیاوی راہنما عقل سے کام لیں اور قبل اس کے کہ بہت دیر ہوجائے جنگ کے امکانات کو کم کریں۔ہمیں لازماً تیار بھی رہنا چاہئے کہ معاشرہ کی دوبارہ تعمیر میں کلیدی کردار ادا کریں۔ اگر، اللہ نہ کرے، اس طرح کے خطرناک حالات کبھی ہمارے سامنے پیدا ہوں، یقیناً ایسی جنگ کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے حالات میں دنیا کی آہستہ آہستہ تعمیر نَو میں انسانیت کو تاریخی مشکلات کا سامنا ہوگا۔ اور یہ بطور احمدی مسلمان ہونے کے ناطے ہماری ذمہ داری ہوگی کہ اس (تعمیرِ نَو کی) کاوش میں سب سے آگے ہوں۔ اللہ نہ کرے، لیکن اگر دنیوی سیاسی طاقتیں دنیا کو جنگ اور تباہی کی بھڑکتی ہوئی آگ میں دھکیلنے پر بضد قائم رہیں تو یہ بطور احمدی مسلمان ہمارا کام ہوگا کہ ہم اُن ٹکڑوں کو اٹھانے کے لئے اور انسانیت اور معاشرہ کے جلتے ہوئے زخموں پر ٹھنڈی مرہم پٹی رکھنے کے لئے وہاں موجود ہوں۔ یہ ہمارا فر ض اور ذمہ داری ہوگی کہ معاشرہ کی از سر نَو تعمیر کے لئے کوشش کریں۔ اور انسانیت کو مزید تباہی اور غم سے بچائیں۔ ’’

مورخہ 6؍مارچ 2022ء
اتوار کے روز کی ملاقات

اگلے روز، امریکہ کی مجلس خدام الاحمدیہ کے ارکان کو حضور انور سے ملاقات اور آپ کی خدمت میں سوالات پیش کرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔

رضوان میر صاحب: میرا سوال یہ ہے کہ کس طرح ایک خادم کہ جو اس مغربی ثقافت (کہ جس میں وہ پیدا ہوا ہے) کے مشرقی ثقافت (کہ جو اُس کے والدین کی ثقافت ہے) سے متصاد ہونے کی وجہ سے (ذہنی) جد وجہد کا سامنا کر رہا ہو وہ خود کو کیسے ان دونوں (ثقافتوں) کا نتیجہ مانتے ہوئے کس طرح ایک اچھا احمدی مسلمان رہ سکتا ہے؟

حضور انور: اسلام ایک عالمگیر مذہب ہے۔ اگر اسلام ایک عالمگیر مذہب ہونے کا دعویٰ کرتا ہے، پھر وہاں ثقافت کا کوئی سوال پیدا نہیں ہونا چاہئے۔ مختلف ثقافتوں کے لوگ اسلام میں داخل ہونگے۔ ٹھیک ہے؟

رضوان میر صاحب: جی

حضور انور: اگر آپ سارے امریکہ کو یا امریکیوں کی اکثریت کو احمدیت کی آغوش میں لے آئیں تو کیا وہ آپ کا ایشیائی Culture اپنائیں گے؟ نہیں۔ وہ صرف اسلام کی تعلیمات پر عمل کریں گےاور اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ آپ اپنے خالق یعنی اللہ تعالیٰ کے حقوق ادا کریں۔ یعنی اُس کی عبادت کرو جیسا کہ قرآن کریم میں حکم فرمایا گیا ہے۔ یا جیسا کہ آنحضرت ﷺ نے ہمیں بتلایا اور اپنے عمل سے ظاہر کیا۔ دوسرا یہ ہے کہ قرآن کریم کے احکامات و ارشادات پر عمل کریں۔ ٹھیک ہے؟ تو یہ Culture کی بات نہیں ہے۔ اپنا Culture دوسروں پر مسلط کرنے کی کوشش نہ کریں۔ اسی لئے نومبائع ہمیشہ بے چین یا پریشان ہوتے ہیں جب وہ آپ کی صحبت میں آتے ہیں یا آپ کے اجلاسات میں آتے ہیں، آپ اپنا ایشیائی Culture اُن پر مسلط کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسا نہیں کرنا چاہئے۔ آپ صرف اُنہیں اسلام کی تعلیمات کے متعلق بتانے کی کوشش کریں۔ اور سمجھائیں کہ یہ مذہب ہے اور یہ Culture ہے۔ آپ کی اپنی روایات ہیں۔ کئی ایسی ایشیائی روایات ہیں کہ جو اسلام کی تعلیمات کے برخلاف ہیں۔ اس کا یہ مطلب تو نہیں ہے کہ اسلام یہ باتیں سکھاتا ہے۔ بہت سی بدعات ہیں جو اسلام کی تعلیمات میں داخل ہو گئی ہیں اور جن کا اسلام کی تعلیمات سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ وہ Culture کا حصہ ہیں۔ تو اگر آپ پنجوقتہ نمازیں ادا کر رہے ہیں۔ اگر آپ اخلاقی طور پر اچھے ہیں۔ اگر آپ قرآن کریم کے احکامات پر عمل کر رہے ہیں۔ قرآن کریم میں سات سو یا سات سو سے زائد احکامات دیئے گئے ہیں۔ اگر آپ اُن پر عمل کر رہے ہیں تو یہ کافی ہے۔ ورنہ آپ اسلام کا پیغام نہیں پھیلا سکتے اور تبلیغ نہیں کر سکتے۔ عرب لوگوں کی اپنی ثقافت ہے، افریقی لوگوں کی اپنی ثقافت ہے، امیریکی لوگوں کی اپنی ثقافت ہے، یورپین لوگوں کی اپنی ثقافت ہے اور ایشیائی لوگوں کی اپنی ثقافت ہے۔ ایشیا ہی میں کئی ثقافتیں اور مذاہب پائے جاتے ہیں۔ مثلاً ہندو ہیں اور پاکستانی ثقافت، ہندو ثقافت سے متأثر ہوئی ہے کیونکہ پرانے زمانہ میں ہم دونوں ایک دوسرے کے ساتھ آباد تھے۔ تو یہ دیکھیں کہ اسلام کی حقیقی تعلیم کیا ہے۔ اسلامی Culture ہی اصل Culture ہے۔ ایشیائی culture نہیں۔ اور اسلامی کلچر اصل میں اسلامی تعلیمات ہی ہیں۔ یعنی قرآن کریم کے تمام احکامات پر عمل کرنا۔ اس کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔ اگر آپ اپنی پنجوقتہ نمازیں ادا کر رہے ہیں۔ اگر آپ قرآن کریم پڑھ رہے ہیں۔ اگر آپ اخلاقی طور پر اچھے ہیں۔ اگر آپ قرآن کریم کے احکامات پر عمل کر رہے ہیں۔ اگر آپ بگڑے ہوئے نہیں ہیں، اگر آپ اپنے والدین اور اپنے بڑوں کی عزت کرتے ہیں جیسا کہ اُن کا حق ہے۔ اگر آپ اپنی قوم کے ساتھ سچے اور وفادار ہیں، اگر آپ جہاں کہیں بھی ہوں بڑی محنت سے کام کر رہےہیں۔ مثلاً اگر آپ طالبعلم ہیں اور آپ ایک اچھے طالبعلم بننے کے لئے محنت سے کام کر رہے ہیں، پھر یہی آپ کا Culture ہے اور یہی تعلیم ہے۔ اس کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔ اگر آپ احمدی ہیں اور آپ خلیفہ وقت کی طرف سے آپ کو دی گئی ہدایات پر عمل کرتے ہیں اور خلیفہ وقت کے کامل فرمانبردار ہیں۔ اگر آپ اپنی بیعت کی شرائط پر پوری طرح عمل کر رہے ہیں، اگر آپ اپنی بیعت کے مقام کی عزت و تکریم کر رہے ہیں تو پھر آپ ایک اچھے احمدی مسلمان ہیں اور یہی آپ کی روایت، یہی آپ کا Culture اور یہی آپ کے لئے تعلیم ہے۔ ٹھیک ہے؟

خلیق طاہر صاحب:پیارے حضور بعض سائنسدانوں اور ڈاکٹروں کا یہ نظریہ ہے کہ ہومیوپیتھی اور ہربل ادویہ صرف Placebo (پلاسی بو۔ نفسیاتی اثر والی دوائی) کا کام دیتی ہیں اور ان کا بیماریوں کے علاج میں کوئی کردار نہیں۔ بطور احمدی ہمیں اس کا کیسے جواب دینا چاہئے؟ نیز ہومیوپیتھی کے جسم پر اثرات کے بارہ میں مزید جاننے کے لئے کون سے ذرائع میسر ہیں؟

حضور انور:یہ عہد جدید کے ڈاکٹر وں اور رسرچرز کا پراپگینڈا ہے جو ایلوپیتھی کو ترجیح دیتے ہیں کہ ہومیوپیتھی کا نفسیاتی اثر ہے اور اس کا علاج سے کوئی بھی تعلق نہیں۔ عہد قدیم میں ان دیسی اور ہربل ادویہ کو مریضوں کے علاج کے لئے استعمال کیا جاتا رہا ہے اور علاج کے اچھے اور امید افزا نتائج نکلتے رہے ہیں۔ یہاں تک کہ ہومیوپیتھی میں تو میرا ذاتی تجربہ بھی ہے۔ دوائی کے معاملہ میں مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا، میں یہ نہیں مانتا کہ اس کا مجھ پر کوئی معجزانہ اثر ہے یا یہ مجھ پرکوئی معجزانہ اثر کر سکتی ہیں۔ میں اس کو بس دوائی کے طور پر لیتا ہوں اور میری بیماری کا علاج ہوجاتا ہے۔ یہ کہنا درست نہیں کہ کوئی تحقیق نہیں ہو رہی۔ ہومیوپیتھی میں ڈاکٹروں اور رسرچرز کی فرانس میں اور جرمنی میں ایک تعداد ہے جو اس پر تحقیق کر رہے ہیں۔ اور انڈیا میں بھی وہ نئی ادویات متعارف کروا رہے ہیں۔ ہم نہیں جانتے کہ کونسی دوائی ہمارے لئے مفید ہے۔ اگر آپ کا ایمان ہے کہ شفا دینے والا اللہ تعالیٰ ہے تو اللہ تعالیٰ تو کسی بھی دوائی کے ساتھ شفا دے سکتا ہے۔ اور ہم نہیں جانتے کہ کون سی دوائی مفید ہے۔ ایک مرتبہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ دوائی لے رہے تھے تو آپ نے ہومیوپیتھی دوائی لی، پھر دیسی ہربل دوائی لی اور پھر ایلوپیتھی دوائی بھی لی، اپنی کسی بیماری کے لئے، جو بیماری بھی تھی، کوئی شخص ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔ اُس نے پوچھا آپ نے تینوں نسخے لئے ہیں۔ آپ کو کیا علم کہ کون سی دوائی مؤثر ہوگی۔ آپ ؓ نے فرمایا کہ مجھے ان میں سے کسی ایک پر بھی اعتبار نہیں۔ میں صرف اللہ تعالیٰ پر توکل کرتا ہوں اور مجھے علم ہے کہ وہ شفا دینے والا ہے اور مجھے صرف اتنا علم ہے کہ مجھے پتہ نہیں، میں وہ نہیں جسے غیب کا علم ہو۔ اللہ تعالیٰ زیادہ جانتا ہے اور مجھے علم نہیں کہ کونسی دوائی میرے لئے مؤثر ہوگی۔ اسی وجہ سے میں نے تمام دوائیاں لے لی ہیں۔ چنانچہ اگر اللہ تعالیٰ نے ہومیوپیتھی میں شفارکھی ہے تو وہ کارآمد ہوگی، اگر اُس نے ایلوپیتھی میں شفا رکھی ہے تو وہ کارآمد ہوگی اور اگر اللہ تعالیٰ نے دیسی دوائیوں میں شفا رکھی ہے تو وہ کار آمد ہوں گی۔ اس بات کا ہمارے ایمان کے ساتھ تعلق نہیں کہ ہومیوپیتھی ہی وہ واحد دوائی ہے جو کارآمد ہوگی۔ مگر ایمان کا یہ تقاضہ ہے کہ اہم اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھیں اور ہمارا یہ ایمان ہونا چاہئے کہ وہ شفا دینے والا ہے۔ گو مریضوں کی ایک خاص تعداد ایسی ہے جن کا ڈاکٹرز ہسپتالوں میں طبی علاج کرتے ہیں اور وہ مجھے لکھتے ہیں کہ اگر کوئی ہومیوپیتھی نسخہ ہو، تو ہمارے ڈاکٹرز کے مشورہ کے ساتھ میں اُنہیں دوائی بھجواتا ہوں۔ اور بعض اوقات وہ مؤثر ہوتی ہے۔ بعض اوقات ڈاکٹرز کہتے ہیں کہ ہمارے علاج معالجہ کے مطابق اس بیماری نے لمبا عرصہ رہنا تھا مگر اس کا علاج قلیل وقت میں ہوگیا ہے۔ اور یہ تو ایک معجزہ ہے۔ سو ہمیں علم نہیں کہ آیا ایلو پیتھی دوائی دعاؤں کے ساتھ کارآمد ہوئی اور وہ معجزہ اس کے نتیجہ میں رونما ہوا یا پھر ہومیوپیتھی دوائی کے نتیجہ میں۔ سو اس بات کو پیش نظر رکھیں کہ ہم کسی بھی دوائی پر بھروسہ نہیں رکھتے۔ ہمارا یہ پختہ ایما ن ہے کہ اللہ شفا دینے والا ہے، وہ شافی ہے۔ اسی وجہ سے میں ہمیشہ احمدی ڈاکٹرز کو کہتا ہوں کہ جب کبھی وہ مریضوں کے لئے کوئی نسخہ لکھ رہے ہوں تو انہیں ‘‘ھو الشافی’’ لکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ شفا دینے والا ہے، نہ کہ وہ اور نہ ہی اُن کی دوائی۔ اور پھر اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اس دوائی کو مریضوں کے لئے شفا کا موجب بنادے۔

زریاب فاروق صاحب:حال ہی میں سوشل میڈیا پر بعض احمدیوں نے خلیفہ وقت کی اطاعت کا بہترین نمونہ نہیں دکھایا۔ پیارے حضور ہم ایسے احمدیوں کو کیسے سمجھا سکتے ہیں کہ کامل اطاعت خلافت خلافت ایک لازمی امر ہے اور بہت سی برکتوں کا سرچشمہ ہے۔ یہ بہت ہی مفید ہوگا اگر حضور ا نور صحابہ رضوان اللہ علیھم کا نمونہ پیش کر سکیں کہ کس طرح اُنہوں نے خلفاء کی اطاعت کی؟

حضور انور: آپ چاہتے ہیں کہ میں اس پر پورا خطبہ دوں جو کہ میں دے چکا ہوں۔ میں ہمیشہ سے دیتا چلا آ رہا ہوں۔ اگر آپ شرائط بیعت والی کتاب کا مطالعہ کر لیں جو میرے خطبات اور خطابات پر مشتمل ہے، اُس میں اِس سوال کا بڑی تفصیل کے ساتھ جواب دیا گیا ہے۔ بہر حال بات یہ ہے کہ اُن کو مذہب کی کوئی پرواہ نہیں۔ اگر آپ تفصیلی جائزہ لیں تو آپ اس نتیجہ کو پہنچیں گے کہ اُن میں سے اکثر پنجوقتہ نماز ادا نہیں کرتے۔ بلکہ جمعہ کی نماز بھی نہیں پڑھتے۔ وہ اُن فرائض کو ادا نہیں کرتے جو اللہ تعالیٰ نے اُن کو سونپے ہیں۔ پس جو لوگ اللہ تعالیٰ کا حق ادا نہیں کرتے وہ خلافت کے فرمانبردار کس طرح ہوسکتے ہیں؟ اُن میں سے بھی بعض ایسے ہیں جو نماز ادا کرتے ہیں لیکن اُن میں دین اور اطاعت کا فہم صحیح نہیں پایا جاتا۔ آپ خدام الاحمدیہ کے عہد میں ہمیشہ دہراتے ہیں، بلکہ یہ بیعت کی بھی ایک شرط ہے، کہ آپ خلیفہ وقت کے معروف فیصلوں کی اطاعت کریں گے اور وہ یہ کہتے ہیں کہ خلیفہ وقت ایسے فیصلے بھی لے سکتا ہے جو معروف نہ ہوں۔ لیکن وہ اس بات میں غلطی پر ہیں۔ کیا اُن کے پاس ایسی کوئی فہرست ہے جو معروف اور غیر معروف میں امتیاز کرے، کہ یہ ٹھیک ہے اور یہ غلط؟ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّ ل ؓ نے فرمایا ہے کہ یہ لفظ قرآن کریم میں آنحضرت ﷺ کی نسبت استعمال ہوا ہے کہ میں آنحضرت ﷺ کے معروف فیصلوں کی اطاعت کروں گا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل ؓ نے فرمایا کہ کیا اُنہوں آنحضرت ﷺ کے معروف اور غیر معروف فیصلوں کی کوئی فہرست تیار کی تھی ؟ پس آپ ؓ نے فرمایا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو بھی حکم دیا اُس کی وہ پابندی کریں گے۔ ابھی میں نے پچھلے خطبہ میں ذکر کیا تھا کہ حضرت ابوبکر ؓ نے اپنے پہلے خطبہ میں فرمایا کہ اگر آپ دیکھو کہ میں قرآنی حکموں یا سنت سے ہٹ رہا ہوں تو میری راہنمائی کرنا اور میری اطاعت مت کرنا۔ لیکن اس کے علاوہ آپ کو (نافرمانی کا) کوئی حق نہیں۔ پس اس کا یہ مطلب ہے کہ خلیفہ وقت ہمیشہ قرآن کریم کے احکام اور سنت کے مطابق آپ کی راہنمائی کرتا ہے اور جب اُس نے قرآن اور سنت کے مطابق ہدایت یا راہنمائی دے دی تو آپ کے پاس نافرمانی کی کوئی گنجائش نہیں رہتی۔ یا تو آپ کو ثابت کرنا ہوگا کہ آپ کے احکام، آپ کی ہدایات، آپ کی راہنمائی قرآن کریم اور آنحضرت ﷺ کی سنت کے خلاف ہیں، یا تو آپ کو اطاعت کرنی ہوگی۔ اور اگر آپ یہ کہیں گے کہ یہ قرآن کریم میں کہیں نہیں لکھا اور آنحضور ﷺ نے اس پر کبھی عمل نہیں کیا تو آپ کو اس کا ثبوت پیش کرنا ہوگا۔ آپ کو یہ بات خلیفہ وقت کو لکھنا ہوگا، بجائے اس کے کہ آپ باتیں پھیلائیں اور سوشل میڈیا پر لغو تبصرے کریں۔ یہ صحیح طریقہ ہے۔ مجھے بلکہ یاد ہے کہ میں نے اپنے پہلے یا دوسرے خطبہ میں یہ کہا تھا کہ اگر آپ کو مجھ میں کبھی کوئی غلطی نظر آئے تو مجھ سے سوال کریں اور میری تصحیح کی کوشش کریں۔ اگر میں یہ سمجھتا ہوں کہ جو کچھ میں نے کہا ہے وہ ٹھیک ہے تو میں آپ کو اس کا ثبوت دے دوں گا کہ میں صحیح ہوں اور اگر آپ کی بات درست ہو گی تو میں اپنی تصحیح کر لوں گا۔ لیکن آپ کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ آپ ادھر اُدھر باتیں پھیلائیں۔ یہ بات میں نے خلافت کے بعد پہلے یا دوسرے خطبہ میں بیان کی تھی۔ پس میں بھی خود یہ بات کہہ چکا ہوں۔ ٹھیک ہے؟ پس معروف کا مطلب یہ ہے کہ ہر وہ بات جو قرآن کریم کے مطابق ہو وہ معروف کے زمرہ میں آتی ہے۔ ایک حدیث ملتی ہے کہ ایک دفعہ صحابہ کا ایک گروہ ایک مہم پر بھیجا گیا۔ راستہ میں انہوں نے ایک آگ جلائی۔ تو امیر قافلہ نے کہا کہ اِس آگ میں کود جاؤ۔ اُن میں سے بعض سے کہا کہ ٹھیک ہے، ہمیں کود جانا چاہئے کیونکہ یہ امیر کا حکم ہے، اس لئے اِس کی اطاعت کرنی ہوگی۔ باقیوں نے کہا کہ نہیں، یہ خود کشی ہے، ہمیں یہ نہیں کرنا چاہئے۔ پھر بھی کچھ ایسے تھے جو کودنے کے لئے تیار تھے۔ جب امیر نے دیکھا کہ یہ لوگ تو سنجیدہ ہیں تو اس نے روکا اور کہا نہیں نہیں میں تو صرف مذاق کر رہا تھا۔ جب وہ واپس لوٹے اور آنحضرت ﷺ کو یہ واقعہ سنایا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اگر آپ لوگ ایسا کر گزرتے تو یہ غلط ہوتا۔ یہ خود کشی ہوتی۔ امیر کا یہ فیصلہ معروف نہیں تھا اور اسلام کی تعلیم اور اللہ تعالیٰ کے احکام کے مطابق نہیں تھا اور جنہوں نے ایسا کرنے سے انکار کیا تھا انہوں نے ٹھیک فیصلہ کیا اور جو لوگ آگ میں کودنے کے لئے تیار تھے وہ غلطی پر تھے اور امیر کا یہ حکم دینا بھی غلط تھا۔ یہ اصل بات ہے کہ جو فیصلہ قرآن کی تعلیم اور سنت کے برخلاف ہو وہ معروف نہیں اور ایسے فیصلہ سے انکار کرنا آپ کا حق ہے۔ لیکن جو فیصلہ قرآن اور سنت کے مطابق ہو اُس کی اطاعت کرنا آپ پر لازم ہے۔ ٹھیک ہے؟ اگر آپ کہیں کہ فلاں بات اچھی نہیں ہے اور فلاں بات درست نہیں ہے تو آپ خلیفہ وقت کو تحریر کریں۔ آپ اُن سے دریافت کریں کہ آپ ہمیں یہ حکم کیوں دے رہے ہیں؟ آپ ہمیں اس ارشاد یا ہدایت کی تعمیل کرنے کا کیوں حکم دے رہے ہیں جبکہ وہ غلط ہے اور قرآ ن اور سنت کے مخالف ہے۔ پھر خلیفہ وقت یا ثابت کرے گا کہ اُس کا فیصلہ صحیح تھا یا وہ اس بات کا اعتراف کرے گا کہ ٹھیک ہے تم صحیح ہو اور پھر وہ اُس فیصلہ کو واپس لے لے گا۔ لیکن آپ کو سوشل میڈیا پر غلط باتیں پھیلانے یا لوگوں کو گمراہ کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ ٹھیک ہے؟

عثمان مؤمن صاحب:حضور میرا سوال ہے کہ کچھ خدام و اطفال مسجد سے دور ہوجاتے ہیں کیونکہ اُن کے والدین اُن کو مسجد نہیں لے کر آتے۔ جب یہ ہو جاتا ہے، اِ ن خدام و اطفال سے تعلق بنانا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔ اس معاملہ کے متعلق پیارے حضور کی کیا راہنمائی ہے؟

حضور انور:اگر وہ اپنے والدین کی وجہ سے جماعت سے دور ہو چکےہیں تو پھر جماعتی نظام کے تحت اور انصار اللہ اور خدام الاحمدیہ کے ذریعہ ایک مشترکہ اور مربوط کوشش ہونی چاہئے تاکہ اُن والدین یا بزرگوں کی تربیت کر سکیں۔ اُن (نظام جماعت / عہدیداران) کو اُن کی شکایات کو دور کرنے کی کوشش کرنی چاہئے کیونکہ عمومی طور پر والدین میں جماعت سے اس وجہ سے دوری ہوجاتی ہے کیونکہ عہدیداران سے اُن کی ذاتی رنجشیں پیدا ہوجاتی ہیں۔ اگر عہدیداران اچھے ہوں تو وہ (والدین) بھی بدل جائیں گے۔ تو عہدیداران کا کام ہے کہ وہ اُن لوگوں کے شبہات اور رنجشوں کو دور کرنے والے ہوں۔ جب اُن کی اصلاح ہوجائے گی تو بچوں کی بھی اصلاح ہوجائے گی۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ خدام الاحمدیہ اور اطفال الاحمدیہ کو منصوبہ بندی کرنی چاہئے کہ اِن خدام و اطفال کے ساتھ ایک ذاتی تعلق یا دوستی ہو۔ صرف اُن کو مسجد یا میٹنگز یا اجتماعات پر آنے کے لئے نہیں کہنا بلکہ اگر آپ کی کھیلنے کی جگہیں ہوں اور آپ وہاں فٹ بال یا کسی اور کھیل کھیلنے کے لئے جمع ہوں تو آپ اُن سے پوچھ سکتے ہیں کہ آپ ہمارے ساتھ ادھر کھیلنے کے لئے آجاؤ۔ تو جب وہ آپ کے پاس آنا شروع ہوجائیں گے تو وہ آپ سے ایک حد تک جُڑ جائیں گے۔ اور وقت کے ساتھ ساتھ اُن کا جماعت سے اور آپ سے تعلق بہتر ہوجائے گا۔ تو خدام الاحمدیہ کے تمام عہدیداروں کو ایک ٹیم تشکیل دینی چاہئے تاکہ وہ لوگ جو جماعت سے اتنا زیادہ نہیں جُڑے ہیں اُن سے ذاتی روابط قائم کرنے کی کوشش کریں اور اس طریقہ سے وہ آپ کے قریب آجائیں گے۔ لیکن اس سے پہلے جماعت کی مکمل انتظامیہ کے تحت ایک مربوط کوشش ہونی چاہئے یعنی جماعتی نظام اور ذیلی تنظیموں کے تحت، جس کے ذریعہ سے وہ اُن کے والدین کے شبہات اور رنجشوں کو دور کر سکیں اور لجنہ بھی یہ کرے اور اگر وہ اصلاح کر جاتے ہیں تو وہ جماعت سے جُڑ جائیں گے اور بچے بھی مسجد آنا شروع ہوجائیں گے۔ ورنہ ہو سکتا ہے کہ آپ بچوں کو (جماعت سے) جوڑنے میں کامیاب ہوجائیں لیکن کچھ وقت کے بعد اُن کے والدین اُن کو کہیں کہ نہیں تم کو مسجد جانے کی اجازت نہیں۔ اگر وہ پندرہ سال سے کم ہوں، اگر وہ اِس سے اوپر ہوں تو وہ اپنا فیصلہ خود کر سکتے ہیں۔ لیکن جیسا کہ میں نے کہا ہے کہ ہمیں پوری فیملی کی اصلاح کرنے کی ضرورت ہے اور اس کے لئے ہمیں مشترکہ کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔

(ٹرانسکرائب و کمپوزنگ: مدثر احمد۔ مڈغاسکر)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 8 جون 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ