• 10 مئی, 2025

ایڈیٹر کے نام خطوط

•مکرم ابن ایف آر بسمل لکھتے ہیں۔
14 مئی 2022ء کے شمارے میں مکرم محمد عمر تماپوری انڈیا کا مضمون ’’اردو صحافت کے 200 سال اور احمدیہ جماعت کی صحافتی خدمات‘‘ بہت پسند آیا۔ بہت معلوماتی اور جامع (comprehensive) ایمان افروز مضمون ہے۔

الفضل کا اجراء خلافت اولیٰ میں حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کی اجازت سے ہوا اور اس اخبار کا نام بھی (فضل اور پھر الفضل) حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ نے عطا فرمایا۔ حضرت مصلح موعود خلیفۃ المسیح الثانی ؓحضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بعد آپؓ کے سب سے بڑے مداح تھے فرمایا:

ملے ہم کو وہ استاد و خلیفہ
کہ سارے کہہ اٹھے نور علی نور

روزنامہ الفضل ربوہ پر پابندی اور الفضل آن لائن لندن کے دوران interim period میں stop gap arrangement کے طور پر ’’گلدستہ علم و ادب‘‘ جاری ہوا۔ اس کا ذکر بھی ہونا چاہئےتھا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ الفضل آن لائن لندن کو خوب سے خوب تر کرتا چلا جائے اور نئے نئے علوم و معارف سامنے آتے رہیں۔

•مکرمہ ثمرہ خالد۔ جرمنی سے لکھتی ہیں۔
مورخہ 6 مئی کی اشاعت میں مضمون ’’نایاب ہوتے پانی کی قدر کریں‘‘ جہاں پانی کے ضیاع پر پند و نصائح لیے ہوئے تھا وہیں امة الباری صاحبہ نے اپنے ساتھ مجھے بھی صحنِ ماضی میں لا کھڑا کیا۔ جہاں ناصرف یادوں کے دریچے ایک ایک کر کے کُھلے بلکہ آگہی کا یہ در بھی وَا ہوا کہ نعمتوں سے فائدہ اٹھاتے وقت مشکل وقت کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے تاکہ انسان مقامِ شکر پر ایک ہی جگہ کھڑا نہ رہے بلکہ آگے قدم بڑھاتا جائے۔

خاکسار کی بھی بچپن کی یادوں میں ہینڈ پمپ (نلکا) کی یادداشت موجود ہے۔ ہمارے ہاں یہ نلکا غسل خانہ میں نصب تھا۔ جس کو نا صرف ہم بلکہ محلے کے وہ لوگ بھی استعمال کرتے جن کے گھروں میں یہ سہولت موجود نہ تھی۔ ہینڈ پمپ چلانا کبھی تو ہمارے مشاغل میں شامل ہوتا اور کبھی یہ کام بطور ڈیوٹی کیا جاتا۔ نلکے کا یہ پانی کھارا پانی کہلاتا تھا جو کہ پینے کے قابل نہیں تھا۔ میٹھے پانی کا ایک نلکا رائے ونڈ اسٹیشن پر نصب تھا جہاں سے ماشکی یہ پانی اپنی مشک میں بھر کر معمولی اجرت کے بدلے مختلف گھروں میں پہنچاتے تھے۔ پھر زمانہ کی ترقی کے ساتھ ہینڈ پمپ کی جگہ بجلی کی موٹر نے لے لی۔ جس کے ذریعے زیرِ زمین پانی کو چھت پر رکھی ٹینکی میں پہنچا یا جاتا۔ اس کے بھرنے کا پتہ لگانے کے لئے عموماً ٹینکی کے اوپری حصہ پر ایک سوراخ کر دیا جاتا تھا جس سے نکلتا پانی ٹینکی کے بھرنے کا اعلان کرتا۔ یہ طریقہ کار ایک طرف پانی کے ضیاع تو دوسری طرف اردگرد کو گندا کرنے کا باعث بنتا تھا۔ میرے والدِ محترم محمد اعظم ندیم نے اسکا حل یہ نکالا کہ ایک فرکی کے ذریعے رسی کا ایک سِرا پلاسٹک کا فلوٹ باندھ کر ٹینکی کے اندر لٹکا دیا اور رسی کے دوسرے سِرے پر لوہے کا وزن باندھ دیا اور دیوار پر ٹینکی کے سائز کے مطابق نشان لگا دئیے۔ ٹینکی میں جیسے جیسے پانی بھرتا جاتا۔رسی کا وزن والا سِرا نیچے آتا جاتا یوں ہمیں اس کے بھرنے کا اندازہ ہو جاتا سو موٹر کو بروقت بند کر کے پانی کو ضائع ہونے سے بچایا جاتا۔ اس طریقہ کو ناصرف بہت سے لوگوں نے سراہا بلکہ اختیار بھی کیا۔

شادی کے بعد خاکسار کو پاکستان کے مختلف شہروں اور لاہور کے مختلف علاقوں میں رہنے کا اتفاق ہوا۔ ہر جگہ پانی کے حصول کا طریقہ مختلف تھا۔ کہیں دن کے مختلف اوقات میں سرکاری پانی کے آنے کا انتظار کرنا پڑتا اور کہیں چوبیس گھنٹے وافر پانی میسر ہوتا تاہم اسلام آباد اور ملک عمان میں اس سلسلہ میں کافی دِقت کا سامنا کرنا پڑا۔ گرمیوں میں زیرِ زمین پانی کی کمی کے باعث اکثر سرکاری پانی نہیں آتا تھا اور ٹینکی کے خالی ہونے کا اُس وقت پتہ چلتا جب نل کھولنے پر پانی کی جگہ ہوا آنے لگتی ایسے میں واٹر ٹینکر کمپنی کو کال کی جاتی جو بھاری رقم لیکر پانی مہیا کرتے۔ سو وہاں اس قیمتی پانی کو بہت احتیاط سے استعمال کیا جاتا تھا۔ عمان میں بھی اسی قسم کی صورتحال تھی مزید یہ کہ چونکہ وہاں سارا سال ہی موسم گرم ہوتا ہے۔ اسلئے قدرتی طور پر پانی گرم بلکہ شدید گرم ہو تا تھا۔ گرمیوں میں دوپہر کے وقت نہانے کا تصور بھی نہیں کیا جاتا تھا۔ بچوں کو نہلانے سے کئی گھنٹے قبل ٹب بھر کے رکھ دیتی کہ پانی کی حدت کم ہو جائے بلکہ اکثر تو ٹب میں برف ڈالا کرتی تھی تاکہ غسل فائدہ مند ہو نہ کہ دردِ سر کا باعث۔ اُس وقت حضرت داؤد علیہ السلام کی اس دعا کی سمجھ آئی جس میں آپ نے ٹھنڈے پانی کی محبت کا ذکر فرمایا ہے۔ آج جب کہ ہم پانی کی نعمت اور سہولت سے خاطر خواہ فائدہ اٹھا رہے ہیں تو شکرانِ نعمت یہی ہے کہ ناصرف پانی کے استعمال میں اسراف سے بچیں بلکہ اپنی ضروریات کو بھی کم کرتے ہوئے اس کم ہوتے ذخیرہ کو آئندہ نسلوں اور اس سہولت سے محروم لوگوں کے لئے محفوظ بنائیں۔

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 8 جون 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ