• 24 اپریل, 2024

تم ولی اور پیر بنو نہ کہ ولی پرست اور پیر پرست (حضرت مسیح موعود علیہ السلام)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
ہم نے اس زمانے کے امام کو مانا ہے جس نے ہمیں تقویٰ پر چلنے اور حقوق اللہ اور حقوق العباد ادا کرنے کی طرف بے انتہا توجہ دلائی ہے۔ ہماری رہنمائی کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ تم ولی اور پیر بنو نہ کہ ولی پرست اور پیر پرست۔

(ماخوذ از ملفوظات جلدنمبر2صفحہ139۔ ایڈیشن 1998ء)

آجکل کے پیروں نے تو دین کو استہزاء کا نشانہ بنایا ہوا ہے۔ اب دیکھ لیں یہ بہت بڑی بات ہے کہ آپ ہم سے خواہش رکھتے ہیں کہ ولی اور پیر بنو۔ خود ہر ایک اپنی ذات میں ولی اور پیر ہو۔ لیکن آجکل کے پیروں کی طرح نہیں جنہوں نے اسلام کو استہزاء کا نشانہ بنا لیا ہوا ہے۔ آجکل کے پیر تو لوگوں کو غلط راستے پر ڈال کر جنت کا لالچ دے کر دوزخ کی طرف رہنمائی کر رہے ہیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ بیان فرماتے ہیں کہ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرمایا کرتے تھے کہ اُن کی ایک بہن کسی پیر کی مرید تھی۔ حضرت خلیفہ اولؓ نے اُنہیں کہا کہ تم بھی اب کچھ خوفِ خدا کرو، اب سمجھ جاؤ، اپنی دنیا و عاقبت سنوارو اور احمدی ہو جاؤ۔ تو وہ کہنے لگی کہ مجھے احمدی ہونے کی ضرورت نہیں۔ میں نے فلاں پیر صاحب کی بیعت کر لی ہے وہ بڑے پہنچے ہوئے پیر صاحب ہیں۔ انہوں نے مجھے کہہ دیا ہے کہ تمہیں کسی قسم کی نیکیاں کرنے کی ضرورت نہیں۔ تم ہماری سچی مریدنی ہو، جو جی میں آئے کرتی رہو، کوئی نیکی بجا لانے کی ضرورت نہیں، تمہارے سب گناہ ہم نے اُٹھا لئے ہیں۔ گویا کفّارہ کا نظریہ صرف عیسائیوں میں نہیں ہے ان مسلمان پیروں نے بھی پیدا کیا ہوا ہے تو کیا یہ لوگ خیرِ اُمت کہلانے کے حقدار ہیں؟ بہر حال حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنی بہن کو کہا کہ دوبارہ اپنے پیر صاحب کے پاس جاؤ تو اُن سے پوچھنا کہ جب قیامت کے دن ایک ایک شخص سے اُس کے عمل کے بارہ میں پوچھا جائے گا اور گناہوں کی وجہ سے جوتیاں پڑنی ہیں تو پھر پیر صاحب کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ آپ نے اپنے مریدوں کے گناہ اُٹھا لئے ہیں آپ کو کتنی جوتیاں پڑیں گی؟ تو بہر حال وہ کہنے لگیں کہ مَیں پیر صاحب سے ضرور پوچھوں گی۔ دوبارہ جب آپ کو ملنے آئیں تو آپ نے فرمایا کہ کیا پیر صاحب سے سوال پوچھا تھا؟ کہنے لگیں مَیں نے پوچھا تھا اور جس بات کو آپ نے بہت بڑا مسئلہ بنا کر پیش کیا تھا، پیر صاحب نے تو اُسے منٹوں میں حل کر دیا۔ آپ نے فرمایا کیسے؟ کہنے لگی میرے سوال پر پیر صاحب کہنے لگے دیکھو جب فرشتے تم سے پوچھیں کہ تم نے فلاں فلاں گناہ کیوں کئے ہیں تو کہہ دینا مجھے تو اس کا کچھ نہیں پتہ۔ یہ پیر صاحب یہاں کھڑے ہیں مجھے تو انہوں نے کہا تھا کہ جو جی میں آئے کرو، تمہیں کوئی نہیں پوچھے گا۔ اب یہ پیر صاحب کھڑے ہیں ان سے پوچھ لیں۔ اس پر وہ تمہیں چھوڑ دیں گے، تمہاری طرف نہیں دیکھیں گے۔ جب تمہاری طرف سے نظریں پھیریں تم دوڑ کر جنت میں داخل ہو جانا۔ پیر صاحب کہتے ہیں باقی رہ گیا میرا معاملہ تو جب فرشتے مجھ سے پوچھیں گے تو مَیں اپنی لال لال آنکھیں نکال کر غصے سے کہوں گا کہ کربلا میں ہمارے نانا حضرت امام حسینؓ نے جو قربانیاں دی تھیں کیا وہ کافی نہیں تھیں کہ آج پھر تم لوگ ہمیں تنگ کر رہے ہو۔ دنیا میں دنیا والوں نے ہمارا جینا حرام کر دیا تھا اور آج یہاں آئے ہیں تو تم بھی وہی طریق اختیار کئے ہوئے ہو اور ہمارے اعمال کے بارے میں پوچھ رہے ہو کہ کئے کہ نہیں کئے۔ تو اس پر فرشتے شرمندہ ہو کر ایک طرف ہٹ جائیں گے اور ہم گردن اکڑاتے ہوئے جنت میں بڑے رعب، دبدبے سے داخل ہو جائیں گے۔

(ماخوذ از تفسیر کبیر جلدنمبر7 صفحہ نمبر208تا209)

یہ ہے اُس وقت کے پیروں کا حال۔ آجکل کے پیر بھی اس قسم کے ہیں کہ بغیر اعمال کے جنتیں دینے والے ہیں جو حقیقت میں دوزخ کی طرف رہنمائی کرنے والے ہیں۔ خود بھی دوزخ میں گرنے والے ہیں اور اپنے ماننے والوں کو بھی اس طرف لے جانے والے ہیں۔ حقیقت میں جو جنت اس مبارک زمانے میں انسانوں کے قریب کی گئی ہے وہ وہ جنت ہے جس کے راستے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمیں دکھائے ہیں۔ قرآن و حدیث کی خوبصورت وضاحت کر کے، اعمال کے بجا لانے کی طرف توجہ دلا کر، لغویات اور بدعات کو ختم کر کے، دنیا کو خدا کے حضور سربسجود ہونے کے طریق بتا کر، یہ راستے ہیں جو جنت میں جانے کے ہیں اور اس طرح جنت قریب کی گئی ہے۔

جہاں تک پیروں کا ذکر ہے یہ صرف اُس زمانے کے پیر نہیں جیسا کہ میں نے کہا جو حضرت خلیفہ اول میں بیان فرمایا ہے، بلکہ آجکل بھی یہی حال ہے۔ ایک بہت بڑا طبقہ پاکستان میں بھی اور ہندوستان میں بھی بلکہ اکثر مسلمان ممالک میں جاہل لوگوں کا تو ہے ہی، لیکن صرف جاہلوں کاہی نہیں بلکہ ایسے پڑھے لکھے لوگوں کا بھی ہے جو اپنے آپ کو کم از کم پڑھا لکھاسمجھتے توہیں، جن میں ہمارے لیڈر بھی ہیں اور سیاستدان بھی ہیں۔ کئی کا مجھے علم بھی ہے جو نہ نمازیں پڑھیں گے، نہ قرآن پڑھیں گے لیکن پیروں کے مرید ہیں اور اُن کی دعاؤں کو ہی اپنے لئے کافی سمجھتے ہیں۔ اگر جنتیں اس طرح قریب ہونی ہیں اور ملنی ہیں پھر تو قرآنِ کریم کے احکامات کی نعوذ باللہ کوئی ضرورت ہی نہیں ہے۔ قرآنِ کریم کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ پس ہم بڑے خوش قسمت ہیں جنہوں نے زمانے کے امام کو مان کر جنت کی حقیقت کا پتہ لگایا ہے۔ خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کا ادراک حاصل کیا ہے۔ کئی لوگ مجھے دعا کے لئے کہتے ہیں، تو جب پوچھا کہ تم نمازوں میں باقاعدہ ہو؟ تو پتہ چلتا ہے کہ نہیں ہیں۔ تو مَیں تو یہی جواب دیا کرتا ہوں کہ پہلے خود دعا کرو اور اپنی دعا سے میری دعا کی قبولیت میں مددگار بنو اور یہ اس سنت کے مطابق ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے سامنے قائم فرمائی ہے۔

ایک مرتبہ ایک صحابی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر دعا کے لئے عرض کیا تو آپؐ نے فرمایا مَیں دعا کروں گا لیکن تم بھی اپنی دعاؤں سے میری مدد کرو۔

(مسلم کتاب الصلاۃ باب فضل السجود والحث علیہ حدیث نمبر1094)

پس یہ ہے وہ خوبصورت نقشہ جو ایک مسلمان معاشرے کا ہونا چاہئے کہ اپنے اعمال کی اصلاح کرو، اپنے لئے دعائیں کرو اور جس کو دعا کے لئے کہو اُس کی بھی اپنی دعاؤں کے ذریعے سے مدد کرو۔ دعائیں وہی قبولیت کا درجہ پا سکتی ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کرتے ہوئے آپ کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق کی جائیں اَور کوئی ذریعہ نہیں ہے اور ان دعاؤں میں بھی دین کی برتری کے لئے دعا کو ترجیح دینی چاہئے۔ جب اس سوچ کے ساتھ زندگی بسر ہو رہی ہو گی اور دعاؤں کی طرف توجہ ہو گی تو پھر وہ عظیم انقلاب بھی پیدا ہو گا جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اُس عظیم غلام کو دنیا میں بھیجا تھا اور جس کے آنے سے جنت انسان کے قریب کر دی گئی تھی۔ پس ہر احمدی کو اپنی سوچوں کو اس طریق کے مطابق ڈھالنے کی ضرورت ہے، اپنے عملوں کو اس نہج پر بجا لانے کی ضرورت ہے۔

(خطبہ جمعہ 23؍ ستمبر 2011ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 8 جولائی 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 9 جولائی 2021