مؤرخہ 12 اکتوبر 1902ء کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں حضرت مولوی عبد الکریم سیالکوٹیؓ نے ایڈیٹر ’’شحنہ حق‘‘ کی ایک خواب کا ذکر کیا کہ اس نے حضرت اقدسؑ کو ایسی حالت میں دیکھا کہ سر پاؤں سے لگا ہوا ہے جس پر آپؑ نے فرمایا کہ ’’جو لوگ مامورین کو بُری صورت میں دیکھتے ہیں وہ لوگ اپنی پردہ دَری کراتے ہیں ۔۔۔ چنانچہ تعطیر الانام میں ایسا ہی لکھا ہے کہ جب کسی نبی مامور و مرسل کو ردّی حالت میں دیکھتا ہے مثلاً مجذوم دیکھتا ہے یا برہنہ دیکھتا ہے یا یہ کہ وہ بُری غذا کھاتے ہیں تو یہ سب اس کے اپنے ہی حالات ہوتے ہیں۔ انبیاء آئینہ کا حکم رکھتے ہیں اور اس کی اصلی صورت دکھا دیتے ہیں۔‘‘
(ملفوظات جلد3 صفحہ229-230)
’’انبیاء آئینہ کا حکم رکھتے ہیں‘‘ کے الفاظ اپنے اندر بہت گہرے اور دقیق معانی رکھتے ہیں۔ جیسا کہ آنحضورﷺکا قول ہے اَلْمُسْلِمُ مِرْاٰۃُ الْمُسْلِم کہ مسلمان دوسرے مسلمان کے لئے آئینہ ہے۔ آئیں! قرآن کریم میں بیان انبیاء کی سیرت کا ایک ایک پہلو اُن کو آئینہ تصور کرتے ہوئے اس غرض اور نیت سے دیکھتے ہیں کہ ہم بھی ان انبیاء کی سیرت و شمائل کو اپنے اندر اُتارنے والے بنیں۔
حضرت آدمؑ سے بات کا آغاز کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدمؑ کو جس درخت کے پاس جانے اور اسے چکھنے سے منع کیا تھا وہ آپ اور آپ کی اہلیہ نے چکھا جس پر ان دونوں کی کمزوریاں ان پر ظاہر ہوئیں تو انہوں نے جنّت کے پتّوں سے اپنے آپ کو ڈھانپ لیا۔
(الاعراف:23)
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے پتّوں کے لباس سے ’’لباس تقویٰ‘‘ مراد لی ہے۔ آپؒ فرماتے ہیں:
’’اس کے بعد اُس لباس کا ذکر ہے جو بظاہر پتّوں کی صورت میں آدم علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اوڑھا تھا مگر اس سے مراد لباسُ التقویٰ کے سوا اور کوئی لباس نہیں تھا۔ اسی طرح بنی نوع انسان کو متنبہ فرمایا گیا ہے کہ جس طرح ایک دفعہ شیطان نے آدمؑ کی قوم کو پھسلایا تھا وہ آج بھی اسی طرح انبیاء کی قوموں کو پھسلا رہا ہے اور جنت سے نکلنے کا اصل مفہوم دائرہ شریعت سے باہر نکلنے پر اطلاق پاتا ہے کیونکہ دائرہ شریعت میں ہی جنت ہے اور اس سے باہر جہنّم کے سوا کچھ نہیں۔ آج بھی قرآن کریم کے دائرہ شریعت سے باہر نکلنے کے نتیجہ میں سارے بنی نوع انسان ہر قسم کے جسمانی اور روحانی جہنّم میں مبتلا کر دیئے گئے ہیں۔ اسی مضمون کو کہ زینت اصل میں تقویٰ کی زینت ہے، اس آیت کریمہ میں بیان فرمایا گیا کہ مسجد میں جانے سے تمہیں کوئی زینت نہیں ملے گی جب تک کہ تم اپنی زینت یعنی تقویٰ کو ساتھ لے کر نہیں جاؤ گے۔‘‘
(تعارف سورۃ الاعراف قرآن کریم اردو ترجمہ صفحہ 239-240)
حضرت ابراہیم علیہ السلام
جو ابو الانبیاء کہلاتے ہیں۔ قرآن کریم میں دو انبیاء کے طریق کو اسوہ حسنہ قرار دیا گیا ہے۔ ایک آپؑ اور دوسرے ہمارے بہت ہی پیارے نبی حضرت محمد مصطفی ﷺ ۔ حتی کہ آپؐ کو ابراہیم حنیف کی ملت کی پیروی کا حکم ہے (النساء:126) اور سب سے بڑھ کر مقام ابراہیم کو اپنی نمازوں میں اپنانے اور ملّت ابراہیم کی پیروی کا حکم ہے۔ (البقرۃ: 126 و اٰل عمران: 96)۔ آپؑ کو مسلم قرار دیا لہٰذا لفظ ’’مسلم‘‘ پر کسی کی اجارہ داری نہیں۔ اور پھر آپؑ نے تعمیر کعبہ کیا جس کی طرف امت مسلمہ کو مُنہ کر کے نمازوں کی ادائیگی کا حکم ہے اور پھر حج کی راہیں متعین ہوئیں۔
حضرت ادریس علیہ السلام
آپؑ کا ذکر صبر کرنے والوں میں ملتا ہے۔
(الانبیاء:86)
حضرت اسحٰق علیہ السلام
آپؑ کو اللہ تعالیٰ نے ہاتھ سے کام (محنت) کرنے والا اور دور اندیش اور صاحب بصیرت قرار دیا (صٓ:46) اور ایسے امام بنایا جو لوگوں کو نیک باتوں کی ہدایت کرتے تھے یعنی داعی الی اللہ تھے۔
حضرت اسماعیل علیہ السلام
آپؑ ذبیح اللہ تھے۔ اللہ تعالیٰ نے آپؑ کو ایک بہت بڑی قربانی کے لئے چُن لیا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جس بیٹے کی قربانی کا خواب دیکھا تھا وہ آپؑ کو وادیٔ غیر ذی زرع میں چھوڑ کر آنے سے پورا ہوا۔ آپؑ کی جسمانی اور روحانی ذریت سے آنحضرت ﷺ پیدا ہوئے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’ذبح عظیم سے مراد خدا کی راہ میں قربان ہونے والے سب انبیائے کرام سے بڑھ کر عظیم وجود یعنی حضرت محمد مصطفی ﷺ ہیں جن کا آنا حضرت اسماعیل علیہ السلام کے بچ جانے پر موقوف تھا۔‘‘
(ترجمہ قرآن کریم صفحہ 793حاشیہ زیر آیت الصآفات آیت 108)
آپؑ، اپنے والد حضرت ابراہیمؑ کے ساتھ خانہ کعبہ کی تعمیر نو میں شریک ہوئے (البقرۃ:128)۔ اور آپؑ اپنے اہل و عیال کو نماز و زکوٰۃ کی تلقین کرتے تھے۔ (مریم:56)
حضرت الیاس علیہ السلام
آپؑ کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں دو دفعہ فرمایا ہے۔ سورۃ الانعام اور سورۃ الصّآفّات میں ۔ بائبل میں آپؑ کا نام ’’ایلیا‘‘ ملتا ہے جنہوں نے غیر معمولی قربانی سر انجام دی تھی۔ قرآن کریم میں ذکر ہے آپؑ نے اپنی قوم کو ’’بعل‘‘ کی عبادت سے منع فرمایا اور اللہ کی عبادت کی تلقین کی۔ اللہ تعالیٰ نے آپؑ کو ’’اِلْ یَاسِیْنَ‘‘ یعنی جمع کے صیغے سے بھی پکارا ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے تحریر فرمایا ہے کہ ’’عبرانی طرز کلام میں واحد کے لئے بھی عزت کی وجہ سے جمع کا صیغہ استعمال کیا جاتا ہے جیسا کہ ان کی کتب میں آنحضرت ﷺ کا نام محمدؐ نہیں بلکہ ’’محمدیمؐ‘‘ لکھا ہوا ہے۔ چونکہ ایلیا (الیاس) نے بھی غیر معمولی قربانی سرانجام دی تھی۔ اس لئے آپؑ کا بھی جمع کے صیغہ میں ذکر فرمایا گیا۔‘‘
(ترجمۃ قرآن کریم صفحہ 795 زیر آیت الصّآفّات آیت 131)
حضرت الیسع علیہ السلام
حضرت الیسعؑ کا ذکر بھی قرآن کریم میں دو جگہ پر ہے۔ آپؑ کو آپؑ کے حسن عمل کی وجہ سے اخیار یعنی چنیدہ لوگوں میں شمار کیا گیا هے۔ اللہ تعالیٰ نے صراط مستقیم کی طرف رہنمائی کی۔ (صٓ:49)
حضرت ایوب علیہ السلام
اللہ تعالیٰ نے آپؑ کو عظیم الشان صاحب صبر نبی قرار دیا ہے۔ آپؑ کو جلد کی بیماری ہو گئی تھی۔ آپؑ نے اس تکلیف دہ بیماری کو بہت صبر سے برداشت کیا۔ آپؑ کو اس دوران اَنِّیْ مَسَّنِیَ الضُّرُّ وَاَنْتَ اَرْحَمُ الرَّاحِمِیْنَ (الانبیاء:84) کی دُعا سکھلائی گئی جس سے اس ابتلاء کا خاتمہ ہوا۔ جو آج صحت کے حصول یا بیماری سے شفا پانے کی دُعا کہلاتی ہے۔
حضرت داؤد علیہ السلام
آپؑ کو ’’خَلِیْفَۃً فِی الْاَرْضِ‘‘ کہا گیا۔ اور آپؑ کو لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کرنے اور اپنی خواہشات کی پیروی نہ کرنے کی تلقین کی گئی۔ اور آپؑ اور آپؑ کی اٰل کو اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لانے کی نصیحت کی گئی کیونکہ آپؑ کو مملکت عطا کی گئی تھی۔ اور آپؑ ’’ذَاالْاَیْدِ‘‘ یعنی آپؑ کو دسترس اور طاقت عطا کی گئی تھی۔ آپؑ کے لئے لوہے کو نرم کیا گیا۔ جس سے آپؑ نے جنگوں میں زرہیں بنائیں اور بہت سی نعمتوں جیسے ’’زبور‘‘ سے نوازا گیا تھا۔ جن کی بناء پر تشکر الٰہی کی نصیحت کی گئی ۔ آپؑ کا ذکر تفصیل سے سورۃ صٓ، النمل، النساء اور سبا میں ملتا ہے۔ آپ صاحب شریعت نبی تھے۔
حضرت سلیمان علیہ السلام
آپؑ حضرت داؤدؑ کے جانشین تھے۔ آپؑ کو تانبے کی کان کنی اور اس کے استعمال کی صفت سکھلائی گئی تھی۔ آپؑ کو بھی بہت سی نعماء سے نوازا گیا تھا۔ آپ کو ان نعمتوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے حضور جھکنے والا اور شکر گزار بندہ قرار دیا گیا۔ جو نعمتیں والدین پر ہوں ان کا بھی شکر بجا لانا ضروری ہے۔ آپ کی ان عادات بالخصوص عاجزی کے ساتھ جھکنے کی وجہ سے آپ کو ’’نِعْمَ الْعَبْد ُ‘‘ کہا گیا (صٓ:31) اور دوسری خوبی یہ تھی کہ اس نے کہا کہ میں مال کی محبّت اپنے ربّ کی یاد کی وجہ سے کرتا ہوں (صٓ:33)۔ اور تیسری خوبی یہ تھی کہ آپؑ داعی الی اللہ بھی خوب تھے۔ آپؑ نے ملکہ سبا کو خط بھی لکھا اور خدائے واحد و یگانہ کی عبادت کی نصیحت کی۔
حضرت زکریا علیہ السلام
آپؑ بڑھاپے میں اپنے ہاں اعجازی پیدائش کے حوالے سے جانے جاتے ہیں۔ آپؑ نے جب حضرت مریمؑ کے ہاں معجزانہ پیدائش کی اطلاع پائی تو آپؑ نے محراب میں کھڑے ہو کر رَبِّ لَا تَذَرْنِیْ فَرْدًا وَاَنْتَ خَیْرُ الْوَارِثِیْنَ (الانبیآء:90) اور رب ھب لی من لدنک ذریه طیبه کی دُعا کی اور آپؑ کو یحییٰ کی پیدائش کی بشارت دی گئی۔ جبکہ آپ اتنے بوڑھے تھے کہ سفیدی سے گویا سر بھڑک اُٹھا تھا۔ اور بیوی صرف بوڑھی ہی نہیں بلکہ بانجھ تھی۔ اور آپؑ کا شمار نیکیوں میں آگے بڑھنے والوں میں بھی ہوتا ہے۔ (الانبیآء:91)
لہٰذا اولاد سے محروم افراد کو حضرت زکریاؑ کے آئینہ میں اُتر کر آپؑ کی صفات، تقویٰ اور دُعا کو اپنانا چاہئے۔ نیز آپؑ نے چونکہ حضرت مریمؑ کی پاک باطنی سے متاثر ہو کر بیٹے کی دُعا کی تھی، اس لئے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے وقفِ نو کی جو مبارک تحریک فرمائی اور ہمارے موجودہ امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس کی توثیق فرمائی اور واقفین نو کی ماؤں کو حضرت مریمؑ کی یہ دُعا کرنے کی بھی تلقین فرمائی۔ رَبِّ اِنِّیْ نَذَرْتُ لَکَ مَا فِیْ بَطْنِیْ مُحَرَّرًا فَتَقَبَّلْ مِنِّیْ (اٰل عمران: 36)
حضرت شعیب علیہ السلام
آپؑ کا ذکر قرآن کریم میں قوم کو ماپ تول پورا پورا کرنے کی تاکید (الاعراف:86) اور قوم کو تقویٰ اختیار کرنے کی تلقین کے حوالے سے ملتا ہے۔ (الشعرٓاء:178)
حضرت صالح علیہ السلام
آپؑ قومِ ثمود کی طرف بھیجے گئے تھے۔ آپؑ نے اپنی قوم کو خدائے واحد و یگانہ کی عبادت کی تلقین کی۔ ان کے انکار پر قوم کو استغفار اور توبہ اختیار کرنے کو کہا۔ (ھود:62) حضرت صالحؑ نے تبلیغ کے لئے ایک ناقہ (اونٹنی) پال رکھی تھی۔ قوم نے اس کی کونچیں کاٹ دی تھیں تا آپ تبلیغ نہ کر سکیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے لکھا ہے کہ :
’’حضرت صالح علیہ الصلوٰۃ والسلام جس ناقہ پر پیغام پہنچانے کے لئے سفر کیا کرتے تھے ۔ جب اس ناقہ کی کونچیں ان کی قوم نے کاٹ ڈالیں تو پھر اُن پر بہت بڑی تباہی آئی۔ پس نبیوں کے دشمن جب بھی ان ذرائع ابلاغ کو کاٹتے ہیں جن کے ذریعہ ہدایت کا پیغام پہنچایا جاتا ہے تو وہ بھی ہمیشہ ہلاک کر دیئے جاتے ہیں۔‘‘
(تعارف سورۃ الشمس ترجمۃ القرآن صفحہ 1173)
حضرت لقمان علیہ السلام
اللہ تعالیٰ نے آپؑ کو حکمت عطا کی جس کا مرکزی نقطہ شکرِ الٰہی ہے اور کہا گیا کہ جو بھی شکر کرے گا تو وہ محض اپنی بھلائی کے لئے کرتا ہے اور جو ناشکری کرے۔ تو یقینًا اللہ غنی ہے۔ (لقمٰن:13) اللہ تعالیٰ نے لقمانؑ کے نام سے سورۃ بھی نازل فرمائی۔ جس میں حضرت لقمانؑ کی اپنے بیٹے کو درج ذیل نصائح کا ذکر فرمایا:
اللہ کا شرک نہ کرو۔ اللہ اور اپنے والدین کا شکر ادا کر۔ اگر والدین شرک کی طرف تجھے بلائیں تو ان کی اطاعت نہ کر۔ مگر دنیا میں دستور کے مطابق ان سے سلوک فرما۔ نماز قائم کر۔ اچھی باتوں کا حکم دے۔ ناپسندیدہ باتوں سے روک۔ ہر پہنچنے والی مصیبت پر صبر کر۔ لوگوں کے ساتھ نخوت سے پیش نہ آ۔ زمین میں اکڑ کر نہ چل۔ اپنی چال میں میانہ روی اختیار کر۔ اپنی آواز کو دھیما رکھ۔
حضرت لوط علیہ السلام
آپؑ کا قرآن کریم کی نو سورتوں میں تفصیل سے ذکر ہے۔ قوم کی ہلاکت اور اس کی پیشگوئیوں کا ذکر ہے۔ آپؑ نے اپنی قوم کو فحاشی سے روکا۔ جس کا ذکر تین سورتوں میں ملتا ہے۔ قوم نے آپؑ کو بہت تنگ کیا۔
حضرت نوح علیہ السلام
آپؑ کا شمار میثاق النبیّین میں سے ہوتا ہے یعنی ایسے انبیاء جن سے اللہ تعالیٰ نے عہد لیا تھا۔ وہ تاکیدی حکم کیا تھا کہ تم دین کو مضبوطی سے قائم کرو۔ اس بارہ میں کوئی اختلاف نہ کرو۔ حضرت نوحؑ کی تعلیمات کو دین اسلام میں شامل کیا۔ (الشوریٰ: 14) قوم کی طرف سے شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ اور قوم کو پانی کے عذاب سے ہلاک کر دیا گیا۔ آپؑ نے ایک کشتی بنائی۔ جس پر آپؑ اور متبعین سوار ہو کر بچ نکلے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھی اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ کا نوح قرار دیا۔ آپ نے بھی ایک کشتی بنائی جو کشتی نوح کہلائی۔
حضرت ہود علیہ السلام
آپؑ کے نام سے ایک سورۃ قرآن کریم نازل ہوئی جس کے متعلق آنحضور ﷺ فرمایا کرتے تھے کہ مجھے سورۃ ہود نے بوڑھا کر دیا ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ ’’رسول اللہ ﷺ کو جب یہ ارشاد ہوا فَاسْتَقِمْ کَمَا اُمِرْتَ (ھود:113) تو لکھا ہے کہ آپؐ کے کوئی سفید بال نہ تھا پھر سفید بال آنے لگے تو آپؐ نے فرمایا مجھے سورۃ ہود نے بوڑھا کر دیا۔
(ملفوظات جلد چہارم صفحہ 145)
حضرت ہودؑ نے اپنی قوم کو بار بار اوپر تلے تقویٰ اختیار کرنے کی نصیحت فرمائی۔
(الشعراء:125)
حضرت یحییٰ علیہ السلام
آپؑ کے نام کا اس سے قبل کوئی شخص نہ تھا (مریم:8) اور آپؑ حضرت زکریا علیہ السلام کی دعاؤں کا ثمرہ تھے۔ (الانبیآء:91) اور بعض سابقہ پیشگوئیوں کے مصداق اور بعض انبیاء کے مصدق ٹھہرے۔ (اٰل عمران: 40)
سورۃ مریم میں آپؑ کو دیئے گئے جن احکامات اور آپؑ کی جن خوبیوں کا ذکر ہے وہ یوں ہیں:
اے یحییٰ! کتاب کو مضبوطی سے پکڑ لے اور ہم نے اسے بچپن ہی سے حکمت عطا کی تھی۔ نیز اپنی جناب سے نرم دلی اور پاکیزگی بخشی تھی اور وہ پرہیزگار تھا اور اپنے والدین سے حسنِ سلوک کرنے والا تھا اور ہر گز سخت گیر اور نافرمان نہ تھا۔ اور سلامتی ہے اس پر جس دن وہ پیدا ہوا اور جس دن وہ مرے گا اور جس دن اسے دوبارہ زندہ کر کے اُٹھایا جائے گا۔ (مریم:13-16)
پس ہم سب کو بالخصوص واقفین و واقفات نَو کو ان صفات کا حامل ہونا ضروری ہے اور حضرت یحییٰؑ کی صفات کے آئینہ میں ان کو دیکھتے ہوئے ، یحییٰ بننے کی کوشش کریں۔
حضرت یعقوب علیہ السلام
آپؑ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے نافلہ یعنی پوتے تھے۔ آپؑ کا نام اللہ تعالیٰ نے قرآن میں اسرائیل بھی رکھا ہے (اٰل عمران:94) آپؑ نے اپنی اولاد کو توحید پر قائم رہنے کی نصیحت کرتے ہوئے فرمایا۔ اے میرے پیارے بچو! اللہ نے تمہارے لئے اس دین کو چُن لیا ہے پس فَلَا تَمُوْتُنَّ اِلاَّ وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ (البقرۃ:133) کہ تم ہر گز نہ مرنا مگر اس حالت میں کہ تم فرمانبردار ہو۔ بچے بھی کمال مطیع و فرمانبردار تھے۔ جنہوں نے والد محترم حضرت یعقوبؑ کے پوچھنے پر کہا کہ ہم تیرے معبود اور تیرے اجداد ابراہیمؑ، اسماعیل اور اسحاق علیہم السلام کے معبود کی جو ایک ہی ہے عبادت کرتے رہیں گے اور ہم اُسی کے فرمانبردار رہیں گے۔ (البقرۃ:134)
حضرت یوسف علیہ السلام
قرآن کریم میں جن انبیاء کے ذاتی ناموں سے سات سورتیں آئی ہیں، ان میں سے ایک حضرت یوسفؑ بھی ہیں۔ جو آپؑ کی زندگی کے مختلف پہلوؤں اور ادوار کو اُجاگر کرتی ہے۔ آپؑ کو علم و حکمت کے ساتھ ساتھ خوابوں کی تعبیر کا علم دیا گیا تھا۔ آپؑ کو اگر انبیاء کے آئینہ میں دیکھنا ہو تو دو وصف بہت اہم ہیں۔
آپؑ نے اپنے بھائیوں کو لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمْ الْیَوْمَ (یوسف:93) کہہ کر معاف فرما دیا۔
جب ایک لمبے عرصہ کے بعد والدین سے آپؑ کی ملاقات ہوئی تو آپؑ نے اپنے والدین کا احسن رنگ میں استقبال کیا اور ان کو اپنے قریب بٹھاتے ہوئے تکریم بخشی اور عزت کے ساتھ تخت پر بٹھایا۔ (یوسف:100، 101)
حضرت یونس علیہ السلام
آپؑ کے نام سے بھی سورت قرآن میں موجود ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ القلم کے آغاز پر ’’نٓ‘‘ سے بھی ذوالنون یعنی یونسؑ مراد لئے ہیں۔
(ترجمۃ قرآن۔ تعارف سورۃ القلم ص1060)
آپؑ کو سمندر میں ایک مچھلی نے نگل لیا تھا، مگر پھر اُگل دیا۔ اور حضرت یونسؑ کو سمجھایا کہ وعید بسا اوقات توبہ و استغفار سے ٹل جایا کرتی ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے لکھا کہ ’’تب اللہ تعالیٰ نے حضرت یونس علیہ السلام کو یہ سبق سکھایا کہ اس کے وعید بسا اوقات توبہ و استغفار سے ٹل جاتے ہیں اور اس پر ان کو یہ دُعا بھی سکھائی کہ لَا اِلٰہَ اِلاَّ اَنْتَ سُبْحَانَکَ اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظَّالِمِیْنَ (سورۃ الانبیاء:88) کہ تُو تو ہر کمزوری سے پاک ہے۔ میں ہی ظالم تھا جو ایک توبہ کرنے والی قوم پر عذاب کا متمنی رہا۔‘‘
(تعارف سورۃ القلم ترجمۃ القرآن صفحہ1060)
انبیاء کے آئینہ میں دیکھتے ہوئے جو سبق ہمیں یہاں ملتا ہے اس کا ذکر اللہ تبارک و تعالیٰ نے سورۃ الصافات آیت 144، 145 میں حضرت یونس علیہ السلام کے ذکر میں فرمایا کہ اگر آپ تسبیح کرنے والے نہ ہوتے تو ہمیشہ مچھلی کے پیٹ میں رہتے تو گویا ہمیں بھی ’’مُسَبِّحِیْنَ‘‘ میں رہنا چاہئے تا ہماری مشکلات بھی دور ہوں۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام
آپؑ صاحب شریعت تھے۔ تورات آپؑ پر اُتری تھی۔ آپ معجزوں کے لحاظ سے مشہور تھے۔ لاٹھی کا عصا بنانا اور سمندر کا پھٹ جانا آپ کے معجزوں میں سے تھا۔ آپ کوہ طور پر خدا تعالیٰ کی تجلّی دیکھنے گئے تھے۔ آپ کو وہاں حضرت محمدؐ کی خبر دی گئی۔
(ترجمۃ القرآن خلیفۃ المسیح الرابعؒ صفحہ951)
نیز حضرت محمدؐ کی آپؑ سے مشابہت کا بھی ذکر قرآن کی سورۃ المزمل 16میںملتا هے۔ فرعون اور اس کی قوم کی طرف سے آپؑ کو سخت مخالفت کا سامنا رہا۔ آپؑ کو سمندر میں بہا دیا گیا اور دوبارہ اللہ تعالیٰ نے والدہ سے ملنے کے سامان پیدا فرما دیئے۔آپؑ کو فرعون کے لئے نو نشانات دیئے گئے۔ (بنی اسرائیل:102) آپؑ نے حضرت ہارونؑ کو اپنا معاون بنانے کی خدا تعالیٰ سےدرخواست کی جو قبول کر لی گئی اور حضرت ہارونؑ کو آپؑ کا وزیر بنا دیا گیا۔ (طٰہٰ:30-36) آپؑ نے فرعون کے پاس جاتے یہ دُعا کی تھی۔ رَبِّ اشْرَحْ لِیْ صَدْرِیْ۔ وَیَسِّرْ لِیْ اَمْرِیْ۔ وَاحْلُلْ عُقْدَۃً مِّنْ لِّسَانِیْ۔ یَفْقَھُوْا قَوْلِیْ (طٰہٰ: 26تا27) ہم میں سے ہر ایک کو تبلیغ، دعوت الی اللہ، اور اپنا ما فی الضمیر کو اعلیٰ رنگ میں بیان کرنے کے لئے اس دُعا کو وِرد بنانا چاہئے۔
حضرت ہارون علیہ السلام
آپؑ حضرت موسیٰؑ کے ہمعصر اور معاون تھے۔ حضرت موسیٰؑ کے ذکر میں لکھا جا چکا ہے کہ حضرت موسیٰؑ نے اللہ تعالیٰ سے آپ کے معاون بننےکی استدعا کی تھی جو قبول کر لی گئی۔ معاون بنانے کی وجہ یہ تھی کَیْ نُسَبِّحَکَ کَثِیْرًا وَّنَذْکُرَکَ کَثِیْرًا (طٰہٰ: 34-35) کہ ہم کثرت سے تیری تسبیح کریں اور تیرا ذکر بھی کثرت سے کریں۔ حضرت موسیٰ و ہارون علیہم السلام (جن پر اللہ تعالیٰ نے سلامتی بھیجی تھی) کے آئینہ میں دیکھیں تو نیکی اور دعوت الی اللہ کے کاموں میں جب کسی کو اپنا ساتھی بنائیں تو اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تحمید بہت کرنی چاہئے۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام
آپؑ موسوی سلسلہ کے چودہویں اور آخری نبی تھے۔ آپ کا بہت تفصیل سے ذکر قرآن میں ملتا ہے۔ آپؑ رسول اللہ، کلمۃ اللہ اور روح القدس سے تائید یافتہ تھے۔ آپؑ نے یہود کے تہترویں ناجی فرقہ کی بنیاد رکھی (خلیفہ رابع) آپؑ ایک کامل موحد رسول تھے۔ آپؑ کو تورات کا علم دیا گیا تھا۔ آپ تورات کی پیشگوئیوں کےمصدق و مصداق تھے۔ آپؑ نے اپنے بعد احمد رسول کی بشارت بھی دی۔ آپؑ کی تعلیم کے خاص پہلو یہ تھے کہ آپؑ نے فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے نماز اور زکوٰۃ کی وصیت کی ہے اور والدہ سے حُسنِ سلوک کرنے والا بنایا نیز میں سخت گیر اور سخت دل نہیں ہوں۔ (مریم: 32-33) اور رزق حلال کے حصول کے لئے آپ کی یہ دُعا بہت اہم ہے۔ اَللّٰهُمَّ رَبَّنَا أَنْزِلْ عَلَيْنَا مَآئِدَةً مِّنَ السَّمَآءِ تَكُوْنُ لَنَا عِيْدًا لِّأَوَّلِنَا وَآخِرِنَا وَآيَةً مِّنْكَ وَارْزُقْنَا وَأَنْتَ خَيْرُ الرَّازِقِيْنَ (المائدة: 115)
حضرت عیسیٰؑ کی ایک خوبی قرآن کریم میں یہ درج ہے کہ آپؑ کے حواریوں نے نحن انصار اللّٰہ کا نعرہ بلند کیا اور حق کی گواہی دینے والوں میں شمار کیا۔ اور وہ تائید یافتہ ٹھہرے۔ (اٰل عمران: 53۔ الصّفّ: 15)
ان کے علاوہ ذو الکفل اور ذو القرنین کا بھی ذکر ملتا ہے کہ وہ خدا کے چنیده صابرین میں سے تھے۔
حضرت محمد ﷺ
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں چار مرتبہ آپ کے اسم مبارک کا ذکر فرمایا ہے اور 48 سورتوں میں آپ کا ذکر مبارک بالواسطہ یا بلا واسطہ کیا ہے اور ان میں سے بعض سورتوں میں بار بار ذکر ملتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو درج ذیل القابات سے نوازا۔ طٰہٰ، یٰسٓ، المزّمّل، المدّثّر، عبد اللہ، الانسان، رحمۃ للعالمین، خاتم النبیّین۔ آپؐ کو مقام محمود پر فائز فرمایا۔ جو روحانی ارتقاء کا اعلیٰ ترین مقام تھا۔ آپؐ کو معراج و اسراء کا سفر کروایا گیا۔
آپؐ کے جو بلند مقام قرآن میں درج ہوئے ان میں سے بعض یہ ہیں۔ آپ کا آنا گویا خدا کا آنا تھا، آپ کا فعل خدا کا فعل تھا (الانفال:18) آپؐ کی بیعت، اللہ کی بیعت ہے (الفتح:11) آپؐ کی اطاعت، اللہ کی اطاعت ہے (النساء:89) آپؐ اللہ کے نور کے عظیم الشان مظہر تھے (النّور:36) آپؐ کی اطاعت صالح، شہید، صدیق اور نبی کا مقام دلا سکتی ہے (النساء:70) آپؐ تمام نبیوں کے سردار تھے۔ اللہ اور فرشتے آپؐ پر درود و سلام بھیجتے ہیں۔ مومنوں کو بھی درود بھیجنے کا حکم دیا ہے (الاحزاب:57)
آپؐ حضرت ابراہیمؑ کی دعاؤں کا ثمرہ تھے۔ حضرت عیسیٰؑ کی پیشگوئی اِسْمُہٗٓ اَحْمَدُ کے مصداق تھے۔ آپؐ ذو القرنین تھے اور تورات و اناجیل میں نہ صرف آپؐ کا ذکر بلکہ آپؐ کے صحابہ کا ذکر بھی ملتا ہے (الفتح:30) حضرت موسیٰؑ سے مماثلت رکھتے تھے۔ آپؐ کی تعلیم جامع، تمام کتب الٰہی کا خلاصہ، خاتم الکتب۔ آپؐ کی ازواج مطہرات کو مومنوں کی مائیں قرار دیا گیا (الاحزاب:7) آپؐ نرم دل، نرم گفتار، مومنوں کے لئے رؤوف و رحیم، مخلوق کے لئے ہمدرد، آپؐ کو مسلسل نصیحت کرتے جانے کا حکم ہوا۔ عفو کا بے نظیر نمونہ۔ زمین و آسمان کا بوجھ اٹھانے کا عزم کرنے والے تھے۔
اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو مثالی عبد قرار دیا۔ (الجنّ:20) بدر کے موقع پر تضرع و ابتہال کی دُعا اور دیگر دعاؤں سے قرآن کریم بھرا پڑا ہے۔ جس کو اپنانا ضروری ہے۔ نیز تمام سیرت و شمائل کو سیرت رسولؐ کے آئینہ میں دیکھیں تو ایک خوبصورت اور حسین شکل اُبھرتی ہے جو خالق کو تو پیاری ہے ہی۔ اس کی مخلوق کو بھی بہت پیاری اور معزز ہے۔
تمام انبیاء کے مظہر
اللہ تعالیٰ نے آپؐ کے نام سے سورۃ بھی اُتاری۔ اس سورۃ کے حوالہ سے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ بیان فرماتے ہیں:
’’اس سورت میں جو اگرچہ آیات کی گنتی کے لحاظ سے بہت چھوٹی ہے عملاً قرآن کی گزشتہ تمام سورتوں کا خلاصہ بیان فرما دیا گیا ہے جیسا کہ حضرت محمد رسول اللہ ﷺ تمام انبیاء کے مظہر تھے۔‘‘
(تعارف سورۃ محمد ترجمۃ القرآن صفحہ 911)
پس آپ کے مقدس آئینہ میں تمام انبیاء کے چہرے، ان کے روپ نظر آتے ہیں۔ اگر آپؐ کی سیرت و شمائل کو اپنا لیا جائے۔ اگر آپؐ کی تعلیم، قرآن کریم کو حِرز جان بنا لیا جائے تو جنّت کے تمام دروازے انسان پر وا ہو جاسکتے ہیں۔
حضرت احمد علیہ السلام
مہدی آخر الزمان مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کا ذکر براہ راست تو قرآن میں نہیں تا ہم حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیشگوئی اور بشارت ’’اِسْمُہٗٓ اَحْمَدُ‘‘ سے حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام بھی مراد لئے جاتے ہیں۔ اگر سورۃ الصف میں بیان اس بشارت کا سیاق و سباق دیکھیں تو الفاظ یُدْعٰی اِلَی الْاِسْلَامِ اور یُرِیْدُوْنَ لِیُطْفِئُوْا نُوْرَ اللّٰہِ بِاَفْوَاھِھِمْ کے الفاظ اور معانی حضرت مہدی و مسیح ؑ کے دور پر اطلاق پاتے ہیں اور بالخصوص آیت نمبر 10 ھُوَ الَّذِیْ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدٰی کے متعلق تمام مفسرین کا اتفاق ہے کہ یہ آخری زمانہ میں آنے والے مسیح اور مہدی کے متعلق ہے۔
آپؑ کامل اور مکمل طور پر حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے روحانی فرزند ہیں۔ جنہوں نے حدیث نبوی کے مطابق ثریا سے ایمان اور گم شدہ اسلامی تعلیم کو لا کر دلوں میں پیوست کیا اور ایک بار پھر صحابہؓ رسولؐ کی سیرت و شمائل کے شواہد آپؑ کے رفقاء میں نظر آنے لگے۔ آپؑ نے خود فرمایا ہے
؎ مبارک وہ جو اب ایمان لایا
صحابہ سے ملا جب مجھ کو پایا
پس ’’انبیاء آئینہ کا حکم رکھتے ہیں‘‘ کے تحت قرآن میں بیان تمام انبیاء کی سیرت اور تعلیم کو اختصار سے اسی غرض اور نیت سے بیان کر دیا ہے تا ہم اپنے اندر تمام انبیاء کی سیرت کو اُتار کر اپنی زندگیوں کو خوبصورت و حسین پھولوں کا گلدستہ بنا سکیں۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو حقیقی معنوں میں تمام انبیاء علیھم السلام کی سیرت کو اپنانے کی توفیق دے۔ آمین
(نوٹ: اس مضمون میں کوشش کی گئی ہے کہ انبیاء کرام کی ترتیب حروف تہجی کے اعتبار سے ہو۔)
(مضمون نگار: حنیف احمد محمود۔لندن)