• 27 اپریل, 2024

مالی نظام (ارشادات حضرت خلیفۃالمسیح الخامس)

مالی نظام
(ارشادات حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی بنصرہ العزیز)

مالی قربانی مالی کشائش کے مطابق کریں

… حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی استعداد یں زیادہ تھیں انہوں نے اس کے مطابق قربانی دی، دوسرے ان کو اللہ تعالیٰ کے اپنے ساتھ اس سلوک کا بھی علم تھا ،ان کو پتہ تھا کہ مَیں آج اپنے گھر کا سارا سامان بھی اللہ کی راہ میں قربان کر دوں گا تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے اللہ تعالیٰ نے مجھے اتنی دماغی صلاحیت دی ہے اور تجارت میں اتنا تجربہ ہے کہ اس سے زیادہ مال دوبارہ پیدا کر لوں گا اور توکل بھی تھا ، یقین بھی تھا اور یقینا ًاس میں اعلیٰ ایمانی حالت کا دخل بھی تھا۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنا جائزہ لیتے ہوئے گھر کا نصف مال پیش کر دیا اور اسی طرح باقی صحابہ ؓ نے اپنی استعدادوں کے مطابق قربانیاں کیں اور کرتے چلے گئے۔ تو ہمیں اس ارشاد کہ لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَھَا (البقرہ:287) کو اپنے بہانوں کے لئے استعمال نہیں کرنا چاہئے بلکہ اپنا جائزہ لیتے رہنا چاہئے، خود اپنے آپ کو دیکھنا چاہئے کہ مالی قربانی کی میرے اندر کس حد تک صلاحیت ہے ،کتنی گنجائش ہے۔ کم آمدنی والے لوگ عموماً زیادہ قربانی کرکے چندے دے رہے ہوتے ہیں بہ نسبت زیادہ آمدنی والے لوگوں کے۔ زیادہ پیسے کو دیکھ کر بعض دفعہ بعض کا دل کھلنے کی بجائے تنگ ہو جاتا ہے۔ بلکہ بعض دفعہ ایسی صورت بھی پیدا ہو جاتی ہے کہ موصی بھی بہت کم آمدنی پر چندے دیتے ہیں اور ایسے راستے تلاش کر رہے ہوتے ہیں جن سے ان کی آمدنی کم سے کم ظاہر ہو۔ حالانکہ چندہ تو خداتعالیٰ کی خاطر دینا ہے۔ ایسے لوگوں کا پھر پتہ تو چل جاتا ہے، پھر وصیت پر زد بھی آتی ہے۔ پھر معذرتیں کرتے ہیں اور معافیاں مانگتے ہیں۔ تو چاہے موصی ہو یا غیر موصی جب بھی مالی کشائش پیدا ہو اس مالی کشائش کو انہیں قربانی میں بڑھانا چاہئے۔کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہماری استعدادوں کو ،کشائش کو اس لئے بڑھایا ہے کہ آزمائے جائیں۔ یہ دیکھا جائے کہ بیعت کے دعویٰ میں کس حد تک سچے ہیں۔ لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَھَا (البقرہ: 287) کے ارشادکے بعد اس ارشاد کو بھی مدّنظر رکھنا چاہئے کہ لَھَا مَاکَسَبَتْ وَعَلَیْھَا مَااکْتَسَبَتْ (البقرہ: 287) یعنی نیک کام کاثواب بھی ملے گا اور اگر ٹال مٹول کر رہے ہو گے تو نقصان بھی ہو گا۔ بہرحال اگر دل میں ذرا سا بھی ایمان ہو تو ایسے لوگ جن کی غلطیوں کی وجہ سے ان سے چند ہ نہیں لیا جاتا جب ایسی صورت حال پیدا ہوتی ہے جیسا کہ مَیں نے بیان کیا ان کی وصیت پہ زد پڑتی ہے یا دوسرے لوگوں کے چندوں پہ۔ تو کیونکہ احمدی ہیں، دل میں نیکی ہوتی ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مانا ہے، پھر ان کے دل بے چین ہو جاتے ہیں جیسا کہ مَیں نے بتایا پھر معافیاں مانگتے ہیں اور ان کے لئے بات بڑی سخت تکلیف دہ بن رہی ہوتی ہے۔ تو جب نظام جماعت نے یہ اجازت دی ہو ئی ہے کہ بعض آدمی مجبوریوں کی وجہ سے شرح کے مطابق چندہ نہیں دے سکتے تو رعایت لے لیں تو سچائی کا تقاضا یہ ہے کہ رعایتی شرح کی منظوری حاصل کر لی جائے، بجائے اس کے کہ غلط بیانی سے کام لیا جائے۔ اور مَیں اس بارے میں کئی دفعہ کہہ بھی چکا ہوں کہ ایسے لوگوں کو بغیر کسی سوال جواب کے رعایت شرح مل جائے گی۔ تو ایک تو جو لوگ اپنی آمد غلط بتاتے ہیں وہ غلط بیانی کی وجہ سے گناہگار ہو رہے ہوتے ہیں۔ دوسرے اس غلط بیانی کی وجہ سے اپنے پیسے میں بھی بے برکتی پیدا کر رہے ہوتے ہیں۔ ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ جس خدا نے اپنے فضل سے حالات بہتر کئے ہیں وہ ہر وقت یہ طاقت رکھتا ہے کہ ایسے لوگوں کو کسی مشکل میں گرفتار کر دے۔ پس خداتعالیٰ سے ہمیشہ معاملہ صاف رکھنا چاہئے۔ …

مالی قربانیوں کا جہاد

یہ زمانہ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا زمانہ ہے اس میں ایک جہاد مالی قربانیوں کا جہاد بھی ہے کیونکہ اس کے بغیر نہ اسلام کے دفاع میں لٹریچر شائع ہو سکتا ہے، نہ قرآن کریم کے مختلف زبانوں میں ترجمے ہو سکتے ہیں، نہ یہ ترجمے دنیا کے کونے کونے میں پہنچ سکتے ہیں۔ نہ مشن کھولے جا سکتے ہیں، نہ مربیان، (…) تیار ہو سکتے ہیں اور نہ مربیان، (…) جماعتوں میں بھجوائے جا سکتے ہیں۔ نہ ہی (بیوت الذکر) تعمیر ہو سکتی ہیں۔ نہ ہی سکولوں، کالجوں کے ذریعہ سے غریب لوگوں تک تعلیم کی سہولتیں پہنچائی جا سکتی ہیں۔ نہ ہی ہسپتالوں کے ذریعہ سے دکھی انسانیت کی خدمت کی جا سکتی ہے۔ پس جب تک دنیا کے تمام کناروں تک اور ہر کنارے کے ہر شخص تک (دین حق) کا پیغام نہیں پہنچ جاتا اور جب تک غریب کی ضرورتوں کو مکمل طور پر پورانہیں کیا جاتا اس وقت تک یہ مالی جہاد جاری رہنا ہے۔ اور اپنی اپنی گنجائش اور کشائش کے لحاظ سے ہر احمدی کا اس میں شامل ہونا فرض ہے۔…

پس جو چندے کے معاملے میں سستیاں دکھانے والے ہیں وہ اپنے جائزے لیں اور جوجماعتی عہدیدار نئے شامل ہونے والوں کو اس کی اہمیت سے آگاہ نہیں کرتے وہ بھی ذمہ دار ہیں۔ پس جہاں دین کی نصرت کے لئے آسمان پر شور ہے وہاں ہمیں اپنی ذمہ داریوں کی طرف بھی بہت زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ان ذمہ داریوں کو بھی ہمیں نبھانا ہو گا۔ اور ہم ہلاکت سے اس صورت میں بچ سکتے ہیں جب اَحْسِنُوْا پر عمل کرتے ہوئے اپنے فرائض عمدگی سے ادا کرنے والے ہوں اور اس کے نتیجہ میں خدا کی رضا حاصل کرنے والے ہوں۔

موصیان کو تمام تحریکات میں چندہ دینا چاہیے

چندوں کے بارہ میں بعض جماعتوں کے بعض استفسار ہوتے ہیں جو بعض لوگوں کی طرف سے ہوتے ہیں جن کے بارے میں سمجھتا ہوں کہ وضاحت کر دوں۔ ایک تو یہ کہ آج کل وصیت کی طرف بہت توجہ ہے۔ اور وصیت کی طرف توجہ تو ہو گئی ہے لیکن تربیت کی کافی کمی ہے۔ اس لئے بعض موصیان یہ سمجھتے ہیں کہ کیونکہ ہم نے وصیت کی ہوئی ہے اس لئے ہم صرف وصیت کا چندہ دیں گے باقی ذیلی تنظیموں کے چندے یا مختلف تحریکات کے چندے ہم پر لاگو نہیں ہوتے۔ تو یہ واضح ہو، جیسا کہ مَیں نے پہلے بھی کہا ہے کہ اگر تو حالات ایسے ہوں کہ تمام چندے نہ دے سکتے ہوں تو اس کی اجازت لے لیں۔ ورنہ تو قع ایک موصی سے یہ کی جاتی ہے کہ ایک موصی کا معیار قربانی دوسروں کی نسبت، غیر موصی کی نسبت زیادہ ہونا چاہئے۔ تو اگر وصیت کا صرف کم سے کم 10/1حصہ سے دے کر باقی چندے نہیں دے رہے تو ہو سکتا ہے غیر موصی دوسرے چندے شامل کرکے موصیان سے زیادہ قربانی کر رہے ہوں۔ تو اس لحاظ سے واضح کر دوں کہ کوئی بھی چندہ دینے والا، چاہے وہ موصی ہیں یا غیر موصی ہیں اگر توفیق ہے تو تمام تحریکات میں چندے دینے چاہئیں کیونکہ ہر تحریک اپنی اپنی ضرورت کے لحاظ سے بڑی اہم ہے۔

پھر ایک چیز یہ ہے کہ جیسا کہ مَیں نے کہا کہ اصل مقصد چندوں کا اللہ تعالیٰ کا قرب پانا ہے، نہ کہ پیسے اکٹھے کرنا۔ اس لئے بالکل صحیح طریق سے بغیر کسی چیز کو، اپنی آمد کو چھپائے بغیر، اپنے بجٹ بنوانے چاہئیں جو کہ سال کے شروع میں جماعتوں میں بنتے ہیں۔ اور بجٹ بہرحال صحیح آمد پہ بننا چاہئے۔ اس کے بعد اگر توفیق نہیں تو چندوں کی چھوٹ لی جا سکتی ہے۔

نومبائعین کو مالی نظام میں شامل کریں

پھر ایک اور بات ہے جس کی طرف مَیں عرصے سے توجہ دلا رہا ہوں کہ نومبائعین کو مالی نظام میں شامل کریں۔ یہ جماعتوں کے عہدیداروں کا کام ہے۔ جب نومبائعین مالی نظام میں شامل ہو جائیں گے تو جماعتوں کے یہ شکوے بھی دور ہو جائیں گے کہ نومبائعین سے ہمارے رابطے نہیں رہے۔ یہ رابطے پھر ہمیشہ قائم رہنے والے رابطے بن جائیں گے اور یہ چیز ان کے تربیت اور ان کے تقویٰ کے معیار بھی اونچے کرنے والی ہو گی۔ تو جیسا کہ مَیں نے کہا کہ قرآن کریم میں مالی قربانیوں کے بارے میں بے شمار ہدایات ہیں۔ تو اللہ تعالیٰ جو بھی فضل فرماتا ہے ان کو اس میں بھی شامل کرنا چاہئے۔

زکوٰۃ کی ادائیگی ضرور کریں

پھر زکوٰۃ کی ادائیگی کے بارے میں بعض سوال ہوتے ہیں۔ یہ بنیادی حکم ہے۔ جن پر زکوٰۃ واجب ہے ان کو ضرور ادا کرنی چاہئے اور اس میں بھی کافی گنجائش ہے۔ بعض لوگوں کی رقمیں کئی کئی سال بنکوں میں پڑی رہتی ہیں اور ایک سال کے بعد بھی اگر رقم جمع ہے تو اس پہ بھی زکوٰۃ دینی چاہئے۔ پھر عورتوں کے زیورات ہیں ان پر زکوٰۃ دینی چاہئے۔ جو کم از کم شرح ہے اس کے مطابق ان زیورات پہ زکوٰۃ ہونی چاہئے۔ پھر بعض زمینداروں پر زکوٰۃ واجب ہوتی ہے ان کو اپنی زکوٰۃ ادا کرنی چاہئے۔ تو یہ ایک بنیادی حکم ہے اس پر بہرحال توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

(خطبہ جمعہ فرمودہ 31مارچ 2006ء، الفضل انٹرنیشنل 21تا27اپریل2006ء، مشعل راہ جلد پنجم حصہ سوم،ارشادات حضرت خلیفۃ المسیح الخامس(ایدہ اللہ تعالیٰ) ص207تا 210)

نظام جماعت کو اخراجات کے بارہ احتیاط کرنی چاہیے

جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے کوشش کرتی ہے کہ کم از کم وسائل کو زیر استعمال لا کر زیادہ سے زیادہ استفادہ کیا جائے۔ یہ معاشیات کا سادہ اصول ہے۔ اور دوسری دنیا میں تو پتہ نہیں اس پر عمل ہو رہا ہے کہ نہیں لیکن جماعت اس پر عمل کرنے کی کوشش کرتی ہے اور کرنی چاہئے۔ جو بھی جماعتی عہدیدار منصوبہ بندی کرنے والے یا کام کرنے والے یا رقم خرچ کرنے والے مقرر کئے گئے ہوں ان کو ہمیشہ اس کے مطابق سوچنا چاہئے اور منصوبہ بندی کرنی چاہئے۔ بعض دفعہ بے احتیاطیاں بھی ہو جاتی ہیں اس لئے جیسا کہ مَیں نے کہا کہ جو ذمہ دار افراد ہیں وہ اس بات کا ہمیشہ خیال رکھا کریں کہ جماعت کا ایک ایک پیسہ بامقصد خرچ ہونا چاہئے۔ جماعت میں اکثریت ان غریب لوگوں کی ہے جو بڑی قربانی کرتے ہوئے چندے دیتے ہیں اس لئے ہر سطح پر نظام جماعت کو اخراجات کے بارے میں احتیاط کرنی چاہئے کہ ہر پیسہ جو خرچ ہو وہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے خرچ ہو اوراللہ تعالیٰ کی مخلوق کی ہمدردی پر خرچ ہو۔ جب تک ہم اس روح کے ساتھ اپنے اخراجات کرتے رہیں گے، ہمارے کاموں میں اللہ تعالیٰ بے انتہا برکت ڈالتا رہے گا ان شاء اللہ تعالیٰ۔ ابھی تک جماعت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا یہ سلوک ہے کہ جہاں کسی کام پر دوسروں کا ایک ہزار خرچ ہو رہا ہو وہاں جماعت کوایک سو خرچ کرکے وہ مقاصد حاصل ہو جاتے ہیں۔ توجب تک اس طرح جماعت احتیاط کے ساتھ خرچ کرتی رہے گی،برکت بھی پڑتی رہے گی۔ جہاں قربانیاں کرنے والے اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے اپنی قربانیاں تمام قسم کی بدظنیوں سے بالا ہو کر پیش کریں گے اور جماعت کے افراد اسی سوچ کے ساتھ کرتے ہیں ان کو پتہ ہے کہ خرچ کرنے والے احتیاط سے خرچ کرنے والے ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ برکت ڈالتا ہے۔

چندہ پر معترض لوگ

بعض لوگ ایسے بھی ہیں، چند ایک ہی ہیں، جو مالی لحاظ سے بہت وسعت رکھتے ہیں لیکن چندے اس معیار کے نہیں دیتے اور یہ باتیں کرتے ہوئے سنے گئے ہیں کہ جماعت کے پاس تو بہت پیسہ ہے اس لئے جماعت کو چندوں کی ضرورت نہیں ہے، جو ہم دے رہے ہیں ٹھیک ہے۔ جماعت کے پاس بہت پیسہ ہے یا نہیں، لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کے پیسے میں جیسا کہ مَیں نے بتایا ہے کہ برکت بہت زیادہ ہے۔ اس لئے معترضین اور مخالفین کو بھی یہ بہت نظر آتا ہے۔ معترضین تو شاید اپنی بچت کے لئے کرتے ہیں اور مخالفین کو اللہ تعالیٰ ویسے ہی کئی گنا کرکے دکھا رہا ہوتا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے جس کا اس نے وعدہ فرمایا ہے۔ برکت ڈالتا ہے اور بے انتہا برکت ڈالتا ہے۔ مَیں نے یہاں بعض اپنوں کاذکر کیا تھا جو کہتے ہیں کہ پیسہ بہت ہے اس لئے یہ بھی ہونا چاہئے اور یہ بھی ہونا چاہئے اور خود ان کے چندوں کے معیار اتنے نہیں ہوتے۔عموماً جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑی منصوبہ بندی سے خرچ کرتی ہے۔ اس لئے ایسی باتیں کرنے والے بے فکر رہیں اور چندہ نہ دینے کے بہانے تلاش کرنے کی بجائے اپنے فرائض پورے کریں۔

چندوں کی تحریک ہمیشہ ہوتی رہے گی

چندوں کی تحریک تو ہمیشہ جماعت میں ہوگی ،ہوئی اور ہوتی رہے گی کہ ایمان میں مضبوطی کے لئے یہ ضروری ہے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے قرآن کریم کی تعلیم کے مطابق ہمیں بتایا ہے۔ دنیا کی تمام منصوبہ بندیوں میں مال کی ضرورت پڑتی ہے، اس کا بہت زیادہ دخل ہے اور یہ منصوبہ بندی جس میں مال دین کی مضبوطی کے لئے خرچ ہو رہا ہو اور جس کے خرچ کرنے والے کو اللہ تعالیٰ یہ ضمانت دے رہا ہو کہ تمہارے خوف بھی دور ہوں گے اور تمہارے غم بھی دور ہوں گے اور اجر بھی اللہ تعالیٰ کے پاس ہے اور اتنا اجر ہے کہ جس کی کوئی انتہا نہیں تو اس سے زیادہ مال کا اور کیا بہتر استعمال ہو سکتا ہے۔ ہر دینے والا جب اس نیت سے دیتا ہے کہ مَیں دین کی خاطر دے رہا ہوں تو اس نے اپنا ثواب لے لیا۔ کس طرح خرچ کیا جا رہا ہے، اول تو صحیح طریقے سے خرچ ہوتا ہے۔ اور اگر کہیں تھوڑی بہت کمزوری ہے بھی تو چندہ دینے والے کو بہرحال ثواب مل گیا۔ اس لئے ہمیشہ ہر وہ احمدی جس کے دل میں کبھی انقباض پیدا ہو وہ اپنے اس انقباض کو دور کرے اور اللہ کی رضا حاصل کرنے کی کوشش کرے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ بڑی بڑی سلطنتیں بھی آخر چندوں پر ہی چلتی ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ دنیاوی سلطنتیں زور سے ٹیکس لگا کر وصول کرتی ہیں اور یہاں ہم رضا اور ارادے پر چھوڑتے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ بندے کی مرضی پر چھوڑ کر پھر اس کا اجر بھی بے حساب دیتا ہے۔ پابند نہیں کر رہا کہ اتنا ضرور دینا ہے۔ چھوڑ بھی بندے کی مرضی پر رہا ہے، ساتھ فرما رہا ہے جو کچھ تم خرچ کرو گے اس کا اجر بھی دوں گا۔ صرف یہ ہے کہ خرچ کرنے والے کی نیت نیک ہونی چاہئے ۔اس سے زیادہ سستا اور عمدہ سودا اور کیا ہو سکتا ہے۔

(خطبہ جمعہ فرمودہ 12؍جنوری 2007ء، الفضل انٹرنیشنل 02؍فروری تا08 ؍فروری 2007ء، مشعل راہ جلد پنجم حصہ چہارم، ارشادات حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ ص138تا 140)

مالی قربانی کی طرف توجہ کریں

دوسری بات جیسا کہ میں نے پہلے ذکر کیا ہے نمازوں کے ساتھ مالی قربانیوں کی طرف توجہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے عموماً احمدی مالی قربانی کی طرف توجہ دیتے ہیں۔لیکن اس میں بھی یہ بات دیکھنے میں آئی ہے کہ جو قربانیاں کرنے والے ہیں بار بار ہر مالی قربانی میں وہی لوگ حصہ ڈالتے چلے جاتے ہیں۔ لیکن ایک طبقہ جن کی کشائش بہت زیادہ ہے، جن کی استطاعت زیادہ ہے، وہ اس کے مطابق اپنے چندوں کی ادائیگی نہیں کرتے۔ میں نے نماز کے سلسلے میں ذکر کیا تھا کہ جہاں اللہ تعالیٰ خلافت کے ذریعہ تمکنت عطا کرنے کا وعدہ فرماتا ہے، وہاں اسے اپنی عبادت سے مشروط کرتا ہے اور اگلی آیت میں عبادت کی وضاحت کی کہ نماز کو قائم کرنے والے لوگ ہوں گے۔ لیکن جہاں یہ ذکر ہے کہ نماز کو قائم کرنے والے ہوں گے وہ صرف نماز کے بارے میں ہی نہیں فرمایا، بلکہ ساتھ ہی فرمایا کہ وَاٰ تُواالزَّکوٰۃ کہ زکوٰۃ ادا کرو۔ زکوٰۃ اور مالی قربانی بھی استحکام خلافت اور تمہارے اس انعام پانے کا ذریعہ ہے۔ اور پھر آگے فرمایا وَاَطِیْعُواالرَّسُوْلَ لَعَلَّکُمْ تُرْ حَمُوْن اور رسول کی اطاعت کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔ ہم احمدی خوش قسمت ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرتے ہوئے اس کے مسیح و مہدی کو مانا جس کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خلافت کی دائمی خوشخبری فرمائی تھی۔

جماعت میں نظام زکوٰۃ رائج ہے

پس خلافت کا نظام بھی اطاعت رسول کی ایک کڑی ہے اور اس دور میں اگر دین کی ضروریات کے لئے مالی تحریکات کی جاتی ہیں جو اگر زکوٰۃ سے پوری نہ ہو سکیں تو یہ عین اللہ اور رسول کی منشاء کے مطابق ہے۔ خودرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں زکوٰۃ سے بڑھ کر جو اخراجات ہوتے تھے ان کے لئے چندہ لیا جاتا تھا۔ یہ ٹھیک ہے کہ زکوٰۃ کی اپنی ایک اہمیت ہے۔ قرآن کریم میں اس کا ذکر آتا ہے۔ لیکن ساتھ ہی بہت سی ضروریات کے لئے مالی قربانی کا بھی ذکر آتا ہے۔ اس لئے ایک تو میں یہ واضح کرنا چاہتا تھا کہ جماعت میں بعض لوگوں کا خیال ہے کہ زکوٰۃ کا نظام رائج نہیں اور ہم اس طرف توجہ نہیں دیتے۔ جماعت میں زکوٰۃ کا نظام رائج ہے اور جن پر زکوٰۃ فرض ہے ان کو ادا کرنی چاہئے۔ بعض منافق طبع یا کمزور لوگ یا لاعلم کہنا چاہئے، بعض دفعہ ایسے بھی ہوتے ہیں جو بعض ذہنوں میں یہ سوال ڈالتے ہیں اور نئے شامل ہونے والے احمدی اس سے بعض دفعہ ٹھوکر بھی کھاتے ہیں کہ جماعت چندے کے اسلامی طریق کو رائج کرنے کی بجائے اپنا نظام چلاتی ہے۔ ایک تو زکوٰۃ ہر ایک پر فرض نہیں ہے،اس کی کچھ شرائط ہیں جن کے ساتھ یہ فرض ہے اور دوسرے اس کی شرح اتنی کم ہے کہ آجکل کی ضروریات یہ پوری نہیں کر سکتی ۔اور جیسا کہ میں نے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی زائد ضروریات کو پورا کرنے کے لئے ، زکوٰۃ کے علاوہ زائد چندے لئے جاتے تھے۔ زکوٰۃ کی اہمیت اور فرضیت سے کسی کو انکار نہیں۔ اس لئے جن پر زکوٰۃ فرض ہے، ان کو میں توجہ دلاتا ہوں کہ زکوٰۃ دینی لازمی ہے وہ ضرور دیا کریں اور خاص طور پر عورتوں پر تو یہ فرض ہے جو زیور بنا کر رکھتی ہیں۔ سونے پر زکوٰۃ فرض ہے۔

(خطبہ جمعہ فرمودہ 13؍اپریل 2007ء، الفضل انٹرنیشنل04؍تا 10؍مئی 2007ء، مشعل راہ جلد پنجم حصہ چہارم،ارشادات حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی ص183تا184)

(سلطان نصیر احمد)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 8 جولائی 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 9 جولائی 2021