• 3 مئی, 2024

حیاتِ نورالدینؓ (قسط 7)

حیاتِ نورالدینؓ
استحکام خلافت۔ ایک عظیم کارنامہ
قسط 7

چہ خوش بودے اگر ہر یک زِامت نورِدیں بودے
ہمیں بودے اگر ہر دل پُر از نور یقین بودے

خلیفۂ وقت نبی کے بعد ایک اعلیٰ اور منفرد مقام پر فائز ہوتا ہے،اس کو خداتعالیٰ قائم کرتا ہے اور وہی قائم رکھتا ہے اس کی ہر طرح سے تائید و نصرت کرتا ہے۔ سورۃ نورآیت56 میں اللہ تعالیٰ نے خلافت کی اہمیت وبرکات پر خوب روشنی ڈالی ہے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ خلافت کے ذریعہ تمکنتِ دین فرماتا ہے، خوف کی حالت کو امن کی حالت سے بدل دیتا ہے۔ پھر عبادات کی طرف نبی کی جماعت کو خلافت کے ذریعہ سے رہنمائی ملتی ہے اور شرک سے بھی اللہ تعالیٰ بچاتا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے آنحضرتﷺ کی وفات کے بعد خلافتِ راشدہ کا سلسلہ قائم فرمایا اور وہ تقریبا30 سال جاری رہا۔ اسکے بعد اللہ نے آنحضرتﷺ کی پیشگوئیوں کے مطابق اس سلسلہ کو روکا اور حضرت علیؓ کی شہادت کے بعد عملاً بادشاہت شروع ہوگئی۔ پھر آپﷺ کی عظیم پیشگوئیوں کے نتیجہ میں حضرت مسیحِ موعودؑ کا ظہور ہوا۔ آپؑ کی وفات کے بعد اللہ نے خلافت علی منھاجِ نبوت جسے حضرت مسیحِ موعودؑ نے قدرت ثانیہ کہا ہے، کا قیام فرمایا۔

جس طرح آنحضرتﷺ کی وفات کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت ابوبکر صدیقؓ کو مسندِ خلافت پر متمکن فرمایا اور آپؓ کو استحکامِ خلافت کے سلسلہ میں غیر معمولی جدوجہد کرنے کا موقع ملا۔بے شمار مشکلات ومسائل کا مقابلہ کرکے بالآخر ان پر فتح یاب ہونے کی توفیق آپ کو خدا نے بخشی، اسی طرح اللہ تعالیٰ کی عظیم ذات نے مقدر کررکھا تھا کہ جب خلافت علیٰ منھاج نبوت کا امام مہدی ومسیحِ موعودؑ کے بعد ظہور ہو تو حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کو بھی استحکامِ خلافت کے سلسلہ میں غیر معمولی خدمت کی توفیق عطا ہو۔

حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کے دورِ خلافت پر نظر ڈالیں، اور آپ کے ارشادات کا گہرائی سے مطالعہ کریں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ آپؓ نے اپنے مختصر سے دورِ خلافت میں خلافت کے صحیح اسلامی تصور کو ذہنوں میں راسخ کرنے اور خلافتِ حقہ راشدہ پر کئے جانے والے اعتراضات کے جوابات کے سلسلہ میں عظیم الشان کارنامے سرانجام دئیے اور ہمیشہ کے لئے معترضین خلافت کے منہ دلائل سے بند کردئیے۔

حضرت مسیحِ موعودؑ کی وفات کا جو آپؑ کی پیاری جماعت پر غم اور تکلیف تھی اس کو اللہ نے آپؑ کو کھڑا کرکے دور فرمایا۔ جماعت کو ایک محفوظ ڈھال خلافت کی صورت میں خدا کی طرف سے بطور انعام ملی۔ خلافت کے ذریعہ سے اللہ نےتمکنتِ دین سے اس پیاری جماعت کو نوازا۔ جماعت کی خوف کی حالت کے بعد اس کو امن سے بدل دیا۔ مخالفین جو حضرت مسیحِ موعودؑ کی وفات پر خوشی اور فتح کے شادیانے بجا رہے تھے کہ اب یہ جماعت تباہ ہوگی انکی صفوں میں صفِ ماتم بچھ گئی۔خلافت کا قیام خدائے عزوجل کی توحید بلند کرنے اور اسکی عبادات پر قائم رہنے کے لئے اللہ کی طرف سے عظیم الشان انعام ثابت ہوا۔

حضرت مسیحِ موعودؑ کے بعض ماننے والے (جو بعد میں نظام خلافت سے علیحدہ ہوگئے اور لاہوری جماعت کہلائے) جو اپنے زُعم میں اپنے آپ کو جماعت کی رہنمائی کرنے کا زیادہ اہل سمجھتے تھے یا حضرت مسیح موعودؑ کی قائم کردہ انجمن کو خلافت کے مقابلہ میں زیادہ بڑا سمجھتے تھے انکا ظہور بھی خلافتِ اولیٰ میں ہی ہوا۔حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحب خلیفۃ المسیح الاولؓ کی عظیم شخصیت کا ان پر بہت اثر تھا۔ انہوں نے آپؓ کی بیعت تو کرلی مگر آپؓ کی خلافت کے مسلسل 6سال میں یہ لوگ جماعت میں خلافت کے خلاف ریشہ دوانیہ کرتے رہے۔کبھی مدرسہ دینیہ کے قیام کے خلاف سازشیں کرتے اور کہتے کہ احمدی نوجوانوں کو زیادہ سے زیادہ کالجوں کا رخ کرنا چاہئے اور اعلیٰ تعلیم کی طرف زیادہ توجہ ہونی چاہئے۔ ہاں اسکے بعد اگر کوئی اپنے آپ کو خدمت دین کے لئے پیش کرنا چاہے اسے ایک آدھ سال میں قرآن پڑھا کر مبلغ بنا دیا جائے۔ حالانکہ یہ حضرت مسیحِ موعودؑ اور خلافت کی منشاء کے مکمل خلاف تھا۔

(تاریخ احمدیت جلد سوم صفحہ229)

کبھی یہ لوگ احکام خلافت پر من وعن عمل نہ کرکے اپنا باغیانہ رویہ دکھاتے۔ان لوگوں کی نظر میں خلافت کا مقام ایک عام مذہبی لیڈر یا رہنما سے زیادہ نہ تھا۔اور یہ خدا کے قائم کردہ خلیفہ کو ایک ادارے صدر انجمن سے اوپر نہ سمجھتے تھے بلکہ انکا خیال تھا کہ سب معامالات صدر انجمن ہی دیکھے۔ اور یہ لوگ انجمن کو حاکم اور خلیفہ کو محکوم بنانا چاہتے تھے۔ بلکہ یہ تو خلیفۃ المسیح کو خلافت سے معزول بھی کرنا چاہتے تھے۔آپؓ انہیں مستقل خلافت کا مقام و مرتبہ سمجھاتے اور انجمن کاحضرت خلیفۃ المسیح کے ماتحت ہونا بتاتے۔ ان سے دوبارہ بیعت تک لیتے۔

(تاریخ احمدیت جلد سوم صفحہ262-263)

حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کی عظیم ذات کا چونکہ ان پر کسی حد تک اثر تھااس لئے آپؓ جب ان سے خطاب فرماتے تو یہ لوگ جھاگ کی طرح بیٹھ جاتے۔ آپؓ نے جماعت کو وحدت کی لڑی میں پرویا۔مقامِ خلافت کی عظمت کو قائم کرنے کے سلسلہ میں آپؓ کا جماعت پر اس قدر احسان ہے کہ اسے بھلایا نہیں جاسکتا۔آپؓ نے اپنے اس عظیم کام سے آنے والی نسلوں کے دلوں میں خلافت کا احترام بٹھا دیااور بتلادیا کی خلافت جماعت کے پاس خدا کے جناب سے دیا ہوا ایک عظیم الشان انعام وفضل ہے۔ اور اگر جماعت نے اس مقدس امانت کی حفاظت وقدر کی تو دنیا کی کوئی طاقت ان کو ترقی کی منازل طے کرنے سے نہیں روک سکتی۔

پچھلے 113 سالہ دور خلافت کی عظیم الشان برکات اس کا منہ بولتا ثبوت ہیں کہ کیسے خلافت کے ساتھ چمٹنے والی اور اسکی قدر کرنے والی جماعت باوجود حکومتوں کی سخت مخالفت کےدن دوگنی اوور رات چوگنی ترقی کررہی ہے۔ اور اس نعمت کو مان کر انکار کرنے والے یا سرے سے نہ مان کر انکار کرنے والے دنیا میں ذلیل ہیں اور قیام خلافت کے لئے سرگرداں پھر رہے ہیں۔

وہ لوگ جو خلافت کامقام نہ سمجھتے تھے اورخدا کے قائم کردہ خلیفہ کے بالمقابل انجمن کو اہمیت دیتے تھے انکی حرکات کا ذکر سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ نے اپنی تقریر میں (جوکہ 31 جنوری 1909ء کو مسجد مبارک کی چھت پر کی) ان الفاظ میں فرمایا
’’کہا جاتا ہے کہ خلیفہ کا کام نماز پڑھا نا یا جنازہ یا نکاح پڑھا دینا اوریا پھر بیعت لے لینا ہے۔ یہ کام تو صرف ایک ملاّبھی کرسکتا ہے اس کے لئے کسی خلیفہ کی ضرورت نہیں۔اور میں اس قسم کی بیعت پرتھوکتا بھی نہیں۔ بیعت وہی ہے جس میں کامل اطاعت کی جائے اورجس میں خلیفہ کے کسی ایک حکم سے بھی انحراف نہ کیا جائے‘‘

(تاریخ احمدیت جلد3 صفحہ262)

اس طرح کے الفاظ کچھ اضافہ کے ساتھ حیاتِ نور میں یوں درج ہیں:
مجھے کہا جاتا ہے کہ خلیفہ کا کام نماز پڑھا دینا یا جنازہ یا نکاح پڑھ دینا یابیعت لے لینا ہے۔ یہ جواب دینے والے کی نادانی ہے اور اس نے گستاخی سے کام لیا ہے اس کو توبہ کرنی چاہئے ورنہ نقصان اٹھائیں گے۔

(حیات نور مصنفہ عبدالقادر سابق سوداگر مل صفحہ379 سن اشاعت 2003ء قادیان)

حضرت مسیحِ موعودؑ نے اپنی مبارک تحریرات میں واضح فرمایا تھا کہ خلیفہ خدا مقرر فرماتا ہےاور اس میں انسانی کوششوں کا کوئی عمل دخل نہیں چنانچہ آپؑ فرماتے ہیں۔
صوفیاء نے لکھا کہ جو شخص کسی شیخ یا رسول اور نبی کے بعد خلیفہ ہونے والا ہوتا ہے تو سب سے پہلے خدا کی طرف سے اس کے دل میں حق ڈالا جاتا ہے۔ جب کوئی رسول یا مشائخ وفات پاتے ہیں تو دنیا پر ایک زلزلہ آجاتا ہے اور وہ ایک بہت ہی خطر ناک وقت ہوتا ہے مگر خدا تعالیٰ کسی خلیفہ کے ذریعہ اس کو مٹاتا ہے اور پھر گویا اس امر کا از سرِ نو اس خلیفہ کے ذریعہ اصلاح و استحکام ہوتا ہے۔

آنحضرت صلى الله علیہ وسلم نے کیوں اپنے بعد خلیفہ مقرر نہ کیا۔ اس میں بھی یہی بھید تھا کہ آپ ﷺ کو خوب علم تھا کہ الله تعالیٰ خود ایک خلیفہ مقرر فرمادے گا کیونکہ یہ خدا کا ہی کام ہے اور خدا کے انتخاب میں نقص نہیں۔ چنانچہ الله تعالیٰ نے حضرت ابو بکر صدیق رضی الله تعالیٰ عنہ کو اس کام کے واسطے خلیفہ بنایا اور سب سے اول حق انہی کے دل میں ڈالا۔‘‘

(ملفوظات جلد10 صفحہ229 ایڈیشن 1984ء)

انبیاء علیہم السلام کے بعد جاری ہونے والی خلافت میں چونکہ بظاہر انسانوں کی پسند کا دخل نظر آتا ہے اس لئے بعض نادان اس گمان میں مبتلا ہوجاتے ہیں کہ خلیفہ کی تابع جماعت ہی اپنے ووٹوں سے اس خلیفہ کو بنانے والی ہے۔ یہ لوگ اس حقیقت کو پسِ پشت ڈال دیتے ہیں کہ خدا کا اٹل وعدہ ہے کہ خلیفہ میں اور صرف میں ہی بناؤنگا۔ مؤمنین کی جماعت کے ہاتھوں کسی خلیفہ کا انتخاب محض خدائی تصرف کے تحت عمل میں آتا ہے۔ یہ خدا کی منشاء کے مطابق ہوتا ہے اور یہ کہنا خلاف قرآن ہے کہ مؤمنین کی وہ جماعت جس نے خلیفہ کا انتخاب کیا وہ خلیفہ بنانے والی ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ اس حوالہ سے فرماتے ہیں
میں نے تمہیں بارہا کہا ہے اور قرآنِ مجید سے دکھایا ہے کہ خلیفہ بنانا انسان کا کام نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کا کام ہے۔ آدم کو خلیفہ بنایا کس نے؟ اللہ تعالیٰ نے۔ فرمایا۔ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَۃً۔۔۔۔۔ جس طرح آدم وداؤداور ابوبکر وعمر کو اللہ تعالیٰ نے خلیفہ بنایا ہے اگر کوئی کہے کہ انجمن نے خلیفہ بنایا ہے تو وہ جھوٹا ہے اس قسم کے خیالات ہلاکت کی حد تک پہنچاتے ہیں۔ تم ان سے بچو۔

(بدر 4جولائی 1912 صفحہ6)

آپؓ ایسے خیالات کے حامل لوگوں کا جواب مزید ان الفاظ میں دیتے ہیں

خلافت کیسری کی دکان کا سوڈا واٹر نہیں۔ تم اس بکھیڑے سے کچھ فائدہ نہیں اٹھا سکتے، نہ تم کو کسی نے خلیفہ بنانا ہے اور نہ میری زندگی میں کوئی اور بن سکتا ہے۔ میں جب مر جاؤں گا تو پھر وہی کھڑا ہو گا جس کو خدا چاہے گا اور خدا اس کو آپ کھڑا کر دے گا۔ تم نے میرے ہاتھوں پر اقرار کئے ہیں تم خلافت کا نام نہ لو۔ مجھے خدا نے خلیفہ بنا دیا ہے اور اب نہ تمہارے کہنے سے معزول ہو سکتا ہوں اور نہ کسی میں طاقت ہے کہ وہ معزول کرے۔ اگر تم زیاده زور دو گے تو یاد رکھو میرے پاس ایسے خالد بن ولید ہیں جوتمہیں مرتدوں کی طرح سزا دیں گے۔ دیکھو میری دعائیں عرش میں بھی سنی جاتی ہیں۔ میرا مولیٰ میرے کام میری دعا سے بھی پہلےکردیتا ہے۔ میرے ساتھ لڑائی کرنا خدا سے لڑائی کرنا ہے۔تم ایسی بوتوں کو چھوڑ دو اور توبہ کرلو۔‘‘

(تقریر 16۔17جون 1912ء بمقام احمدیہ بلڈنگز لاہور۔ اخبار بدر 11جولائی 1912ء۔ جلد12 نمبر2 صفحہ4)

ظاہر ہے کہ خلیفہ بنانا خدا کا کام ہے اور یہ قرآن سے ثابت ہے تو پھر غیراللہ کے لئے یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ خدا کے قائم کردہ خلیفہ کو معزول کرسکے۔ آپؓ اس بات کا رد کرتے ہوئے کہ کیا کوئی انجمن یا انسان خلیفہ مقرر یا معزول کرسکتا ہے فرماتے ہیں۔

پھرسن لو کہ مجھے نہ کسی انسان نے نہ کسی انجمن نے خلیفہ بنایااور نہ ہی میں کسی انجمن کو اس قابل سمجھتا ہوں کہ وہ خلیفہ بنائے۔پس مجھ کو نہ کسی انجمن نے بنایا اور نہ میں اس کے بنانے کی قدر کرتا اور اس کے چھوڑ دینے پر تھوکتا بھی نہیں اور نہ اب کسی میں طاقت ہے کہ وہ اس خلافت کی رداء کو مجھ سے چھین لے۔

(اخبار بدرقادیان 4جولائی 1912ء)

خلیفہ وقت کے ساتھ انسان کے جذبات ہمیشہ اطاعت کے ہوں اور نَعُوْذُ بِاللّٰہِ کبھی بھی دل میں ایسا خیال نہ آئے جس سے خلیفئہ وقت کی ذات پر آنچ آئے یا آپکی اطاعت میں کمی واقع ہو۔ کیونکہ خلافت خدا کا وہ فضل ہے جس سے جماعت کا اتفاق واتحا دقائم ہے۔ ہمارے لئے اس نعمت کی شکر گزاری فرض ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ فرماتے ہیں۔
تم شکر کرو کہ ایک شخص کے ذریعہ تمہاری جماعت کا شیرازہ قائم ہے۔ اتفاق بڑی نعمت ہے اور یہ مشکل سے حاصل ہوتا ہے۔ یہ خدا کا فضل ہے کہ تم کو ایسا شخص دے دیا جو شیرازہ وحدت قائم رکھے جاتا ہے۔وہ نہ تو جوان ہے۔ اور نہ اس کے علوم میں اتنی وسعت جتنی اس زمانہ میں چاہئے لیکن خدا نے تو موسیٰ کے عصا سے جو بے جان لکڑی تھی اتنا بڑا کام لے لیا تھا کہ فرعونیت کا قلع قمع ہوگیا۔ اور میں تو اللہ کے فضل سے انسان ہوں۔ پس کیا عجب ہے کہ خدا مجھ سے یہ کام لے !تم اختلافات اور تفرقہ اندازی سے بچو!نکتہ چینی میں حد سے بڑھ جانا بڑا خطرناک ہے !!!اللہ سے ڈرو!!!اللہ کی توفیق سے سب کچھ ہوگا۔

(بدر 24اگست1911 صفحہ3 کالم2، بحوالہ ماہنامہ انصاراللہ، خصوصی اشاعت برموقع خلافت احمدیہ صد سالہ جوبلی۔مئی،جون 2008۔ صفحہ213۔214)

خلافت کی مکمل اطاعت کرنے اور باہم تنازعات میں نہ پڑنے کے حوالہ سے آپؓ فرماتے ہیں
میرے تو وہم میں بھی نہ تھا کہ میں کسی جماعت کا امام ہوں گا۔ لیکن جب اللہ تعالیٰ نے چاہا تو ایک آن کی آن میں مجھے امام بنا دیا اور ایک قوم کا امیر بنا دیا۔ تم سیکرٹری لوگ ہو۔ پریذیڈنٹ بھی ہیں۔ تمہیں کبھی کبھی مشکلات پیش آجاتی ہوں گی اور پھر اس سے عناد بڑھ جاتا ہے۔ اول تو اس غلطی سے کہ کیوں مجھے عہدیدار نہ بنایا۔ میرا اپنا تو ایمان ہے کہ اگر حضرت صاحب کی لڑکی حفیظہ (امۃ الحفیظ) کو امام بنا لیتے تو سب سے پہلے میں بیعت کر لیتا اور اس کی ایسی ہی اطاعت کرتا۔ جیسی مرزا کی فرمانبرداری کرتا تھا اور اللہ تعالیٰ کے وعدوں پر یقین رکھتا کہ اس کے ہاتھ پر بھی پورے ہو جاویں گے۔

اس سے میری غرض یہ بتانا ہے کہ ایسی خواہش نہیں ہونی چاہئے۔غرض کبھی اس قسم کی مشکلات آتی ہوں گی۔ پس پہلی نصیحت یہ ہے اور خدا کے لئے اسے مان لو۔ اللہ تعالیٰ کہتا ہے لَا تَنَازَعُوْا

اس منازعت سے تم بودے ہو جاؤگے اور تمہاری ہوا بگڑ جاوے گی۔پس تنازعہ نہ کرو۔ اللہ تعالیٰ چونکہ خالق فطرت ہے اور جانتا تھا کہ جھگڑا ہوگا اس لئے فرمایا۔ فَاصْبِرُوْا

پس جب سیکرٹری اور پریذیڈنٹ سے منازعت ہو۔ تو اللہ تعالیٰ کیلئے صبر کرو۔جو شخص اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے صبر کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ ہوگا۔

میرا حق ہے کہ میں تم کو نصیحت کروں۔ تم نے عہد کیا ہے کہ تمہاری نیک بات مانیں گے۔ اس لئے میں کہتا ہوں کہ یہ مان لو۔ قطعاً منازعت نہ کرو۔ جہاں منازعت ہو۔ فوراً جناب الٰہی کے حضور گر پڑو۔ میں نے ابھی کہا ہے کہ اگر حفیظہ کو امام بنا لیتے تو اس کی بھی مرزا صاحب جیسی فرمانبرداری کرتا۔ پس تم مشکلات سے مت ڈرو۔مشکلات سے مٹ ڈرو۔ مشکلات ہر جگہ آتی ہیں۔میرے اُوپر بھی آئیں۔ اور بڑی غلطی یا شوخی یا بے ادبی بعض آدمیوں سے ہوئی۔ اب ہم نے در گزر کر دیا ہے۔ مگر انہوں نے حق نہیں سمجھا کہ کیا امامت کا حق ہوتا ہے؟ یہ بھی کم علمی کا نتیجہ ہوتا ہے جو انسان حقوق شناسی نہ کرے۔ مگر اللہ تعالیٰ نے رحم فرمایا۔ ان کے دلوں کی آپ اصلاح کر دی۔ اور دل اللہ تعالیٰ ہی کے قبضہ قدرت میں تھے۔ اس نے سب کو میرے ساتھ ملا دیا اور ان پر اور ہم پر اور ہماری قوم پر رحم اور احسان ہوا۔غرض ایک یہ یاد رکھو کہ تنازعہ نہ ہو۔آپ کرو نہ ماتحتوں کو کرنے دو۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے موقعہ پر صبر کی تعلیم دی ہے۔

دوسرے بعض جگہ کثرت سے لوگ ہیں وہاں میں دیکھتا ہوں کہ ترقی رک گئی ہے۔ اس کا کوئی مخفی راز ہے میں اس کو جانتا ہوں۔ اس کی تلافی دو طرح ہو سکتی ہے۔ ایک یہ کہ پریذیڈنٹ اور سیکرٹری اللہ تعالیٰ سے رو رو کر دعائیں کریں…

خوب یاد رکھو کہ جہاں جماعت کی ترقی رک گئی ہے۔وہاں پریذیڈنٹ اور سیکرٹری صاحبان وضو کریں۔نماز پڑھیں اور اپنی ذات سے صدقہ و خیرات کریں کہ جناب الٰہی خود اس گرہن کو دور کر دے۔اور اس روک کو اٹھا دے جوان کے اثر کے آگے آگئی ہے۔

میں نے اس وقت تک دو باتیں بتائی ہیں۔اول تنازعہ نہ کرو۔ پھر اگر ایسا ہو جاوے تو صبر کرو۔ تیسری بات یہ بتائی کہ اگر ترقی رک گئی ہے تو صدقہ و خیرات کرو۔ استغفار کرو۔ دعاؤں سے کام لو۔ تا کہ تمہارا فیضان رک نہ جاوے۔ اگر کوئی روک آگئی ہے تو اللہ تعالیٰ اسے دور کر دے۔

(بدر 12جنوری1911ء، بحوالہ الفضل آن لائن 11 جون 2020ء)

اس حوالہ سے حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ مزید فرماتے ہیں
پس میں تم کو نصیحت کرتا ہوں، پھر نصیحت کرتا ہوں، پھر نصیحت کرتا ہوں، پھر کرتا ہوں، پھر کرتا ہوں، پھر کرتا ہوں، پھر کرتا ہوں، پھر پھر پھر کرتا ہوں کہ آپس کے تباغض اور تحاسد کو دور کردو یہ مجتہدانہ رنگ چھوڑ دو۔ جو مجھے نصیحت کرنے میں وقت خرچ کرتے ہو وہ دعا میں خرچ کرو اور اللہ تعالیٰ سے اس کا فضل چاہو۔تمہارے وعظوں کا اثر مجھ بڈھے پر نہیں ہوگا۔ ادب کو ملحوظ رکھ کر ہر ایک کام کرو۔

(بدر 21 اکتوبر 1909ء، خطباتِ نور صفحہ241)

سورہ نور آیت 56 میں مذکور ہے کہ جو خلافت کی نعمت کی ناقدری کرے اور اسکے احکام کا انکار کرے وہ فاسق اورنافرمان ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی الله عنہ احبابِ جماعت کے اندر خلافت کے ساتھ محبت واطاعت کے جذبات پیدا کرنے کی کوشش فرماتے رہتے۔

چنانچہ آخر میں حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کا ایک ارشاد درج کرتی ہوں جس میں آپؓ نے اطاعتِ خلافت پر زور دیا ہے۔ آپؓ فرماتے ہیں
آخر میں ایک بات اور کہنا چاہتا ہوں اور یہ وصیت کرتا ہوں کہ تمہارا اِعْتِصَام حَبْل اللّٰه کے ساتھ ہو۔ قرآن تمہارا دستور العمل ہو، باہم کوئی تنازع نہ ہو کیونکہ تنازع فيضان الہٰی کو روکتا ہے۔ موسیٰؑ کی قوم جنگل میں اسی نقص کی وجہ سے ہلاک ہوئی۔ رسول الله صلى الله عليہ وسلم کی قوم نے احتیاط کی اور وہ کامیاب ہو گئے۔ اب تیسری مرتبہ تمہاری باری آئی ہے اس لیے چاہئے کہ تمہاری حالت اپنے امام کے ہاتھ میں ایسی ہو جیسے میّت غسّال کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ تمہارے تمام ارادے اور خواہشیں مرده ہوں اور تم اپنے آپ کو امام کے ساتھ ایسا وابستہ کرو جیسے گاڑیاں انجن کے ساتھ۔ اور پھر ہر روز دیکھو کہ ظلمت سے نکلتے ہو یا نہیں، استغفار کثرت سے کرو اور دعاؤں میں لگے رہو، وحدت کو ہاتھ سے نہ دو، دوسرے کے ساتھ نیکی اور خوش معاملگی میں کوتاہی نہ کرو۔ تیرہ سو برس کے بعد یہ زمانہ ملا ہے اور آئندہ یہ زمانہ قیامت تک نہیں آ سکتا۔ کیونکہ شکر اداکرنے پر ازدیاد نعمت ہوتا ہے۔ لَئِنْ شَكَرْتُمْ لَأَزِيْدَنَّكُمْ (ابراہیم: 8) ليکن جو شکر نہیں کرتا وہ یاد رکھے اِنَّ عَذَابِيْ لَشَدِيْدٌ (ابراہیم: 8)۔’’

(الحكم 24 جنوری 1903ء جلد7 نمبر3 صفحہ15 و خطباتِ نور صفحہ131)

اللہ کروڑہا رحمتیں فرمائے حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کی پاک ذات بابرکات پر اور ہم سب کو خلافتِ احمدیہ کی حقیقی قدر کرنے اور مکمل اطاعت کی توفیق دے۔ آمین

(مریم رحمٰن)

پچھلا پڑھیں

عید الاضحی خطبہ 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ