• 18 مئی, 2024

انی احافظ کل من فی الدار

اِنّیْ أُحَافِظُ کُلَّ مَنْ فِی الدَّار

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دور میں جب طاعون کی وبا پھیلی تو اللہ تعالیٰ نے آپؑ کو مختلف الہامات کے ذریعہ اس وبائی مرض سے محفوظ رہنے کی نہ صرف بشارت دی بلکہ آپؑ کے اہلِ خانہ اور آپؑ پر ایمان لانے والوں کی حفاظت بھی کی اور ان الفاظ میں خوشخبری دی۔ اِنّیْ أُحَافِظُ کُلَّ مَنْ فِی الدَّار میں اس گھر کے تمام لوگوں کو طاعون کی مرض سے محفوظ رکھوں گا۔

ایک جگہ اس کی تشریح میں آپؑ نے تحریر فرمایا کہ
’’اس جگہ یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ وہی لوگ میرے گھر کے اندر ہیں جومیرے اس خش و خاک کے گھر میں بود و باش رکھتے ہیں بلکہ وہ لوگ بھی جو میری پوری پیروی کرتے ہیں میرے روحانی گھر میں داخل ہیں۔‘‘

(کشتی نوح، روحانی خزائن جلد19 صفحہ10)

پھر آپؑ کو یہ الہام کچھ اضافے کے ساتھ یوں ہوا:
اور پھر براہین احمدیہ میں یہ الہام الم نجعل لک سھولۃ فی کل امر بیت الفکر و بیت الذکر و من دخلہٗ کَان اٰمنًا…… اس لئے اس نے آج کے دِنوں سے تیئیس23 برس پہلے فرما دیا کہ جو شخص اس مسجد اور اس گھر میں داخل ہوگا یعنی اخلاص اور اعتقاد سے وہ طاعون سے بچایا جائے گا۔ اسی کے مطابق ان دنوں میں خدا تعالیٰ نے مجھے مخاطب کرکے فرمایا انی احافظ کل من فی الدار الا الذین علوا من استکبار۔ واحافظک خاصۃ سلام قولا من ربّ رحیم یعنی میَں ہر ایک ایسے انسان کو طاعون کی موت سے بچاؤں گا جو تیرے گھر میں ہو گا مگر وہ لو گ جو تکبّر سے اپنے تئیں اونچا کریں اور میَں تجھے خصوصیت کے ساتھ بچاؤں گا۔

(نزول المسیح، روحانی خزائن جلد18 صفحہ401)

آپؑ اس وعدہ حفاظت کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’اس نے مجھ پر وحی نازل کی ہے کہ میں ہرایک ایسے شخص کو طاعون کی موت سے بچاؤں گا جو اس گھر کی چار دیواری میں ہو گا بشرطیکہ وہ اپنے تمام مخالفانہ ارادوں سے دست کش ہو کر پورے اخلاص اور اطاعت اور انکسار سے سلسلہ بیعت میں داخل ہو …. اور عموماً تمام لوگ اس جماعت کے گو وہ کتنے ہی ہوں مخالفوں کی نسبت طاعون سے محفوظ رہیں گے مگر ایسے لوگ اُن میں سے جو اپنے عہد پر پورے طور پر قائم نہیں یا اُن کی نسبت اور کوئی وجہ مخفی ہو جو خدا کے علم میں ہو اُن پر طاعون وارد ہو سکتی ہے مگر انجام کار لوگ تعجب کی نظر سے اقرار کریں گے کہ نسبتاً و مقابلۃ ًخدا کی حمایت اس قوم کے ساتھ ہے اور اس نے خاص رحمت سے ان لوگوں کو ایسا بچایا ہے جس کی نظیر نہیں۔‘‘

(کشتی نوح صفحہ3 اشاعت ہفتم 2016ء)

پھر فرمایا:
’’بڑے زور سے خدا تعالیٰ کی طرف سے پیشگوئی ہے کہ خدا میرے گھر کے احاطہ کے اندر مخلص لوگوں کو جو خدا کے سامنے اور اس کے مامور کے سامنے تکبر نہیں کرتے بلائے طاعون سے نجات دے گا اور نسبتاً و مقابلۃً اس سلسلہ پر اُس کا خاص فضل رہے گا گو کسی کی ایمانی قوت کے ضعف یا نقصان عمل یا اجل مقدر یا کسی اور وجہ سے جو خدا کے علم میں ہو کوئی شاذونادر کے طور پر اس جماعت میں بھی کیس ہو جائے۔ سو شاذونادر حکم معدوم کا رکھتا ہے ہمیشہ مقابلہ کے وقت کثرت دیکھی جاتی ہے جیسا کہ گورنمنٹ نے خود تجربہ کر کے معلوم کر لیا ہے کہ ٹیکا طاعون کا لگانے والے بہ نسبت دوسروں کے بہت ہی کم مرتے ہیں۔ پس جیسا کہ شاذونادر کی موت ٹیکا کے قدر کو کم نہیں کر سکتی۔ اسی طرح اس نشان میں اگر مقابلۃ ًبہت ہی کم درجہ پر قادیان میں طاعون کی وارداتیں ہوں یا شاذونادر کے طور پر اس جماعت میں سے کوئی شخص اس مرض سے گذر جائے تو اس نشان کا مرتبہ کم نہیں ہو گا۔‘‘

(کشتی نوح، صفحہ5 ایڈیشن 2016ء)

پھر فرمایا:
’’کسی کو یہ وہم نہ گزرے کہ اگر شاذ و نادر کے طور پر ہماری جماعت میں سے بذریعہ طاعون کوئی فوت ہو جائے تو نشان کے قدر و مرتبہ میں کوئی خلل آئے گا۔ کیونکہ پہلے زمانوں میں موسیٰ اور یشوع اور آخر میں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم ہوا تھا کہ جن لوگوں نے تلوار اٹھائی اور صدہا انسانوں کے خون کیے ان کو تلوار سے ہی قتل کیا جائے۔ اور یہ نبیوں کی طرف سے ایک نشان تھا جس کے بعد فتح عظیم ہوئی۔ حالانکہ مقابل مجرمین کے اہل حق بھی ان کی تلوار سے قتل ہوتے تھے مگر بہت کم اور اس قدر نقصان سے نشان میں کچھ فرق نہیں آتا تھا پس ایسا ہی اگر شاذونادر کے طور پر ہماری جماعت میں سے بعض کو بباعث اسباب مذکورہ طاعون ہو جائے تو ایسی طاعون نشان الٰہی میں کچھ بھی حرج نہیں ہوگی۔‘‘

(کشتی نوح صفحہ7 ایڈیشن 2016ء)

خاص ایمان والے بچائے جاتے ہیں

’’ایسے وقت پر عام ایمان کام نہیں آتا بلکہ خاص ایمان کام آتا ہے۔ جو لوگ عام ایمان رکھتے ہیں وہ ان بلاؤں سے حصہ لیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کی پرواہ نہیں کرتا مگر جو خاص ایمان رکھتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کی طرف رجوع کرتا ہے اور آپ ان کی حفاظت کرتا ہے مَنْ کَانَ لِلّٰہِ کَانَ اللّٰہُ لَہُ‘‘

(ملفوظات جلد چہارم صفحہ179 ایڈیشن2016ء)

حضرت امام الزمان مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔
’’خدا تعالیٰ نے دو وعدے اپنی وحی کے ذریعے سے کئے ہیں۔ ایک تو یہ کہ وہ اس گھر کے رہنے والوں کو طاعون سے بچائے گا جیسا کہ اُس نے فرمایا ہے کہ اِنِّیْ اُحَافِظُ کُلَّ مَنْ فِی الدَّارِ۔ دوسرا وعدہ اُس کا ہماری جماعت کے متعلق ہے کہ اِنَّ الَّذیْنَ اٰمَنُوْا وَلَمْ یَلْبِسُوْا اِیْمَانَھُمْ بِظُلْمِھِمْ اُوْلٰئِکَ لَھُمُ الْاَمْنُ وَھُمْ مَھْتَدُوْنَ (ترجمہ) جن لوگوں نے مان لیا ہے اور اپنے ایمان کے ساتھ کسی ظلم کو نہ ملایا۔ ایسے لوگوں کے واسطے امن ہے اور وہی ہدایت یافتہ ہیں۔ اس میں خدا تعالیٰ کی طرف سے وعدہ ہے کہ جماعت کے وہ لوگ بچائے جائیں گے‘‘

(بدر جلد6 نمبر14 مؤرخہ 4اپریل 1907ء)

مکرم خلیفہ رجب الدین صاحب کے
طاعون کے حوالہ سے شبہات کا ازالہ

حضرت حجة اﷲ مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام گورداسپور تھے۔ ہمارے مکرم خلیفہ رجب الدین صاحب تاجر برنج لاہور بھی شرفِ نیاز کے لیے آئے ہوئے تھے۔

خلیفہ صاحب: طاعون میں بعض مقامات پر جو ہمارے احباب مرتے ہیں اور لوگ اعتراض کرتے ہیں۔ اس کا کیا جواب دیا جاوے؟

حضرت اقدسؑ: اصل بات یہ ہے کہ جب اﷲ تعالیٰ کسی مامور کو دنیا میں بھیجتا ہے تو سنّت اﷲ یہی ہے کہ تنبیہ کے لیے کوئی نہ کوئی عذاب بھی بھیجتا ہے اور یہ اس وقت ہوتا ہے۔ جب اس کی مخالفت حدسے بڑھ جاتی ہے اور شوخی اور شرارت میں اہلِ دنیا بہت ترقی کر جاتے ہیں اور خدا تعالیٰ سے بکلّی دور جا پڑتے ہیں۔ وہ عذاب اگر چہ سرکش منکرین کے لیے ہوتا ہے مگر سنت اﷲ یہی ہے کہ مامور کے بعض متبعین بھی شہید ہو جاتے ہیں وہ عذاب اَوروں کے لیے عذاب ہوتا ہے، مگر ان کے لیے باعثِ شہادت۔ چنانچہ قرآن شریف صاف طور پر بتاتا ہے کہ کفار جو باربار عذاب مانگتے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ نے بتایا تھا کہ تم پر عذاب بصورت جنگ نازل ہو گا۔ آخر جب وہ سلسلہ عذاب کا شروع ہوا۔ اور کفار کے ساتھ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی لڑائیاں ہونے لگیں، تو کون کہہ سکتا ہے کہ ان جنگوں میں صحابہؓ شہید نہیں ہوئے؛ حالانکہ یہ مسلم بات ہے کہ وہ تو کفار پر عذاب تھا اور خاص ان کے لیے ہی آیا تھا۔ مگر صحابہؓ کو بھی چشم زخم پہنچا اور بعض جو علمِ الٰہی میں مقدر تھے، شہید ہوگئے۔ جن کی بابت خود ﷲ تعالیٰ نے فرمایا:

وَلَا تَقُوۡلُوۡا لِمَنۡ یُّقۡتَلُ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ اَمۡوَاتٌ

(البقرہ: 155)

بَلۡ اَحۡیَآءٌ عِنۡدَ رَبِّہِمۡ یُرۡزَقُوۡنَ

(اٰل عمران: 170)

یعنی جو لوگ ﷲتعالیٰ کی راہ میں قتل کیے جاویں ان کو مردے مت کہو بلکہ وہ تو اﷲ تعالیٰ کے نزدیک زندہ ہیں۔ اور اسی جگہ ان کی نسبت فرمایا: فَرِحِیۡنَ بِمَاۤ اٰتٰہُمُ اللّٰہُ (اٰل عمران: 171) اب بتاؤ کہ وہ جنگ ایک ہی قسم کا تھا، لیکن وہ کفار کے لیے عذاب تھا مگر صحابہؓ کے لیے باعثِ شہادت۔ اسی طرح پر اب بھی حالت ہے۔ لیکن انجام کا ر دیکھنا چاہئے کہ طاعون سے فائدہ کس کو رہتا ہے۔ ہم کو یا ہمارے مخالفین کو۔ اس وقت معلوم ہوگا کون کم ہوئے اور کون بڑھے۔ میں دیکھتا ہوں کہ ہماری جماعت خدا کے فضل سے غیر معمولی طور پر بڑھ رہی ہے اور اس کی وجہ طاعون ہی ہے۔ بعض ایسے لوگوں کی درخواستیں بیعت کے واسطے آئی ہیں۔ جو طاعون میں مبتلا ہو کر لکھتے ہیں کہ اس وقت مجھے طاعون ہوا ہواہے۔اگر زندہ رہا تو پھر آکر بھی بیعت کر لوں گا۔فی الحال تحریری کرتا ہوں۔ طاعون کے ذریعہ کئی ہزار آدمی اس سلسلہ میں داخل ہوتے ہیں۔

خلیفہ صاحب: وہ جنگ تو اعلائِ کلمۃ ﷲ کے لئے تھا۔

حضرت اقدس: یہ طاعون بھی اعلائِ کلمۃ ﷲ کے لیے ہی ہے…… یہ طاعون ہمارے لئے کام کر رہی ہے۔ اگر اس گروہ میں ایک شہید ہو جاتا ہے تو اس کے قائمقام ہزار آتے ہیں۔ یہ نادانوں کا شُبہ فضول ہے کہ کیوں مرتے ہیں۔ہم کہتے ہیں صحابہؓ جنگ میں کیوں شہید ہوتے تھے؟ کسی مولوی سے پوچھو کہ وہ جنگ عذاب تھی یا نہیں؟ ہر ایک کو کہنا پڑیگا کہ عذاب تھی۔ پھر ایسا اعتراض کیوں کرتے ہیں جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ و سلّم پر جا پڑتا ہے، لیکن اگر کوئی کہے کہ پھر نشان مشتبہ ہو جاتاہے۔ ہم کہتے ہیں کہ نشان مشتبہ نہیں ہوتا۔ اس واسطے کہ انجامکار کفار کا ستیاناس ہو گیا اور ان میں سے کوئی بھی باقی نہ رہا اور اسلام ہی اسلام نظر آتا تھا؛ چنانچہ آخر اِذَا جَآءَ نَصۡرُ اللّٰہِ وَالۡفَتۡحُ ۙ﴿۲﴾ وَرَاَیۡتَ النَّاسَ یَدۡخُلُوۡنَ فِیۡ دِیۡنِ اللّٰہِ اَفۡوَاجًا﴿۳﴾(النصر: 3-2) کا نظارہ نظر آگیا۔ اسی طرح پرطاعون کا حال ہے۔ اس وقت لوگوں کو تعجب معلوم ہوتا ہے اور وہ اعتراض کرتے ہیں۔ لیکن ایک وقت آتا ہے، جب طاعون اپنا کام کر کے چلی جائے گی۔ اس وقت معلوم ہو گا کہ اس نے کس کو نفع پہنچایا اور کون خسارہ میں رہے گا۔ یہ اس زمانہ کے لیے ایک عظیم الشان نشان ہے جس کا ذکر سارے نبی کرتے چلے آئے ہیں اور طاعون سے اس قدر جلدی لوگ حق کی طرف آرہے ہیں کہ پہلے نہیں آرہے تھے۔

خلیفہ صاحب: حضور! کیا ایسے لوگ مامون ہوجا ئیں گے؟

حضرت اقدس: اس میں کیا شک ہے کہ وہ امن میں تو ہو گئے۔ اگر اس سلسلہ میں ہو کر ان میں سے کوئی مر بھی جاوے تو وہ شہادت ہو گی اور خدا کے مامور پر ایمان لا نے کا یہ فائدہ تو حاصل ہو گیا…… میں یقین رکھتا ہوں، جس مومن کے وجود خلق اﷲ کا نفع ہو اور اس کی موت شماتت کا باعث ہو وہ کبھی طاعون سے نہیں مرے گا۔ میں جانتا ہوں اور قسم کھا کر کہتا ہوں کہ ابھی تک کوئی ایسا آدمی طاعون سے نہیں مرا جس کو میں پہچانتا ہوں یا وہ مجھے پہچانتا ہو جو شناخت کا حق ہے‘‘

اللہ کے نشانوں میں التباس ہوتا ہے

’’یہ اللہ تعالی کی سنت ہے کہ نشان بھی ہوتے ہیں اور ان میں التباس بھی ہوتا ہے….. چنانچہ جنگوں میں صحابہؓ بھی قتل ہوئے بعض کمزور ایمان والوں نے اعتراض کیا کہ اگر یہ عذاب ہے تو ہم میں سے لوگ کیوں مرتے ہیں اس پر خدا نے فرمایا
اِنۡ یَّمۡسَسۡکُمۡ قَرۡحٌ فَقَدۡ مَسَّ الۡقَوۡمَ قَرۡحٌ مِّثۡلُہٗ ؕ وَتِلۡکَ الۡاَیَّامُ نُدَاوِلُہَا بَیۡنَ النَّاسِ (اٰل عمران: 141) پس اگر ہماری جماعت میں سے کوئی بھی نہ مرے اور کل قومیں مرتی رہیں توکل دنیا ایک ہی دفعہ راہ راست پرآجاوے اور بجز اسلام کے اور کوئی مذہب دنیا پر نہ رہے حتی کہ گورنمنٹوں کو بھی مسلمان ہونا پڑے۔ اور یہی سر تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ بھی فوت ہوئے تھے۔ ہاں سلامتی کا حصہ نسبتا ہماری طرف زیادہ رہے گا….. اس جماعت کا قطعاً محفوظ رہنا یہ الفاظ کہیں ہم نے نہیں لکھے اور نہ یہ سنت اللہ ہے اگر ایسا ہو تو پھر تو اِکْرَاہَ فیِ الدِّیْنِ ہوجاتا ہے‘‘

(ملفوظات جلد پنجم صفحہ122-123 ایڈیشن 2016ء)

غلطی فہمی کی تصحیح

’’احمقوں کو ان بھیدوں کی خبر نہیں خدا کا وعدہ نسبتاً حفاظت کا ہے نہ کہ کلیۃً پھر یہ بھی یہ دیکھ لینا چاہئے کہ اگر ہماری جماعت کا ایک مرتا ہے تو اس کے بدلے تین سَو آ جاتے ہیں۔ انجام ہمیشہ متقیوں کے واسطے ہی ہوتا ہے ….. بعض لوگ ہماری جماعت میں سے بھی غلطی سے کہہ دیتے ہیں کہ ہم میں سے کوئی نہ مرے گا یہ ان کو مغالطہ لگا ہے ایسا ہرگز ہو نہیں سکتا اگرچہ ایک حد تک خدا نے وعدے کئے ہوئے ہیں مگر ان کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ جماعت سے مطلقاً کوئی بھی نشانہ طاعون نہ ہو۔ یہ بات ہماری جماعت کو خوب یاد رکھنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ ہرگز نہیں ہے کہ تم میں سے کوئی بھی نہ مرے گا۔ ہاں خدا تعالیٰ فرماتا ہے وَاَمَّا مَا یَنۡفَعُ النَّاسَ فَیَمۡکُثُ فِی الۡاَرۡضِ (الرعد: 18) پس جو شخص اپنے وجود کو نافع الناس بناویں گے ان کی عمریں خدا زیادہ کرے گا خدا تعالیٰ کی مخلوق پر شفقت بہت کرو اور حقوق العباد کی بجا آوری پورے طور بجا لانی چاہئے۔‘‘

(ملفوظات جلد پنجم صفحہ123-124 ایڈیشن2016ء)

ایک اور موقع پر کسی کے اعتراض پر فرمایا:
’’کسی نے اعتراض کیا کہ لوگ کہتے ہیں کہ کیوں کوئی احمدی طاعون سے فوت ہوتا ہے؟

فرمایا کہ: ’’یہ ان لوگوں کی غلط فہمی ہےکہ انجام کو نہیں دیکھتے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت جب ایک طرف کافر مرتے ہوں گے اور ایک طرف صحابہؓ بھی۔ تو لوگ اعتراض تو کرتے ہوں گے کہ مرتے تو وہ بھی ہیں پھر فرق کیا؟ اس لیے ہمیشہ انجام کو دیکھنا چاہئے۔ ایک وہ وقت تھا کہ آنحضرتؐ اکیلے تھے اور کوئی ساتھ نہ تھا ہر ایک مقابلہ کے لئےطیار ہوتا۔ اب ہم ان لوگوں سے پوچھتے ہیں کہ اگر طاعون سے ہمارے مرید مرتے جاتے ہیں تو پھر ہماری ترقی کیوں ہوتی جاتی ہے؟ اور ان کی جمیعت کیوں گھٹتی جاتی ہے؟‘‘

(ملفوظات جلد پنجم صفحہ86 ایڈیشن 2016ء)

دوہرا نقصان کرنے والے نہ ہوں

آپ ؑ فرماتے ہیں:
’’مجھے یہ فکر ہے کہ وہ مثل نہ ہو ’’یکے نقصانات مایہ و دیگر شماتت ہمسایہ‘‘ ایک تو مریں اور پھر جھوٹے کہلا کر مریں۔ اگر ایک طرف مخالفوں کی ہزار موت ہو تو نام نہ لیویں گے اور ہمارا ایک بھی مرے تو ڈھول بجاویں گے۔ خدا نے صورت تو نہیں دیکھنی اس نے دل دیکھنا ہے۔ مگر لوگ تو ظاہر دیکھتے ہی اور جس شخص کا نام رجسٹر بیعت میں ہے اسے جماعت میں خیال کرتے ہیں وہ تو رجسٹر میں صرف نام دیکھیں گے لیکن اگر خدا کے رجسٹر میں نام نہیں ہے تو ہم کیا کر سکیں گے۔‘‘

(ملفوظات جلد سوم صفحہ266 ایڈیشن2016ء)

طاعون کا ٹیکہ لگوانے کے متعلق
حضرت مسیح موعودؑ کے فرمان

’’ہم بڑے ادب سے اس محسن گورنمنٹ کی خدمت میں عرض کرتے ہیں کہ اگر ہمارے لئے ایک آسمانی روک نہ ہوتی توسب سے پہلے رعایا میں سے ہم ٹیکا کراتے اور آسمانی روک یہ ہے کہ خدا نے چاہا ہے کہ اس زمانے میں انسانوں کیلئے ایک آسمانی رحمت کا نشان دکھاوے۔ سو اُس نے مجھے مخاطب کرکے فرمایا کہ تو اور جو شخص تیرے گھر کی چار دیوار ی کے اندر ہوگا اور وہ جو کامل پیروی اور اطاعت اور سچے تقوی سے تجھ میں محو ہوجائےگا وہ سب طاعون سے بچائے جائیں گے۔‘‘

(کشتی نوح صفحہ2-3 ایڈیشن 2016ء)

پھر فرمایا:
’’ہم اس اشتہار میں اپنی جماعت کو جو مختلف حصوں پنجاب اور ہندوستان میں پھیلی ہوئی ہے ٹیکہ لگانے سے منع نہیں کرتے جن لوگوں کی نسبت گورنمنٹ کا قطعی حکم ہو ان کو ضرور ٹیکہ کرانا چاہئے اور گورنمنٹ کے حکم کی اطاعت کرنی چاہئے اور جن کو اپنی رضا مندی پر چھوڑا گیا ہے اگر وہ اس تعلیم پر پورے قائم نہیں ہیں جو ان کو دی گئی ہے تو ان کو بھی ٹیکا کرانا مناسب ہے تا وہ ٹھوکر نہ کھاویں اور تا وہ اپنی خراب حالت کی وجہ سے خدا کے وعدہ کی نسبت لوگوں کو دھوکہ نہ دیں۔ اور اگریہ سوال ہو کہ وہ تعلیم کیا ہے جس کی پوری پابندی طاعون کے حملہ سے بچا سکتی ہے تو میں بطور مختصر چند سطریں نیچے لکھ دیتا ہوں۔‘‘

(کشتی نوح صفحہ13 ایڈیشن 2016ء)

’’ہم دواؤں کی تاثیرات سے منکر نہیں ہیں مگر ہم کہتے ہیں کہ ادھر تم نے ٹیکہ نہ کرایا اور اگر چند ایک لوگ مبتلائے طاعون ہوئے تو وہ لوگ کس قدر ہنسیں گے جنہوں نے ٹیکہ کرایا ہو گا۔ مگر بڑا بیوقوف ہے جو کہ اس دوا کو بھی نہ پیوے اور پھر اس دوا سے بھی محروم رہے کہ اس کا معاملہ خدا کے ساتھ ٹھیک نہ ہو تو وہ گویا دونوں طرف سے محروم رہا۔ پھر اگر ہماری جماعت میں سے کسی کو طاعون ہو گا تو اس کا اثر اس کے ایمان پر بھی پڑے گا اور وہ خیال کرے گا کہ میں تو بیعت میں تھا مجھے کیوں طاعون ہوئی لیکن خدا کسی کی ظاہری صورت کو نہیں دیکھتا وہ اس منشاء کو دیکھتا ہے جو انسان نے اپنے دل میں بنایا ہوا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد سوم صفحہ265 ایڈیشن2016ء)

(عدنان اشرف ورک)

پچھلا پڑھیں

عید الاضحی خطبہ 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ