• 19 مئی, 2024

سنت ابراہیمی یعنی بت شکنی

حج اسلام کا پانچواں رکن ہے۔ ہرصاحب حیثیت پر (جس کو نہ مالی تنگی ہو نہ سفر کی پابندیاں ہوں) زندگی میں ایک بار حج کرنا فرض ہے۔ ہر مسلمان خواہش رکھتا ہے کہ وہ اس فریضہ کو زندگی میں ایک بار کسی نہ کسی طرح ادا کرسکے۔ امیر آدمی کے لئے مالی لحاظ سے تو مشکل نہیں لیکن غریب آدمی اپنی ساری زندگی پونجی جمع کرتے گزار دیتا ہے تا کہ وہ زندگی میں ایک دفعہ حج کر سکے۔

باقی ممالک کے لوگوں کا تو اندازہ نہیں لیکن ہمارے ایشیائی ممالک میں اکثر لوگ حج کے بعد اپنے نام کے ساتھ حاجی لفظ کا اضافہ کر کے گویا ایک سرٹیفکیٹ حاصل کر لیتے ہیں کہ ان کے اگلے پچھلے گناہ معاف ہوگئے ہیں۔

باقی مسلمان جو حج نہیں کر سکتے وہ قربانی کر کے ابراہیمی سنت کو پورا کرتے ہیں۔

قربانی کی ’’حقیقت‘‘ کیا ہے اس بات کی طرف اکثر لوگ توجہ نہیں دیتے وہ صرف ہزاروں لاکھوں کا جانور لے کر دکھاوے کے طور پر قربانی کر دیتے ہیں۔

قربانی ہم سے کیا تقاضا کرتی ہے؟۔ اس پر غور کرنا بے حد ضروری ہے۔

قر بانی حضرت ابراہیم علیہ السلام جیسا ایمان اور تقویٰ اور اطاعت بھی مانگتی ہے۔ قربانی کے اس معیار پر پہنچنے کے لئے حضرت ابراہیمؑ کی زندگی پر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہےکہ آپ کا مقام اور نیکی کا معیار اس قدر بلند تھا کہ خدا نے آپ کی نسل میں نبی در نبی پیدا کئےاور حضرت ابراہیمؑ نبیوں کے باپ کہلائے آپ کا مقام اتنا بلند تھا کہ نبیوں کے سردار پر درود بھیجتے ہوئے آپ پر بھی درود بھیجا جاتا ہے اور درود شریف کو درود ابراہیمی بھی کہا جاتا ہے۔

حضرت ابراہیم کوخداتعالیٰ نے خلیل اللہ یعنی اپنا دوست کہا ہے۔ دوست ایک دوسرے کا عکس ہوتے ہیں یعنی حضرت ابراہیمؑ میں خدا تعالیٰ نے اپنی صفات کا رنگ بھی ڈال دیا۔

دوسری جگہ حنیف کہا یعنی جھکنے والا فرمانبردار، ہمارے مذہب کا مطلب بھی فر ما نبرداری ہے۔

اللہ نے تمام مومنوں کو ابراہیم کے دین کی پیروی کرنے کا حکم دیا، ابراہیم کی پیروی کرنے کا مطلب ان کی صفات کو اپنانا اور ان کی سنت پر عمل کرنا ہے، یہ کوئی آسان بات نہیں اللہ کا دوست بننے کے لئے اپنا قربانی اور اطاعت کےمعیار بلند کرنا بے حد ضروری ہے۔

ابراہیم تو بت شکن تھے۔ آج کا انسان تو بت پرست بن گیا ہے، دنیا پرستی کا بت، انا پرستی کا بت، جھوٹی نمود و نمائش کا بت اولاد اور مال کی محبت کا بت ان سب بتوں کو توڑنا یعنی قربانی سے پہلے بت شکنی بھی قربانی کا حصہ ہے یہی سنت ابراہیمی ہے۔

رسم و رواج میں جکڑا ہوا انسان خود ہی نمرود کا نمونہ بنا ہوا ہے۔ لڑائی جھگڑا دھنگا فساد، بے حیائی فرقہ پرستی کی آگ بھڑ کانے والا بن گیا ہے۔ ابراہیم تو آگ ٹھنڈی کرنے والے تھے ان کی سنت پر عمل کرنے کے لئے آگ ٹھنڈی کرنے کا وظیفہ بھی سیکھنا بےحد ضروری ہے۔ وہ وظیفہ صرف خدا پر مکمل ایمان، یقین سے ہی سیکھا جا سکتا ہے، ابراہیم توحید پرست تھے توحید پر ایمان تبھی مکمل ہوتا ہے جب دنیا کے اسباب پر بھروسہ چھوڑ کر خدا تعالیٰ پر بھروسہ کیا جائے طبیب کی دوا میں شفا بھی خدا تعالیٰ کی مرضی کے بغیرنہیں پڑ سکتی اپنی ساری کوششوں عقلوں، طاقتوں سمیت بھی انسانی تدبیر خدا کی تدبیر کے آگے ناکام ہو جاتی ہے، دنیاوی اسباب پر بھروسہ ہی شرک کا دوسرا نام ہےدنیاوی اسباب کے ساتھ تائید ربي ضروری ہے اس کے لئے خدا کی تمام صفات پر ایمان ضروری ہے، خدا کے نبی خدا تعالیٰ کی صفات کا مظہر ہوتے ہیں،ان کی سنت پر چلنا ہی ایمان کو کامل کرتا ہے،

قربانی دراصل ایک طرح کا تجدید عہدہے کہ ہم پوری طرح سنت ابراہیم کی پیروی کرینگے نفس کے سب بت توڑ کر خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کرینگے مال اور اولاد کو بھی خدا کی راہ میں قربان کرنے کے لئے تیار رہیں گے۔

وقت کا امام جو خداتعالیٰ کی طرف سےہمیں ایک نعمت عظمی ملی ہے، ان کے ہر حکم پر سنت ابراہیمی کی طرح اطاعت اور وفاداری کا نمونہ دکھائیں اور اپنی دنیا اور عاقبت سنواریں۔

(سعدیہ طارق)

پچھلا پڑھیں

عید الاضحی خطبہ 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ