• 4 مئی, 2024

قرآن کا تعارفی مطالعہ

قرآن پاک عربی زبان کا لفظ ہے جس کےمعنی پڑھنے کے ہیں۔ اور القرآن کے معنی ہیں وہ خاص کتاب جو بار بار پڑھی جائے۔ قرآن پاک کو پڑھنے کے لئے نہ کسی تمہید کی ضرورت ہے نہ کسی مقدمہ کی۔ قرآن پاک سے مستفید ہونے کے لئے ضروری ہے کہ ہم اس کا احترام دل کی گہرائی سے کریں۔ اور یہ یقین رکھیں کہ یہ ایسی کتاب ہے جس میں نہ کوئی تبدیلی ہوئی ہے اور نہ ہوسکتی ہے۔ یہ دُنیا کے تمام انسانوں کی کامیابی کی ضامن ہے۔اور ایسے جامع و مانع اُصول دُنیا کے سامنے پیش کرتی ہے جو قابل قبول اور قابل عمل بھی ہیں۔جن پر عمل پیرا ہوکر دنیا کی ہر قوم اس کا تعلق کسی مذہب اور کسی فرقہ سے ہو خوش گوار اور کامیاب ترین زندگی گزار سکتی ہے۔بشرطیکہ اس پر اعتماد اور یقین کےساتھ عمل کیاجائے۔ قرآن پاک کلام الٰہی ہے اس لئےاز ل سےمحفوظ ہے۔جیسا کہ قرآن پاک کا ارشاد ہے بَلۡ ہُوَ قُرۡاٰنٌ مَّجِیۡدٌ ﴿ۙ۲۲﴾ فِیۡ لَوۡحٍ مَّحۡفُوۡظٍ

(البروج: 22-23)

قرآن کریم 23سال کے عرصہ میں تھوڑا تھوڑا کرکے حضرت جبریل علیہ السلام کے ذریعہ نبی کریم ﷺ پر نازل ہوا اور یہ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب ہے۔ جو خاتم الانبیاء حضرت محمد عربی ﷺ پر نازل ہوئی۔ لوح محفوظ سے قرآن کریم کا نزول دو مرتبہ ہوا۔ ایک مرتبہ یہ پورا کا پورا آسمان دُنیا کے ’’بیت العزت‘‘ میں نازل کردیا گیا (بیت العزت جسے بیت المعمور بھی کہتے ہیں یہ آسمان پر فرشتوں کی عبادت گاہ ہے) پھر دوسری مرتبہ نبی کریم ﷺ پر تھوڑا تھوڑا کرکے حسب ضرورت نازل ہوا۔ یہاں تک کہ 23سال کی مدت میں یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا۔ قرآن کریم کا یہ دوسرا دور تدریجی طورپر اُس وقت نزول ہوا جب آپ ﷺ کی عمر 40سال کی تھی اور اس کی ابتداء لیلۃ القدر میں ہوئی آنحضرت ﷺ پر قرآن کریم کی سب سے پہلے جو آیات نازل ہوئیں وہ سورۃ العلق کی ابتدائی پانچ آیات تھیں۔ اِقۡرَاۡ بِاسۡمِ رَبِّکَ الَّذِیۡ خَلَقَ ﴿۲﴾ خَلَقَ الۡاِنۡسَانَ مِنۡ عَلَقٍ ۚ﴿۳﴾ اِقۡرَاۡ وَرَبُّکَ الۡاَکۡرَمُ ۙ﴿۴﴾ الَّذِیۡ عَلَّمَ بِالۡقَلَمِۙ﴿۵﴾ عَلَّمَ الۡاِنۡسَانَ مَا لَمۡ یَعۡلَمۡ ؕ﴿۶﴾

(العلق: 2-6)

یعنی پڑھ اور تیرا رب سب سےزیادہ معزز ہے۔ جس نے قلم کے ذریعہ سکھایا۔ انسان کووہ کچھ سکھایا جو وہ نہیں جانتا تھا۔

نزول وحی کا یہ مبارک سلسلہ 23برس کی طویل مدت تک جاری رہا۔آخری وحی سورۃ توبہ کی آخری دو آیتیں ہیں اور وہ 633ء میں آپ کی وفات سے کچھ پہلے نازل ہوئی تھیں۔ اس 23سال کی مدت میں تقریباً ساڑھے بارہ سال مکہ میں گزرے اورباقی مدینہ میں۔ مکی دور میں جو سورتیں نازل ہوئیں ان کی تعداد 90 ہے اور مدینہ میں نازل ہونے والی سورتوں کی تعداد 24 ہے اورکل سورتوں کی تعداد 114 ہے۔ان 114 سورتوں میں کل آیات 6236 اور کلمات 77933اور کل حروف 332015ہیں۔ مکی سورت یا آیات کا یہ مطلب ہے کہ یہ سورت یا آیات جو مکہ میں ہجرت نبوی سے پہلے نازل ہوئیں۔ مدنی سورتوں سے مراد وہ سورتیں ہیں جو ہجرت نبوی کے بعد مدینہ میں نازل ہوئیں۔قرآن کریم کی سورتوں کے نام اور ترتیب سب توفیقی ہیں یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہدایت کی گئی ہیں۔اہل عرب میں ابتداء میں حروف پر نقطے لگانے کا رواج نہیں تھا اور نہ زیر زبر پیش لگائے جاتے تھے لیکن جب اسلام دُور دراز ملکوں میں پھیل گیا تو لوگوں کو تلاوت قرآن کریم میں دشواری پیش آئی۔ اور اس بات کی ضرورت محسوس ہوئی کہ اس میں نقطوں اور حرکات کا اضافہ کیا جائے۔یہ کارنامہ سب سے پہلے ابو الاسود ولی نے انجام دیا۔ صحابہ کرام کا معمول تھا کہ وہ ہر ہفتہ قرآن کریم کی تلاوت مکمل کر لیتے تھے اور اس مقصد کے لیے انہوں نے ایک مقدار مقرر کی ہوئی تھی جسے، حرب، یا، منزل، کہتے تھے اور اس طرح سارے قرآن کریم کو کل سات، احراب، پر تقسیم کیا گیا تھا۔ آج کل قرآن کریم30 اجزاء پر منقسم ہے جن کو تیس پارے کہا جاتا ہے اور یہ تقسیم معنی کے لحاظ سے نہیں بلکہ بچوں کو پڑھانے کے لحاظ سے کی گئی ہے۔یقین کے ساتھ یہ کہنا مشکل ہے کہ تیس پاروں کی تقسیم کس نے کی تھی۔ بعض لوگوں کا خیال ہےکہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ نے مصاحف نقل کراتے وقت اُنہیں تیس مختلف صحیفوں میں لکھوا دیا تھا۔

مکی سورتیں عموماً کشمکش کےدور میں نازل ہوئی ہیں۔جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر طرح سے ستایاجا رہا تھا۔ یہ سورتیں زیادہ تر مختصر، پُر اثر اور تیز وتند انداز میں نازل ہوئی ہیں۔ حشرونشر کی بھی منظر کشی کرتی ہیں۔ توحید رسالت اور آخرت ان سورتوں کے خاص مضامین ہیں۔ ان سورتوں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو صبر کی تلقین کی گئی ہے اورگزشتہ امتوں کے واقعات بطور نصیحت بارہا بیان کیے گئے ہیں۔باقی 24 مدنی سورتیں ہیں۔ یہ فتح مندی کے دور میں نازل ہوئی تھیں اور زیادہ تر طویل اور تفصیلی ہیں اور تشریحی احکام سےپُر ہیں۔ مدنی سورتوں میں دینی عقائد، عملی عبادت یعنی نماز، روزہ، زکوۃ اور حج پر زور دیا گیا ہے ان سورتوں میں شراب،لحم الخنزیر (سور کا گوشت) قمار بازی اور سود خوری کی حرمت بیان ہوئی ہے۔ مالی اور جنگی احکام، قتل، قصاص چوری، بدکاری، نکاح، طلاق، وراثت اور غلاموں کو آزاد کرنے کے قوانین انہیں سورتوں میں بیان ہوئی ہیں۔ تشریحی احکام زیادہ تر سورۃ بقرہ، سورۃ نساء، اور سورۃ مائدہ میں آئے ہیں۔

قرآن کریم کی چند خصوصیات

قرآن کریم کسی خاص قوم، کسی خاص جگہ کے لئے نہیں بلکہ ساری دنیا کے لئے نازل ہوا ہے۔ قرآن کریم کی تعلیمات ہر قوم، ہر نسل اور ہر خطے کے لوگوں کے لیے یکساں طور پر موزوں اور ضرورت کے عین مطابق ہیں۔ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب ہے۔ اب کوئی اور کتاب اور صاحب کتاب (رسول) نہیں ہوگا۔ قرآن کریم نے گزشتہ ساری آسمانی کتابوں کو منسوخ کردیا ہے۔ اب یہی کتاب قرآن کریم زندگی کے ہر شعبہ میں رہنمائی کرے گی۔قرآن کریم ہی ایسی کتاب ہے جو ظاہری اور باطنی طورپر مکمل محفوظ ہےجس میں نہ کوئی کمی اورنہ زیادتی کی گنجائش باقی ہے۔

قرآن کریم چونکہ ایک ہی دفعہ سارے کا سارا نازل نہیں ہوا بلکہ اس کی مختلف آیات ضرورت اور حالات کی مناسبت سے نازل ہوتی رہی ہیں۔اس لیے عہد رسالت میں یہ ممکن نہیں تھا شروع سے ہی اسےکتابی شکل دی جاتی۔ یوں تو قرآن کریم عہد رسالت میں بھی لکھا جاتا تھا مختلف چیزوں پر جیسے لکڑی کی تختیوں پر، چمڑے کے ٹکڑوں پر،شانوں کی ہڈیوں پر وغیرہ۔

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد حضرت عمر فاروقؓ نے دیکھا کہ حفاظِ قرآن کریم شہید ہوتے جا رہے ہیں۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کو یہ مشورہ دیا کہ قرآن کریم کے اجزاء کو ایک چیز پر لکھ کر کتابی شکل دی جائے تاکہ کوئی حصہ ضائع نہ ہو۔اس بناء پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے ضروری سمجھا کہ قرآن کریم کے ان منتشر حصوں کو یکجا کر کے محفوظ کر دیا جائے اور یہ کام حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بڑی محنت اور مشقت کے ساتھ انجام دیا۔ بہرکیف زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے بڑی احتیاط کے بعد قرآنی آیات کو اسی ترتیب کےمطابق لکھا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بتائی ہوئی تھی لیکن ہر سورت الگ الگ لکھی ہوئی تھی۔حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کےلکھوائےہوئےیہ صحیفے اُن کی زندگی میں اُنہی کےپاس رہے۔پھر حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس۔حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت کے بعد ان صحیفوں کو امّ المومنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس منتقل کر دیا گیا۔پھرحضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کے دور خلافت میں ان مروجہ نسخوں میں قرآن کریم کا اختلاف ہوا تو حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو اس کمیٹی کا صدر مقرر فرمایا جو کتاب قرآن کریم کے لئے تشکیل دی گئی تھی۔عہد حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کاتیار کیا ہوا نسخہ اس وقت امّ المومنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس تھا اس کو اساس بنا کرچند نسخےمرتب کیے گئے اور اس کی نقل کرا کے مختلف شہروں میں بھیج دیا گیا اور اعلان کر دیا گیا کہ آج کے بعد سے سب اسی کے مطابق قرآن کریم پڑھیں۔

(علامہ محمد عمر تماپوری۔ علی گڑھ، انڈیا)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 8 ستمبر 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ