• 4 مئی, 2024

قصہ اصحاب کہف کا

اطفال کارنر
قصہ اصحاب کہف کا

پیارے بچو! آپ کو تو علم ہے کہ چاہے کسی بھی ملک کا کسی بھی دور کا بچہ ہواسے کہانیوں سے بہت دلچسپی ہوتی ہے۔ مگر زیادہ تر کہانیاں غیر حقیقی کردار و واقعات اور فرضی قصوں پرمشتمل ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے یہ غیر حقیقی کردار شخصیت کی تشکیل میں منفی اثرات مرتب کرتے ہیں۔ اور بعض کہانیاں لاشعوری طور پر ذہن میں انجانے خوف چھوڑ جاتی ہیں۔ اس لیے اگر ان فرضی قصے کہانیوں کی بجائے بچوں کےکہانی سننےکے شوق کو اگر شروع ہی سے صحت مند خطوط پر ڈالا جائے تو فرضی قصوں کی بجائے حقیقی واقعات و حکایات سے بچے اپنے ذہن کو جلا بخش سکتے ہیں۔

قرآن کریم میں بہت سے انبیاء کے واقعات وحالات کا ذکر ملتا ہے۔اسی طرح گزشتہ امتوں کے قصے بھی مذکور ہیں۔ کچھ قوموں کے عروج و زوال کی داستانیں بھی عبرت یاعظمت کے لئے بیان ہوئی ہیں۔ اور انہیں میں آئندہ کیلئے پیش گوئیاں بھی مضمر ہیں مگر بدقسمتی سے بسا اوقات ان واقعات اور حالات کومحض افسانوی رنگ دے دیا جا تا ہے۔اور ان میں پوشیدہ معرفت کے رموزاور نکات نظروں سے اوجھل رہ جاتے ہیں۔

پیارے بچو! میں نے اس لئے اپنی کہانی میں فرضی واقعات بیان کرنے کی بجائے کوشش کی ہے، کہ واقعات کو اسطرح بیان کیا جائے کہ ان میں چھپے رموز و اسرار تک رسائی ہو سکے۔ اصحاب کہف کا واقعہ بھی کوئی فرضی قصہ یا کہانی نہیں بلکہ ایک حقیقت ہے، مگر اس بات کو بعض مصنفین نے اسرائیلی روایات کے تناظر بیان کر کے نہ صرف مشتبہ کر دیا بلکہ معصوم ذہنوں کو کئی زاویوں میں بھٹکا کر رکھ دیا۔ یہی وجہ ہے کہ واقعہ کی اصل حقیقت ان قصوں میں کہیں کھو کر رہ گئی۔ میں نے اپنے تئیں ایک کوشش ہی کی کہ اس واقعہ کو قرآن کریم کی روشنی میں بیان کرسکوں۔ جو بچوں کے لئے نہ صرف ان کے علم میں اضافے کا باعث ہو بلکہ بہت سے ابہام اور الجھنیں جوذ ہنوں میں پائی جاتی ہیں۔ اصل حقائق کو جاننےسے دور ہو جائیں۔ اس سلسلہ میں خاکسارہنے حضرت مصلح موعود ؓکی تفسیر قرآن یعنی تفسیر کبیر سے استعفادہ کیا ہے۔ خدا تعالی ٰسے دعا ہے کہ وہ اس کوشش میں برکت ڈالے اور ہمارا اور ہمارے بچوں کا قرآن کریم سے ایک ذہنی اور قلبی تعلق قائم ہو جائے اور ہم سب پر اس کے نیک اثرات مرتب ہوں۔ آمین

پیارے بچو! آج میں آپ کو جن لوگوں کی کہانی سنانے جارہی ہوں،ان کے بارے اکثر ناصرات علم رکھتی ہوں گی۔ کیا آپ جانتے ہیں، کہ اس سورۃ (سورۃ کہف) میں کن لوگوں کا ذکر ملتا ہے؟ اور اصحاب کہف آخر کون تھے، اور قرآن کریم میں یہ واقعہ اس قدر تفصیل سے کیوں درج ہے؟ اورآخر اس سورۃ میں ہمارے لیے کیا پیغام ہے؟

تو پیارے بچو! کہانی شروع کرنے سے قبل میں آپ کو تھوڑ اسا ان کے بارے میں بتاؤں گی، اس کے بعد ان کی کہانی بیان کروں گی۔

اصحاب کہف ابتدائی زمانہ کے روی مسیحی تھے، جو بت پرست رومی حکومت کے مظالم سے بچنے کیلئے غاروں میں چپ جایا کرتے تھے۔

مسیحیوں میں جب شرک پیدا ہو گیا تو اس ملک کے بادشاہ اپنے بتوں کے آگے سجدہ کرنے اور ان پر قربانیاں چڑھانے کے لئے لوگوں کو مجبورکرتے اور بڑی بڑی تکالیف دیتے تھے۔ ظلم اور ستم اور بھی بڑھ گئے، اور ان لوگوں کو جوان بتوں کو سجدہ نہ کرتے تھے، قانونی طور پر سزادی جانے لگی۔ انہیں یا تو قید و بند کی صعوبتیں سہنی پڑتی یا موت کو اپنے گلے لگا نا پڑتا اس وقت کچھ لوگوں نے جو تو حید پر قائم تھے،باہم مشورہ کیا کہ جب ظلم بڑھ جائے اور باہر رہنادین کیلئے مضر ہوتو اس غار میں چلے جائیں جہاں غلام اپنے آقا کے ظلم سے بچنے کیلئے چھپ جایا کرتے تھے۔ الکہف سے مراد ایک خاص غارتھی، جو مشہور تھی۔ اسی طرح ان موحد عیسائیوں نے توحید کی خاطر غاروں میں زندگی گزانے کوترجیح دی، بعد میں ان غاروں کو اپنی ضرورت کے مطابق بڑھالیا تھا۔ اور اپنی حفاظت کی غرض سے یہ لوگ غار کے منہ پر کتے بٹھالیتے تھے۔ ان کا واقعہ کسی ایک جماعت یا زمانہ میں نہیں گزرا بلکہ کئی جماعتوں اور مختلف ادوار میں گزرا ہے، اور یہ سلسلہ تین سو سال تک چلا۔ بچو! یہ تمام باتیں بتانے کا مقصد یہ ہے یہ یہی واقعات مسلمانوں کی ایک جماعت کو درپیش ہوں گے۔ ان کے ساتھ بھی اصحاب کہف کا سا معاملہ مہدی پر ایمان لانے کی وجہ سے پیش آئے گا۔ اور ان کو بھی خدا پر ایمان لانے کی وجہ سے تکالیف دی جائیں گی۔ اور آپ سب جانتے ہیں، کہ وہ مہدی ومسیح کی جماعت جماعت احمدیہ ہے جو آجکل ان حالات سے گزررہی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم دعاؤں پر بہت زور دیں، تا کہ خداتعالیٰ ہمیں ہماری کمزروی کی حالت سے نکال کر ترقیات سے نوازے۔ اور اسلام کو سارے عالم میں دوبارہ عروج حاصل ہو۔ ان شاءاللہ

پیارے بچو! جیسا کہ آپ کو معلوم ہے، کہ توحید باری تعالیٰ کا درس ہمیں ہر مذہب اور قوم میں ملتا ہے۔ کہ ہمارا پیدا کر نے والا اور پالنے والا صرف اور صرف خدا تعالیٰ ہی ہے۔اور وہی ہمارا معبود اور مالک ہے۔ وہ اس بات کا بھی حقدار ہے، کہ تنہا اسکی بندگی کی جائےاوراسے چھوڑ کر کسی کے بھی سامنے سر نہ جھکایا جائے۔ اس لیے جب اصحاب کہف کے بارے میں تحقیق کی جائے تو یہ بات پتہ چلتی ہے کہ ابتدائی زمانہ کے مسیحی مشرک نہ تھے، بلکہ خدائے واحد کے ماننے والے تھے اور اس لیے رومی حکومت کے مظالم سے بچنے کیلئے وہ لوگ غاروں میں چپ جایا کرتے تھے۔ روم کے پاس ایسے غاروں کے ثبوت بھی ملتے ہیں۔ جن میں اسوقت کے حالات کے متعلق کتبے پائے گئے ہیں۔شروع میں عیسائیت میں شرک کا نام بھی نہ تھا اور وہ لوگ صرف حضرت مسیحؑ کو ہی نبی اور اپنا نجات دہندہ تصور کرتے تھے۔ جب بھی کہیں ظلم وستم بڑھتا تو وہ ان غاروں میں پناہ گز یں ہو جاتے اور خفیہ طور پر سامان رسد جمع کر کے وہاں رہتے حتّی کہ انہیں کئی کئی سال وہاں ان غاروں میں پناہ لینی پڑی۔ ان کے متعلق مختلف راویوں نے نہایت عجیب وغریب روایات بھی بیان کی ہیں۔ مگر ان میں اصل زمینی حقائق کا خیال نہیں رکھا گیا، اور تمام روایات ایک فرضی کہانی سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتیں مگر پیارے بچو! ہمیں تو ہمارا مذہب سکھاتا ہے کہ آپ جوبھی بات کر میں اس میں راستبازی کو اپنے مد نظر رکھیں۔ لہذاہمیں ان واقعات کو چھوڑ کر اس جانب اپنی توجہ کرنی ضروری ہے۔ کہ آخر وہ کون لوگ تھے اور ان کے ساتھ کیا حالات پیش آئے۔ تحقیق سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ مختلف ادوار میں کم و بیش تین سو سال تک اصحاب کہف کوگمنامی کی زندگی بسر کرنی پڑی،اور پھر تین سوسال بعد جب روم کا ایک بادشاہ عیسائی ہو گیا تو عیسائیوں کی یہ تکلیف دور ہوئی اسکے بعد گا تھ قوم نے روم پر حملہ کر دیا اور ان غارنما تہ خانوں کولوٹ لیا اور توڑ دیا۔ جس کی وجہ سے آہستہ آہستہ انکا ذکر مٹ گیا۔ جن کو بعد میں آثارقدیمہ کے محققین نے روم کے کھنڈرات تلاش کرتے ہوئے معلوم کیا۔ اس سے ایک بات تو ثابت ہوتی ہے۔ کہ مختلف تفاسیر میں جو امور بیان کئے گئے ہیں گو وہ زیادہ تر رطب و یابس پرمشتمل ہیں مگر ان واقعات کی موجودگی میں انہیں اصل واقعہ سے کلی طور پر مختلف نہیں کیا جاسکتا اور صداقت کا کچھ عنصران روایات میں موجود ہے۔ اسی طرح کیٹا کومبز اور کلیسا کی تاریخ سے ہمیں معلوم ہوتا ہے۔ فرد۱ً فرداً مسیحیوں پر مظالم حضرت مسیح کے واقعہ صلیب سے شروع ہوئے جس کی شہادت ہمیں حضرت مسیح کے حواری پطرس کی وفات سے ملتی ہے۔ یہ بات بھی تاریخ سے ثابت ہے کہ پطرس کی وفات روم میں ہوئی اور یہ کہ اس زمانہ میں مسیحیوں پر سختیاں ہوتی تھیں۔ ان کو بھاگ کر اپنی جانیں بچانی پڑتی تھیں۔

(سٹوری آف روم، مصنف ناروڈینگ)

تاریخ سے بھی ثابت ہے کہ ڈلیس یا وقیانوس کے زمانہ میں مسیحیوں پر سختیاں بڑھ گئیں، اور قانو نا نہیں سزادی جاتی اور جولوگ بتوں کو سجدہ نہ کرتے انہیں قید یا قتل کر دیا جاتا۔

رومیوں میں رواج تھا کہ وہ اپنے مردوں کو کمروں میں رکھتے تھےشہروں اور شہروں سے باہر ایسی جگہیں بنی ہوتی تھیں جو کیٹاکومبز کہلاتی تھیں۔ ان کیٹا کومبز میں نہ صرف وہ آسانی سے چھپ سکتے تھے بلکہ انکے اور سونے اور موسم کی شدت سے محفوظ رہنے کا بھی سامان ہوتا تھا۔ یہ کیٹا کومبز روم کے پاس، اسکندریہ میں سسلی میں، مالٹا میں اور چلیز میں دریافت ہوچکے ہیں۔ بعض مصنفین نے اس کے لئے cave جو کہ عربی زبان کے لفظ کہف کی ہی بگڑی ہوئی شکل ہے، استعمال کیا ہے۔ ایک روی مورخ Tacetus کی شہادت سے ثابت ہے کہ نیرو نامی بادشاہ نے عوام کوخوش کرنے کیلئے مسیحیوں کو زندہ جلانے، کتوں سے پھڑوانے اور صلیب دینے کے مختلف طریقے اختیار کر رکھے تھے اور اس غرض سے اس نے اپنا باغ دے رکھا تھا، ظاہری بات ہے کہ اگرقوم پر اسقدر ظلم ہوتو وہ بھاگ کر ادھر ادھر پناہ لے گی ہی، چنانچہ جب ان لوگوں نے ان جگہوںپر پناہ لینی شروع کی تو حفاظت کی خاطر انہوں نے ان کیٹا کومبز میں زیادہ سے زیادہ کمرے بنانے شروع کر دیے۔اسی طرح جولوگ شہیدہوتے انکی لاشوں کو بے حرمتی سے بچانے کیلئے وہ ان تہ خانوں میں لا کر دفن کر دیتے، اس لئے یہ تہہ خانے اس کثرت سے ہو گئے کہ بعض لوگوں کے اندازے کے مطابق وہ کئی میل لمبائی تک چلے گئے تھے۔

چونکہ ظلم سدا نہیں چلتا، اس لئے جب درمیان میں بعض بادشاہ نرمی کرتے تو یہ لوگ واپس آ جاتے اور جب پھر سختی کا دور آتا تودوبارہ ان جگہوں پر چلے جاتے اور اپنی حفاظت کی غرض سے یہ غار کے سامنے کتے بٹھالیا کرتے تھے تا اجنبی کے آنے پر بھوکنے سے وہ دشمن سے باخبر ہو جائیں۔ ان زمین دوز کمروں میں وہ صرف سیٹرہی کے ذریعہ داخل ہو اور نکل سکتے تھے، اسی وجہ سے وہ عموماً لکڑی کی سیٹر ھی استعمال کرتے تھے اور بعد میں وہ سیٹر ھی ہٹادیتے تا کہ کوئی اور اندر نہ آ سکے۔ یا اگر کبھی دشمن داخل ہو بھی جائیں تو آگے حفاظتی نکتہ نظر سے ہرکمرہ سے چار راستے بنادیے گئے تھے ان میں سے ایک راستہ تو اگلے کمرے کی طرف جا تا تھا اور باقی راستے کچھ دور جا کر بند ہو جاتے تھے۔ اسکا یہ فائد ہوتا تھا کہ عیسائی لوگ تو واقفیت ہونے کی وجہ سے اگلے کمرے میں داخل ہو جاتے اور تعاقب کرنے والے غلط راستے کی جانب چلےجاتے اور ان لوگوں کا پیچھا نہ کر پاتے اور اگر کبھی وہ کامیاب ہو بھی جاتے تو نیچے گہرائی میں موجود تہ خانوں میں جن کی لمبائی کئی سومیل تک بھی محیط ہوتی تھی ان عیسائیوں کو پکڑ نا کوئی آسان کام نہ تھا اور اگر کبھی انہیں پولیس پکڑنے میں کامیاب ہوبھی جاتی تو وہیں ان لوگوں کوقتل کر دیتی تھی حضرت مصلح موعودؓ سورۃ کہف کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’میں نے خود ایسے شہدا کی بہت سی قبریں وہاں دیکھی ہیں، ہم نے بعض کتبے پادریوں سے پڑھوا کر معلوم کیا جن میں وہ دردناک واقعات بیان کیے گئے ہیں جو ان کو پیش آتے تھے۔ (تفسیر سورۃ کہف 462 خلاصہ) یہ کہ اصحاب کہف کے واقعہ میں مسیحیوں کے ابتدائی زمانہ کے حالات کو پیش کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ انکی تو ابتدا اس طرح ہوئی کہ وہ بت پرستی کے خلاف جہاد کرتے تھے اور شرک سے بچنے کیلئے انہوں نے صدیوں تک بڑی بڑی قربانیاں دیں لیکن انتہا اس طرح ہوئی کہ اصل دین کا کوئی نشان بھی اب مسیحیوں میں نہیں پایا جاتا۔

بچو! اب میں آپ کو بتاتی ہوں کہ اس سورۃ کریمہ میں ہمارے لیے کیا پیغام ہے تو پیارے بچو! حضرت مصلح موعودؓ اس سورۃ کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں، اس غار کی جائے وقوعہ بتانے سے یہ مقصد تھا کہ شمال میں مسلمانوں کا کوئی دشمن ہے مسلمان اس سے ہوشیارر ہیں مگر مسلمانوں کی غلطی ہے کہ انہوں نے اس کی جانب کوئی توجہ نہ کی، اور اسکی تفسیر کو صحیح سے نہ سمجھا کہ مسلمان اگر ان قوموں سے دوستی رکھیں گے تو ہلاک ہوں گے پس مسلمانوں نے آپس میں تو لڑائیاں کیں مگر روم کے بادشاہوں سے صلح رکھی ماسوائے مسلمانوں کے ابتدائی زمانہ کے مگر جب مسلمان اسلام سے دور جا پڑے تو بغداد کے بادشاہوں نے سپین کی مسلم حکومت کو نقصان پہنچانے کیلئے مشرقی روم کی بازنطینی حکومت سے صلح کر لی اور چین کے بادشاہوں نے بغدادی حکومت کے خلاف مدد لینے کیلئے پاپائے روم کو تحائف بھیجے اور ان سے صلح کر لی پھر آگے حضرت مصلح موعودؓ بیان کرتے ہیں ان اقوام کی نیند سے مراد ان کی ظاہری نیند کو نہیں لینا چا ہیے بلکہ اس سے مراد انکی گمنامی کی زندگی تھی جسکا ذکر ان کے لٹریچر می Dark ages کے نام سے ملتا ہے۔ اگر مسلمان ان کی طاقت کو توڑ دیتے تو یقیناً آج دنیا کا نقشہ ہی اور ہوتا۔ رومی حکومت اس وقت بحیرہ مامورہ کی دونوں جانب یورپ کی حفاظت کر رہی تھی۔ اگر بحیرہ مامورہ کی جانب دیکھا جائے تو یوں لگتا ہے جیسے کوئی کتا اپنے پاؤں پھیلائے پہرہ دے رہا ہو، ترکوں کے زمانہ میں یہ علاقہ فتح ہوامگر مقابلہ کا اصل موقعہ ہاتھ سے نکل چکا تھا اگر بغداد اور چین کی حکومتیں ملکر اپنے زمانہ میں شمالی ملکوں میں پھیل جاتی تو یقیناً اسلام ان ممالک میں پھیل جاتا اور آج تار یک دن دیکھنے میں نہ آتے۔ اسی طرح یہ بھی بتایا کہ مسیحی اقوام کی ترقی کے وقت ایک ایسی جماعت ہوگی جو اسلام پر قائم ہوگی اور ان کو تکالیف دی جائیں گی، لوگوں کو نصیحت کی گئی کہ ان سے ملیں۔ اسی طرح یہ بھی بیان کیا گیا کہ اس زمانے میں بعض مسلمان اسلام کی ترقی کو ظاہری سیاسی اسباب سے وابستہ کر یں گے۔ پس ہمیں یہ بھی نصیحت کی گئی کہ تم ظاہری غلطی میں مبتلا نہ ہو جانا، بلکہ خدا تعالی کے فضلوں کو اپنی دعاؤں کے ذریعے بلانے والی جماعت میں داخل ہونا اور اس بظاہر حقیرنظر آنے والی جماعت کو حقیر مت جاننا۔ اور ان لوگوں کی پیروی نہ کرنا جو ذکر الہٰی اور تبلیغ سے غافل ہوں گے، اور افراط وتفریط کے مرض اورسیاست کی ہوا وہوسں میں مبتلا ہوں گے۔ایسے وقت میں ضروری ہے کہ مسلمان عبادت میں مشغول رہیں، اور مال کی طرف رغبت نہ کریں اوراپنی جائز ضروریات پوری کر کے باقی مال دین کی اشاعت کیلئے وقف کر دیں۔ سو ہمارا یہ فرض بنتا ہے کہ ہم اپنے تمام تر وسائل کو بروئے کاراپنے آپ کو دین کی اشاعت کیلئے وقف کر دیں اور اس راہ میں حائل تمام تر مشکلات کا سامنا عزم و ہمت و جواں مردی سے کر یں، تا کہ دین اسلام کو اور مسیح و مہدی کی جماعت کو تمام دنیا میں غلبہ نصیب ہو۔ان شاءاللہ تعالیٰ۔

(درثمین احمد۔ جرمنی)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 8 ستمبر 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ