• 4 مئی, 2024

خلیفہ کے ہم ہیں خلیفہ ہمارا (قسط دوم)

خلیفہ کے ہم ہیں خلیفہ ہمارا
قسط دوم

(تسلسل کے لئے دیکھیں الفضل آن لائن مؤرخہ 29؍مارچ 2022ء)

مسیح آخر الزماں جس نے آنحضرت ﷺ کی پیشگوئیوں کے مطابق آنا تھا کے بلند مرتبہ مقام کا اندازہ آپ اس بات سے بھی لگا سکتے ہیں کہ گذشتہ زمانہ کے انبیاء اس کے امتی ہونے پر فخر محسوس کرتے نظر آتے ہیں تو آپ خود اندازہ لگائیں کہ اس جری اللہ فی حلل الا نبیاء کے خلیفہ کا کیا مقام ہوگا تو میری ناقص عقل کے مطابق اس زمانہ میں موجود ہونا ہی بہت بڑی سعادت ہے اور سونے پہ سہاگہ کا کام اس وقت ہو جاتا ہے جب آپ کو خلیفۃ المسیح کی محبت نصیب ہو جائے یا پھر آپ کی خلیفۃ المسیح سے سچی محبت کی اطلاع ہی بارگاہ خلافت تک پہنچ جائے۔

ایں سعادت بزور بازو نیست

خلافت کی یہ نعمت ہمیں آنحضرت ﷺ کی پیشگوئی ثم تکون الخلافۃ علیٰ منھاج النبوۃ کے عین مطابق نصیب ہوئی اور مامور زمانہ حضرت مسیح موعود ؑ نے اس قدرت ثانیہ کے اجراء کا ذکر کرتے ہوئے یوں فرمایا کہ:
’’سو اے عزیزو ! جبکہ قدیم سے سنّت اللہ یہی ہے کہ خدا تعالیٰ دو قدرتیں دکھلاتا ہے تا مخالفوں کی دو جھوٹی خوشیوں کو پامال کرکے دکھلا دے سو اب ممکن نہیں کہ خدا تعالیٰ اپنی سنّت کو ترک کردیوے۔ اس لئے تم میری اس بات سے جو میں نے تمہارے پاس بیان کی غمگین مت ہو اور تمہارے دل پریشان نہ ہو جائیں کیونکہ تمہارے لئے دوسری قدرت کا بھی دیکھنا ضروری ہے اور اس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے کیونکہ کہ وہ دائمی ہے جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہوگا اور وہ دوسری قدرت نہیں آسکتی جب تک میں نہ جاؤں۔ لیکن میں جب جاؤں گا تو پھر خدا اس دوسری قدرت کو تمہارے لئے بھیج دے گا جو ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گی۔‘‘

(رسالہ الوصیت، روحانی خزائن جلد20 صفحہ305)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد اللہ تعالیٰ نے دشمنوں کی خوشیوں کو اس وقت پامال کیا جب حضرت الحاج مولانا حکیم نورالدین ؓ کو منصب خلافت پر قائم فرمایا اور خدا تعالیٰ کا مؤمنین سے کیا ہوا دوسری قدرت کا وعدہ بڑی شان کے ساتھ پورا ہوا اور دنیا نے دیکھا کہ کس طرح الٰہی وعدہ کے مطابق خوف نہ صرف امن میں بدلہ بلکہ غیر معمولی ترقیات کا ایک نیا دور قدرت ثانیہ کے ظہور کے ساتھ شروع ہوا اور ایک عظیم قیا دت خلیفہ وقت کی شکل میں اللہ تعالیٰ نے جماعت کو نصیب فرمائی۔ الحمد للّٰہ ثم الحمد للّٰہ

بات خوف کو امن میں بدلنے کی چلی ہے تو یہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے جو آیت استخلاف میں مؤمنین سے کیا گیا ہے اس ضمن میں ایک اور ایمان افروز واقعہ پیش خدمت ہے کہ مئی 2008ء میں جو کہ خلافت احمدیہ صد سالہ جوبلی کا سال تھا اور 100 سال پورے ہونے پر ساری دنیا میں جماعت احمدیہ خدا تعالیٰ کی حمد کے ترانے گاتے ہوئے جشن منا رہی تھی اور اس عظیم الشان نعمت پر دل اللہ تعالیٰ کے شکر اور حمد سے بھرے ہوئے تھے وہیں یہاں ہمارے ملک گنی کناکری میں فوجی جرنیل جو کہ ملک کا صدر بھی تھا کے خلاف فوج میں بغاوت پیدا ہوگئی اور فوج دو حصوں میں تقسیم ہوگئی اور ملک کے حالات سخت خراب ہوگئے انہیں دنوں سیرالیون کے سابق امیر مولانا سعید الرحمن صاحب کی اہلیہ محترمہ یہاں گنی تشریف لائی ہوئی تھیں کیونکہ خاکسار کی اہلیہ امید سے تھیں اور مئی کے مہینہ میں ہی بچہ کی پیدائش متوقع تھی۔ اسی سلسلہ میں اہلیہ محترمہ سابق امیر صاحب حالات خراب ہونے سے کچھ دن قبل یہاں گنی میں آگئی تھیں اسی دوران حالات سخت خراب ہوگئے اور ملک میں کرفیو لگ گیا دونوں گروپس میں شدید تصادم کی صورتحال پیدا ہوگئی گولیوں کے تبادلے کے علاوہ گولہ باری بھی ہونے لگی ہوائی فائرنگ کے نتیجہ میں بہت سے شہری ہلاک ہو گئے سخت خوف کی حالت تھی یہ ساری صورتحال خاکسار نے مکرم ایڈیشنل وکیل التبشیر صاحب یوکے کی توسط سے حضرت امیر المؤمنین خلیفۃ المسیح الخامس ایّد ہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں بھجوائی اور دعا کی عاجزانہ درخواست کی تو پہلا معجزہ تو یہ ہوا کہ جو سخت خوف کی حالت تھی وہ امن میں اس وقت بدلنا شروع ہوگئی جب بارگاہ خلافت سےیہ پیغام ملا کہ اللہ فضل فرمائے اور حفاظت فرمائے اور اس کے ساتھ ہی حضور انور نے ارشاد فرمایا کہ ملک سے نکلنے کی کوشش کریں اور سیرالیون چلے جائیں۔ بظاہر ایسا ہونا ناممکنات میں سے نظر آرہا تھا کرفیو کے علاوہ ہر طرف فوج گھوم رہی تھی اور باہر نکلنا مشکل تھا۔

اس دوران ایک دن خبر ملی کہ 30 مئی 2008ء کو ایک دن کا وقفہ ہو گا جس میں معاملات مذاکرات کے ذریعہ حل کرنے کی کوشش کی جائے گی لہذا اسی دن ہم نے وہاں سے نکلنے کا پروگرام بنایا لیکن اس اچانک سفر کیلئے گاڑیوں میں جب پیٹرول چیک کیا تو بہت معمولی مقدار میں فیول موجود تھا اور تمام گیس اسٹیشنز بند تھے اس صورتحال میں حضور اقدس کی خدمت میں دعا کے لئے خط لکھ کر ہم نے صبح ہی سفر کرنے کا پروگرام بنایا کیونکہ ہم اس موقع کو ضائع نہیں کرنا چاہتے تھے (ایک اور بات اس ضمن میں عرض کردوں کہ مرکز سے ہدایت آئی کہ کسی سیکیورٹی کا انتظام بھی ساتھ کر لیں تو جب متعلقہ ادارے سے رجوع کیا تو جو رقم وہ مانگ رہے تھے وہ ہماری سوچ سے بھی زیادہ تھی اور اتنی رقم ہمارے پاس موجود بھی نہیں تھی)

خدا تعالیٰ کی ذات پر یقین اور خلیفہ وقت کی دعاؤں پر ایمان کے ساتھ گھر سے نکل پڑے۔ ان دنوں یہاں ایک ڈائمنڈ کمپنی جس کے مالک ہمارے احمدی بھائی مکرم لطف الرحمن خان تھے ان کی گاڑی اور ایک جماعت کی گاڑی جس میں خاکسار کی فیملی اور امیر صاحب سیرالیون کی اہلیہ محترمہ، دوسری گاڑی میں ہمارے احمدی دوست مکرم حیات محمد مرزا جو کہ اس کمپنی میں ڈائریکٹر فائنانس تھے روانہ ہوئے گا ڑیوں میں فیول نہ ہونے کے برابر تھا۔ جس گاڑی نے ہمیں سیرالیون بارڈر پر لینے آنا تھا ہم نے امیر صاحب سے درخواست کی کہ ان کے ساتھ کچھ پیٹرول بھجوا دیں تاکہ گاڑیاں واپس کناکری پہنچ سکیں لہذا ہمارا قافلہ دعا کے ساتھ کناکری سے سیرالیون کیلئے روانہ ہوا سارا شہر جنگ کا ماحول پیش کر رہا تھا جگہ جگہ فوجی پھرتے نظر آرہے تھے شہر سے نکلتے ہی متعدد چیک پوسٹ بنی ہوئی تھیں جہاں ہمیں چیک کیا جاتا رہا اور ہر چیک پوسٹ پر بڑی پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا تھا سارا راستہ ہو کا عالم تھا ہر طرف جنگ کی سی کیفیت طاری تھی اس حالت میں ہم آخری چیک پوسٹ پر پہنچے تو فوجیوں نے ہم سے جو گاڑی آگے تھی انہیں روک کر بدتمیزی کرنا شروع کردی اسی صورتحا ل میں خاکسار پچھلی گاڑی سے جب دعائیں کرتے ہوئے نیچے اترا تو اس چیک پوسٹ کا کمانڈر دور درخت کے نیچے بیٹھا ہوا تھا جب میں اگلی گاڑی کے قریب پہنچا تو اس چیک پوسٹ کا کمانڈر اپنی کرسی سے کھڑ اہو کر یہ کہتا ہوا آگے بڑھا کہ انہیں تنگ مت کرو یہ میرا امام ہے قریب آکر مجھے گلے لگایا اور معذرت کرنے لگا کہ اس کے فوجیوں نے ہمیں تنگ کیا جبکہ خاکسار اس سے قبل اس شخص کو کبھی نہیں ملا تھا اس نے نہ صرف عزّت سے ہمیں روانہ کیا بلکہ ہماری گاڑیوں میں پانی کی بوتلیں بھی رکھوائیں اور ایک فوجی ہمیں ساتھ دیا کہ بحفاظت ہمیں بارڈر کراس کروا دے۔ الحمد للہ علیٰ ذالک

یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل اور خلیفۃالمسیح ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی دعاؤں کا نتیجہ تھا کہ اللہ نے اپنے وعدہ کے مطابق خلافت کی برکت کی وجہ سے اس خوف کو امن میں بدل دیا۔

یہ بھی اللہ تعالیٰ کا فضل اور خلافت کی برکت کا ایک معجزہ تھا کہ گاڑیوں میں فیول نہ ہونے کے برابر تھا اس کے باوجود ہم بحفاطت تقریباً 150 کیلو میٹر سفر کرکے سیرالیون کے بارڈر تک پہنچ گئے۔ الحمد للّٰہ ثم الحمد للّٰہ

اللہ تعالیٰ نے نہ صرف خوف کو امن میں بدلا بلکہ اگلے ہی دن 31 مئی 2008ء کو اللہ تعالیٰ نے ہمیں خوبصورت بیٹی سے نواز کر دامن کو خوشیوں اور رحمتوں سے بھر دیا۔ ایک اہم بات یہاں عرض کردوں کہ حضرت امیر المؤمنین ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی طرف سے خاص ہدایت تھی کہ میری اہلیہ چونکہ امید سے ہیں اس لئے میڈیکل سہولت کا انتظام کر کے روانہ ہوں لیکن حالات کے پیش نظر ایسا ممکن نہیں تھا، ہم صرف اللہ کے فضل اور حضور انور کی دعاؤں کو لئے ہوئے نکل کھڑے ہوئے اور اللہ نے بھی ہمیں مایوس نہیں کیا اور رات بارہ بجے بحفاظت ہم فری ٹاؤن سیرالیون پہنچ گئے اور اگلے ہی دن صبح آٹھ بجے اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے نمائندہ کی دعاؤں کے طفیل ہمیں خوبصوت بیٹی سے نوازا۔ الحمد للّٰہ

اب اگر کوئی کہے کہ یہ دنیاوی رشتہ ہے تو سراسر غلط ہے یہ محبت جو دوطرفہ ہے یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ خلافت کی یہ نعمت اللہ تعالیٰ نے ہمیں عطا کی ہے اور یہ روحانی تعلق ہے اور یہ وہ حبل اللہ ہے جو اللہ نے اتاری ہے اور جس کے ذریعہ ہمیں وہ ساری نعمتیں عطا ہو رہی ہیں جس کا وعدہ اس نے سورۃ نو ر کی آیت استخلاف میں مؤمنین کے ساتھ کیا ہے۔

ان نعمتوں کے حصول کیلئے آنحضرت ﷺ کی یہ دعا ضرور مانگتے رہنا چاہئے۔

اللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ حُبَّکَ وَ حُبَّ مَنْ یُّحِبُّکَ وَ عَمَلَ الَّذِیْ یُبَلِّغُنِیْ حُبَّکَ،اَللّٰھُمَّ اجْعَلْ حُبَّکَ اَحَبَّ اِلَیَّ مَنْ نَفْسِی وَاَھْلِیْ وَ مِنَ الْمَاءِ الْبَارِدْ

ترجمہ: اے اللہ ! میں تجھ سے تیری محبت کا سوال کرتا ہوں، اور اس شخص کی محبت کا سوال کرتا ہوں، جو تجھ سے محبت کرتا ہے اور اس عمل کا بھی سوال کرتا ہوں، جو تیری محبت تک پہنچادے۔

اے اللہ! اپنی محبت کو میرے لیے میری جان، میرے اہل خانہ اور ٹھنڈے پانی سے بھی زیادہ محبوب بنادے۔

(جامع الترمذی، حدیث نمبر 3490)

اب ہر وہ شخص جو سچے دل سے اللہ کے حضور یہ دعا کرے گا اسے یقیناً خلیفۃ المسیح کی محبت نصیب ہو جائے گی کیونکہ اس دعا میں یہ سکھایا گیاہے کہ اللہ کے بعد اس شخص کی محبت کی استدعا کی گئی ہے جو اللہ سے محبت رکھتا ہے اور ہمارا یہ ایمان ہے کہ اس وقت روئے زمین پر خلیفۃ المسیح ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے زیادہ کو ئی اللہ سےمحبت نہیں کرسکتا کیونکہ یہی وہ بابرکت وجود ہے جو زمین پر اللہ کا نمائندہ ہے چنانچہ خلیفۃ المسیح سے محبت نصیب ہو جانا گویا اللہ تعالیٰ سے محبت حاصل ہو جانے کے مترادف ہے۔

خلیفہ کی محبت اسی کے نصیب میں آتی ہے جو مکمل اطاعت کرتے ہوئے خلیفہ المسیح کی باتوں کو سنتا ہے اور پھر ان کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لیتا ہے۔

سیدنا حضرت المصلح الموعود رضی اللہ عنہ خلافت کی اطاعت کی طرف جماعت کو توجہ دلاتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’وہی خدا جو اس وقت فوجوں کے ساتھ تائید کے لئے آیا آج میری مدد پر ہے اور اگر آج تم خلافت کی اطاعت کے نکتہ کو سمجھو تو تمہاری مددکو بھی آئے گا۔ نصرت ہمیشہ اطاعت سے ملتی ہے جب تک خلافت قائم رہے نظام اطاعت پر، اور جب خلافت مٹ جائے انفرادی اطاعت پر ایمان کی بنیاد ہوتی ہے‘‘

(الفضل 4 ستمبر 1973ء)

خلافت کی اطاعت سے باہر ہونے والا نبی کی اطاعت سے باہر ہو جاتا ہے

حضرت مصلح موعود ؓ مزید فرماتے ہیں۔
’’بیشک میں نبی نہیں ہوں لیکن میں نبوت کے قدموں پر اور اس کی جگہ پر کھڑا ہوں۔ ہر وہ شخص جو میری اطاعت سے باہر ہوتا ہے وہ یقیناً نبی کی اطاعت سے باہرہوتا ہے۔۔ ۔ میر ی اطاعت اور فرمانبرداری میں خدا تعالیٰ کی اطاعت اور فرمانبرداری ہے‘‘

(الفضل 4 ستمبر 1973ء)

جیسا کہ سیّدنا حضرت مصلح موعود ؓ نے فرمایا کہ نصرت الٰہی ہمیشہ اطاعت سے ملتی ہے تو اس ضمن میں ایک اور ایمان افروز واقعہ قارئین کی خدمت میں پیش ہے جوکہ خلافت کی برکت اور اطاعت کے نتیجہ میں حاصل ہوا۔

واقعہ کچھ یوں ہے کہ ایک دفعہ خاکسار حضور اقدس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی اجازت سے گنی کے ایک دور دراز علاقہ جس کا نام اوری کبا ہے میں مسجد کی بنیاد رکھنے جماعتی وفد کے ساتھ صبح صبح اس غرض سے نکلے کہ وقت پر مقررہ مقام پر پہنچ جائیں ہم نے تقریبا ً 100 کیلو میٹر کا فاصلہ طے کیا ہو گا کہ ایک جگہ پر گاڑیاں رکی ہوئی تھیں اور ٹریفک مکمل طو ر پر جام ہوئی ہوئی تھی یہ صبح 10 بجے کا وقت ہو گا جب گاڑی سے اتر کر معلوم کیا تو لوگوں نے بتایا کہ صبح چار بجے سے یہ راستہ بند ہے آگے دو بڑے ٹرک عین سڑک پر الٹ گئے ہیں اور تمام راستہ بند ہے حالات کا جائزہ لینے کیلئے ہمارے وفد کے احباب پیدل چل پڑے جبکہ خاکسار گاڑی میں ہی ڈرائیو رکے ساتھ بیٹھ کر دعائیں کرنے لگا اور ساتھ ہی حضورانور کی خدمت اقدس میں اپنے موبائل فون پر خط لکھنا شروع کردیا اگرچہ اس خط کو بھجوانے کا کوئی ذریعہ اس وقت موجود نہیں تھا لیکن یہ یقین تھا کہ اللہ تعالیٰ یقیناً اس کیفیت کو دیکھ رہا ہے اور اسی کی راہ میں ہم نکلے ہوئے ہیں وہ یقیناً ہماری اس کیفیت کو پیارے آقا تک پہنچا دے گا لہذا جب خاکسار حضور انور کی خدمت میں خط لکھ چکا تو ایک نو جوان اچانک نمودار ہوا اور مجھے کہنے لگا کہ یہاں سے نکلنا چاہتے ہو تو میں نے کہا کہ کوئی راستہ ہے جہاں سے گزر کر ہم نکل جائیں کہنے لگا کہ ہاں ہے میں جانتا ہوں (عرض کرتا چلوں یہ بارشوں کے دن تھے اور جو لوگ ان علاقوں کو جانتے ہیں ان کے علم میں ہو گا کہ بارشوں کے سیزن میں یہاں مسلسل بارش ہوتی ہیں مغربی افریقہ کے ان ممالک میں اوران حالات میں کچی زمین پر گاڑی اتارنا نہایت خطرناک ہوتا ہے) لہذا اس نے کہا کہ میرے پیچھے آئیں جب ہم نے دوسری گاڑیوں کے درمیان سے اپنی گاڑی نکالی تو وہ ہمیں ایک کچے راستہ پر لے چلا جب وہ اس مقام پر آیا جہاں سے کچا اور جھاڑیوں سے اٹا ہوا راستہ شروع ہوا تو ڈرائیور نے مجھے کہا کہ یہ انتہائی خطرناک ہو سکتا ہے بہتر ہے کہ ہم یہاں نہ داخل ہو ں لیکن خاکسار کو خدا تعالیٰ کی ذات اور خلیفہ المسیح کی خدمت میں لکھے گئے دعائیہ خط پر پورا یقین تھا اور یہ بھی یقین تھا کہ یہ خدائی تائید ہے جو ہمیں یہاں سے نکالنا چاہتی ہے لہذ ا خاکسار نے ڈرائیور سے کہا کہ بے خوف ہو کر گاڑی اتارو۔ اللہ فضل فرمائے گا تو قارئین کرام وہ دو میل کا راستہ کس طرح لمحوں میں طے ہو ا اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگائیں کہ جب ہم وہاں سے نکلے تو ڈرائیو رنے مجھے کہا کہ اتنی سہولت سے گاڑی کبھی سڑک پر نہیں چلی جتنی آسانی سے ہم یہاں سے گزر آئے ہیں آپ یقین کریں کہ دل اللہ تعالیٰ کی حمد اور خلیفۃ المسیح کی محبت سے سرشار تھا کہ اس نے اپنے اس ناچیز بندہ کی مدد کس طرح غیب سے فرمائی اب اگر کوئی اسے اتفاق کہے تو وہ انتہائی احمق ہے اور یہ اندازہ نہیں لگا سکتا کہ کس طرح صبح چار بجے سے کھڑی ٹریفک میں سے اللہ تعالیٰ نے خلافت کی برکت سے ہمیں نکال لیا۔ جب خا کسار نے فون پر اپنے باقی ممبران وفد کو بلا یا اور کہا کہ آگے آجائیں تاکہ ہم اپنا سفر جاری رکھ سکیں تو ہمارے ساتھ جماعت کے وکیل مکرم شیخو کیٹا صاحب جو کہ ابھی احمدی نہیں ہوئے تھے سفر کر رہے تھے وہ جب اس مقام پر پہنچے جہاں ہماری گاڑی کھڑی تھی تو وہ انتہائی تعجب سے مجھے کہنے لگے کہ کیا آپ اڑ کر یہاں پہنچے ہیں کیونکہ بظاہر ایسا ہونا ناممکن ہے تو جب میں نے انہیں سارا واقعہ سنایا تو بے اختیار کہہ اٹھے کہ یہ معجزہ ہے اور یقیناً اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کے ذریعہ آپ کی مدد فرمائی ہے اور کہنے لگے کہ بڑے عرصہ سے میں جماعت کا جائزہ لے رہا تھا اور مجھے ہمیشہ اس میں بھلائی ہی نظر آئی لیکن آج کے واقعہ کے بعد میں پوری طرح قائل ہو گیا ہوں کہ یہ جماعت اللہ کی قائم کردہ جماعت ہے اور حق پر قائم ہے لہذا میں اپنی فیملی کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت میں بیعت کرکے داخل ہوتا ہوں۔ الحمد للہ علیٰ ذالک

پس خلافت الہام الٰہی تائید خداوندی ہےاور جنہیں الٰہی بصیرت حاصل ہو تی ہے وہ اس کی برکات سے صحیح طور پر استفاد کرتے ہیں اور للٰہی ظہور ا ور نور بھی انہیں نصیب ہوتا ہے جن کی آنکھوں سے اللہ تعالیٰ تاریکیوں کو اپنے فضل سے دور کردیتا ہے اور خلیفہ کے مقام کو جو پہچان لیتا ہے وہی اس کی برکات سے حصہ پاتا ہے یہ بالکل صحیح ہےکہ ہیرے کے قدر جوہری کو ہی ہو سکتی ہے ورنہ عام آدمی جو ذہنی پسماندگی اور تاریکی کا شکار ہے اس کی نظر کب اس ہیرے کے قدر جان سکتی ہے جس طرح ایک ناسمجھ بچہ انگارے کو پکڑنے کی کوشش کرتا ہے اور ممکن ہے اپنے آپ کو اس کی تپش سے جھلسا لے بعینہ وہ شخص جو الٰہی نور سے بے بہرہ ہے اس عظیم الشان نعمت جو اللہ تعالیٰ نے خلافت کی شکل میں عطا کی ہے محروم رہتا ہے اور بسا اوقات اپنی روحانی نابینائی کے نتیجہ میں اس نو ر کو پانے سے محروم رہ جاتا ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اس بندہ سے وابستہ کیا ہو تا ہے جو زمین پر اللہ تعالیٰ کا نمائندہ ہوتا ہے۔

حضرت مسیح موعود ؑ منصب خلافت کے متعلق فرماتے ہیں:
’’خلیفہ دراصل رسول کا ظل ہوتا ہے اور کسی انسان کے لئے دائمی طور پر بقا نہیں لہذا خدا تعالیٰ نے ارادہ کیا کہ رسولوں کے وجود کو جو تمام دنیا کے وجودوں سے اشرف و اولیٰ ہیں ظلّی طور پر ہمیشہ کیلئے تا قیامت قائم رکھے۔ سو اسی غرض سے خدا تعالیٰ نے خلافت کو تجویز کیا تا دنیا کبھی اور کسی زمانہ میں برکات رسالت سے محروم نہ رہے‘‘

(شہادة القرآن، روحانی خزائن جلد6 صفحہ253)

یہ عشق و وفا کے واقعات اتنے ہیں کہ جنہیں قلمبند کرنا ناممکن ہے پس یہ یاد رکھیں جیسا کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے اس نعمت کو یہ کہ کر کہ وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مشروط کردیا ہے کہ اس نعمت کو تب تک ہی پاتے رہو گے جب تک ایمان کے ساتھ اعمال صالحہ بجا لاتے رہو گے پس نیک اعمال کے ساتھ خلیفہ المسیح کی غیر مشروط اطاعت ہی روحانی زندگی کی بقا کی ضمانت ہے کیونکہ برکات خلافت جو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بیان کی ہیں اس میں یہ بھی فرمایا کہ خلافت کی ہی برکت سے وہ میری عبادت کریں گے اور شرک سے ان کا بچنا بھی اس عظیم الشان نعت کی موجودگی اور اس کی برکت کے نتیجہ میں ہوگا پس ثابت ہوا کہ خلافت کے سایہ سے نکل کر اگر کوئی کتنی بھی عبادت کرلے کتنے بھی چلّے کاٹ لے وہ اللہ تعالیٰ کی نظر میں بے معنیٰ ہیں اور ان کی کچھ بھی وقعت نہیں ہے اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کوئی شخص بنجر زمین میں بیج بو کر فصل کے نکلنے کی امید لگائے۔ لہذا خلافت کی برکت سے نکل کر اگر کوئی شخص کسی بھی روحانی رفعت یا مقام کی ا مید رکھتا ہے تو بے معنی ہے یہ تو ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص کھڑکیاں دروازے بند کرکے سورج کی روشنی کی امید کرے۔

یہ خلافت کی عظیم نعمت اور برکت ہے کہ اللہ کا نمائندہ نہ صرف اللہ کی طرف جانے والے راستوں کی طرف راہنمائی کرتا ہے بلکہ راتوں کو اٹھ اٹھ کر اللہ تعالیٰ کے حضور اپنے پیاروں کے لئے اور ان کی روحانی ترقیات کیلئے دعائیں کرتا ہے اور چسم تصور میں ہر گھر میں داخل ہو کر ان کے غموں کو خوشیوں میں بدلنے کیلئے اللہ کے حضور التجاء کرتا ہے۔

حضرت امیر المؤمنین خلیفۃ المسیح الخامس ایّد ہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
’’قدرت ثانیہ خد ا کی طرف سے ایک بڑا انعام ہے جس کا مقصد قوم کو متحد کرنا اور تفرقہ سے محفوظ رکھنا ہے یہ وہ لڑی ہے جس میں جماعت موتیوں کی مانند پروئی ہوئی ہے۔ اگر موتی بکھرے ہوں تو نہ تو محفوظ ہوتے ہیں اور نہ ہی خوبصورت معلوم ہوتے ہیں۔ اگر قدرت ثانیہ نہ ہو تو دین حق کبھی ترقی نہیں کرسکتا۔ پس اس قدرت کے ساتھ کامل اخلا ص اور محبت اور وفا اور عقیدت کا تعلق رکھیں اور خلافت کی اطاعت کے جذبہ کودائمی بنائیں اور اس کے ساتھ محبت کے جذبہ کو اس قدر بڑھائیں کہ اس محبت کے بالمقابل دوسرے تمام رشتے کم تر نظر آئیں۔ امام سے وابستگی میں ہی سب برکتیں ہیں۔ اور وہی آپ کے لئے ہر قسم کے فتنوں اور ابتلاؤں کے مقابلہ کیلئے ڈھال ہے۔‘‘

(مشعل راہ جلد5 حصہ اول صفحہ4۔5 مطبوعہ مجلس خدام الاحمدیہ بھارت مئی 2007ء)

حضور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مزید فرماتے ہیں:
’’یہ قدرت ثانیہ ہے یا خلافت کا نظام اب ان شاء اللہ قائم رہنا ہے اور اس کا آنحضرت ﷺ کے خلفاء کے ساتھ کوئی تعلق نہیں اگر یہ مطلب لیا جائے کہ وہ تیس سال تھی تو وہ تیس سالہ دور آپ ﷺ کی ہی پیشگوئی کے مطابق تھا۔ اور یہ دائمی دور بھی آپ ﷺ کی ہی پیشگوئی کے مطابق ہے۔ قیامت کے وقت تک کیا ہونا ہے یہ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے لیکن یہ بتا دوں کہ یہ دور خلافت آپکی نسل در نسل اور بے شمار نسلوں تک چلے جانا ہے ان شاء اللہ تعالیٰ بشرطیکہ آپ میں نیکی اور تقویٰ قائم رہے‘‘

(خطبہ جمعہ 27 مئی 2005ء)

اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ خلفاء احمدیت کی قیادت میں جماعت کے خوفوں کو امن میں بدلہ ہے اجتماعی طور پر بھی اور انفرادی طور پر بھی آج آپ کسی بھی مخلص احمدی سے مل کر دیکھ لیں اس کی زندگی ایسے کئی واقعات سے بھری ہو گی جہاں شدید خوف کی حالت کو اللہ تعالیٰ نے خلافت کی برکت سے امن میں بدل دیا اور ایسی سکینت اتاری جس کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔

جیسا کہ خاکسار پہلے بھی عرض کر چکا ہے کہ کامل اطاعت کے بغیر خلافت کی برکات سے حصہ نہیں پایا جاسکتا کیونکہ اللہ نے اسے مشروط کردیا ہے ایمان اور عمل صالح سے اور یہ دو کیفیات تب ہی مل سکتی ہیں جب انسان مکمل طور پر مطیع دل کے ساتھ اپنی گردن میں خلیفہ وقت کی اطاعت اور فرمانبرداری کا جؤا ڈال لیتا ہے۔

حضرت مصلح موعود ؓ فرماتے ہیں۔
’’اطاعت رسول بھی جس کا اس آیت میں ذکر ہے خلیفہ کے بغیر نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ رسول کی اطاعت کی اصل غرض یہ ہوتی ہے کہ سب کو وحدت کے رشتہ میں پرویا جائے۔ یوں تو صحابہ ؓ بھی نمازیں پڑھتے تھے اور آج کل کے مسلمان بھی نمازیں پڑھتے ہیں۔ صحابہؓ بھی حج کرتے تھے اورآج کل کے مسلمان بھی حج کرتے ہیں۔ پھر صحابہؓ اور آج کل کے مسلمانوں میں فرق کیا ہے؟ یہی کہ صحابہ میں ایک نظام کا تابع ہونے کی وجہ سے اطاعت کی روح حد کمال تک پہنچی ہوئی تھی چنانچہ رسول کریم ﷺ انہیں جب بھی کوئی حکم دیتے صحابہ اسی وقت اس پر عمل کے لئے کھڑے ہوجاتے تھے لیکن یہ اطاعت کی روح آج کل کے مسلمانوں میں نہیں۔۔ ۔ کیونکہ اطاعت کامادہ نظام کے بغیر پیدا نہیں ہو سکتا۔ پس جب خلافت ہوگی، اطاعت رسول بھی ہوگی‘‘

(تفسیر کبیر سورہ نور صفحہ369)

پھر حضرت مصلح موعود ؓ فرماتے ہیں۔
’’یاد رکھو! ایمان کسی خاص چیز کا نام نہیں بلکہ ایمان نام ہے اس بات کا خدا تعالیٰ کے قائم کردہ نمائندہ کی زبان سے جو بھی آواز بلند ہو اس کی اطاعت اور فرمانبرداری کی جائے۔۔ ۔ ہزار دفعہ کوئی شخص کہے کہ میں مسیح موعود پر ایمان لاتا ہوں۔ ہزار دفعہ کوئی کہے کہ میں احمدیت پر ایمان رکھتاہوں۔ خداکے حضور اس کے ان دعووں کی کوئی قیمت نہیں ہوگی جب تک وہ اس شخص کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ نہیں دیتا۔ جس کے ذریعہ خدا اس زمانہ میں اسلام قائم کرنا چاہتاہے۔ جب تک جماعت کا ہر شخص پاگلوں کی طرح اسکی اطاعت میں اپنی زندگی کاہر لمحہ بسر نہیں کرتا۔ اس وقت تک وہ کسی قسم کی فضیلت اور بڑائی کا حقدار نہیں ہو سکتا‘‘

(الفضل 15نومبر 1946ء)

حضرت مصلح موعود ؓ مزید فرماتے ہیں :
’’انبیاء اور خلفاء اللہ تعالیٰ کے قرب کے حصول میں ممد ہوتے ہیں جیسے کمزور آدمی پہاڑ کی چڑھائی پر نہیں چڑھ سکتا تو سونٹے یا کھڈ سٹک کا سہارا لے کر چڑھتا ہے۔ اسی طرح انبیاء اور خلفاء لوگوں کے لئے سہارے ہیں۔ وہ دیواریں نہیں جنہوں نے الٰہی قرب کے راستوں کوروک رکھا ہے بلکہ وہ سونٹے اور سہارے ہیں جن کی مدد سے کمزور آدمی بھی اللہ تعالیٰ کاقرب حاصل کر لیتا ہے‘‘

(الفضل 11 ستمبر 1937ء)

سو اے احمدیو! اے حضرت مسیح موعود ؑ کے بابرکت درخت کی سرسبز شاخو! یہ جو نعمت اللہ تعالیٰ نے ہمیں عطا کی ہے اس کی قدر کریں اور تن من دھن اس پر نثار کر دیں اور یہ جو پانچویں قدرت کے دور سے ہم گزر رہے ہیں دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کے تحفظ کی خاطر اپنا سب کچھ قربان کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہر اس قربانی کیلئے تیار رہیں جو خلافت کے دوام کی ضامن ہو۔ آمین

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے خلافت خامسہ کے بارہ میں کیا فرمایا ہے یہ اہم حوالہ خاص توجہ سے سننے کے لائق ہے۔

آپ فرماتے ہیں۔
’’میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ یہ دور احمدیت کی ترقی اور فتوحات کا دور ہے۔ اللہ تعالیٰ کی تائیدات کے ایسے باب کھلے ہیں اور کھل رہے ہیں کہ ہر آنے والا دن جماعت کی فتوحات کے دن قریب دکھا رہا ہے۔ میں تو جب اپنا جائزہ لیتا ہوں تو شرمسار ہوتا ہوں۔ میں تو ایک عاجز، ناکارہ، نا اہل، پُر معصیت انسان ہوں۔ مجھے نہیں پتہ کہ اللہ تعالیٰ کی مجھے اس مقام پر فائز کرنے کی کیا حکمت تھی۔ لیکن میں یہ بات علیٰ وجہ البصیرت کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اس دور کو اپنی بے انتہا تائیدو نصرت سے نوازتا ہوا ترقی کی شاہراہوں پر بڑھاتا چلا جائے گا۔ ان شاء اللہ۔ اور کوئی نہیں جو اس دور میں احمدیت کی ترقی کو روک سکے اور نہ ہی آئندہ کبھی یہ ترقی رکنے والی ہے۔ خلفاء کا سلسلہ چلتا رہے گا اور احمدیت کاقدم آگے سے آگے بڑھتا رہے گا۔ ان شاء اللہ‘‘

(خطاب 27 مئی 2008ء)

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اور ہماری آئیندہ آنے والی نسلوں کو ہمیشہ اس عظیم الشان خلافت سے وابستہ رہنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان تما م برکات کا مستحق بنائے جو اس نعمت سے وابستہ ہیں۔ آمین اللّٰھم آمین۔

خلیفہ کے ہم ہیں خلیفہ ہمارا
وہ دل ہے ہمارا آقا ہمارا

(طاہر محمود عابد۔ مبلغ انچارج گنی کناکری)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 8 ستمبر 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ