• 26 اپریل, 2024

کلام الٰہی کا اثر

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔

لَوۡ اَنۡزَلۡنَا ہٰذَا الۡقُرۡاٰنَ عَلٰی جَبَلٍ لَّرَاَیۡتَہٗ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنۡ خَشۡیَۃِ اللّٰہِ ؕ وَ تِلۡکَ الۡاَمۡثَالُ نَضۡرِبُہَا لِلنَّاسِ لَعَلَّہُمۡ یَتَفَکَّرُوۡنَ

(الحشر: 22)

اس آیت کا ترجمہ ہے کہ اگرہم نے اس قرآن کو کسی پہاڑ پر اتارا ہوتا تو تو ضرور دیکھتا کہ وہ اللہ کے خوف سے عجز اختیار کرتے ہوئے ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتا اور یہ تمثیلات ہیں جو ہم لوگوں کے لئے بیان کرتے ہیں تاکہ وہ تفکر کریں۔ بعض لوگوں کے دل اتنے سخت ہو جاتے ہیں کہ کلام الٰہی کا ان پر اثر ہی نہیں ہوتا۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں جو میں نے تلاوت کی ہے فرمایا کہ اگر ہم یہ قرآن پہاڑ پر بھی اتارتے تو وہ بھی خوف سے ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتا۔

پس اللہ تعالیٰ کے اس کلام سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ بعض انسانوں کے دل پہاڑوں سے بھی زیادہ سخت ہوتے ہیں۔ اپنے مقصد پیدائش کو بھول جاتے ہیں۔ اپنے پیدا کرنے والے کو بھول جاتے ہیں۔ اپنی عاقبت کو بھول جاتے ہیں۔ سورۃ بقرہ میں انسانی دلوں کی سختی کے بارے میں خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ ثُمَّ قَسَتۡ قُلُوۡبُکُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ ذٰلِکَ فَہِیَ کَالۡحِجَارَۃِ اَوۡ اَشَدُّ قَسۡوَۃً ؕ وَ اِنَّ مِنَ الۡحِجَارَۃِ لَمَا یَتَفَجَّرُ مِنۡہُ الۡاَنۡہٰرُ ؕ وَ اِنَّ مِنۡہَا لَمَا یَشَّقَّقُ فَیَخۡرُجُ مِنۡہُ الۡمَآءُ ؕ وَ اِنَّ مِنۡہَا لَمَا یَہۡبِطُ مِنۡ خَشۡیَۃِ اللّٰہِ (البقرۃ: 75) یعنی اس کے بعد پھر تمہارے دل سخت ہو گئے۔ گویا وہ پتھروں کی طرح بلکہ اس سے بھی زیادہ سخت ہیں۔ پتھروں میں سے ایسے ہیں جن میں سے دریا بہتے ہیں اور بعض ایسے ہیں جب پھٹ جائیں تو ان میں پانی بہنے لگتاہے، چشمے پھوٹ پڑتے ہیں۔ اور ان میں سے بعض ایسے ہیں جو اللہ کے ڈر سے گر جاتے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ کی تقدیروں کا، اللہ تعالیٰ کے کلام کا، دنیا میں اللہ تعالیٰ کی جو مختلف تقدیریں چل رہی ہیں ان کا جمادات پر بھی اثر ہوتا ہے۔ لیکن انسان کا دل ایسا سخت ہو جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر کو دیکھ کر بھی اپنے اندر تبدیلی لانا نہیں چاہتا۔ سورۃ بقرہ کی اس آیت میں یہودیوں کے حوالے سے بات ہو رہی ہے لیکن یہ حوالہ صرف واقعہ نہیں بلکہ پیشگوئی بھی ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کا خوف پیدا نہیں کرو گے توتمہارے دل بھی اسی طرح سخت ہوں گے۔

آج کل کے حالات دیکھیں تو مسلمانوں کے لئے بھی لمحہ فکریہ ہے۔ غور کریں کہ یہ سب کچھ کیوں ہو رہا ہے؟ باوجود اس کے کہ مغربی دنیا میں جب یہاں کے سیاستدانوں کو مسلمان اپنے فنکشنز میں بلاتے ہیں یا خود اپنے فنکشنز کرتے ہیں تو تقریروں میں، فنکشنز میں یہ لوگ مسلمانوں کی تعریف بھی کر رہے ہوتے ہیں لیکن جب مجموعی طورپر کسی فیصلے کا وقت آتا ہے تو فیصلے وہی کئے جاتے ہیں جو ان کی اپنی مرضی کے ہوں نہ کہ مسلمانوں کے مفاد کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔

(خطبہ جمعہ 11؍ ستمبر 2009ء)

(الفضل انٹرنیشنل جلد 16شمارہ 40 مورخہ 2 اکتوبر تا 8 اکتوبر 2009ء صفحہ 5 تا صفحہ 8)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 8 اکتوبر 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 9 اکتوبر 2020