• 6 مئی, 2025

تبلیغ میں پریس اور میڈیا سے کس طرح کام لیا جاسکتا ہے

تبلیغ میں پریس اور میڈیا سے کس طرح کام لیا جاسکتا ہے
ذاتی تجربات کی روشنی میں (قسط 13)

منٹگمری کونٹی سینٹینل (SENTINEL) نے اپنی اشاعت 6؍مئی 2000ء میں اپنے سٹاف رائٹر JULICE AHN کے حوالہ سے وہی خبر دی ہے کہ کونٹی میں مذہبی منافرت کے جرائم بڑھ رہے ہیں۔

اخبار نے لکھا ہے کہ پریس کانفرنس میں کونٹی چیف پولیس نے ان خدشات کا اظہار کیاہے اور بتایا ہے کہ ہم اس بات سے سخت پریشان ہیں کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے۔ ڈیوڈ بیکر جو کہ اس پروگرام کے کوارڈینیٹر تھے، نے بتایا کہ مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز واقعات اس سال زیادہ ہوئے ہیں۔ خاکسار کے حوالہ سے اخبار نے لکھا کہ اسلامک منسٹر امام شمشاد ناصر جو اس کانفرنس میں شریک تھے، نے کہا ہے کہ اس وقت تک جتنے بھی حقائق سامنے آئے ہیں اُن سے ظاہر ہورہا ہے کہ کام خراب ہو رہا ہے۔ اور یہ خبر ’’جرم اور ظلم‘‘ میں مزید بڑھائے گی اس لئے اس وقت ہم سب کو ایک ہونا پڑے گا۔ اگر ہم الگ الگ ہوئے تو اس کا نتیجہ پھر آپ کے سامنے ہوگا اگرچہ کسی کو انفرادی طور پر نقصان نہیں ہوا لیکن ایسے فون کالز موصول ہو رہی ہیں جن سے نفرت کا اظہار ہو رہا ہے یا کسی کو ہراس کیا جارہا ہے یا زبانی کسی سے نفرت انگیز بات کی جارہی ہے۔

دی منٹگمری جرنل سنڈے۔ 6؍جنوری 2002ء کی اشاعت میں صفحہ A6پر خاکسار کا ایک مضمون شائع کرتا ہےجو کہ ایک شخص Mr. LAWRENCE K. MARSH کی تنقید یا اس کے اعتراضات کا جواب ہے۔ اس کا ایک خط گذشتہ سال اسی اخبار میں 27؍دسمبر 2001ء کی اشاعت میں صفحہ A4 پر شائع ہوا تھا۔ اس کا عنوان انہوں نے یہ لگایا تھا کہ ’’آئیں دیکھیں کہ اسلام کس قدر پرامن مذہب ہے‘‘۔

خاکسار کا جواب اخبار کے نصف سے زائد صفحہ پر ہے۔ اس کا عنوان یہ ہے کہ ’’مذہب اسلام کا خلاصہ اور لب لباب امن و آشتی ہے۔ نہ جنگ اور نفرت۔‘‘ خاکسار نے بڑی تفصیل کے ساتھ قرآن کریم کی تعلیمات اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ کی روشنی میں یہ بات ثابت کی ہے کہ اسلام ہی حقیقی معنوں میں امن کا مذہب ہے اور محبت کی تعلیم دینے والا مذہب ہےنیز یہ کہ اسلام فساد اور جنگ کو بالکل پسند نہیں کرتا۔ خاکسار نے قرآن کریم اور بائیبل کی تعلیمات کا موازنہ بھی کیا۔ قرآن کریم نے جارحیت، تشدد، نفرت کا قلع قمع کیا ہے اور اس میں جبر کی کوئی تعلیم نہیں ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تو فتح مکہ کے موقع پر سب دشمنوں کو معاف کر دیا تھا۔ خاکسار نے متی باب10 آیت34 کے حوالہ سے بتایا کہ حضرت عیسیٰ کی تعلیم تو یہ بیان ہوئی ہےجہاں انہوں نے خود یہ کہا ہے کہ میں امن کے لئے نہیں بلکہ تلوار کے لئے آیا ہوں۔

افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ مسٹر مارش نے قرآنی تعلیمات کو توڑ مروڑ کر پیش کیا ہے۔ جو نظریہ انہوں نے اپنے خط میں پیش کیا ہے اس سے نفرت میں مزید اضافہ ہوگا اور اتحاد کو نقصان پہنچے گا۔ مجھے تمام مذاہب کا احترام ہے کیونکہ مذہب کے ذریعہ ہی ہم سوسائٹی میں ایک دوسرے کا احترام سیکھتے ہیں اورایک دوسرےکی تعظیم کرنےکاحکم بلا امتیاز مذہب و ملت سب کے لئے ہے۔ اور میرا یہی مذہب ہےاور یہی اسلامی تعلیم ہے۔ ہر مسلمان کو اس کے مطابق عمل کرنا چاہیئے۔

دی سن اِن ہاورڈ (THE SUN IN HOWARD) نے اپنی 21؍فروری 2002ء کی اشاعت میں صفحہ 4B پر ایک یہودی عبادت گاہ میں انٹرفیتھ (بین المذاہب کانفرنس) کے انعقاد کی خبر دی ہے۔

مسجد بیت الرحمان کی ہمسائیگی میں ایک شہر کولمبیا ہے جہاں پر یہودیوں کی عبادت گاہ واقع ہے، یہاں یہ کانفرنس منعقدہوئی۔ اس کانفرنس کے بارہ میں اس اخبار کی رائٹر DONNA W. PAYNE نےایک خبردی ہےکہ یہاں پر اب تک مختلف موضوعات پر اس قسم کی کانفرنسیں ہوچکی ہیں۔ اخبارمزید لکھتا ہےکہ اس دفعہ یہ موضوع ہے کہ آپ کے بنیادی عقائد کیا ہیں؟ نجات کے بارے میں آپ کا کیا عقیدہ ہے؟ جو لوگ آپ کے عقیدہ سے اختلاف رکھتے ہیں کیا وہ بھی جنت میں جائیں گے؟ وغیرہ۔

(یہودی) ربائی نے اپنے عقائد بیان کئے اور میٹنگ کا مقصد بھی بیان کیا۔ ربائی نے بیان کیا کہ اس قسم کی ایک کانفرنس جماعت احمدیہ کی مسجد میں بھی رکھی گئی تھی لیکن اس دِن شدید برفباری کی وجہ سے میٹنگ کو کسی اور وقت کے لئے ملتوی کردیا گیا تھا۔ دوسرے اسلامک فرقے احمدیہ جماعت کو گمراہ سمجھتے ہیں۔

اس موقعہ پر مسٹر شمشاد ناصر نے کہا کہ ہم پر لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ ہم جہاد کے منکر ہیں۔ ہم اُس جہاد کے خلاف ہیں کہ ہر شخص سے بلاوجہ لڑتے پھرو۔ ہم جہاد کی یہ تعریف نہیں کرتے۔

مسٹر شمشاد نے مزید کہا کہ بین المذاہب کانفرنس ہمیشہ اچھی ہوتی ہیں۔ اس کے نتیجہ میں لوگ اکٹھے ہوئے ہیں اور ایک دوسرے کے مطمع نظر کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ دوسرے مذہبی لیڈروں نے بھی اس موقعہ پر اپنے اپنے عقائد اور خیالات کا اظہار کیا۔

دی گزٹ برٹنسِول ۔ 22؍اکتوبر 2003ء کی اشاعت میں اس عنوان سے خبر دیتا ہے۔ WEEK LONG PILGREMAGE UNITES FAITH

اس خبر کے سٹاف رائٹر MATT BOYD ہیں جنہوں نے لکھا کہ مختلف مذاہب کے مذہبی لیڈر اور اُن کے پیرو کار ایک دوسرے کی عبادت گاہوں کا وزٹ کر رہے ہیں جس سے آپس میں یگانگت اور اتحاد پیدا ہوگا۔ اس سال یہ دوسرا موقعہ ہے کہ ایسا ہورہا ہے۔ یہ کام گزشتہ سال سے شروع ہوا ہے۔

خاکسار کے حوالہ سے اخبار نےلکھا ہے کہ جماعت احمدیہ کی مسجد بیت الرحمان کے امام سید شمشاد نے بتایا ہےکہ اس وقت انسانیت دکھوں کا شکار ہے اور بہت تکلیف میں ہے۔ اس کی ایک خاص وجہ یہ ہے کہ آپس میں ہم آہنگی نہیں ہے۔

مختلف مذاہب کے لیڈروں اور اُن کے پیروکاروں کے لئے پہلا وزٹ مسجد بیت الرحمان میں ہوگا جہاں پر شمشاد جمعہ کا خطبہ دیں گے اور نماز پڑھائیں گے وہ حاضرین کو بتائیں گے کہ اسلام میں عبادت کا کیا مقام ہے اور یہ کس طرح کی جاتی ہے۔ اس کے بعد نماز ہوگی۔ پھر سب شامل ہونے والوں کی مہمان نوازی کی جائے گی اور سوالوں کے جواب دیئے جائیں گے۔

اخبار نے آخر میں دیگر مذاہب کا پروگرام بھی دیاکہ کس دن اور کس وقت کہاں کہاں کن عبادت گاہوں میں یہ پروگرام ہوں گے۔ اس میں شامل ہونے کے لئے سب کو دعوت ہے۔ مزید معلومات کے لئےمسجد بیت الرحمان کا فون نمبر 301-879-0110ب ھی دیا گیا ہے۔

دی مسلم نیوز نے مارچ 2002ء میں صفحہ 4 پر خاکسار کا ایک مضمون اسلام کے بارے میں شائع کیا ہے۔ اور ایک تصویر بھی شائع کی ہے۔ اس تصویر میں خاکسار نائیجیریا کے سفیر کو قرآن کریم کا تحفہ پیش کر رہا ہے۔

مضمون میں جیسا کہ بتایا گیا ہے کہ اسلام اور اسلامی تعلیمات کا تعارف کرایا ہے۔ خاکسار نے لکھا:
نائن الیون کے بعد لوگوں میں اسلام کو جاننے کے بارے میں زیادہ دلچسپی پیدا ہوئی ہے۔ لفظ اسلام کے معانی ہیں امن اور اپنے آپ کو کلیۃً اللہ تعالیٰ کی رضا کے سپرد کر دینا۔

جیسا کہ ایک صفت اللہ تعالیٰ کی سلام بھی ہے اس لئے ایک مسلمان کا سب سے بڑا مطمع نظر امن کو قائم کرنا اور دوسروں کو امن کی ضمانت دینا ہے۔ مضمون میں خاکسار نے قرآنی آیات کےحوالہ سے لکھا:
مذہب میں کوئی جبر نہیں (ہر شخص جو چاہے مذہب اختیار کرے)۔زمین میں فساد پیدا نہ کرو۔ اگر کوئی شخص ایک آدمی کو بھی قتل کرتا ہے تو گویا وہ ساری انسانیت کو قتل کرتا ہے۔

اسی طرح لکھا کہ قرآن کریم کی تعلیم کے مطابق ہمارا مذہب یہ ہے کہ تمام انبیاء کرام خواہ وہ کہیں پر بھی ظاہر ہوئے ہوں سب کی تعظیم اور احترام کرنا ایک مسلمان کا فرض ہے۔

خاکسار نے جہاد کے بارے میں بھی غلط فہمیوں کا ازالہ کیا اور بتایا کہ جہاد کے معانی یہ قطعاً نہیں ہیں کہ مذہب کے اختلاف کی بنیاد پر مسلمان دوسروں کو یوں ہی قتل کرتے پھریں۔ جہاد کی 3 قسمیں بھی بیان کی گئی ہیں۔

  1. اصلاح نفس بہت بڑا جہاد ہے۔
  2. قرآن کے ذریعہ جہاد۔ یعنی قرآن کریم کی تعلیمات کا حسن بیان کیا جائے۔ قرآن کریم کی طرف یا قرآن کے ذریعہ تبلیغ کی جائے۔
  3. ایسا جہاد جو دشمن کے حملہ سے دفاع کے لئے کیا جائے۔

اسلام میں دفاعی جنگ کی اجازت ہےلیکن جارحانہ جنگ کی قطعاً اجازت نہیں ہے۔ جیسا کہ قرآن کریم کی آیات سے ظاہر ہے۔

خاکسار نے مضمون کے آخر میں آنحضرت ﷺ کا نمونہ اور امن کے قیام کے سلسلہ میں حجۃ الوداع کا خطبہ سے اقتباس نوٹ کیا ہے کہ تمام لوگ برابر ہیں۔ کسی کو کسی پر فضیلت نہیں سوائے تقویٰ کے۔ ہر شخص کی زندگی محترم ہے۔ کسی شخص کی جان یا اس کا مال قبضہ میں کرنا حرام اور مطلق حرام ہےا ور ناانصافی ہے۔

مضمون کے آخر میں مسجد بیت الرحمٰن کا ایڈریس اور فون نمبر بھی دیا گیا ہے تا لوگ پڑھ کر مزید معلومات حاصل کر سکیں۔

لورل لیڈر نےا پنی اشاعت 31 اکتوبر 2002ء میں ’’مذہب‘‘ کے تحت ایک اعلان لکھا ہے کہ جماعت احمدیہ کی مسجد بیت الرحمٰن میں ایک بین المذاہب کانفرنس 3 نومبر کو ہو رہی ہے جس میں مختلف یعنی مذاہب بدھ ازم، عیسائی، سکھ، یہودی، ہندو اور مسلمان شامل ہو رہے ہیں۔ اس کانفرنس کا عنوان ہے: ’’ہمسایہ کے حقوق اپنے مذہبی تعلیم کی روشنی میں‘‘۔ اخبار نے مسجد احمدیہ بیت الرحمان کا ایڈریس بھی دیا ہے۔

گزٹ کمیونٹی نیوز 30 اکتوبر 2002ء کی اشاعت میں بھی ہماری اس بین المذاہب کانفرنس کا اعلان شائع ہوا ہے اور وہی معلومات ہیں جو اوپر درج ہو چکی ہیں۔

دی گزٹ برٹنسوِل نے اپنی اشاعت 6 نومبر 2002ء میں اس عنوان سے خبر دی:
’’بین المذاہب کانفرنس میں شامل ہونے کے خواہشمند‘‘

اخبار لکھتا ہے کہ اس علاقہ میں لوگ مضبوطی کے ساتھ اپنے اپنے عقائد کے مطابق اپنی مذہبی رسومات اور عبادات بجا لا رہے تھے اور خصوصاً نائن الیون کے بعد اس بات نے خاص طور پر زور پکڑ لیا ہے۔

خاکسار کے حوالہ سے اخبار نے لکھا کہ امام شمشاد ناصر آف مسجد بیت الرحمٰن نے کہا ہے کہ احمدیہ مسلم کمیونٹی سالہا سال سے بین المذاہب کانفرنس کر رہی ہے لیکن اس وقت لوگوں نے جو دلچسپی ظاہر کر کے اس میں شمولیت کی ہے، وہ ایک ریکارڈ ہے۔ اخبار نے لکھا کہ قریباً 400 مہمان اس میں شریک ہوئے جس میں بدھ مت، اسلام، یہودیت، سکھ ازم اور عیسائیت کے نمائندگان نے تقاریر کیں۔ اس کانفرنس کا موضوع تھا: ’’ہمسایوں کے بارے میں آپ کے مذہب کی تعلیم‘‘

اس کانفرنس میں بدھ مت کے نمائندہ نے کہا کہ مجھے حیرت ہوئی ہے کہ کس قدر مذاہب کی تعلیمات آپس میں ملتی جلتی ہیں اور یہ ایک دوسرے کے مذہب کو عالمی سطح پر بھی سمجھنے میں مدد دے سکتی ہے۔

عیسائی نمائندہ نے کہا کہ اس قسم کی کانفرنس ایک دوسرے کو قریب سے دیکھنے اور سمجھنے کا موقع دیتی ہیں جو کہ امن کے قیام کے لئے مفید ہے۔ اس سے بہت سی غلط فہمیوں او ربدظنیوں کا ازالہ ہو سکتا ہے۔

ایک اور عیسائی پادری ’’گائے کیری‘‘ جو اپنے چرچ سے 100 سے زائد لوگ لے کر آئے تھے، نے کہا کہ حال ہی میں جب ہم نے ایک دوسرے کی عبادت گاہوں کا وزٹ کیا اور ان کی عبادات کے طریق دیکھے اور سمجھے تو یہ ایک بہت بڑی بین المذاہب کانفرنس تھی۔


ایک اور پادری Currie Burris نے اس موقعہ پر تقریر کرتے ہوئے کہا :اس کانفرنس سے بہت سے فوائد ملے ہیں اور خصوصاً اسلام کو سمجھنے میں معلومات ملی ہیں گویا ہم سب ایک ہی دنیا ہیں۔

دی گزٹ نے بھی اپنی 23 اکتوبر 2002ء کی اشاعت میں A-3 پر انٹرفیتھ کانفرنس کا اعلان شائع کیا ہے کہ مختلف مذاہب کے مذہبی نمائندے احمدیہ مسجد بیت الرحمٰن میں شریک ہو رہے ہیں اور مسجد کا یہ ایڈریس ہے۔ اس خبرکاعنوان یہ تھا:
’’ہمسایوں کے ساتھ حسن سلوک کی تعلیم اپنے عقیدہ و مذہب کی رو سے‘‘

ی گزٹ16 اکتوبر 2002ء صفحہ A10 پر یہ خبر دیتا ہے:
’’ہم دعا کر رہے ہیں کہ شوٹنگ ختم ہو جائے اور امن قائم ہو‘‘۔

اس خبر کا پس منظر یہ ہے کہ منٹگمری کونٹی میں چند دنوں سے چھپ کر پوشیدہ طور پر کوئی شوٹنگ کر رہا تھاجس سے نہ صرف امن عامہ خراب ہورہا تھا بلکہ معصوم جانوں کا بھی خون ہو رہا تھا اور ساری کمیونٹی میں ایک خوف و ہراس کی کیفیت تھی یہاں تک کہ ہر شخص کام پر جاتے ہوئے، بچے سکول جاتے ہوئے خوف محسوس کر رہے تھے۔ اس شوٹنگ میں جو کئی دن جاری رہی، بڑوں کے علاوہ ایک بچہ بھی مارا گیا۔

اخبار نے یہ خبر دی کہ لوگ دعائیں کر رہے ہیں کہ اس کا خاتمہ ہو اور دوبارہ امن بحال ہو۔ اس سلسلہ میں مختلف عبادت گاہوں میں دعائیہ تقاریب بھی ہوئیں اور حکومتی سطح پر کونٹی ایگزیکٹو مسٹر ڈگ ڈنکن نے پریس کانفرنسز بھی کیں جس میں خداتعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ کو متعدد بار بلایا گیا۔

خاکسار کے حوالہ سے اخبارنے لکھا کہ مسجد بیت الرحمان میں احمدیہ جماعت کے لوگوں نے تمام متاثرین کے لئے اور ان کے عزیز و اقارب کے لئے دعا کی ہے اگرچہ مسجد کا کوئی ممبر بھی اس شوٹنگ سے متاثر نہیں ہوا۔ امام شمشاد احمد ناصر نے کہا ہے کہ جب علاقہ میں ایک فرد بھی حادثاتی طور پر فوت ہوتا ہے تو علاقے کےسارے لوگ اس کے غم میں مبتلا ہوتے ہیں۔ امام شمشادنے اس موقعہ پر دعاؤں پر زور دیا۔

اخبار نے خاکسار کے حوالہ سے مزید لکھا کہ 4 اکتوبر کی پہلی شوٹنگ کے فوراً بعد انہوں نے کونٹی ایگزیکٹو کے آفس میں فون کیا اور مسٹر ڈگ ڈنکن سے تعزیت کی اور کہا کہ کسی ایک جان کا ضائع ہونا بھی ایک بہت بڑا نقصان ہے اور ہمیں سب سے ہمدردی کرنی چاہئے۔

اسی طرح اخبار نے دیگر مذاہب کے لیڈران کے بھی ہمدردانہ، تعزیت اور خیرسگالی کے بیانات کو درج کیا ہے۔

دی منٹگمری جرنل نے بھی اپنی اشاعت صفحہ A 1 پر تفصیل کے ساتھ ایک خبر دی ہےجس کا عنوان یہ تھا:

Muslims prepare for backlash of bias.

اخبار نے اس ضمن میں چیف پولیس کا بھی بیان دیا کہ چھپ کر اور پوشیدہ طور پر شوٹنگ کرنے سے 10 آدمی مارے گئے اور 3 بری طرح زخمی ہوئے ہیں۔ پولیس نے قاتل کو پکڑ لیا ہے۔ مسلمان طبقہ کے لئے یہ ایک پریشان کن خبر ہے کہ قاتل کا نام بانیٔ اسلام کے نام پر ہے۔

خاکسار کے حوالہ سے اخبار نے لکھا کہ مسجد بیت الرحمٰن سلور سپرنگ کے امام شمشاد ناصر کہتے ہیں کہ ان کی جماعت کے دیگر افراد مسلمانوں کے خلاف ممکنہ منفی رد عمل کے بارے میں پریشان ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ جو شخص اس قسم کی حرکت کرتا ہے وہ کسی صورت قابلِ رحم نہیں۔ اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ کس مذہب سے تعلق رکھتا ہے۔ اس شخص کو اس کے انجام تک پہنچانا ضروری ہے۔

انہوں نے کہا کہ منٹگمری کونٹی کے مسلمان اس موقع پر علاقہ کے دیگر تمام باشندوں کے ساتھ ہمدردی اور یک جہتی کا اظہار کرتے ہیں۔ امام شمشاد نے مزید کہا کہ اس شخص کو اپنے نام کو بانیٔ اسلام محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے نام پر تبدیل کرنے پر ہمیں یقیناً غصہ اور تشویش ہے کیونکہ مسلمانوں کو ان کے نبی محمدؐ کے نام سے خاص عقیدت ہے۔ اپنے آپ کو خدا کہنا یا نبی کہنا ہمارے مذہب کے اصول کے خلاف ہے اور ہم نہیں جانتے کہ وہ شخص کیوں مسلمان ہوا یا اس نے کیوں بانیٔ اسلام کا نام اپنے لئے اپنایا۔ یہ بات یقینی ہے کہ صرف ایک نام سے ہی کسی کو استثناء حاصل نہیں ہو جاتا۔ اگر کوئی شخص غلط کام کرتا ہے تو اس کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔

علاقےکی مسلمان برادری کو اس بات سے یقیناً ٹھیس پہنچی ہے کہ گولی چلانے والے مجرم نے پولیس کو بیان دیتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ وہ خدا ہے۔ مسٹر شمشاد نے مزید کہا:
یہ جان کر کہ گولی چلانے والے محمد کا تعلق Sniper حملوں سے ہے، سب مسلمان اس کو اپنی برادری سے خارج کرتے ہیںاوراعلان کرتے ہیں کہ ہمارا اس شخص سے کوئی تعلق نہیں۔ اس کا معاملہ خدا کے ساتھ ہے۔

خاکسار نے اس وقت تک اخبارات میں جو خبریں آئی ہیں اُن کی مختصراً رپورٹ پیش کی ہے۔ لیکن یہ سلسلہ یہیں ختم نہیں ہوجاتا۔ ان خبروں کا پس منظر اور پھر اخبارات میں شائع ہونے کے بعد کیا رد عمل ہوا۔ کہاں کہاں مخالفت اور پھر کس طرح خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ کو اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دفاع کی توفیق ملی اور کس طرح تبلیغ کے مزید دروازے کھلے وہ حصہ پیش کیا جاتا ہے۔

اس سلسلہ میں خاکسار نے 29؍جولائی 2002ء کو دفتروکالت تبشیر میں جو رپورٹ بھجوائی وہ یہاں درج کرتا ہوں۔

1۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس ریجن میں مذہبی روا داری کی فضاء میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ عیسائی، یہودی اور دیگر مذاہب کے لوگ آپس میں دلچسپی لینے لگے ہیں اور ایسے پروگرام بنا رہے ہیں جس میں سب کو مدعو کیا جائے۔ لوگ ایک دوسرے کی مذہبی عبادت گاہوں میں بھی جانے لگے ہیں اور ایک دوسرے کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں اور احترام انسانیت کی باتیں کرنے لگے ہیں۔

سانحۂ 11؍ستمبر 2001ء کے بعد ایک یہودی آرگنائزیشن نے ہمیں اپنے سکول میں بلایا تھاجہاں پر خاکسار نے اسلام کے بارے میں تقریر کی۔ اب اسی آرگنائزیشن نے ہمیں فون کیا کہ وہ اپنے اساتذہ ،والدین اور طلباء کو لے کر آنا چاہتے ہیں اور مسجد دکھانا چاہتے ہیں۔ چنانچہ 35طلباء، 7والدین اور 2 اساتذہ مسجد بیت الرحمان آئے۔

ہم نے اُن کے لئے یہ پروگرام طے کیا تھا کہ ہمارے سنڈے کلاس کے دو بچے تقریر کریں گے۔ پہلی تقریر اسلام کے تعارف پر تھی۔ دوسری تقریر قرآن کریم کے بارے میں تھی۔

تقاریر سے قبل خاکسار نے جماعت احمدیہ کا عمومی تعارف نیز مسجد بیت الرحمان کے بارے میں بتایا۔

جب دو تقاریر ہوچکیں تو سوال و جواب کا پروگرام تھا۔ چنانچہ 45 منٹ تک سوال و جواب ہوئے۔ اس کے بعد ان سب کو دوپہر کا کھانا پیش کیا گیا۔ خدا تعالیٰ کے فضل سے وہ بہت اچھا اثر لے کر گئے۔ انہوں نے شکریہ کا خط بھی لکھا بلکہ اُن کے بچوں نے بھی شکریہ کے خطوط بھجوائے۔

2۔ کولمبیا یونین کالج کا ذکر خاکسار اس سے قبل رپورٹ میں کرچکا ہے۔ اس کالج کے 2 پروفیسر باقاعدہ اپنے طلباء کو مسجد لارہے ہیں۔ چنانچہ ایک عیسائی پروفیسر اپنے 36طلباء کو لے کر مسجد بیت الرحمان آئے۔ ان سب کو اسلام کے بارے میں بتایا گیانیز سوال و جواب بڑے دلچسپ اور دوستانہ ماحول میں ہوئے۔ ان سب کی ضیافت بھی کی گئی۔

انہوں نے مسجد میں نمائش بھی دیکھی اور اسلام کے بارے میں لٹریچر بھی ساتھ لے کر گئے۔ زیادہ تر یہ سوالات تھے۔

(1) اسلام امن کا مذہب کہلاتا ہے لیکن مسلمانوں میں کہیں بھی امن نظر نہیں آتا۔
(2) اسلام میں جہاد کا کیا نظریہ ہے۔
(3) جب اسلام قتل و غارت اور دہشت گردی کی تعلیم نہیں دیتا تو مسلمان کیوں ایسا کرتے ہیں۔
(4) عورتوں کے ساتھ کیوں برا سلوک کیا جاتا ہے نیز انہیں پردے میں کیوں الگ رکھا جاتا ہے۔
(5) قرآن تو کہتا ہے کہ یہودیوں اور عیسائیوں کو جہاں کہیں پاؤ انہیں قتل کر دو۔ وغیرہ اعتراضات پر مشتمل سوالات تھے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے سب کے احسن رنگ میں جواب دینے کی توفیق ملی۔

3۔ COLES VILLE PRESBYTERIAN چرچ کا بھی پہلے ذکر ہوچکا ہے ان کے ساتھ مسلسل رابطہ ہے چنانچہ انہوں نے ایک اور پروگرام کیا اور خاکسار کو اپنے چرچ میں بلایا جس دن انہوں نے اپنا پروگرام رکھا تھا ہماری مسجد میں 2 پروگرام تھے اور اسی وقت تھے۔ جب ہم نے معذرت کی تو کہنے لگے کہ اگر آپ نہیں آسکتے تو کوئی نمائندہ ضرور بھجوائیں چنانچہ میری لینڈ کے صدر جماعت مکرم ڈاکٹر لئیق احمد صاحب اُن کے پروگرام میں شریک ہوئے۔

4۔ علاقہ جہاں مسجد بیت الرحمان واقع ہے۔ میں بہت سی دوسرے مذاہب کی عبادت گاہیںبھی ہیں۔ ہندو، سکھ، عیسائیوں کے بہت سے فرقوں کی چرچ اور یہودیوں کی عبادت گاہ، کورین عیسائیوں کے چرچ وغیرہ

مختلف مذہبی لیڈر مل کر مہینہ میں ایک بار میٹنگ کرتے ہیں خاکسار نے ہی اس کو شروع کیا ہے۔ چنانچہ خاکسار ان کی میٹنگز میں شامل ہو رہا ہے۔ اسے ہم کلرجی میٹنگ کہتے ہیں اس طرح ایک میٹنگ جو کہ قریباً 2 گھنٹہ جاری رہی اور مختلف مذہبی سوالات ایک دوسرے سے کرتے رہے تاکہ آپس میں افہام و تفہیم کی فضا پیدا ہو۔ اس مرتبہ 6 مذہبی لیڈر شامل ہوئے تھے خاکسار نے ان سب کو احمدیہ گزٹ کا ’’مسیح موعود نمبر‘‘ جس میں مسیح کی آمد ثانی اور نظریہ جہاد کے بارے میں حضرت مسیح موعود ؑ کی کتب سے حوالہ جات شائع کئے تھے پیش کئے۔ نیز جماعت امریکہ نے اس سانحہ 11؍ستمبر کے بعد 2 نئے پمفلٹ (کتابچے)

  1. UNDERSTANDING ISLAM
  2. JIHAD AND WORLD PEACE

شائع کئے ہیں جو ان سب کو دیئے۔ اگلے دن خاکسار نے ان سب کو فون کیا تو معلوم ہوا کہ یہ سب ان کتابچوں کا دلچسپی کے ساتھ مطالعہ کر رہے ہیں۔

5۔ عوام الناس جو کہ زیادہ ترعیسائی ہیں جب اِن کے چرچوں میں جا کر اسلام کی تعلیم بیان کی جاتی ہے یا جب یہ لوگ مسجد آتے ہیں تو سوال و جواب کر کے اپنی تشنگی دور کر لیتے ہیں لیکن پادری صاحبان ایسا بہت کم کرتے ہیں۔ اس لئے خاکسار نے یہ پروگرام بنایا کہ ایک ایک کو دعوت دی جائے اور اس کے ساتھ گفتگو کی جائے چنانچہ اس دوران درج ذیل پادریوں کے ساتھ الگ الگ میٹنگ اور گفتگو اور سوال و جواب کئے گئے۔

1.Rev RICHARD KUKOWSKI

ان کے بارے میں یہ بتانا دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ یہ پہلے کیتھولک فرقہ کے ایک چرچ میں پادری تھے۔ اور ایک لمبا عرصہ اُن کے پادری رہے ہیں۔ یہ خود سناتے ہیں کہ چونکہ ہم لوگ شادی نہیں کرتے۔ اسی چرچ میں ایک اور خاتون نَن(NUN)تھیں۔ ہر دو نے کیتھولک فرقہ کو خیر باد کہہ کر اپنی شادی کر لی اور پھر دوسرے چرچ میں جا کر ملازمت کر لی۔ یہ چرچ ہمارے نزدیک ہی ہے۔ اور یہ اس کے پادری ہیں۔

2. Rev Elizbeth Lerner (الزبتھ)

یہ بھی ایک ہمسایہ چرچ یونیٹیرین چرچ کی پادری ہیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ کی کتاب کا مطالعہ کر رہی ہیں۔

3. Rev Stephen M.Anderson

یہ یونائیٹڈ چرچ آف کرائسٹ کے پادری ہیں انہیں تو جب بھی کوئی خلش ہوتی ہے اسلام کے متعلق فوراً مسجد آجاتے ہیں۔

4. Rev Donald R. Kelly

یہ BAPTIST چرچ کے پادری ہیں اسلام کے بارے میں انہوں نے مختلف اعتراضات کئے جن کے جواب دینے کی توفیق ملی۔

5. Rev Lanther Marie Mills

یہ مسجد بیت الرحمان کے ہمسایہ میں ایک ایفرو امریکن چرچ کی پادری ہیں اسلام کے متعلق بہت متعصبانہ رویہ رکھتی ہیں۔ ملنا بھی گوارا نہیں کرتیں۔ متعدد مرتبہ ان کو فون کئے گئے مگر کوئی جواب نہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بار بار کے رابطے سے پھر یہ مسجد آئیں ½1 گھنٹہ تک رہیں۔ جماعت کا لٹریچر بھی از خود ساتھ لے کر گئیں۔ اب انہیں ایک فنکشن کے لئے مسجد میں بلایا ہے اور اس نے آنے کی حامی بھری ہے۔

6. Rev Dr Ted Durr

یہ بھی ایک ہمسایہ چرچ کے پادری ہیں اچھے شریف النفس ہیں۔ احترام سے پیش آتے ہیں۔ ہماری کتب کا مطالعہ کرتے ہیں اور انہیں جو چیز اچھی معلوم ہو اپنے چرچ میں اس کا ذکر بھی کرتے ہیں۔ جس دن خاکسار کو ملنے آئے تو انہوں نے بتایا کہ گذشتہ رات اُن کے چرچ میں قریباً ایک سو لوگ جمع تھے میٹنگ کے لئے، اُن سب کو ہمارے دو کتابچوں یعنی ’’جہاد‘‘ (اور دنیا میں امن کس طرح قائم ہوسکتا ہے۔) اور ’’اسلام‘‘ میں سے اقتباسات پڑھ کر سنائے تھے اور یہ بھی کہا کہ ہم امن کی کوششوں اور جہاد کی جو تشریح آپ نے کی ہے اس کی بھرپور تائید اور حمایت کرتے ہیں جو باتیں بھی آپ نے ان کتابچوں میں لکھی ہیں جہاد کی تشریح میں وہ درست ہیں۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے مزید100، 100 کتابچوں کا مطالبہ کیا تاکہ اپنے چرچ کے لوگوں کو پڑھنے کے لئے دے سکیں۔

ایک مرتبہ خاکسار اتوار کے دن ان کے چرچ گیا تو یہ پادری صاحب اپنی عبادات بجا لارہے تھے۔ میں ایک طرف بیٹھ گیا۔ انہوں نے اپنی تقریر کے دوران خاکسار کو سٹیج پر بلایا۔ خوش آمدید کہا اور پھر درخواست کی کہ میں بھی حاضرین کو کچھ کہوں۔ چنانچہ اس دن کی عبادت کی تقریب میں یہ ’’MOTHER DAY‘‘ منارہے تھے۔ خاکسار نے اسی کی مناسبت سے اسلام میں والدین کے عزت و احترام اُن کی محبت و اطاعت کے بارے میں بتایا جس پر انہوں نے خوب تالیاں بجائیں۔ اور عجیب بات یہ ہے کہ میری تقریر کے بعد انہوں نے حاضرین کو ہمارے دونوں کتابچے نہ صرف دکھائے بلکہ پڑھنے کی تلقین کی۔ اس وقت چرچ میں عبادت میں شریک لوگوں کی حاضری 80-90 کے قریب تھی۔

7. Pastor Brian D. Melaren

یہ بھی ایک نزدیکی چرچ کے پادری ہیں بڑے اچھے ہیں بذریعہ فون نہ صرف حالات پوچھتے ہیں بلکہ یہ پیشکش کرتےہیںکہ کسی وقت کوئی ضرورت پڑ جائے آپ کی جماعت کے لوگوں کو تو ہمیں فوراً فون کر سکتے ہیں۔

چنانچہ اِن سات پادریوں کے ساتھ الگ الگ میٹنگ کی گئی۔ اور انہیں جماعت احمدیہ کے مؤقف کے بارہ میں خصوصاً حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں، اسلام اور جہاد،امن کی تعلیم، عورتوں کے مقام وغیرہ کے بارے میں ان کے شکوک و شبہات کا ازالہ کرنے کی توفیق ملی۔ الحمدللہ۔

6۔ منٹگمری کونٹی ایسٹرن حلقہ کی ایک میٹنگ تھی جس کی انچارج BECKY SMITH ہیں۔ انہوں نے علاقہ میں ’’انسانی خدمات‘‘ کے سلسلہ میں چند رضاکارانہ پروگرام چرچوں کے لیڈروں اور دوسری آرگنائزیشن سے مل کر بنائے ہیں چنانچہ ہمیں بھی دعوت نامہ بھجوایا۔ خاکسار مکرم چوہدری امجد صاحب، مکرم چوہدری اسلم پرویز صاحب کے ساتھ اس میٹنگ میں شامل ہوا۔ یہاں پر 35 لوگ تھے جب ہر ایک نے اپنا اپنا تعارف کرایا تو ایک پادری جن کا اوپر تفصیل سے ذکر ہوچکا ہے ’’TED DURR‘‘ انہوں نے اپنے تعارف میں بتایا I am a friend of Ahmadiyya کہ میں ’’احمدیہ‘‘ کا دوست ہوں۔ ان سب لوگوں کو ہم نے اپنے دو کتابچے دیئے اور مسجد آنے کی بھی دعوت دی۔

میٹنگ کے اختتام پر یہ بات سامنے رکھی گئی کہ اگلی میٹنگ کہاں کی جائے۔ جب سب خاموش رہے تو ہم نے کہا کہ ہم مسجد بیت الرحمان کی آفر کرتے ہیں کہ اگلی میٹنگ آپ ہمارے ہاں کریں۔ اس پر سب خوش ہوئے۔ چنانچہ اگلی میٹنگ مسجد بیت الرحمان میں کی گئی اور علاقہ کے مذہبی لیڈر اور دوسری تنظیموں کے سربراہ ہمارے ہاں تشریف لائے اور میٹنگ کی جس پر یہ بہت خوش ہوئے انہوں نے جا کر شکریہ کا خط بھی لکھا ۔

7۔ PBC (پبلک ٹی وی چینل نمبر 32) والوں کا فون آیا کہ وہ ایک پینل ڈسکشن کرانا چاہتے ہیں جس میں یہودی، عیسائی، مسلمان ہوں گے۔ اس ڈسکشن کے لئے میں اُن کے سٹوڈیو میں آجاؤں خاکسار کا تعارف پبلک ٹی وی چینل والوں کو ہمارے علاقہ کے ایک پادری نے کرایا کہ اگر آپ مسلمانوں میں سے کسی کو بلانا چاہتے ہیں تو مسجد بیت الرحمان واشنگٹن جو کہ احمدیہ جماعت کی ہے کے امام کو بلائیں۔ خاکسار وقت مقررہ پر اس ڈسکشن میں شامل ہونے کے لئے پہنچ گیا۔ الحمدللہ کہ ½گھنٹہ کا پروگرام ریکارڈ کرایا گیا۔ یہ پروگرام خدا تعالیٰ کے فضل سے متعدد مرتبہ TVپر دکھایا جاچکا ہے۔ اور بعض جاننے والے غیر از جماعت دوستوں نے فون پر بتایا کہ آپ کا پروگرام دیکھا تھا۔ یہ پروگرام میں امریکہ میں مذہب کی صورت حال اور 11؍ستمبر کے واقعہ کے بعد جو رد عمل ہوا کے بارے میں تھا۔

اس پینل میں ایک آدمی ایسا بھی شامل تھا جو کہ ABC (امریکن براڈ کاسٹنگ کارپوریشن) کی طرف سے رومن کیتھولک پر فلم بنا رہا ہے، اس کو خاکسار نے اس وقت لٹریچر نہ دیا جب کہ دوسرے سب موجود 8احباب کو جماعت کے تعارف پر مشتمل لٹریچر اور مسجد بیت الرحمان کی تصویر دی۔ اگلے دن اِن کا فون آیا کہ مجھے آپ نے کوئی لٹریچر نہ دیا۔ اُن کا ایڈریس لے کر اسی وقت اُن کو ضروری چیزیں بذریعہ ڈاک بھجوائی گئیں اب انہیں دعوت دی گئی ہے کہ وہ مسجد آئیں۔

8۔ ایک پادری صاحب جن کا ذکر پہلے ہوچکا ہے۔ Rev Richard Kukowski ’’مسٹر رچرڈ کواسکی‘‘ انہوں نے خاکسار کو فون پر بتایا کہ 28 چرچوں اور یہودیوں کے لیڈر صاحبان کی ایک میٹنگ ہے۔ آپ اس میں ضرور شامل ہوں۔

خاکسار اس میٹنگ میں شامل ہونے کے لئے مع جماعت کے درج ذیل دوستوں کے وہاں پر پہنچ گیا۔ 1۔ مکرم چوہدری امجد صاحب 2۔ مکرم سید آفتاب علی شاہ صاحب 3۔ مکرم چوہدری اسلم پرویز صاحب 4۔ مکرم چوہدری مشتاق احمد صاحب۔

اس میٹنگ میں کونٹی کے ناظم اعلیٰ ، چیف آف پولیس، کونسل ممبران اور سکولوں کے بورڈ کے ممبران بھی موجود تھے۔ خاکسار کو بھی مختصراً تقریر اور تعارف کا موقع ملا۔ اس موقع پر جو حاضری بتائی گئی وہ 472 تھی۔

یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل تھا کہ اتنی تعداد میں لوگوں تک پیغام حق پہنچانے کا خود ہی بندوبست کردیا ورنہ کہاں یہ پادری اور کہاں اسلام کا پیغام۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعودؑ کے پیغام کو برکت بخشی کہ خاکسار کی تقریر ختم ہوتے ہی ہال تالیوں سے گونج اٹھا۔ الحمدللہ ثم الحمدللہ۔

پھیر دے میرے مولیٰ اس طرف جگ کی مہار

وہاں موجود چیدہ چیدہ اور اہم شخصیات کو اسلامی لٹریچر بھی پیش کیا گیا۔

(باقی آئندہ بدھ ان شاء اللہ)

٭…٭…٭

(مرسلہ: (مولانا سید شمشاد احمد ناصر ۔ امریکہ))

پچھلا پڑھیں

آج کی دعا

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 9 دسمبر 2020