• 18 مئی, 2024

حضرت چوہدری سر محمد ظفر اللہ خانؓ

بچپن

حضرت سر محمد ظفر اللہ خانؓ کا آبائی گاوٴں ڈسکہ تھا۔ ان کے والد نصر اللہ خانؓ ساہی جاٹ قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے اور پیشہ کے لحاظ سے وکیل تھے۔ ان کی والدہ باجوہ جاٹ خاندان سے تعلق رکھتی تھیں۔ حضرت چوہدری ظفر اللہ خانؓ اپنی والدہ سے بہت متاثر تھے اور ان کے متعلق ایک کتاب ’’میری والدہ‘‘ کے نام سے لکھی۔ ان کی پیدائش 6؍فروری 1893ء کو ہوئی۔

تعلیم

ابتدائی تعلیم کے بعد گورنمنٹ کالج لاہور سے مزید تعلیم اور پھر کنگز کالج لندن سے وکالت کی ڈگری 1914ء میں حاصل کی۔ لندن میں لنکن ان بار میں شمالیت اختیار کی۔ وطن واپسی پر سیالکوٹ میں وکالت کا پیشہ اختیار کیا اور پھر 1926ء میں پنجاب لیجسلیٹو کونسل کے رکن بن گئے۔

سیاست

حضرت چوہدری سر ظفر اللہ خانؓ 1926ء میں پنجاب لیجسلیٹو کونسل کے رکن بنے۔ انہوں نے آل انڈیا مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی اور اس کے ایک اہم اور فعال رکن رہے۔ مسلم لیگ کے 1931ء کے اجلاس منعقدہ دہلی کی صدارت کے فرائض بھی سر انجام دئے۔ انہوں نے 1930ء سے 1932ء تک لندن میں گول میز کانفرنسوں میں شرکت کی۔ 1935ء میں برطانوی ہندوستان کے وزیر ریلوے بنے۔ 1939ء میں انہوں نے لیگ آف نیشنز میں برطانوی ہندوستان کی نمائندگی کی۔ 1942ء میں چین میں برطانوی ہندوستان کے جنرل ایجنٹ رہے اور 1945ء میں دولت مشترکہ کی کانفرنس میں برطانوی ہندوستان کی نمائندگی کی۔

مسلم لیگ میں اہم کردار

1935ء سے 1941ء تک واسرائے ہند کی ایگزیکیوٹو کونسل کے رکن رہے۔ اسی زمانہ میں لارڈ لنلیتھگو نے مسلم لیگ کے رہنماوں کو بتایا کہ برطانوی حکومت نے ہندوستان کو ہندو، مسلمان، آزاد نوابی ریاستوں کی صورت میں تین حصوں میں تقسیم کرنے کا ارادہ کیا ہے۔ اس وقت مسلم لیگ کی طرف سے مختلف تجاویز پیش کی گئیں جو حکومت نے مسترد کر دیں۔ اس پر حضرت سر ظفر اللہ خان کو تقسیم ہندوستان پر نئی تجویز پیش کرنے کا کام دیا گیا۔ اس بارہ میں واسرائے نے حکومت برطانیہ کو لکھا۔

’’میری ہدایت پر ظفر اللہ نے ایک میمورنڈم دو ممالک کے متعلق لکھا ہے جو میں پہلے ہی آپ کو بھجوا چکا ہوں۔ میں نے انہیں مزید توضیح کے لیے بھی کہا ہے جو ان کے کہنے کے مطابق جلد ہی آ جائے گی۔البتہ ان کا اصرار ہے کہ کسی کو یہ معلوم نہ ہو کہ یہ منصوبہ انہوں نے تیار کیا ہے۔ انہوں نے مجھے یہ اختیار دیا ہے میں اس کے ساتھ جو چاہوں کروں، جس میں آپ کو ایک نقل بھیجنا بھی شامل ہے۔ اس کی نقول جناح کو اور میرے خیال میں سر اکبر حیدری کو دی جا چکی ہیں۔ یہ دستاویز مسلم لیگ کی طرف سے اپنائے جانے اور اس کی مکمل تشہیر کے لیے تیار کر لی گئی ہے جبکہ ظفر اللہ اس کے مصنف ہونے کا اقرار نہیں کر سکتے۔ لارڈ لیتھینگو 12؍ مارچ 1940ء‘‘

وائسرائے نے مزید بیان کیا کہ ظفر اللہ خان احمدیہ جماعت سے تعلق رکھتے ہیں اس لیے اگر عام مسلمانوں کو اس بارہ میں پتہ چلا تو ان کی جانب سے تحفظات کا اندیشہ ہے۔ چنانچہ منصوبہ پیش کرنے کے بارہ دن بعد اسے آل انڈیا مسلم لیگ کی جانب سے لاہور کے اجلاس میں منظور کر لیا گیا اور یہ قرارداد پاکستان کے نام سے مشہور ہوا۔

محمد علی جناح کی درخواست پر ظفر اللہ خان نے مسلم لیگ کا مقدمہ ریڈکلف کے کمیشن کے سامنے پیش کیا۔ اسی زمانہ میں جوناگڑھ کی ریاست کے والی کے مشیر کے طور پر خدمات سر انجام دیں اور ان کے مشورہ پر نواب جوناگڑھ نے اپنی ریاست کے پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کیا۔

متحدہ ہندوستان کی عدالت عظمیٰ

ستمبر 1941ء میں حضرت چوہدری ظفر اللہ خان ؓکو متحدہ ہندوستان کی عدالت عظمیٰ کا منصف مقرر کیا گیا۔ وہ آزادی ہند تک اس عہدہ پر فائز رہے۔

پاکستان کے وزیر خارجہ

آزادی کے بعد 1947ء میں حضرت چوہدری ظفر اللہ خانؓ نے اقوام متحدہ کے سامنے بطور سربراہ پاکستانی وفد پاکستان کا موٴقف پیش کیا۔ اسی طرح مسئلہ فلسطین پر عالم اسلام کے موٴقف کی تائید کی۔ اسی سال ان کو پاکستان کا پہلا وزیر خارجہ مقرر کیا گیا۔ وہ 1954ء تک سات سال تک مسلسل اس عہدہ پر برقرار رہے۔

1953ء کے فسادات

آپؓ کے بطور وزیر خارجہ کام کے دوران لاہور میں 1953ء میں فسادات برپا ہوئے جن میں مذہبی جماعتوں نے آپؓ کے استعفا کا مطالبہ کیا۔ ان فسادات کے نتیجہ میں پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ لاہور میں فوجی قانون یعنی مارشل لاء لگایا گیا۔ ان فسادات پر عدالتی کمیشن بنایا گیا جو منیر عدالتی کمیشن کے نام سے مشہور ہوا۔ اس کمیشن کی رپورٹ میں فسادات کی وجوہ کا تفصیلی جائزہ لیا گیا اور مؤلانا مودودی کو موت کی سزا سنادی۔

اقوام متحدہ میں پاکستانی مندوب

حضرت چوہدری ظفر اللہ خانؓ 1947ء میں ہی اقوام متحدہ میں پاکستان کے نمائندہ کی حیثیت سے کام کرتے رہے۔ اسی دوران اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کے رکن بھی رہے۔ 1961ء سے 1964ء تک دوبارہ اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب مقرر ہوئے اور اسی دورانیہ میں 1962ء سے 1964ء تک اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے صدر بھی رہے۔

آپؓ نے اقوام متحدہ میں کشمیر، فلسطین، لیبیا، شمالی ائیرلینڈ، ایریٹریا، صومالیہ، سوڈان، تیونس اردن مصر مراکش اور انڈونیشیا کی آزادی کے لیے کام کیا۔

عالمی عدالت انصاف

1954ء میں حضرت چوہدری ظفر اللہ خانؓ عالمی عدالت انصاف کے منصف مقرر ہوئے اور 1961ء تک اس عہدہ پر فائز رہے۔ 1958ء تا 1961ء آپؓ اس عدالت کے نائب صدر بھی رہے۔ دوبارہ اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب کی خدمات بجا لانے کے بعد 1964ء سے 1969ء تک دوبارہ عالمی عدالت انصاف میں منصف رہے اور 1970ء سے 1973ء تک اسی عالمی عدالت انصاف کے صدر منتخب کئے گئے۔

مذہب

حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خانؓ مذہبی طور پر احمدیہ جماعت سے تعلق رکھتے تھے۔ انہوں نے خود مرزا غلام احمد قادیانی صاحب کے ہاتھ پر بیعت کی تھی۔ وہ جماعت احمدیہ کے اہم عہدوں پر فائز رہے اور مذہبی امور پر متعدد کتب کے مصنف ہیں۔ 1953ء میں ہونے والی احمدیہ مخالف تحریک کے اہم مطالبات میں سے ایک حضرت چوہدری ظفر اللہ خانؓ کے استعفا کا مطالبہ بھی تھا۔ اس تحریک کے نتیجہ میں پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ لاہور میں فوجی قانون لاگو ہوا۔ اس تحریک کے کئی سال بعد حضرت چوہدری ظفر اللہ خانؓ نے 1958ء میں سعودی بادشاہ کے شاہی مہمان کے طور پر عمرہ ادا کیا اور پھر 1967ء میں حج کا فریضہ بھی سر انجام دیا۔

وفات

ایک لمبا عرصہ ہالینڈ یعنی نیدرلینڈ اور برطانیہ میں رہائش پذیر رہنے کے بعد واپس پاکستان چلے آئے اور لاہور میں رہائش اختیار کی۔ جہاں یکم ستمبر 1985ء کو وفات پائی۔ ان کی تدفین احمدیہ جماعت کے مرکز ربوہ میں واقع بہشتی مقبرہ میں ہوئی۔

(عظیم عاطف)

پچھلا پڑھیں

اجلاس عام اوٹاوہ ایسٹ کینیڈا

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 9 دسمبر 2022