• 10 مئی, 2024

مجھے کثرت سے استغفار پڑھنے کے لئے حضور نے تاکید فرمائی

مجھے کثرت سے استغفار پڑھنے کے لئے حضور نے تاکید فرمائی
اور فرمایا کہ باقاعدگی سے خطوں میں دعا کے لئے لکھتے رہا کرو

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
حضرت ڈاکٹر عمر دین صاحبؓ کی روایت ہے، بیان کرتے ہیں کہ میں 28؍ جولائی 1879ء کو پیدا ہوا اور بیعت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام 30؍جون 1905ء کو کی اور وصیت 23؍جولائی 1928ء کو کی۔ پھر اپنا وصیت نمبر بھی لکھا ہے 2898۔ کہتے ہیں جماعت احمدیہ نیروبی کا پریذیڈنٹ اکتوبر 1924ء سے دو سال تک رہا۔ پھر انتظامیہ کمیٹی کا ممبر رہا۔ جماعت احمدیہ نیروبی کا پندرہ سال سے محاسب ہوں۔ (جب یہ بیان فرما رہے ہیں تو اُس وقت فرماتے ہیں کہ پندرہ سال سے محاسب ہوں) اور تین سال سے سیکرٹری وصایا و ضیافت ہوں۔ میں اس ملک میں 1900ء کی فروری میں ڈاکٹر رحمت علی صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ، صوفی نبی بخش صاحب اکاؤنٹنٹ اور ڈاکٹر بشارت احمد صاحب وغیرہ کے زمانے میں آیا۔ ڈاکٹر رحمت علی صاحب کے اخلاق فاضلہ، شفقت اور ہمدردی کو دیکھ کر کثرت سے لوگ سلسلہ حقہ احمدیہ میں شامل ہوتے دیکھے۔ یہی پہلا موقع تھا جب اس ہادیٔ زمانہ کے پیغام کی آواز میرے کانوں نے سنی۔ (اب یہ دیکھیں کہ ایک شخص کے صرف اخلاق فاضلہ جو ہیں اور شفقت جو ہے اور انسانی ہمدردی جو ہے اُس کو دیکھ کر بہت سارے لوگوں کو توجہ پیدا ہوئی کہ کونسا مذہب ہے، کون شخص ہے اور پھر احمدی ہوئے۔) بہرحال کہتے ہیں کہ میں نے اپنی قسمت کے مقدمے کو بارگاہ ایزدی میں پیش کر دیا۔ (یعنی اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ میری قسمت میں کیا ہے) اور نہایت تضرع، ہمت اور استقلال سے ہر روز تہجد میں دعا مانگنی شروع کر دی کہ اے میرے پیارے رب اور غیب کے جاننے والے خدا! میری فریاد سن اور میری رہبری کر اور مجھے اُس راستے پر چلا جو تیرے علم میں صحیح ہو تا کہ میں کہیں راہ ہدایت سے دور نہ پھینکا جاؤں۔ کیونکہ میں خود تو عاجز، کمزور، گناہگار اور کم علم ہوں، وغیرہ وغیرہ۔ پس کہتے ہیں کہ میرے مولیٰ نے میری فریاد سن لی اور سچی خوابوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ پھر مجھے نہایت صفائی سے دو خوابیں دکھلائی گئیں جن کی بنا پر مَیں نے کریگو (غالباً کریچو ہوگا) سٹیشن سے جو کسومو ضلع میں واقع ہے اور جرمن ایسٹ افریقہ کی سرحد پر ہے اور جہاں کے ہسپتال کا میں انچارج تھا۔ مؤرخہ 30؍جون 1905ء بذریعہ خط خدا کے پیارے محبوب کی بیعت کی۔ کہتے ہیں بیعت کرنے کے بعدپھر کیا تھا۔ عبادت میں وہ لطف آنا شروع ہوا جو میرے وہم و گمان میں نہ تھا۔ کیونکہ فرشتوں کے نزول پاک کا زمانہ تھا اور ہر ڈاک میں پیارے مسیح موعود علیہ السلام پر تازہ وحی ہوتی اور پوری ہوتی سنی جاتی تھی اور دل ہر وقت حضرت اقدس کی ملاقات کے لئے تڑپتا رہتا تھا اور حد سے بڑھ کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ملنے کی بیقراری بڑھنی شروع ہو گئی۔ (کیونکہ خط کے ذریعہ سے بیعت کی تھی۔ دستی بیعت نہیں ابھی ہوئی تھی۔ کہتے ہیں بہرحال) خدا خدا کر کے میری رخصت کا وقت قریب پہنچا۔ خدا نے میرے پیارے مسیح کے نذرانہ کی تحریک میرے دل میں ڈالی (کہ نذرانہ پیش کرنا ہے) تو اس کے لئے کہتے ہیں مَیں نے سوچا کہ چار شُتر مرغ کے انڈے لے جانے چاہئیں اور یہ فیصلہ کیا۔ مجھے اُن کے حاصل کرنے اور پَرمٹ لینے کے لئے جرمن پورٹ سے کوشش کرنی پڑی۔ کیونکہ ایسٹ افریقہ سے اجازت نہ دی جاتی تھی۔ کہتے ہیں کہ اکتوبر 1907ء کو میں اپنے وطن کو روانہ ہوا۔ گجرات پہنچنے پر میں نے اپنے والد صاحب مرحوم اور بھائی صاحب مرحوم کو سلسلہ احمدیہ کا مخالف پایا جن کے لئے ہر نماز میں پھر مَیں نے رو رو کر دعائیں مانگنی شروع کر دیں۔ کہتے ہیں خدا تعالیٰ نے میری مدد کی اور میرے والد صاحب بمع چند اور دوستوں کے جلسہ سالانہ پر جانے کے لئے راضی ہوگئے۔ (بڑی منت وغیرہ کی۔ دعائیں کیں توخیر والد اور بھائی جلسہ پر قادیان جانے کے لئے راضی ہو گئے۔ پھر کہتے ہیں) 1907ء کے جلسہ سالانہ پر اپنی گجرات کی جماعت کے ساتھ ہم قادیان شریف کی پیاری بستی میں جا پہنچے۔ میں نے پہنچتے ہی عجیب نظارہ دیکھا کہ سب جماعتیں اور بڑی بڑی بزرگ ہستی کے احباب حضرت اقدس کی ملاقات کے لئے سخت بیقرار اور ترس رہے ہیں اور ملاقاتوں کے لئے سرتوڑ کوشش کر رہے ہیں۔ میری حیرت اور فکر کی انتہا نہ رہی کیونکہ میں ایک مسافر کی حیثیت میں ایک دور دراز ملک سے تھوڑے عرصے کے لئے گیا تھا اور ملاقات کے لئے دو سال سے تڑپ رہا تھا اور یہ میری دلی آرزو تھی کہ حضرت اقدس کی ملاقات کا موقع تنہائی میں میسر آئے جو بات بنتی نظر نہ آتی تھی۔ (کیونکہ رَش بہت تھا، لگتا نہیں تھا کہ تنہائی میں ملاقات ہو سکے گی) کہتے ہیں ہماری جماعت احمدیہ گجرات لنگر خانے میں کھانا کھانے میں مصروف تھی اور میں ملاقات کی فکر میں ادھر اُدھر ہاتھ پاؤں مارتے ہوئے مسجد مبارک کے نیچے کی گلی سے گزر رہا تھا کہ ایک بھائی کو اُس رستہ سے گزرتے ہوئے دیکھ کر مَیں نے پوچھا (کوئی شخص وہاں کھڑا تھا) کہ مَیں دور دراز ملک سے آیا ہوں اور چاہتا ہوں کہ حضرت اقدسؑ سے تنہائی میں ملاقات ہوجاوے۔ آپ مجھے کوئی طریقہ بتا دیویں۔ انہوں نے فرمایا اس دروازے میں ایک مائی بوڑھی حضرت اقدسؑ کی خادمہ اکثر آتی جاتی ہے۔ اُس سے کہیں۔ (ایک بوڑھی سی مائی ہے اُس سے کہو) ابھی یہ بات ہو ہی رہی تھی کہ خادمہ نظر آ گئی۔ میں نے بھاگ کر کہا کہ مائی جی میں بہت دور دراز ملک سے آیا ہوں اور حضرت اقدس کی تنہائی میں ملاقات کا اشتیاق ہے۔ مہربانی ہو گی اگر حضور کی خدمت میں مسافر کا پیغام پہنچا دیویں۔ مائی صاحبہ نے نہایت شفقت اور خوشی سے کہا کہ ذرا ٹھہرو۔ مَیں آتی ہوں۔ وہ جاتے ہی واپس آ گئی اور خوش خبری سنائی کہ میری مراد پوری ہو گئی ہے۔ حضرت اقدس نے فرمایا ہے اوپر آجائیں۔ میں جھٹ بھاگ کر اپنے والد صاحب مرحوم کو بمع دوسرے چند غیر احمدی دوستوں کے جو میرے ہمراہ تھے، بلا کر لے آیا اور جونہی ہم اوپر گئے۔ ایک صحن میں کھڑے ہی ہوئے تھے کہ کھڑکی کا دروازہ کھلا اور حضرت اقدس نے باہر آتے ہی اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ کہا۔ افسوس ہم کو پہلے اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ کہنے کا موقع نصیب نہ ہوا۔ (حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پہل کی۔) کہتے ہیں میرے والد شریف مرحوم باوجود مخالف ہونے کے حضور کے قدموں میں گر پڑے۔ حضور نے ازراہِ کرم اپنے دستِ مبارک سے اُن کے سر کو اُٹھا کر کہا کہ سجدہ کی لائق ذات باری ہے۔ بندوں کے آگے نہیں جھکا کرتے، صرف اللہ تعالیٰ کو سجدہ کرتے ہیں۔ پھر اس عاجز نے شتر مرغ کے چار انڈے بطور نذرانہ پیش کئے۔ حضور نے ازراہِ کرم منظور فرمائے اور نہایت شفقت اور محبت سے میرے افریقہ رہنے اور سفر وغیرہ کے حالات دریافت کئے اور میرا ہاتھ اپنے دستِ مبارک میں لے کر فرمایا کہ اس دنیا میں دل نہیں لگانا چاہئے۔ اور پھر فرمایا کہ اپنے آپ کو اُس مسافر کی حیثیت میں سمجھنا چاہئے جیسے کوئی مسافر خانے میں ٹکٹ لے کر گاڑی کا انتظار کر رہا ہو۔ اور مجھے کثرت سے استغفار پڑھنے کے لئے حضور نے تاکید فرمائی اور فرمایا کہ باقاعدگی سے خطوں میں دعا کے لئے لکھتے رہا کرو۔ پھر حضور نے میرے والد شریف کی بمع دو تین اور غیر احمدیوں کے جو میں ہمراہ لے گیا تھا، بیعت لی۔ (یا تو مخالف تھے یا ایک ملاقات میں ہی سب بیعت پر راضی ہوگئے) اور اس قدر رو کر دل سے ہمارے لئے دعا فرمائی۔ (بیعت کے بعد جو دعا ہوئی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس قدر رو کے دعا کی) کہ حضور کی آنکھیں پُر آب ہو گئیں اور ہمارے لئے آنسوؤں کو روکنا مشکل ہو گیا۔ دل اس قدر نرم اور گداز ہو گیا کہ آج دن تک (یعنی آج کے دن تک) بھی حضور کے دستِ مبارک میں ہاتھ دینا، حضور کا نورانی چہرہ دیکھنا، حضور کی شفقت بھری شرمیلی آنکھوں کا پُر آب ہونا اور مجھ عاجز، کمزور گناہگار کے لئے ہدایت، استغفار کرنا اور بار بار دعا کے لئے لکھنے کی ہدایت کرنا جب یاد آتا ہے تو طبیعت پر بجلی سا اثر ہو کر آنسوؤں کا تار بندھ جاتا ہے۔ وہ کیسا مبارک زمانہ تھا۔ مخالفت کے زبردست پہاڑ، سمندر، طوفان خدا کے پیارے نبی کی دعاؤں سے اُڑنے کا نظارہ اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ (مَیں نے یہ جو مخالفت کے پہاڑ تھے، خدا کے پیارے نبی کی دعاؤں سے ان کے اُڑنے کا نظارہ اپنی آنکھوں سے دیکھا) اور اشد ترین دشمن کو مقابلے پر آنے سے لرزاں دیکھا۔ غیروں کے علماء و فضلا تو درکنار سلسلہ حقہ احمدیہ کے عالموں کا علم بھی اس چودھویں کے چاند تلے اندھیرے کا کام دے رہا تھا اور کسی کو کسی مسئلے پر حضور کی موجودگی میں دَم مارنے کی جرأت نہ ہوتی تھی۔ الغرض بیعت کی۔ دعا کے بعد حضور نے مصافحہ سے سرفراز فرمایا اور اجازت دے دی۔ جب جماعت احمدیہ گجرات کے احباب نے مع نواب خان صاحب تحصیلدار میری اس ملاقات کا ذکر سنا تو رَشک سے کہنے لگے کہ ہم کو کیوں نہ ساتھ لے گئے۔

(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ۔ غیرمطبوعہ۔ جلد1 صفحہ178 تا 182۔ روایات حضرت ڈاکٹر عمر دین صاحبؓ)

(خطبہ جمعہ 19؍اکتوبر 2012ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

خلاصہ خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 07؍جنوری 2022ء

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 10 جنوری 2022