خطبہ جمعہ
سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 17؍دسمبر 2021ء بمقام مسجد مبارک، اسلام آبادٹلفورڈ یو کے
آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت خلیفہ ٔراشد صدیقِ اکبرحضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کمالات اور مناقبِ عالیہ
افغانستان اور پاکستان کے احمدیوں کے لیے خصوصی دعا کی تحریک
مکرم الحاج عبدالرحمٰن عینن (Ennin) صاحب افسر جلسہ سالانہ گھانا،مکرم اذیاب علی محمد الجبالی صاحب آف اردن، مکرم دین محمد شاہد صاحب ریٹائرڈ مربی سلسلہ،
مکرم میاں رفیق احمد صاحب کارکن دفتر جلسہ سالانہ ربوہ اورمکرمہ قانتہ ظفر صاحبہ اہلیہ مکرم احسان اللہ ظفر صاحب سابق امیر جماعت امریکہ کا ذکرِ خیر اور نمازِ جنازہ غائب
جب قریش آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایذا رسانی پر متفق ہو گئے اور انہوں نے ایک دستاویز لکھی تو حضرتِ صدیقؓ اس تنگی کے زمانے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے شریکِ حال رہے
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾
حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ذکر میں ان کا
غلاموں کو آزاد کرنے کا ذکر
چل رہا تھا۔ اس میں سے کچھ مزید واقعات ہیں۔ حضرت ابوبکرؓ نے نَہْدِیّہ اور ان کی بیٹی دونوں کو آزاد کرایا۔ یہ دونوں بنو عبد الدار کی ایک عورت کی لونڈیاں تھیں۔ حضرت ابوبکرؓ ان دونوں کے پاس سے گزرے اس وقت ان کی مالکہ نے ان کو آٹا پیسنے کے واسطے بھیجا تھا اور وہ مالکہ یہ کہہ رہی تھی کہ اللہ کی قسم! میں تمہیں کبھی آزاد نہیں کروں گی یا جس کی بھی قسم وہ کھا رہی تھی۔ بہرحال حضرت ابوبکرؓ نے کہا اے اُمِّ فلاں! اپنی قَسم کو توڑ دو۔ اس نے کہا جاؤ جاؤ! تم نے ہی تو ان کو خراب کیا ہے۔ تمہیں اگر اتنا ہی خیال ہے تو تم ان دونوں کو آزاد کروا لو۔ حضرت ابوبکرؓ نے کہا کہ ان دونوں کے بدلےمیں کتنی قیمت دوں؟ اس نے کہا کہ اتنی اور اتنی ۔ حضرت ابوبکرؓ نے کہا کہ میں نے ان دونوں کو لے لیا اور یہ دونوں آزاد ہیں۔ پھر آپؓ نے ان سے کہا کہ اس عورت کا آٹا واپس دے دو یعنی ان دونوں کو جن کو لونڈی بنایا گیا تھا کہا کہ اس عورت کا آٹا واپس دے دو جو پسانے کے لیے لے کر جا رہی تھیں۔ ان دونوں نے کہا اے ابوبکرؓ!کیا ہم اس کام سے فارغ ہو لیں اور اس آٹا کو واپس کر دیں؟ یعنی جو ہمارے ذمہ کام لگایا گیا ہے وہ کر لیں اور آٹا پسوا کر چھوڑ آئیں؟ حضرت ابوبکرؓنے فرمایا کہ ٹھیک ہے۔ اگر تم دونوں چاہتی ہو تو ایسا ہی کر لو۔
حضرت ابوبکرؓ ایک دفعہ بَنُو مُؤَمَّل کی ایک لونڈی کے پاس سے گزرے۔ بَنُو مُؤَمَّل بَنُو عَدِی بن کَعْب کا ایک قبیلہ تھا۔ وہ لونڈی مسلمان تھی۔ عمرؓ بن خطاب اس کو ایذا دے رہے تھے تا کہ وہ اسلام کو چھوڑ دے۔ حضرت عمرؓ اُن دنوں ابھی مشرک تھے۔ اسلام قبول نہیں کیا تھا اور انہیں مارا کرتے تھے یہاں تک کہ جب وہ تھک جاتے تو کہتے کہ میں تمہیں بتاتا ہوں کہ مَیں نے تمہیں صرف تھکاوٹ کی وجہ سے چھوڑا ہے۔ اس پر وہ کہتی کہ اللہ تمہارے ساتھ بھی اسی طرح کرے گا۔ پھر حضرت ابوبکرؓ نے اسے بھی خرید کر آزاد کر دیا تھا۔
ایک روایت میں ہے کہ حضرت ابوبکرؓ کے والد ابو قُحافہ نے ان سے کہا کہ اے میرے بیٹے! مَیں دیکھتا ہوں کہ تم کمزور لوگوں کو آزاد کرا رہے ہو۔ اگر تم ایسا کرنا چاہتے ہو جو تم کر رہے ہو تو تم طاقتور مردوں کو آزاد کرواؤ تا کہ وہ تمہاری حفاظت کریں اور وہ تیرے ساتھ کھڑے ہوں۔ راوی کہتے ہیں کہ حضرت ابوبکرؓ نے کہا کہ
اے میرے پیارے باپ! مَیں تو محض اللہ عزّ وجلّ کی رضا چاہتا ہوں۔
(السیرة النبویة لابن ہشام صفحہ 236ذکر عدوان المشرکین علی المستضعفین … دار الکتب العلمیة بیروت 2001ء)
چنانچہ بعض مفسرین علّامہ قرطبی اور علامہ آلوسی وغیرہ کہتے ہیں کہ درج ذیل آیات اللہ تعالیٰ نے حضرت ابوبکرؓ کے اسی عمل کی وجہ سے آپؓ کی شان میں نازل فرمائی ہیں کہ فَاَمَّا مَنۡ اَعۡطٰی وَ اتَّقٰی۔ وَ صَدَّقَ بِالۡحُسۡنٰی۔ فَسَنُیَسِّرُہٗ لِلۡیُسۡرٰی۔ وَ اَمَّا مَنۡۢ بَخِلَ وَ اسۡتَغۡنٰی۔ وَ کَذَّبَ بِالۡحُسۡنٰی۔ فَسَنُیَسِّرُہٗ لِلۡعُسۡرٰی۔ وَ مَا یُغۡنِیۡ عَنۡہُ مَالُہٗۤ اِذَا تَرَدّٰی۔ اِنَّ عَلَیۡنَا لَلۡہُدٰی ۔ وَ اِنَّ لَنَا لَلۡاٰخِرَۃَ وَ الۡاُوۡلٰی۔ فَاَنۡذَرۡتُکُمۡ نَارًا تَلَظّٰی۔ لَا یَصۡلٰٮہَاۤ اِلَّا الۡاَشۡقَی۔ الَّذِیۡ کَذَّبَ وَ تَوَلّٰی۔ وَ سَیُجَنَّبُہَا الۡاَتۡقَی۔ الَّذِیۡ یُؤۡتِیۡ مَالَہٗ یَتَزَکّٰی۔ وَ مَا لِاَحَدٍ عِنۡدَہٗ مِنۡ نِّعۡمَۃٍ تُجۡزٰۤی۔ اِلَّا ابۡتِغَآءَ وَجۡہِ رَبِّہِ الۡاَعۡلٰی۔ وَ لَسَوۡفَ یَرۡضٰی۔ (سورۃ الّیل 22-6)
پس وہ جس نے (راہ حق میں) دیا اور تقویٰ اختیار کیا اور بہترین نیکی کی تصدیق کی تو ہم اسے ضرور کشادگی عطا کریں گے۔ اور جہاں تک اُس کا تعلق ہے جس نے بخل کیا اور بے پروائی کی اور بہترین نیکی کی تکذیب کی تو ہم اُسے ضرور تنگی میں ڈال دیں گے اور اس کا مال جب تباہ ہو جائے گا تو اس کے کسی کام نہ آئے گا۔ یقیناً ہدایت دینا ہم پر بہرحال فرض ہے اور انجام بھی لازماً ہمارے تصرف میں ہے اور آغاز بھی۔ پس میں تمہیں اس آگ سے ڈراتا ہوں جو شعلہ زن ہے اس میں کوئی داخل نہیں ہو گا مگر سخت بدبخت۔ وہ جس نے جھٹلایا اور پیٹھ پھیر لی جبکہ سب سے بڑھ کر متقی اس سے ضرور بچایا جائے گا جو اپنا مال دیتا ہے پاکیزگی چاہتے ہوئے اور اس پر کسی کا احسان نہیں ہے کہ جس کا اس کی طرف سے بدلہ دیا جا رہا ہو۔ یہ محض اپنے رَبِّ اعلیٰ کی خوشنودی چاہتے ہوئے خرچ کرتا ہے اور وہ ضرور راضی ہو جائے گا۔
(ماخوذازسیدناابوبکرصدیقؓ، شخصیت اورکارنامے، اردوترجمہ صفحہ74)
(الجامع لاحکام القرآن لامام القرطبی جلد2 صفحہ3330 سورۃ اللیل دار ابن حزم بیروت 2004ء)
حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جو غلام آزاد کیے تھے ان میں سے ایک حضرت خَبَّاب بن اَرَتْؓ بھی تھے۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ حضرت خَبَّاب بن اَرَتْؓ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’ایک اَور صحابیؓ جو پہلے غلام تھے انہوں نے ایک دفعہ نہانے کے لئے کرتہ اتارا تو کوئی شخص پاس کھڑا تھا۔ اس نے دیکھا کہ ان کی پیٹھ کا چمڑا اوپر سے ایسا سخت اور کھردرا ہے جیسے بھینس کی کھال ہوتی ہے۔ وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا اور انہیں کہنے لگا۔ تمہیں یہ کب سے بیماری ہے تمہاری تو پیٹھ کا چمڑا ایسا سخت ہے جیسے جانور کی کھال ہوتی ہے۔ یہ سن کر وہ ہنس پڑے۔‘‘ حضرت خَبَّاب ہنس پڑے ’’اور کہنے لگے بیماری کوئی نہیں۔ جب ہم اسلام لائے تھے تو ہمارے مالک نے فیصلہ کیا کہ ہمیں سزا دے۔ چنانچہ تپتی دھوپ میں لٹا کر ہمیں مارنا شروع کر دیتا اور کہتا کہ کہو ہم محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو نہیں مانتے۔ ہم اس کے جواب میں کلمۂ شہادت پڑھ دیتے۔ اس پر وہ پھر مارنے لگ جاتا اور جب اس طرح بھی اس کا غصہ نہ تھمتا تو ہمیں پتھروں پر گھسیٹا جاتا‘‘ لکھتے ہیں کہ ’’عرب میں کچے مکانوں کو پانی سے بچانے کے لئے مکان کے پاس ایک قسم کا پتھر ڈال دیتے ہیں جسے پنجابی میں کھِنگر کہتے ہیں۔ یہ نہایت سخت کھردرا اور نوک دار پتھر ہوتا ہے اور لوگ اسے دیواروں کے ساتھ اس لئے لگا دیتے ہیں کہ پانی کے بہاؤ سے انہیں کوئی نقصان نہ پہنچے‘‘ یعنی دیواروں کو نقصان نہ پہنچے۔ ’’تو وہ صحابی کہنے لگے کہ جب ہم اسلام سے انکار نہ کرتے اور لوگ ہمیں مار مار کر تھک جاتے تو پھر ہماری ٹانگوں میں رسی باندھ کر ان کھردرے پتھروں پر ہمیں گھسیٹا جاتا تھا اور جو کچھ تم دیکھتے ہو اسی مار پیٹ اور گھسٹنے کا نتیجہ ہے۔ غرض سالہا سال تک ان پر ظلم ہوا۔ آخر حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یہ بات برداشت نہ ہو سکی اور انہوں نے اپنی جائیداد کا بہت سا حصہ فروخت کر کے انہیں آزاد کرا دیا۔‘‘
(خطبات محمود جلد 22 صفحہ546-547خطبہ جمعہ فرمودہ 31 اکتوبر 1941ء)
پھر حضرت ابوبکرؓ کے غلاموں کو آزاد کرانے کا تذکرہ کرتے ہوئے ایک جگہ حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ فرماتے ہیںکہ‘‘یہ غلام جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے مختلف اقوام کے تھے اِن میں حبشی بھی تھے جیسے بلالؓ، رومی بھی تھے جیسے صُہَیبؓ۔ پھر ان میں عیسائی بھی تھے جیسے جُبَیرؓ اور صُہَیبؓ۔ اور مشرکین بھی تھے جیسے بلالؓ اور عمارؓ۔ بلالؓ کو اس کے مالک تپتی ریت پر لٹا کر اوپر یا تو پتھر رکھ دیتے یا نوجوانوں کو سینہ پر کودنے کے لئے مقرر کر دیتے …حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب ان پر یہ ظلم دیکھے تو ان کے مالک کو ان کی قیمت ادا کر کے انہیں آزاد کروا دیا۔‘‘
(دیباچہ تفسیر القرآن انوار العلوم جلد20 صفحہ193۔194)
ایک دفعہ حضرت ابوبکرؓ نے
ہجرتِ حبشہ کا ارادہ
کیا تھا۔ اس بارے میں آتا ہے کہ جب مسلمان بڑھ گئے اور اسلام ظاہر ہو گیا تو کفارِ قریش اپنے اپنے قبائل میں سے ان لوگوں کو سخت اذیتیں اور تکلیفیں دینے لگے جو اُن میں سے ایمان لا چکے تھے۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ وہ انہیں ان کے دین سے پھرا دیں۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مومنوں سے فرمایا کہ تم لوگ زمین میں بکھر جاؤ۔ یقیناً اللہ تم لوگوں کو اکٹھا کر دے گا۔ صحابہؓ نے عرض کیا ہم کس طرف جائیں؟ آپؐ نے فرمایا اس طرف اور آپؐ نے اپنے ہاتھ سے حبشہ کی سرزمین کی طرف اشارہ فرمایا۔ یہ رجب سنہ 5؍ نبوی کی بات ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد پر گیارہ مَردوں اور چار عورتوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی۔
(شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیۃ جلد اول صفحہ 503-504،الہجرۃ الاولیٰ الی الحبشۃ، دارالکتب العلمیۃ بیروت 1996ء)
مسلمانوں کے حبشہ کی طرف ہجرت کرنے کے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھی ایذا پہنچائی گئی جس پر انہوں نے بھی حبشہ کی طرف ہجرت کا ارادہ کیا۔ چنانچہ اس بارے میں بخاری کی روایت میں ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ جب مسلمانوں کو تکلیف دی گئی تو حضرت ابوبکرؓ ہجرت کرنے کی غرض سے حبشہ کی طرف چل پڑے۔ جب وہ بَرْکُ الْغِمَاد مقام پر پہنچے۔ بَرْکُ الْغِمَاد یمن کا ایک شہر ہے جو مکہ سے آگے پانچ رات کی مسافت پر سمندر سے متصل ہے۔ تو انہیں ابنِ دَغِنہ ملا اور وہ قَارَہ قبیلہ کا سردار تھا۔ اس نے پوچھا اے ابوبکر !کہاں کا قصد ہے؟ حضرت ابوبکرؓ نے کہا میری قوم نے مجھے نکال دیا ہے اور میں چاہتا ہوں کہ زمین میں چلوں پھروں اور اپنے رب کی عبادت کرتا رہوں۔ ابنِ دَغِنہ نے کہا: تمہارے جیسا آدمی خود وطن سے نہیں نکلتا اور نہ اسے نکالا جانا چاہیے۔ تم تو وہ خوبیاں بجا لاتے ہو جو معدوم ہو چکی ہیں اور تم صلہ رحمی کرتے ہو۔ تھکے ہاروں کا بوجھ اٹھاتے ہو۔ مہمان نوازی کرتے ہو اور مصائب حقہ پر مدد کرتے ہو۔ ایک جگہ ترجمہ اس طرح بھی کیا گیا ہے ۔کنگال کو کما کر دیتے رہے ہو۔ رشتہ داروں سے نیک سلوک کیا کرتے ہو۔ بیچاروں کو سنبھالتے ہو اور مہمان نواز ہو اور حق کی مشکلات میں مدد کرتے ہو۔ پھر اس نے کہا کہ میں تمہیں اپنی پناہ میں لیتا ہوں۔ واپس چلو اور اپنے وطن میں ہی اپنے رب کی عبادت کرو اور ابنِ دَغِنہ بھی چل پڑا اور حضرت ابوبکرؓ کے ساتھ مکہ میں آیا اور کفار قریش کے سرداروں سے ملا اور ان سے کہا ابوبکر ایسے ہیں کہ ان جیسا آدمی وطن سے نہ نکلتا ہے اور نہ نکالا جاتا ہے۔ کیا تم ایسے شخص کو نکالتے ہو جو ایسی خوبیاں بجا لاتا ہے جو معدوم ہو چکی ہیں اور وہ صلہ رحمی کرتا ہے۔ تھکے ہاروں کے بوجھ اٹھاتا ہے۔ مہمان نوازی کرتا ہے اور مصائب پر مدد کرتا ہے؟ اس پر قریش نے ابنِ دَغِنہ کی پناہ منظور کرلی اور حضرت ابوبکرؓ کو امن دیا اور ابنِ دَغِنہ سے کہا۔ ابوبکر سے کہو کہ وہ اپنے رب کی عبادت اپنے گھر میں ہی کیا کرے۔ وہیں نماز پڑھے اور جو چاہے پڑھے لیکن ہمیں اپنی عبادت اور قرآن پڑھنے سے تکلیف نہ دے اور بلند آواز سے نہ پڑھے کیونکہ ہمیں ڈر ہے کہ وہ ہمارے بیٹوں اور ہماری عورتوں کو گمراہ کر دے گا۔ ابنِ دَغِنہ نے حضرت ابوبکرؓ سے یہ کہہ دیا تو حضرت ابوبکرؓ اپنے گھر سے ہی اپنے رب کی عبادت کرنے لگے اور اپنے گھر کے سوا کسی اَور جگہ نماز اور قرآن اعلانیہ نہ پڑھتے۔ پھر کچھ عرصے کے بعد حضرت ابوبکرؓ کو خیال آیا تو انہوں نے اپنے گھر کے صحن میں ایک مسجد یعنی نماز پڑھنے کی جگہ بنا لی اور کھلی جگہ میں نکلے۔ وہیں نماز بھی پڑھتے اور قرآن مجید بھی اور ان کے پاس مشرکوں کی عورتیں اور بچے جمگھٹا کرتے۔ وہ تعجب کرتے۔ یعنی حضرت ابوبکرؓ کو دیکھ کر تعجب کرتے اور حضرت ابوبکرؓ کو دیکھتے کہ وہ بہت ہی رونے والے آدمی تھے۔
جب قرآن پڑھتے تو اپنے آنسوؤں کو نہ تھام سکتے ۔
اس کیفیت نے قریش کے مشرک سرداروں کو پریشان کر دیا اور انہوں نے ابنِ دَغِنہ کو بلا بھیجا۔وہ ان کے پاس آیا اور انہوں نے اس سے کہا کہ ہم نے تو ابوبکر کو اس شرط پر پناہ دی تھی کہ وہ اپنے گھر میں اپنے رب کی عبادت کرتا رہے لیکن انہوں نے اس شرط کی پروا نہیں کی اور اپنے گھر کے صحن میں مسجد بنا لی ہے اور نماز اور قرآن اعلانیہ پڑھنا شروع کر دیا ہے۔ ہمیں ڈر ہے کہ وہ ہمارے لڑکوں اور ہماری عورتوں کو آزمائش میں ڈال دے گا۔ تم اس کے پاس جاؤ اگر وہ پسند کرے کہ اپنے گھر کے اندر ہی رہ کر اپنی عبادت کرے تو کرے ورنہ اگر اعلانیہ پڑھنے پر مصر رہے تو اسے کہو کہ تمہارے امان کی ذمہ داری تمہیں واپس کر دے کیونکہ ہمیں یہ بُرا معلوم ہوتا ہے کہ تمہاری ذمہ داری توڑیں اور ہم تو ابوبکر کو کبھی بھی اعلانیہ عبادت نہیں کرنے دیں گے۔ حضرت عائشہ ؓکہتی ہیں کہ ابنِ دَغِنہ ابوبکرؓ کے پاس آیا اور کہنے لگا آپ کو اس شرط کا علم ہی ہے جس پر میں نے آپ کی خاطر یہ عہد کیا تھا۔ اس لیے یا تو آپ اس حد تک محدود رہیں ورنہ میری ذمہ داری مجھے واپس کر دیں کیونکہ میں پسند نہیں کرتا کہ عرب یہ بات سنیں کہ جس شخص کو میں نے پناہ دی تھی اس سے میں نے بدعہدی کی ہے۔ حضرت ابوبکرؓ نے کہا کہ
میں آپ کی پناہ آپ کو واپس کرتا ہوں اور اللہ ہی کی پناہ پر راضی ہوں۔
(صحیح بخاری کتاب الکَفَالۃ بَابُ جِوَارِ أَبِي بَكْرٍ فِي عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَقْدِهِ حدیث نمبر 2297)
(صحیح البخاری مترجم جلد 4 صفحہ 276 نظارت اشاعت ربوہ) (فرہنگ سیرت صفحہ 57)
حضرت ابوبکرؓ نے اپنے صحن میں جو مسجد بنائی تھی اس کے بارے میں صحیح بخاری کی شرح عمدة القاری میں لکھا ہے کہ یہ مسجد گھر کی دیواروں تک پھیلی ہوئی تھی اور
یہ پہلی مسجد تھی جو اسلام میں بنائی گئی۔
(عمدۃ القاری جلد12 صفحہ185 کتاب الکفالہ باب جوار ابی بکر فی عہد النبیؐ حدیث2297)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں ابوبکر جیسا انسان جس کا سارا مکہ ممنون احسان تھا، وہ جو کچھ کماتے تھے غلاموں کو آزاد کرانے میں خرچ کر دیتے تھے۔ آپؓ ایک دفعہ مکہ کو چھوڑ کر جا رہے تھے کہ ایک رئیس آپؓ سے راستے میں ملا اور اس نے پوچھا ابوبکر تم کہاں جا رہے ہو؟ آپ نے فرمایا اس شہر میں اب میرے لیے امن نہیں ہے۔ میں اب کہیں اور جا رہا ہوں۔ اس رئیس نے کہا کہ تمہارے جیسا نیک آدمی اگر شہر سے نکل گیا تو شہر برباد ہو جائے گا۔ میں تمہیں پناہ دیتا ہوں۔ تم شہر چھوڑ کر نہ جاؤ۔ آپ اس رئیس کی پناہ میں واپس آگئے۔ آپؓ جب صبح کو اٹھتے اور قرآن پڑھتے تو عورتیں اور بچے دیوار کے ساتھ کان لگا لگا کر قرآن سنتے کیونکہ آپ کی آواز میں بڑی رِقّت، سوز اور درد تھا اور قرآن کریم چونکہ عربی میں تھا ہر عورت مرد بچہ اس کے معنی سمجھتا تھا اور سننے والے اس سے متاثر ہوتے تھے۔ جب یہ بات پھیلی تو مکہ میں شور پڑ گیا کہ اس طرح تو سب لوگ بے دین ہو جائیں گے۔ یعنی قرآن کریم سن کے اور آپ کی رِقّت بھری آواز سن کے تو یہ لوگ بےدین ہو جائیں گے۔
یہی حال آجکل احمدیوں کے ساتھ بعض ملکوں میں ہو رہا ہے خاص طور پر پاکستان میں کہ اگر قرآن پڑھتے اور نماز پڑھتے دیکھ لیا احمدیوں کو تو بے دین ہو جائیں گے۔ اس لیے احمدی کے نماز اور قرآن پڑھنے پہ بڑی سخت سزائیں ہیں۔
بہرحال لکھتے ہیں کہ آخر لوگ اس رئیس کے پاس گئے اور اس سے کہا کہ تم نے اس کو پناہ میں کیوں لے رکھا ہے؟ اس رئیس نے آ کر حضرت ابوبکرؓ سے کہا کہ آپ اس طرح قرآن نہ پڑھا کریں۔ مکہ کے لوگ اس سے ناراض ہوتے ہیں۔ حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا پھر اپنی پناہ تم واپس لے لو۔ میں تو اس سے باز نہیں آ سکتا۔ چنانچہ اس رئیس نے اپنی پناہ واپس لے لی۔
(ماخوذ ازتفسیر کبیر جلد10 صفحہ327)
شِعْبِ اَبِی طَالِب
میں بھی حضرت ابوبکرؓ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھے۔ قریش مکہ نے توحید کے پیغام کو روکنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی مگر جب انہیں ہر طرف سے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا تو انہوں نے ایک عملی اقدام کے طور پر بنو ہاشم اور بنو مُطَّلِب کے ساتھ قطع تعلقی کا فیصلہ کیا۔ چنانچہ اس بارے میں سیرت خاتم النبیین میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے اس طرح لکھا ہے کہ ’’قریش … نے ایک عملی اقدام کے طور پر باہم مشورہ کر کے فیصلہ کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور تمام افراد بنو ہاشم اور بنو مطلب کے ساتھ ہر قسم کے تعلقات قطع کر دیئے جاویں اور اگر وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت سے دستبردار نہ ہوں تو ان کو ایک جگہ محصور کر کے تباہ کر دیا جاوے۔ چنانچہ محرم 7؍نبوی میں ایک باقاعدہ معاہدہ لکھا گیا کہ کوئی شخص خاندانِ بنو ہاشم اور بنو مُطَّلِب سے رشتہ نہیں کرے گا اور نہ ان کے پاس کوئی چیز فروخت کرے گا۔ نہ ان سے کچھ خریدے گا اور نہ ان کے پاس کوئی کھانے پینے کی چیز جانے دے گا اور نہ ان سے کسی قسم کا تعلق رکھے گا۔‘‘ یہی سلوک آج کل بعض احمدیوں کے ساتھ بھی بعض جگہوں پہ ہوتا ہے۔ بہرحال اس میں آگے لکھا تھا کہ ’’جب تک کہ وہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) سے الگ ہوکر آپ کو ان کے حوالے نہ کر دیں۔ یہ معاہدہ جس میں قریش کے ساتھ قبائل بَنُو کِنَانَہ بھی شامل تھے باقاعدہ لکھا گیا اور تمام بڑے بڑے رؤساء کے اس پر دستخط ہوئے اور پھر وہ ایک اہم قومی عہدنامہ کے طور پر کعبہ کی دیوار کے ساتھ آویزاں کر دیا گیا۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور تمام بنو ہاشم اور بنومطلب کیا مسلم اور کیا کافر (سوائے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ابو لہب کے جس نے اپنی عداوت کے جوش میں قریش کا ساتھ دیا) شِعْبِ اَبِی طَالِب میں جو ایک پہاڑی دَرّہ کی صورت میں تھا محصور ہو گئے اور اس طرح گویا قریش کے دو بڑے قبیلے مکہ کی تمدنی زندگی سے عملاً بالکل منقطع ہو گئے اور شِعبِ ابی طالب میں جو گویا بنو ہاشم کا خاندانی درہ تھا قیدیوں کی طرح نظر بند کر دیئے گئے۔ چند گنتی کے دوسرے مسلمان جو اس وقت مکہ میں موجود تھے وہ بھی آپؐ کے ساتھ تھے۔‘‘
(سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ صفحہ166)
ان مشکل ترین حالات میں بھی حضرت ابوبکرؓ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ نہ چھوڑا۔ چنانچہ حضرت شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ‘‘جب قریش آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایذارسانی پر متفق ہو گئے اور انہوں نے ایک دستاویز لکھی تو حضرتِ صدیقؓ اس تنگی کے زمانے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے شریک حال رہے۔ لہٰذا اس واقعہ کے بارہ میں ابوطالب نے یہ شعر کہا ہے کہ
هُمْ رَجَعُوْا سَهْلَ ابْنَ بَيْضَاءَ رَاضِيًا
فَسُرَّ أَبُوْ بَكْرٍ بِهَا وَ مُحَمَّدٗ
اور انہوں نے سَہْل بن بَیْضَاء کو خوش کرتے ہوئے واپس بھیجا تو اس پر ابوبکرؓ اور محمدؐ خوش ہوگئے۔
(ازالۃ الخفاء از حضرت شاہ ولی اللہ اردو ترجمہ اشتیاق احمد دیوبندی جلد3 صفحہ 39-40 قدیمی کتب خانہ آرام باغ کراچی)
(سیدنا صدیق اکبرؓ کے شب و روز صفحہ 30)
یعنی جب قریش مکہ نے آخر کار بائیکاٹ کا یہ معاہدہ ختم کر دیا تو اس پر ابوطالب نے جو اشعار کہے ان میں سے ایک یہ مذکورہ بالا شعر تھا کہ بائیکاٹ ختم ہونے پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر دونوں مسرور ہو گئے۔
’غُلِبَتِ الرُّوْمُ‘ کی پیشگوئی اور اس پر حضرت ابوبکرؓ کا شرط لگانا
اس بارے میں بھی ذکر آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد الٓمّٓ۔غُلِبَتِ الرُّوْمُ۔ فِيْۤ اَدْنَى الْاَرْضِ کے بارے میں حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے۔ انہوں نے کہا کہ غُلِبَت اور غَلَبَتْ۔ وہ کہتے ہیں کہ مشرکین پسند کرتے تھے کہ اہلِ فارس اہلِ روم پر غالب آ جائیں کیونکہ یہ اور وہ بت پرست تھے اور مسلمان پسند کرتے تھے کہ اہلِ روم اہلِ فارس پر غالب آ جائیں اس لیے کہ وہ اہلِ کتاب تھے۔ انہوں نے اس کا ذکر حضرت ابوبکرؓ سے کیا اور حضرت ابوبکرؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا وہ ضرور غالب آ جائیں گے۔ حضرت ابوبکرؓ نے اس کا ذکر ان سے یعنی مخالفین سے، مشرکین سے کیا تو انہوں نے کہا کہ ہمارے درمیان اور اپنے درمیان ایک مدّت مقرر کر لو۔ اگر ہم غالب آگئے تو ہمارے لیے یہ اور یہ ہو گا اور اگر تم غالب آ گئے تو تمہارے لیے یہ اور یہ ہو گا۔ یعنی اس پہ شرط لگائی۔ تو انہوں نے پانچ سال کی مدت رکھی اور وہ غالب نہ آ سکے۔ انہوں نے اس کا ذکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپؐ نے فرمایا کہ تم نے اس سے زیادہ کیوں نہ رکھ لی۔ راوی کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے آپؐ کی مراد دس تھی۔ یہ ترمذی کی ابواب تفسیر کی روایت ہے۔
(سنن الترمذی ابواب التفسیر باب و من سورة الروم ،حدیث 3193)
صحیح بخاری کی ایک روایت میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی چار ایسی پیشگوئیوں کا ذکر کیا گیا ہے جو کہ بڑی شان کے ساتھ پوری ہوئیں۔ ان پیشگوئیوں میں غلبۂ روم والی پیشگوئی بھی ہے۔ چنانچہ مسروق روایت کرتے ہیں کہ ہم حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے پاس تھے۔ انہوں نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب دیکھا کہ لوگ روگردانی کر رہے ہیں تو آپؐ نے فرمایا: اے اللہ! جیسا حضرت یوسفؑ کے وقت میں سات سالہ قحط ڈالا تھا ان پر بھی ایسا ہی قحط نازل کر۔ سو اُن پر ایسا قحط پڑا جس نے ہر ایک چیز کو فنا کر دیا یہاں تک کہ آخر انہوں نے کھال اور مُردار اور بدبودار لاشیں بھی کھائیں اور ان میں سے کوئی جو آسمان کی طرف نظر کرتا تو بھوک کے مارے اسے دھؤاں ہی نظر آتا تھا۔ جن چار پیشگوئیوں کا ذکر ہے ان میں سے ایک یہ واقعہ ہے۔ ابوسفیان آپؐ کے پاس آئے اور انہوں نے کہا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) آپ تو اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری اور صلہ رحمی کا حکم کرتے ہیں اور یہ دیکھیں آپؐ کی قوم ہلاک ہو گئی ہے۔ اللہ سے ان کے لیے دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا: پس انتظار کر اس دن کا جب آسمان ایک واضح دھؤاں لائے گا۔ ضرور تم انہی باتوں کا اعادہ کرنے والے ہو جس دن ہم بڑی گرفت کریں گے۔ پس یہ بڑی گرفت بدر کے دن ہوئی۔ چنانچہ دھوئیں کا عذاب اور سخت گرفت اور لِزَامًا والی پیشگوئی اور روم کی پیشگوئی یہ سب باتیں ہو چکی ہیں۔ یہ بخاری کی روایت ہے۔
(صحیح البخاری کتاب الاستسقاء بَابُ دُعَاءِ النَّبِيِّ ﷺ: اجْعَلْهَا عَلَيْهِمْ سِنِينَ … حدیث 1007)
اس حدیث کی شرح میں علامہ بدر الدین عینی غلبۂ روم والی پیشگوئی کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ جب اہلِ فارس اور اہلِ روم کے درمیان جنگ ہوئی تو مسلمان اہلِ فارس پر اہلِ روم کی فتح کو پسند کرتے تھے کیونکہ وہ اہلِ روم، اہلِ کتاب تھے جبکہ کفار ِقریش اہلِ فارس کی فتح کو پسند کرتے تھے کیونکہ وہ اہلِ فارس مجوسی تھے اور کفار قریش بھی بتوں کی عبادت کرتے تھے۔ پس اس بات پر حضرت ابوبکرؓ اور ابوجہل کے درمیان شرط لگ گئی یعنی انہوں نے کسی چیز پر آپس میں چند سال کی مدت مقرر کر لی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہاں بِضْعٌ کا لفظ ہے۔ بِضْعٌ تو نو برس یا سات برس پر اطلاق پاتا ہے۔ پس مدت کو بڑھا دو۔ پھر انہوں نے، حضرت ابوبکرؓ نے ایسا ہی کیا۔ پس اہلِ روم غالب آ گئے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ الٓمّٓ۔غُلِبَتِ الرُّوْمُ۔ فِيْۤ اَدْنَى الْاَرْضِ وَ هُمْ مِّنْۢ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُوْنَ۔فِيْ بِضْعِ سِنِیْنَ۔ لِلّٰهِ الْاَمْرُ مِنْ قَبْلُ وَمِنْۢ بَعْدُ وَ يَوْمَىِٕذٍ يَّفْرَحُ الْمُؤْمِنُوْنَ۔بِنَصْرِ اللّٰهِ (الروم: 2تا 6)
ترجمہ یہ ہے الٓمّٓ کہ اَنَا اللّٰہُ اَعْلَمُ۔ یعنی میں اللہ سب سے زیادہ جاننے والا ہوں۔ اہلِ روم مغلوب کیے گئے۔ قریب کی زمین میں اور وہ اپنے مغلوب ہونے کے بعد پھر ضرور غالب آ جائیں گے۔ تین سے نو سال کے عرصہ تک۔ حکم اللہ ہی کا چلتا ہے پہلے بھی اور بعد میں بھی اور اس دن مومن بھی اپنی فتوحات سے بہت خوش ہوں گے جو اللہ کی نصرت سے ہو گی۔ اور شعبی کہتے ہیں کہ اس وقت شرط لگانا حلال تھا۔
(ماخوذ از عمدة القاری شرح صحیح بخاری جلد7 صفحہ46، کتاب الاستسقاء حدیث: 1007 داراحیاء التراث العربی 2003ء)
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے اس بارے میں لکھا ہے کہ اسلام سے قبل اور اسلام کے ابتدائی زمانہ میں تمام متمدن دنیا میں سب سے زیادہ طاقتور اور سب سے زیادہ وسیع سلطنتیں دو تھیں۔ سلطنتِ فارس اور سلطنتِ روم اور یہ دونوں سلطنتیں عرب کے قریب واقع تھیں۔ سلطنتِ فارس عرب کے شمال مشرق میں تھی اور سلطنتِ روم شمال مغرب میں۔ چونکہ ان سلطنتوں کی سرحدیں ملتی تھیں اس لیے بعض اوقات ان کا آپس میں جنگ و جدل بھی ہو جاتا تھا۔ اس زمانہ میں بھی جس کا ذکر آتا ہے یہ سلطنتیں برسرِِپیکار تھیں۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب پیشگوئی ہوئی اور سلطنتِ فارس نے سلطنتِ روم کو زیر کیا ہوا تھا اور اس کے کئی قیمتی علاقے چھین لیے تھے اور اسے برابر دباتی چلی جاتی تھی۔ قریش بت پرست تھے اور فارس کا بھی قریبا ًقریبا ًیہی مذہب تھا۔ اس لیے قریشِ مکہ فارس کی ان فتوحات پر بہت خوش تھے۔ مگر مسلمانوں کی سلطنتِ روم سے ہمدردی تھی کیونکہ رومی سلطنت عیسائی تھی اور عیسائی بوجہ اہلِ کتاب ہونے اور حضرت مسیح ناصریؑ سے نسبت رکھنے کے بت پرست اور مجوسی اقوام کی نسبت مسلمانوں کے بہت قریب تھے۔ ایسے حالات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ سے علم پاکر پیشگوئی فرمائی کہ اِس وقت روم فارس سے مغلوب ہو رہا ہے مگر چند سال کے عرصے میں وہ فارس پر غالب آجائے گا اور اس دن مومن خوش ہوں گے۔ یہ پیشگوئی سن کر مسلمانوں نے جن میں حضرت ابوبکرؓ کا نام خاص طور پر مذکور ہوا ہے مکہ میں عام اعلان کر نا شروع کیا کہ ہمارے خدا نے یہ بتایا ہے کہ عنقریب روم فارس پر غالب آئے گا۔ قریش نے جواب دیا کہ اگر یہ پیشگوئی سچی ہے تو آؤ شرط لگا لو۔ چونکہ اس وقت تک اسلام میں شرط لگانا ممنوع نہیں ہوا تھا۔ حضرت ابوبکرؓ نے اسے منظور کر لیا اور رؤسائے قریش اور حضرت ابوبکرؓ کے درمیان چند اونٹوں کی ہارجیت پر شرط قرار پا گئی اور چھ سال کی معیاد مقرر ہو گئی مگر جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع پہنچی تو آپؐ نے فرمایا۔ چھ سال کی میعاد مقرر کرنا غلطی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تو میعاد کے متعلق بِضْعِ سِنِیْنَ کے الفاظ فرمائے ہیں جو عربی محاورہ کی رو سے تین سے لے کے نو تک کے لیے بولے جاتے ہیں۔ یہ اس زمانےکی بات ہے جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں ہی مقیم تھے اور ہجرت نہیں ہوئی تھی۔ اس کے بعد مقررہ میعاد کے اندر اندر ہی جنگ نے اچانک پلٹا کھایا اور روم نے فارس کو زیر کر کے تھوڑے عرصہ میں ہی اپنا تمام علاقہ واپس چھین لیا۔ یہ ہجرت کے بعد کی بات ہے۔ (ماخوذ از سیرت خاتم النبیینﷺاز حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم۔اے صفحہ216-217) جس کے بعد پھر رومیوں کی فتح ہو گئی تھی۔
اس بارہ میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ’’آپؐ ابھی مکہ میں ہی تھے کہ عرب میں یہ خبر مشہور ہوئی کہ ایرانیوں نے رومیوں کو شکست دے دی ہے اِس پر مکہ والے بہت خوش ہوئے کہ ہم بھی مشرک ہیں اور ایرانی بھی مشرک۔ ایرانیوں کا رومیوں کو شکست دے دینا ایک نیک شگون ہے اور اس کے معنی یہ ہیں کہ مکہ والے بھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر غالب آجائیں گے۔‘‘ یہ شگون انہوں نے نکالا ’’مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا نے بتایا کہ غُلِبَتِ الرُّوْمُ۔ فِيْۤ اَدْنَى الْاَرْضِ وَ هُمْ مِّنْۢ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُوْنَ۔فِيْ بِضْعِ سِنِیْنَ۔ رومی حکومت کو شام کے علاقہ میں بے شک شکست ہوئی ہے لیکن اِس شکست کو تم قطعی نہ سمجھو۔ مغلوب ہونے کے بعد رومی پھر9سال کے اندر غالب آجائیں گے۔ اِس پیشگوئی کے شائع ہونے پر مکہ والوں نے بڑے بڑے قہقہے لگائے یہاں تک کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے بعض کفار نے سو سو اونٹ کی شرط باندھی کہ اگر اتنی شکست کھانے کے بعد بھی روم ترقی کر جائے تو ہم تمہیں سو اونٹ دیں گے اور اگر ایسا نہ ہوا تو تم ہمیں سو اونٹ دینا۔ بظاہر اِس پیشگوئی کے پورا ہونے کا امکان دور سے دور تر ہوتا چلا جا رہا تھا۔ شام کی شکست کے بعد رومی لشکر متواتر کئی شکستیں کھاکر پیچھے ہٹتا گیا یہاں تک کہ ایرانی فوجیں بحیرہ مار مورا (Marmara Sea)… کے کناروں تک پہنچ گئیں۔ قسطنطنیہ اپنی ایشیائی حکومتوں سے بالکل منقطع ہو گیا اور روم کی زبردست حکومت ایک ریاست بن کر رہ گئی مگر خد اکا کلام پورا ہونا تھا اور پورا ہوا۔ انتہائی مایوسی کی حالت میں روم کے بادشاہ نے اپنے سپاہیوں سمیت آخری حملہ کے لئے قسطنطنیہ سے خروج کیا اور ایشیائی ساحل پر اتر کر ایرانیوں سے ایک فیصلہ کن جنگ کی طرح ڈالی۔ رومی سپاہی باوجود تعداد اور سامان میں کم ہونے کے قرآن کریم کی پیشگوئی کے مطابق ایرانیوں پر غالب آئے۔ ایرانی لشکر ایسا بھاگا کہ ایران کی سرحدوں سے ورے اس کا قدم کہیں بھی نہ ٹھہرا اور پھر دوبارہ رومی حکومت کے افریقی اور ایشیائی مفتوحہ ممالک اس کے قبضہ میں آگئے۔‘‘
(دیباچہ تفسیر القرآن۔ انوار العلوم جلد20 صفحہ445)
حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہیں کہ ’’جب ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ابوجہل سے شرط لگائی اور قرآن شریف کی وہ پیشگوئی مدار شرط رکھی کہ الٓمّٓ ۔ غُلِبَتِ الرُّوْمُ۔ فِيْۤ اَدْنَى الْاَرْضِ وَ هُمْ مِّنْۢ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُوْنَ۔فِيْ بِضْعِ سِنِیْنَ۔ (الروم: 2تا 5) اور تین برس کا عرصہ ٹھہرایا تو آپؐ پیشگوئی کی صورت کو دیکھ کر فی الفور دوراندیشی کو کام میں لائے اور شرط کی کسی قدر ترمیم کرنے کے لئے ابوبکر صدیق کو حکم فرمایا اور فرمایا کہ بِضْعِ سِنِیْنَ کا لفظ مجمل ہے اور اکثر نو برس تک اطلاق پاتا ہے۔‘‘
(ازالہ اوہام ، روحانی خزائن جلد3 صفحہ310-311 )
پھر
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قبائل کے سامنے اپنے آپ کو پیش کرنا یعنی اپنا دعویٰ پیش کرنا اور حضرت ابوبکرؓ کا آپ کے ساتھ ساتھ ہونا۔
جب اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کو غالب کرنے اور اپنے نبی کو عزت و اکرام عطا فرمانے اور اپنے وعدے کو پورا کرنے کا ارادہ کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حج کے ایام میں باہر نکلے اور انصار کے قبائل اوس اور خزرج سے ملاقات کی۔ آپؐ نے حج کے ایام میں اپنے آپ کو پیش کیا جیساکہ آپؐ ہر سال حج کے ایام میں کیا کرتے تھے۔ چنانچہ ایک روایت میں مذکور ہے۔ حضرت علی بن ابو طالبؓ بیان کرتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ وہ اپنے آپ کو قبائل عرب کے سامنے پیش کریں تو میں اور حضرت ابوبکرؓ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ منیٰ کی طرف نکلے یہاں تک کہ ہم عربوں کی ایک مجلس کے پاس پہنچے۔ حضرت ابوبکرؓ آگے بڑھے اور آپؓ حسب و نسب میں مہارت رکھتے تھے۔ انہوں نے پوچھا آپ لوگ کس قوم سے ہو؟ انہوں نے کہا کہ ربیعہ قبیلہ سے۔ حضرت ابوبکرؓ نے پوچھا ربیعہ کی کس شاخ سے؟ انہوں نے کہا ذُہل سے۔ پھر حضرت علیؓ کہتے ہیں کہ ہم لوگ اوس اور خزرج کی مجلس میں گئے اور یہی وہ لوگ ہیں جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کا نام دیا تھا کیونکہ انہوں نے آپ کو پناہ اور مدد دینا قبول کیا تھا۔ حضرت علیؓ کہتے ہیں کہ ہم نہیں اٹھے یہاں تک کہ ان لوگوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کر لی۔
(شرح الزرقانی جلد 2 صفحہ72 تا 74، ذکر عرض المصطفیٰ نفسہ علی القبائل…… دارالکتب العلمیۃ بیروت 1996ء)
ایک اَور روایت میں ہے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ وہ اپنے آپ کو عرب قبائل کے سامنے پیش کریں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس غرض سے نکلے۔ میں اور حضرت ابوبکرؓ بھی آپؐ کے ہمراہ تھے۔ ہم ایک مجلس میں پہنچے جس میں سکینت اور وقار تھا۔ وہ لوگ بلند مقدرت والے اور ذی وجاہت تھے۔ حضرت ابوبکرؓ نے ان سے پوچھا تم لوگ کس قبیلے سے تعلق رکھتے ہو؟ انہوں نے کہا ہم بنو شَیْبَان بن ثَعْلَبَہ سے ہیں۔ حضرت ابوبکرؓ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف متوجہ ہو کر کہا۔ میرے ماں باپ آپؐ پر قربان ان کی قوم میں اس سے بڑھ کر کوئی اَور معزز نہیں۔ ان لوگوں میں مفروق بن عمرو، مُثَنّٰی بن حارثہ، ہَانِی بن قَبِیْصَہ اور نُعمان بن شریک تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سامنے یہ آیت پڑھی کہ قُلۡ تَعَالَوۡا اَتۡلُ مَا حَرَّمَ رَبُّکُمۡ عَلَیۡکُمۡ اَلَّا تُشۡرِکُوۡا بِہٖ شَیۡئًا وَّ بِالۡوَالِدَیۡنِ اِحۡسَانًا ۚ وَ لَا تَقۡتُلُوۡۤا اَوۡلَادَکُمۡ مِّنۡ اِمۡلَاقٍ ؕ نَحۡنُ نَرۡزُقُکُمۡ وَ اِیَّاہُمۡ ۚ وَ لَا تَقۡرَبُوا الۡفَوَاحِشَ مَا ظَہَرَ مِنۡہَا وَ مَا بَطَنَ ۚ وَ لَا تَقۡتُلُوا النَّفۡسَ الَّتِیۡ حَرَّمَ اللّٰہُ اِلَّا بِالۡحَقِّ ؕ ذٰلِکُمۡ وَصّٰکُمۡ بِہٖ لَعَلَّکُمۡ تَعۡقِلُوۡنَ (الانعام: 152) اس کا ترجمہ یہ ہے کہ تُو کہہ دے۔ آؤ میں پڑھ کر سناؤں جو تمہارے رب نے تم پر حرام کر دیا یعنی یہ کہ کسی چیز کو اس کا شریک نہ ٹھہراؤ اور لازم کر دیا ہے کہ والدین کے ساتھ احسان سے پیش آؤ اور رزق کی تنگی کے خوف سے اپنی اولاد کو قتل نہ کرو۔ ہم ہی تمہیں رزق دیتے ہیں اور ان کو بھی اور تم بے حیائیوں کے جو ان میں ظاہر ہوں اور جو اندر چھپی ہوئی ہوں دونوں کے قریب نہ پھٹکو اور کسی ایسی جان کو جسے اللہ نے حرمت بخشی ہو قتل نہ کرو مگر حق کے ساتھ۔ یہی ہے جس کی وہ تمہیں تاکید کرتا ہے تا کہ تم عقل سے کام لو۔
اس پر مفروق نے کہا کہ یہ کلام زمین والوں کا نہیں۔ اگر یہ ان کا کلام ہوتا تو ہم ضرور جان لیتے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی اِنَّ اللّٰهَ يَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَ الْاِحْسَانِ وَ اِيْتَآءِ ذِي الْقُرْبٰى وَ يَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِ وَ الْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ (النحل: 91) یعنی یقیناً اللہ عدل کا اور احسان کا اور اقرباء پر کی جانے والی عطا کی طرح عطا کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی اور ناپسندیدہ باتوں اور بغاوت سے منع کرتا ہے۔ وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے تا کہ تم عبرت حاصل کرو۔
یہ کلام سننے کے بعد مفروق نے کہا۔ اے قریشی بھائی! اللہ کی قسم! آپؐ نے اعلیٰ اخلاق اور اچھے کاموں کی طرف بلایا ہے۔ یقیناً ایسی قوم سخت جھوٹی ہے جس نے آپؐ کی تکذیب کی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ایک دوسرے کی مدد کی۔ مُثنّٰی نے کہا ہم نے آپؐ کی بات سنی اے میرے قریشی بھائی! آپؐ نے بہترین گفتگو کی اور جو باتیں آپ نے کہیں انہوں نے مجھے متعجب کیا لیکن ہمارا کسریٰ کے ساتھ ایک معاہدہ ہے کہ نہ ہم کوئی نیا کام کریں گے اور نہ کوئی نیا کام کرنے والے کو پناہ دیں گے اور غالباً جس چیز کی طرف آپؐ ہمیں بلا رہے ہیں یہ ان میں سے ہے جسے بادشاہ بھی ناپسند کرتے ہیں۔ اگر آپؐ چاہتے ہیں کہ عرب کے قرب و جوار کے لوگوں کے مقابلہ میں ہم آپؐ کی مدد کریں اور آپؐ کی حفاظت کریں تو ہم ایسا کریں گے۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: تمہارے جواب میں کوئی برائی نہیں کیونکہ تم لوگوں نے وضاحت کے ساتھ سچائی کا اظہار کر دیا۔
اللہ کے دین پر وہی قائم رہ سکتا ہے
جس کو اللہ نے ہر طرف سے گھیرے میں لیا ہو۔
پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکرؓ کا ہاتھ پکڑا اور اٹھ کر روانہ ہو گئے۔
(معرفۃ الصحابۃ لابی نعیم جزء4 صفحہ309-310 روایت نمبر 6382، دارالکتب العلمیۃ بیروت 2002ء)
ایک روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا کہ تمہارا کیا خیال ہے اگر تھوڑی سی مدت میں اللہ تعالیٰ تمہیں ان یعنی کسریٰ کی سرزمین اور ملک کا وارث بنا دے اور ان کی خواتین تمہارے قبضہ میں آ جائیں تو کیا تم اللہ کی تسبیح و تقدیس کرو گے؟ یہ سن کر اس نے کہا کہ الٰہی! ہم تیار ہیں یعنی قسم کھائی۔ خدا کی قدرت دیکھیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ بات حرف بہ حرف پوری ہوئی اور وہی مثنّٰی جو اس وقت کسریٰ کی طاقت سے اتنا مرعوب تھا کہ اس کی ناراضگی کے ڈر سے اسلام قبول کرنے سے ہچکچا رہا تھا کچھ ہی دیر بعد حضرت ابوبکرؓ کے عہدِ خلافت میں اسی کسریٰ سے مقابلہ کرنے والی اسلامی فوج کے سپہ سالار یہی مثنّٰی بن حارثہ ہی تھے جنہوں نے کسریٰ کی کمر توڑ کے رکھ دی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارتوں کے مصداق بنے۔
(ماخوذ از سیدنا ابوبکرصدیقؓ، شخصیت اورکارنامے، اردوترجمہ صفحہ84،82)
اسی طرح ایک حج کے موقع کی روایت یوں ہے کہ جب قبیلہ بَکْر بن وَائِل حج کے لیے مکہ آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکرؓ سے فرمایا کہ ان لوگوں کے پاس جائیں اور مجھے ان کے سامنے پیش کریں یعنی تبلیغ کریں، آپؐ کا دعویٰ پیش کریں۔ حضرت ابوبکرؓ ان لوگوں کے پاس گئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی خدمت میں پیش کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اسلام کی تبلیغ کی۔
(السیرۃ الحلبیۃ جلد2 صفحہ7 باب عرض رسول اللّٰہﷺ نفسہ علی القبائل…… دارالکتب العلمیۃ بیروت 2002ء)
باقی ان شاء اللہ آئندہ ذکر ہو گا۔
آج مَیں افغانستان کے احمدیوں کے لیے دعا کے لیے بھی کہنا چاہتا ہوں۔
بہت تکلیف سے گزر رہے ہیں۔بعض گرفتاریاں بھی ہوئی ہیں۔ عورتیں، بچے بڑے اپنے گھروں میں پریشان ہیں۔ جو مرد باہر ہیں، گرفتار نہیں ہوئے، وہ بھی بے گھر ہوئے ہوئے ہیں کیونکہ خطرہ ہے کہ گرفتاریاں نہ ہو جائیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے لیے آسانیاں پیدا فرمائے اور ان کو اس مشکل سے نکالے۔
پھر
پاکستان کے احمدیوں کے لیے بھی دعا کریں
وہاں بھی عمومی طور پر حالات خراب ہی ہوتے ہیں ۔کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی واقعہ ہو جاتا ہے۔ وہ لوگ احمدیوں کو تکلیفیں دے رہے ہیں۔
اسی طرح
مجموعی طور پر بھی دعا کریں اللہ تعالیٰ دنیا کو
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کو پہچاننے کی توفیق عطا فرمائے اور
ہر شر کو ختم کرے اور دنیا اپنے پیدا کرنے والے کی حقیقت کو پہچان لے۔
اس کے بعد میں
بعض مرحومین کا ذکر
کروں گا۔ جن کا بعد میں جنازہ غائب پڑھاؤں گا۔
پہلا ذکر ہے
الحاج عبدالرحمٰن عینن (Ennin) صاحب
کا۔یہ گھانین تھے۔ گھانا کے سابق سیکرٹری امور عامہ اور افسر جلسہ سالانہ تھے۔ اکیاسی (81)سال کی عمر میں ان کی وفات ہوئی ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ دونوں والدین ان کے احمدی تھے۔ ان کے والدین نے احمدیت قبول کی تھی۔ اعلیٰ تعلیم انہوں نے مصر سے حاصل کی اور پھر وہاں سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا اور یہاں گھانا میں آ کر مختلف بڑی کمپنیوں میں مینیجر کی حیثیت سے کام کیا۔ پھر آپ نے نائیجیریا میں بھی کچھ عرصہ کام کیا۔ پھر انہوں نے خود اپنی کمپنی کھول لی جس کے یہ مینیجنگ ڈائریکٹر تھے۔ بڑے نیک ،مخلص انسان تھے۔ جماعت کی مثالی خدمت کی توفیق انہیں ملتی رہی۔ ساری زندگی جماعتی مفاد اور کام کو اپنے ذاتی مفاد پر ترجیح دی۔ مختلف عہدوں پر فائز رہ کر خدمت کی توفیق پاتے رہے۔ ہمیشہ امیر جماعت کی اطاعت اور ہر آواز پر لبیک کہنے میں اپنی سعادت سمجھتے تھے۔ اکثر اوقات صبح پہلے وقت میں مشن آ کر امیر صاحب سے ملتے اور معلوم کرتے۔ اگر کوئی جماعتی کام ہو تو پہلے نپٹاتے اور پھر اپنے کام کے لیے جاتے۔ یہ گریٹر اکرا ریجن (Greater Accra Region) کے بڑا لمبا عرصہ صدر رہے ہیں۔ پھر نواسی(89ء) سے لے کر اٹھانوے (98ء) تک مجلس انصار اللہ کے صدر رہے۔ پھر سیکرٹری امور عامہ انہوں نے بڑا لمبا عرصہ کام کیا۔ پھر افسر جلسہ سالانہ کے طور پر ان کو کام کی توفیق ملی اور وفات کے وقت نیشنل ٹرسٹی کی حیثیت سے خدمت کی توفیق پا رہے تھے۔
ہر کسی کی مدد کے لیے ہر وقت تیار رہتے تھے۔ بہت سخی تھے۔ ہمدردی صرف اپنی فیملی تک محدود نہیں تھی بلکہ آپ کی سخاوت عزیز و اقارب، رشتہ داروں کے علاوہ افراد جماعت اور بلا تفریق مذہب محلے کے افراد تک پھیلی ہوئی تھی۔ جماعت کے وفادار اور خلافت کے جاںنثار سپاہی تھے۔ ہمیشہ جماعتی مفاد کو ہر دوسری چیز پر فوقیت دی اور کبھی کسی مخالفت کی کوئی پروا نہیں کی۔ تہجد گزار تھے۔ بڑی باقاعدگی سے تہجد پڑھنے والے تھے اور سفر حضر میں ہر جگہ اس کی پابندی کرتے تھے۔ موصی تھے اور ان میں چندوں میں بڑی باقاعدگی تھی۔ پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ پانچ بیٹے اور پانچ بیٹیاں چھوڑی ہیں۔
گھانا کے مربی حافظ مبشر احمد لکھتے ہیں کہ ان میں بہت فراست تھی۔ بڑی مختصر اور منطقی بات کرتے تھے اور فوراً معاملے کی تہ تک پہنچ جاتے تھے۔ بورڈ کی میٹنگ کے دوران ایک دفعہ کہتے ہیں ہر کوئی اپنی رائے دے رہا تھا۔ ایک معاملہ تھا جس کو طول دیا جا رہا تھا۔ آپ خاموشی سے سنتے رہے۔ جب ان کی باری آئی تو انہوں نے کہا کہ اس بارے میں خلیفہ وقت کی طرف سے ایک فیصلہ آ گیا ہے اس لیے ہمیں بحث کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ جب خلیفہ وقت کی طرف سے فیصلہ آ جائے تو پھر کوئی رائے نہیں دینی چاہیے بلکہ ہمیں اس پر من و عن عمل کرنا چاہیے۔ اس قسم کے مخلصین اللہ تعالیٰ نے دور دراز علاقوں میں بھی عطا فرمائے ہوئے ہیں۔
پھر اگلا ذکر ہے
اذیاب علی محمد اَلْجَبَالِی صاحب
کا جو گذشتہ دنوں فوت ہوئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ یہ اردن کی جماعت کے تھے۔ صدر صاحب اردن جماعت لکھتے ہیں کہ انہوں نے 2010ء میں بیعت کی تھی۔ اپنے علاقے میں اکیلے احمدی تھے اور یہاں کے رسم و رواج کے مطابق کیونکہ خاوند کے ساتھ اس کی اہلیہ بھی اسی دین پہ آ جاتی ہیں اس لیے وہ بھی احمدی ہو گئیں۔ کہتے ہیں کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اور احمدیت اور خلافت پر مرحوم کا ایمان پہاڑوں کی طرح مضبوط تھا۔ قبولِ احمدیت کی وجہ سے خاندان اور دیگر مخالفین کی مخالفت کے باوجود مرحوم استقامت کا ایک نمونہ تھے۔ احمدیت اور خلافت کے لیے بڑی غیرت رکھتے تھے اور بڑی قوت سے دفاع کرتے تھے۔ مرحوم کو علم سیکھنے اور تبلیغ کا بہت شوق تھا۔ بسا اوقات رات گئے فون کر کے مسائل کے بارے میں پوچھتے تھے۔ اس طرح ان کے گھر پر مخالفین اور رشتہ داروں کے ساتھ کئی تبلیغی نشستیں منعقد ہوئیں۔ مرحوم شوگر کے مریض تھے اور بڑی زیادہ تکلیف میں تھے اور اس وجہ سے اصل میں تو یہ بیماری ہی جان لیوا تھی۔ ان کے بعض رشتہ دار انہیں اس بیماری میں کہتے تھے کہ تمہارا یہ حال احمدیت کی وجہ سے ہوا ہے۔ تم احمدیت چھوڑ دو تو ہم قیامت کے روز تمہارے حق میں گواہی دیں گے۔ اس پر یہ بڑے جوش سے دعا کرتے ہوئے کہتے کہ اے خدا! مجھے احمدی مسلمان ہونے کی حالت میں ہی وفات دینا۔
اگلا ذکر ہے
مکرم دین محمد شاہد صاحب
کا جو ریٹائرڈ مربی تھے آج کل کینیڈا میں تھے۔ بانوے(92)سال کی عمر میں ان کی گذشتہ دنوں وفات ہوئی ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ ان کے خاندان میں احمدیت ان کے والد صاحب کے ذریعہ آئی جنہوں نے 1938ء میں بیعت کی توفیق پائی۔1940ء میں ان کے والد ان کو اپنے ہمراہ جلسہ قادیان میں لے کے گئے جہاں آپ کے والد صاحب نے قادیان کے تعلیمی ماحول اور دینی ماحول سے متاثر ہو کر اور ان کا بھی پڑھنے لکھنے کا جو شوق تھا اس کو دیکھتے ہوئے قادیان میں ہی ان کو گیارہ سال کی عمر میں حضرت میر محمد اسحاق صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زیرِ نگرانی چھوڑا اور پھر وہیں انہوں نے تعلیم حاصل کی۔ 1953ء میں انہوں نے جامعہ احمدیہ سے شاہد کی ڈگری حاصل کی۔ پاکستان کے مختلف شہروں میں مربی کے طور پر کام کیا۔ تین چار سال جزائر فجی میں بطور مشنری انچارج خدمت کی توفیق پائی۔ ربوہ میں لمبا عرصہ بطور پریس سیکرٹری بھی خدمت کی توفیق ملی۔ انہوں نے چار کتب تصنیف کرنے کے علاوہ متعدد علمی مضامین لکھنے کی توفیق پائی۔ تبلیغ کا انہیں بڑا جنون تھا۔ نت نئے طریقے اختیار کرتے رہتے تھے۔ اللہ کے فضل سے موصی تھے۔ پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ دو بیٹے اور تین بیٹیاں شامل ہیں۔
اگلا ذکر ہے
مکرم میاں رفیق احمد صاحب
کا جو کارکن دفتر جلسہ سالانہ تھے ستاسی(87)سال کی عمر میں گذشتہ دنوں ان کی وفات ہوئی ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ ان کے والد کا نام میاں بشیر احمد صاحب مرحوم تھا۔ قیام پاکستان سے پہلے ہی وہ قادیان سے ہجرت کر کے کوئٹہ آ گئے تھے جہاں ان کے والد کو بطور امیر جماعت کوئٹہ خدمت کی توفیق ملی۔ میاں رفیق صاحب کے خاندان میں احمدیت کا نفوذ ان کے دادا حضرت ڈاکٹر عبداللہ صاحب صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ سے ہوا۔ 1960ء میں میاں رفیق صاحب نے انجنیئرنگ کالج لاہور سے مکینیکل انجنیئرنگ میں بی ایس سی کیا۔ اس کے بعد پھر یہ مختلف محکموں میں کام کرتے رہے۔ پھر تنزانیہ چلے گئے۔تقریباً دس سال کا عرصہ تنزانیہ میں گزارا۔ پھر کچھ عرصہ وہاں کسی کمپنی میں کام کے علاوہ پڑھاتے بھی رہے۔ تنزانیہ میں بھی انہیں سیکرٹری مال کے طور پر خدمت کی توفیق ملی۔ 1986ء میں انہوں نے وقفِ عارضی کے طور پر جلسہ سالانہ کے دفتر میں خدمات بجا لانا شروع کیں اور پھر 1987ء میں باقاعدہ دفتر جلسہ سالانہ میں کارکن کی حیثیت سے کام شروع کیا۔ پھر 1989ء میں (eighty nine میں) زندگی وقف کر کے دفتر جلسہ سالانہ ربوہ کے ٹیکنیکل شعبہ میں بطور ناظم ٹیکنیکل امور خدمات بجا لانا شروع کیں اور تا دم آخر اسی خدمت پر مامور رہے۔ حضرت خلیفة المسیح الثالث نے ان کا رشتہ کروایا تھا اور مولانا ابوالعطاء صاحب نے ان کا نکاح پڑھایا تھا۔ ان کو اللہ تعالیٰ نے تین بیٹوں اور ایک بیٹی سے نوازا۔
ان کے بیٹے کہتے ہیں اگر سلسلہ کے بارے میں کبھی کسی جگہ کوئی غلط بات کی جاتی تو فوراًروک دیتے اور منع کرتے۔ خلافت سے آپ کو بےحد پیار تھا۔ ایک دفعہ گھر کے کسی فرد نے یا گھر میں مہمانوں نے ذکر کیا کہ آپ کو جماعت کی طرف سے جو کوارٹر ملا ہے بہت چھوٹا ہے۔ اگر آپ کہیں تو آپ کو بڑا مل سکتا ہے۔ انہوں نے کہا مجھے اگر جماعت ٹینٹ میں بھی رکھے گی تو مَیں رہنے کو تیار ہوں۔ میں کوئی مطالبہ نہیں کروں گا۔ پھر ان کے بیٹے نے لکھا کہ والد صاحب کی وفات کے بعد ان کی یہ خوبی ہمارے علم میں آئی کہ بعض غریبوں کی پوشیدہ طور پر مدد کیا کرتے تھے۔ ان کے چھوٹے بیٹے کہتے ہیں کہ تہجد گزار تھے۔ قرآن کریم سے محبت رکھنے والے تھے۔ نرم دل، پیار بھرا لہجہ، ایماندار، سچائی اور بےشمار اعلیٰ خصوصیات کے حامل تھے۔ والد صاحب میں خلیفۂ وقت کی اطاعت اور خلافت سے وفا اور وقف نبھانے کا غیر معمولی جذبہ پایا جاتا تھا۔
یہ مَیں نے بھی ان میں دیکھا ہے کہ انتہائی شریف النفس انسان، بڑی عاجزی سے ہر کام کرنے والے اور وفا کے ساتھ اپنا بیعت کا حق ادا کرنے والے تھے۔
اسی طرح ان کی یہ کوشش ہوتی تھی کہ جماعت کا پیسہ کس طرح بچایا جائے اور کس طرح کم سے کم خرچ میں زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھایا جائے۔ انہوں نے بعض روٹی پکانے کی مشینیں بھی ڈیزائن کیں اور ان کے لیے ربوہ میں کافی کام کیا ہے۔ پھر یہ لکھتے ہیں کہ تکلیف یا پریشانی کے وقت میں نے ہمیشہ ان میں صبر اور حوصلہ دیکھا ہے۔ اکثر دفعہ پریشانی یا تکلیف کے وقت قرآن کریم پڑھتے دیکھا۔ بیماری کے وقت اور وفات سے قبل بھی انہوں نے ذرا بھی تکلیف کا احساس نہیں ہونے دیا۔ ہر کام بڑی ایمانداری اور جذبے سے کرتے تھے۔ پہلے بھی ذکر ہو چکا ہے۔
اگلا ذکر
مکرمہ قانتہ ظفر صاحبہ
کا ہے جو مکرم احسان اللہ ظفر صاحب سابق امیر جماعت امریکہ کی اہلیہ تھیں۔ گذشتہ دنوں کار کے حادثے میں ان کی وفات ہو گئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔1941ء کی ان کی پیدائش تھی۔ چودھری اعظم علی صاحب ریٹائرڈ سیشن جج ان کے والدتھے۔ ان کے نانا چودھری فقیر محمد صاحب تھے جن کو پارٹیشن کے فوراً بعد بطور ناظرامورِعامہ خدمت کی توفیق ملی۔ بہت خوبیوں کی مالک اور خوش مزاج خاتون تھیں۔ خلافت سے ہمیشہ وفا کا تعلق رکھا اور اس کا انہوں نے بہت اظہار بھی کیا۔ مرحومہ کو قرآن مجید سے بہت عشق تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بہت عقیدت تھی۔ اپنے بچوں میں بھی یہی عشق اور عقیدت پیدا کرنے کی کوشش کی۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصیہ تھیں۔ پسماندگان میں میاں کے علاوہ دو بیٹیاں بھی شامل ہیں۔ ان کا ایک جوان بیٹا بھی تھا جو ایکسیڈنٹ میں کئی سال ہوگئے فوت ہو گیا اور بڑے صبر سے انہوں نے یہ صدمہ برداشت کیا۔
انعام الحق کوثر صاحب آسٹریلیا کے مربی لکھتے ہیں کہ جب یہ امریکہ میں تھے تو کہتے ہیں قرآن کریم کی کلاسیں لگتی تھیں۔ ان میں باقاعدگی سے شامل ہوتی تھیں اور بڑی دور کا فاصلہ طے کر کے آیا کرتی تھیں۔ یہ پی ایچ ڈی ڈاکٹر تھیں مگر طبیعت انتہائی سادہ تھی۔ کسی قسم کا کوئی فخر یا دکھاوا کا پہلو نہیں تھا۔ غریبوں اور حاجت مندوں کا بہت خیال رکھا کرتی تھیں۔ مبلغین سے ایک مہربان ماں جیسا سلوک تھا اور بہت عزت اور احترام سے پیش آتیں اور بڑی عاجزی سے سارے کام کرتیں۔ لجنہ کو اکثر کہا کرتی تھیں کہ جوتے رکھنے کی جو جگہ ہے وہاں جوتے رکھو اور اگر کوئی نہیں رکھتا تھا تو خود اٹھا اٹھا کر یہ کام بھی کر لیا کرتی تھیں۔ اس کے علاوہ بھی مسجد کی صفائی وغیرہ کا کام بڑی عاجزی سے کیا کرتی تھیں۔ کہتے ہیں کہ تکبر یا دکھاوا بالکل نہیں تھا۔ بہت سادہ لباس پہنتیں۔ بہت عمدہ طریق سے پیش آتیں۔ کسی سے کوئی ناراضگی نہیں تھی۔ ہر ایک سے بہت عمدہ طریق سے پیش آتی تھیں۔ خلافت کی طرف سے ہونے والی ہر تحریک پر لبیک کہتی تھیں۔
اللہ تعالیٰ ان تمام مرحومین سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ درجات بلند کرے۔ ان کی نسلوں کو بھی ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔