• 4 مئی, 2024

اسیری کی ایک دلگداز داستان

گروہ ذِلّت سے ہو راضی اس پر سو (100) عزّت نثار
اسیری کی ایک دلگداز داستان

خاکسار نے گورنمنٹ طبیہ کالج سے حکمت کا چار سالہ کورس مکمل کیا اور اپنے آبائی شہر کھرڑیانوالہ (ضلع فیصل آباد) میں پریکٹس شروع کر دی۔ اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت اور اس کے فضل و احسان سے مریض شفاء کی نعمت سے بہرہ ور ہونے لگے۔ چنانچہ اُن کی بکثرت آمد شروع ہو گئی۔ دو اڑھائی سال میں یہ کاروبار پورے عزّو وقار اور شان و شوکت کے ساتھ بڑھتا چلا گیا۔ خاکسار نے اول دن سے ہی کلمہ طیبہ، قرآن پاک کی آیات اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پاکیزہ اشعار خوبصورت اور رنگین چارٹس کی صورت میں ڈسپنسری میں آویزاں کئے ہوئے تھے۔ لوگ بڑی محویت اور انہماک سے ان کا مطالعہ کرتے تھے۔ ان کے باعث بے ساختہ طور پر زبانی دعوت الی اللہ کا ماحول پیدا ہو جاتا تھا۔ متعصب اور معاند افراد کے دل و دماغ میں یہ بات کانٹے کی طرح کھٹکتی تھی۔ مولوی صاحبان جن کا باہم کبھی کسی دینی مسئلہ پر اتفاق نہیں ہوا، احمدیت کے خلاف فوراً شیروشکر ہو جاتے ہیں ان کے باہمی صلاح مشورے اور سازش کے نتیجہ میں میرے گردوپیش مسجدوں کے لاؤڈ سپیکرگونجنے لگے۔ احمدیت کے خلاف ہرزہ سرائی اور اشتعال انگیزی اِن کا معمول بن گیا۔ خطبوں وغیرہ میں اسی ایک موضوع پر فتنہ پرور تقاریر کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ پیسے کے لالچ میں پاکستان میں بعض نام نہاد معالج نشہ آور ادویات کی فروخت کا ذلیل اور قبیح کاروبار چمکا بیٹھے ہیں۔ اسی سلسلہ میں میرے پاس بھی ایک تعداد ایسے عناصر کی آنا شروع ہو گئی۔ جن میں ناخواندہ اشخاص کے علاوہ بعض تعلیم یافتہ افراد بھی شامل تھے۔ یہ لوگ مجھ سے منشیات طلب کرتے، میرے انکار اور اسے غلط اور ناجائز کہنے پر وہ کہتے یہ وعظ و نصیحت چھوڑو اور دوسروں کی طرح پیسہ کماؤ۔ یہ بات تو ان کے شعور سے غائب تھی کہ اس ضمن میں کوئی حلال و حرام کی تمیز کرنے والا بھی ہو سکتا ہے۔ وہ میرے ساتھ بدتہذیبی سے پیش آتے اور دھمکیاں دے کر جاتے۔ میرے خلاف ایسے افراد کی تعداد بھی بڑھتی گئی۔

انہی حالات و واقعات کے دوران ایک دن تھانیدار نے مجھے تھانے بلایا اور ’’اسقاطِ حمل‘‘ کی دوائی طلب کی۔ میں نے اسے سمجھایا کہ یہ تو ناجائز ہے، گناہ کی بات ہے۔ اس کے اصرار پر مزید سمجھایا کہ قانون، مذہب، سماجی اور معاشرتی اخلاق و ضوابط غرضیکہ ہر زاویہ نگاہ سے یہ ایک انتہائی گھناؤنا اور بھیانک فعل ہے۔ میرے اس سمجھانے کا بڑا منفی اثر ہوا۔ وہ غصے میں لال پیلا ہو گیا۔ یہ اس کی توقع کے خلاف تھا کہ کوئی معالج اس کے مذموم عزائم میں اس کی معاونت سے انکار کی جرأت کرے۔ اسی غیظ و غضب کی کیفیت کے زیر اثر تھوڑا عرصہ بعد اس نے مجھے پھر تھانے میں طلب کیا۔ دواخانہ میں کلمہ طیبہ اور قرآنی آیات کا حوالہ دے کر خاکسار کو دشنام طرازی اور سبّ و شتم کی انتہا کر دی۔ اب میرے خلاف ریشہ دوانیوں اور سازشی حالات کی ایک مثلث تیار ہو چکی تھی جس کا ایک ضلع مولوی حضرات تھے تو دوسرا زاویہ نشہ باز لوگ تھے اور تیسری طرف پولیس تھی۔ ان تینوں گروہوں کی طرف سے دھمکی آمیز پیغامات ملنے لگے۔

14؍ستمبر 1987ء کو پولیس نے ایک طے شدہ سازش کے تحت رات کے دس بجے یکدم چھاپہ مارا۔ مجھے اور میرے نوجوان بھتیجے تنویر احمد اور میرے بہنوئی فیض احمد صاحب کو تھانے لے گئے۔ مجھے اور تنویر احمد کو جاتے ہی حوالات میں بند کر دیا۔ خاکسار نے تھانیدار سے پسِ دیوارِ زنداں رکھنے کی وجہ دریافت کی تو اس نے جواب میں گالیوں کی بوچھاڑ سے مزید عزّت افزائی کی۔ بُرے لوگوں میں کوئی کوئی شریف النفس بھی ہوتا ہے۔ ایک اے۔ ایس۔ آئی صاحب خود اور اس کے اہل خانہ میرے زیر علاج رہ چکے تھے۔ رات کو انہیں میرے حوالات میں ہونے کی اطلاع ہوئی۔ وہ گیارہ بجے شب تھانے پہنچے۔ ہمیں بڑے تپاک اور گرم جوشی سے ملے۔ حالات اور مقدمہ کے کوائف معلوم کر کے بتایا کہ ایس۔ ایچ۔ او نے آپ دونوں کا دفعہ 298C کے تحت اس بناء پر چالان کر دیا ہے کہ آپ نے کلمہ طیبہ اور قرآنی آیات کو اپنے مطب میں لکھ کر آویزاں کیا ہے۔ نیز چھ میل دور جا کر گھسیٹ پور نامی قصبہ کی مسجد احمدیہ پر چشم دید گواہان کی موجودگی میں کلمہ شریف تحریر کیا ہے۔ مزید برآں اس اے۔ ایس۔ آئی نے یہ خاص اطلاع بھی دی کہ مخالفین کے شدید اصرار پر آج رات آپ کو ظالمانہ تشدد کے ذریعہ ادھیڑ کر رکھ دینے اور مار مار کر ہڈی پسلی ایک کر دینے کا منصوبہ ہے۔ اے۔ ایس۔ آئی کے ذریعہ ایس۔ایچ۔او کو تشدد سے باز رہنے پر آمادہ کیا گیا۔

جرم کی نوعیت سے آگاہی نے اطمینان قلب کا سامان بہم پہنچایا ورنہ ان سے کچھ بعید نہیں تھا کہ یہ کوئی گندا، اخلاقی جرم تراش کر اس میں ملوث کر دیتے۔ دفعہ 298C کا ہم پر اطلاق تھا۔ اس جرم کی سزا ’’موت‘‘ تھی۔ مگر پھر بھی دلی سکون کی دولت سے بہرہ اندوز تھے کہ کلمہ شریف کے نام پر موت کا سزاوار ٹھہرایا جا رہا ہے۔

کہاں ہم اور کہاں یہ مقام اللہ اللہ!

حوالات میں رات کا وافر حصہ ذکر الٰہی اور نوافل میں بسر ہوا۔ اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا فضل تھا کہ اس نے کسی بڑے اخلاقی الزام سے حفاظت کے علاوہ ظالمانہ جسمانی تشدد سے بچاؤ کے وسائل میسر فرمائے۔

صبح پولیس کی حراست میں ہی نماز فجر ادا کی۔ حوالات سے باہر نکالے گئے تو گھسیٹ پور سے گرفتار کر کے لائے گئے اپنے احمدی بھائیوں، عزیزوں کو تھانے میں موجود پایا۔ قدرے وقفہ کے بعد معلوم ہوا کہ ہم ایک ہی مقدمہ میں ماخوذ ہیں۔ بعدہٗ ایف۔ آئی۔ آر سے انکشاف ہوا کہ مقدمہ کی ابتدائی رپورٹ میں خاکسار اور تنویر احمد کا ہی نام درج ہے۔ باقی سب کو ضمانت قبل از گرفتاری کے باعث آزاد کر دیا گیا۔ قرین فہم یہی امر ہے کہ پولیس کی جانب سے قرعہ فال آغاز سے ہی ہم دو دیوانوں کے نام نکالا جا چکا تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے ایک فارسی شعر میں یہ مضمون بیان فرمایا ہے کہ عاشق صادق کو اگر قضائے الٰہی سے قیدوبند کی صعوبتیں اٹھانی پڑیں تو وہ ہتھکڑیوں کو چومتا ہے۔ مراد یہ ہے کہ وہ انہیں سونے کے کنگن سمجھتا ہے۔

15؍ستمبر 1987ء کو حضور علیہ السلام کے ان دو ادنیٰ غلاموں کو یہ اعزاز بخشا گیا کہ یہ لائق فخر اور قابل صد افتخار یادگاری کنگن انہیں بھی پہنا دیئے گئے۔ پولیس کی گاڑی ہمیں لے کر تحصیل ہیڈ کوارٹر جڑانوالہ پہنچی۔ وہاں ہمیں گاڑی سے اتارے بغیر متعلقہ افسر سے دستخط کروا کے فیصل آباد سنٹرل جیل پہنچا دیا گیا۔ ہم جڑانوالہ عدالت میں ضمانت کے لئے پر اُمید تھے مگر وہاں ہمارے اُترنے کی نوبت ہی نہیں آنے دی۔ یہ پولیس کی ایک طے شدہ چال تھی۔ جڑانوالہ سے فیصل آباد تک دو پولیس والے ہمیں بذریعہ بس لے کر گئے۔ لوگ راستہ میں ہمیں گھور گھور کر دیکھتے تھے۔ بعض کے بات کرنے پر معلوم ہوا کہ ان کے تاثرات کچھ اس قسم کے تھے کہ شکل سے تو بھلے لگتے ہیں مگر نہیں معلوم کہ اندر سے کتنے بڑے جرائم پیشہ ہوں گے۔ بعض بندگانِ خدا کے اِستفسار پر جب یہ بتایا گیا کہ کلمہ شریف پڑھنے کے جرم میں گرفتار ہیں تو وہ حیرت سے منہ تکتے رہ گئے کہ یہ کیسا فقیدالمثال جرم ہے؟ اکبر الٰہ آبادی کا یہ شعر کسی وقت بڑا عجیب لگا کرتا تھا کہ

؎رقیبوں نے رپٹ لکھوائی ہے جا جا کے تھانے میں
کہ اکبرؔ نام لیتا ہے خدا کا اس زمانے میں

لیکن بطور مزاح پڑھا جانے والا یہ شعر اندھیر گردی کی بدولت اس دور میں حقیقت بن کر سامنے آ گیا۔

15؍ستمبر 1987ء کو ہم شام کے وقت فیصل آباد سنٹرل جیل کے اندر تھے۔ جامۂ تلاشی ہوئی۔ ہر موجود چیز لے لی گئی۔ گھر کے کپڑے اتروا کر جیل کا ’’شاہانہ‘‘ لباس پہنا دیا گیا۔ ہم بڑے سج گئے، کچھ اور ہی ٹھاٹھ باٹھ ہو گئے ہم غلامانِ مسیح محمدیؐ کے اُس دن کے جیل میں داخل شدہ اسّی کے قریب قیدیوں کے ساتھ ہمیں ایک بیرک میں رکھا گیا۔ رات قیدیوں کی مجلس جم گئی۔ ہر ایک سے اس کی معرکہ آرائیاں، کارہائے نمایاں اور المیہ داستانیں سنی جا رہی تھیں۔ جو اُن کے لئے پس دیوار زنداں بند کئے جانے کا موجب بنیں۔ ہماری باری آنے پر خاکسار نے تعارف کروایا اور بتایا کہ عصرِ حاضر میں حضرت مسیح موعودا ور مہدی موعود علیہ السلام کی بعثت مقدر تھی۔ علماءِ زمانہ کی مخالفت و معاندت وغیرہ موضوعات پر بالتفصیل روشنی ڈالی۔ بالآخر گزارش کی کہ کلمہ طیبہ جو ہماری جاں ہے کا احترام کرنے پر ہم قید ہوئے، سبھی زندانی حیران ہوئے کہ یہ کیسا منفرد عدیم النظیر قسم کا جرم ہے؟

اگلے دن 16؍ستمبر 1987ء کو حسبِ قواعدِ جیل ہر قیدی کو اس کے جرم کے مطابق جیل کے مختلف حصوں میں منتقل کر دیا گیا۔ ہم دفعہ C/298 کے پیش نظر ’’بارہ چکی‘‘ جو اس جیل کی ’’اعزازی اقامت گاہ‘‘ ہے میں جاگزیں ہو گئے۔ اس ’’اعلیٰ ترین رہائش گاہ‘‘ میں وہ مہمانانِ گرامی فروکش ہوتے ہیں جن کے خلاف سزائے موت یا عمر قید کے لئے مقدمات کی سماعت جاری ہو۔ جیل کی اس اعزازی اقامت گاہ میں بطور ’’مہمانانِ گرامی‘‘ قیام کا شرف دین کے خدمت گزار احمدی مجاہدین کے لئے مخصوص کر دیا گیا۔

؎یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا
ہر مدّعی کے واسطے دارو رَسن کہاں

اورنگ زیب عالمگیر کے زمانہ میں ایک صاحبِ علم و عمل اور اہل اللہ بزرگ حضرت سرمد رحمۃ اللہ علیہ ہوئے ہیں۔ علماءِ سُو اُن سے حسد کرنے لگے اور اُن کے درپے آزار ہو گئے۔ اُن پر فتویٰ لگا دیا کہ چونکہ یہ لاالہ الا اللّٰہ پڑھتے ہیں اور ساتھ محمد رسول اللہ نہیں پڑھتے اس لئے واجب القتل ہیں۔ انہوں نے اپنی شہادت سے قبل یہ شعر کہا کہ:

عمر یست کہ آوازۂ منصور کُہن شُد
من از سرِ نَو جلوہ دہم دار و رَسن را

یعنی بڑی عمر گزر چکی ہے کہ منصور نے جو آوازۂ حق بلند کیا تھا وہ پرانا ہو چکا ہے میں ازسرِ نَو پوری آب و تاب کے ساتھ پھانسی کے سامنے جلوہ گر ہوں گا۔

آج کچھ اسی قسم کے حالات کا احمدی دوستوں کو بھی سامنا ہے۔ اس جیل میں ہم دیکھ رہے تھے کہ اطفال و خدام اور انصار اللہ کے زمانہ کے کئے ہوئے عہدوں کے ایفا کا وقت آ گیا ہے۔ بارہ چکی میں بارہ کمروں میں سے کمرہ نمبر 1 ہمیں الاٹ کیا گیا۔ کیونکہ ہم تھے بھی شاید نمبر 1 قسم کے ہی مجرم۔

جس تبلیغ کی سزا میں ہم وہاں گئے تھے اس کا موقع ہم اللہ تعالیٰ کے فضل و احسان سے پیدا کئے ہی رکھتے تھے۔ جیل کے افسران، کھانا لانے والے لوگ اور ملنے جلنے والے افراد سے یہ سلسلہ ہوتا رہتا۔ پھر جس اذان کے ہونے پر کئی سال کی سزا مقرر ہے۔ ہم اِس ’’آوازۂِ حق‘‘ کو بلند کر کے پنجگانہ نماز باجماعت ادا کرتے رہے۔ ہماری وہی حالت تھی۔

؎مریضِ عشق پر رحمت خدا کی
مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی

اس وارڈ میں ہماری ڈیوٹی صفائی پر لگا دی گئی اور کچھ پاگل قسم کے نمبردار بھی ہمارے اوپر مقرر کر دیئے گئے۔ وہ نہایت فرمانبرداری اور تندہی سے کام کرتے ہوئے بھی گندی گالیوں سے ہماری عزّت افزائی کرتے رہتے۔ اُن کی اس نوازش پر ہمارا ایمان اور بھی صیقل ہو کر چمکتا اور بفضلِ اِیزدی ہمارے دل پریشانی اور تکدّر کی آلودگی سے پاک رہتے کیونکہ ہم تو اُس عالی وقار آقاؑکے ادنیٰ غلام تھے جس نے ربِّ کریم کی بارگاہ میں یہ عظیم الشان اعلان کیا۔

؎کام کیا عزّت سے ہم کو شہرتوں سے کیا غرض
گر وہ ذلّت سے ہو راضی اُس پر سَو عزّت نثار

ہم بھی اللہ تعالیٰ کے دربار میں اپنے جذبات کی قربانی کا کچھ اسی قسم کا نذرانہ پیش کر رہے تھے۔ اِن گالیوں کو پھول سمجھتے ہوئے برداشت کرتے اور بقول غالبؔ گالیاں کھا کر بے مزا نہ ہوتے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی برکت سے گالیاں سُن کر دعائیں دیتے۔ علاوہ ازیں زندان میں قیدیوں کا کھانا سوکھی سیاہی مائل روٹی اور دال پر مشتمل ہوتا تھا۔ اگر اس انداز میں آلام و مصائب نہ ہوں تو اِسے جیل کیوں کہا جائے۔ پہلے دن میرا ’’قید کا ساتھی‘‘ تنویر احمد اس کھانے کو دیکھ کر پریشان ہو گیا۔ میں نے یہ کہہ کر اس کی ڈھارس بندھائی کہ مقامِ شکر ہے کہ ہم کسی گندے اخلاقی جرم میں جیل نہیں آئے۔ خوش قسمت ہیں ہم کہ ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو قبول کرنے کی توفیق پائی۔ہم خداوندِ قدّوس کے نام پر جیل آئے ہیں۔ مسیحِ محمدیؐ کے غلام ہونے کے ناطے میرے لئے یہ دنیا کی ہر نعمت سے اعلیٰ ہے۔ ہم انہی حسین اور خوشگوار حقیقتوں کے تصّورات کے باعث اس ’’دعوتِ شیراز‘‘ کو تناول کرتے رہے۔ الحمدللّٰہ۔

علیٰ اکرامہٖ۔ جیل کی مشقت کے دوران ’’دست باکار دل بایار‘‘ کی کیفیت رہی۔ موقع کو غنیمت سمجھتے ہوئے کچھ اس قسم کے احساسات ہم پر حاوی تھے۔

؎اپنی تقدیر کو یوں بھی سنوارا جائے
لمحہ لمحہ تیری یادوں میں گزارا جائے

جیل میں بہت سے دوست ملاقات کے لئے آتے رہے۔ جس برادرانہ تپاک اور خلوص کا اظہار ہوتا رہا اس کی نظیر عام دنیا کے رشتوں اور تعلقات میں ملنی ناممکن ہے۔ احمدیت نے جس ہمہ گیر برادری میں ہمیں منسلک کیا ہے یہ بھی اپنی ذات میں ایک نشان ہے۔

اس قید میں ’’اسیرانِ راہِ مولیٰ‘‘ کی قدر و منزلت اور منصب و مقام کو سمجھنے کا بہترین موقع میسر آیا اور ان کے حق میں دل کھول کر دعاؤں کی توفیق پائی۔ قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کرنے والے اسیرانِ راہ مولیٰ کے کیا مراتب ہیں۔ اس ضمن میں حضرت مولانا غلام رسول راجیکی ؓ کا ایک شعر اس حقیقت کی بطریقِ احسن ترجمانی کرتا ہے۔ فرماتے ہیں:

یوسف بن نہیں سکتا جو زندانوں سے بچتا ہے
ہوا کیا اس زمانہ میں جو وقفِ امتحاں تم ہو

اسی اسیری کے دور میں ایک بار ایک افسر رات دو بجے گشت پر آیا۔ میں تہجد کی نماز ادا کر رہا تھا۔ اُس نے اپنے ساتھی سے اِستفسار کیا کہ اس کمرے میں کون ہے؟ میں نے سلام پھیر کر اُسے السلام علیکم کہا اور تعارف کروایا۔ اور اپنی وجۂ داروگیر پر وضاحت سے روشنی ڈالی۔ بڑا متاثر ہوا اور کہا کہ ’’پاکستان کے ملّاں میں خوفِ خدا نہیں یہ بدمعاشی پر اُتر آیا ہے۔‘‘

بالآخر 25؍ستمبر 1987ء کو ضمانت پر رہائی پا کر ہم گھر پہنچے۔ گھر میں خاکسار ایک دلگداز منظر دیکھ کر مضطرب ہو گیا۔ دیکھا کہ میرا چھوٹا بیٹا بعمر ایک سال ہیضے کے مرض میں مبتلا ہے۔ مرض آخری درجہ پر پہنچا ہوا ہے۔ بچہ زیست و موت کی کشمکش میں ہے۔ ڈاکٹر لاعلاج قرار دے چکا ہے۔ کوئی دوائی مؤثر نہیں ہو رہی۔ ایسی بے بسی کی حالت دیکھ کر عاجز دُعا کی طرف متوجہ ہوا۔ کچھ دیر بعد بغیر کسی دوائی کے بچے کی حالت معجزانہ طور پر خود بخود سنبھلنی شروع ہو گئی۔ صبح تک وہ بالکل ٹھیک ہو گیا۔ گھر آتے ہی ہم سب افراد خاندان کے لئے بچہ کی صحتیابی ایک معجزہ اور نشان سے کسی طرح کم نہ تھی۔ یہ حقیقت ہے کہ:

؎قدرت سے اپنی ذات کا دیتا ہے حق ثبوت
اُس بے نشاں کی چہرہ نمائی یہی تو ہے

سو یہ ہے ایک اسیرِ راہِ مولیٰ کی داستان! اس بندۂ ناچیز نے کچھ وقت کے لئے یہ شرف و اعزاز حاصل کیا۔ رب ذوالجلال کی عظمت اور دین کی سربلندی کی خاطر دکھ اٹھانا اور جان قربان کرنا خدائی جماعتوں کا طرۂ امتیاز ہے۔ قربانیوں کی حرارت سے تپ کر الٰہی جماعتیں عظمتِ کردار اور پاکیزگی کے لحاظ سے کُندن بن کر نکلتی ہیں۔ آج اخلاص اور جانثاری کی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ ہو رہا ہے۔ کاروانِ احمدیت اِن سرفروشوں کے جلَو میں آگے بڑھ رہا ہے۔ وہ دن دور نہیں جب یہ فِدا کاریاں تاریخ کا حصّہ ہو کر مینارِ نور بن جائیں گی اور مستقبل میں قومیں ان شاء اللّٰہ اس نور سے راہنمائی حاصل کر کے پیش قدمی کریں گی۔ ان شاء اللّٰہ

(محمد امین خالدؔ۔ ہمبرگ جرمنی)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 9 جنوری 2023

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالی