• 17 مئی, 2024

خوب ہوتا

دیارِفانی میں ہر طرف سے ہی نوچ کھانے کو ہیں درندے
میں یہ حقیقت جو ابتدا میں ہی جان جاتاتو خوب ہوتا

شبِ فراقِ حبیب میں اے مرے خدایا! ترے ہی در پر
جبیں کو اپنی جو میں جھکاتا،تجھے بلاتاتو خوب ہوتا

دلوں پہ تالے،خرد پہ جالے، یہ کج نگاہیں، یہ سرد آہیں
جو معرفت کے دیے جلا کر میں نور پاتا تو خوب ہوتا

لطیف شکوہ تھا تیرے دل میں بھی ان کی نفرت کے بالمقابل
تُومسکراتا، گلے لگاتا،محبتوں کے ہی گیت گاتاتو خوب ہوتا

(صادق احمد لطیف۔ آئیوری کوسٹ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 9 فروری 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ