• 19 مئی, 2024

آؤ! اُردو سیکھیں (سبق نمبر34)

آؤ! اُردو سیکھیں
سبق نمبر34

ضمیر موصولہ

اس سے پہلے وضاحت کی جاچکی ہے لیکن ایک بار پھر یاد دہانی کے لئے وضاحت کی جارہی ہے کہ ضمیر کو انگریزی گرائمر میں پروناؤن Pronoun کہتے ہیں۔ ضمیر موصولہ سے مراد ا وہ الفاظ ہوتے ہیں جو کسی اسم کی حالت بیان کرتے ہیں اور دو فقرات کو جوڑنے کا کام کرتے ہیں۔مثالیں دیکھتے ہیں۔

آپ کے دوست جو بچوں کے ڈاکٹر ہیں مجھے ملے تھے۔ یہاں جو دوست کا احوال بیان کررہا ہے یعنی کون سا دوست تھا۔

وہ کتاب جو کل چوری ہوگئی تھی مل گئی۔ ان دونوں مثالوں میں جو ضمیر موصولہ ہے جو نہ صرف کتاب، اور دوست کا پتہ دیتا ہے بلکہ دو فقرات کو جوڑتا ہے۔ اب ضمیر موصولہ کی مختلف حالتیں دیکھتے ہیں۔ جیسا کہ پہلے بتایا ہے کہ یہ پروناؤن ہے اور آپ جانتے ہیں کہ پروناؤن کے تین کیسز ہوتے ہیں جنہیں اردو میں حالتیں کہتے ہیں۔ اسی طرح اردو اور انگریزی میں واحد اور جمع سے بھی پروناؤن یا ضمیر کی شکل بدلتی ہے تو ان شکلوں کو بھی جاننا ضروری ہے۔ جیسے واحد کے لئے میں اور جمع کے لئے ہم استعمال ہوتا ہے۔

ضمیر موصولہ جو کی مختلف حالتیں یہ ہیں۔

حالت فاعلی، واحد (Subjective Case) : جو (حرف نے کے ساتھ) جس نے۔

یعنی جب جو فاعل کی حیثیت سے کام کرتا ہے تو وہ یا تو جو ہوتا ہے یا جس نے۔

جو محنت کرتا ہے وہ کامیاب ہوجاتا ہے۔ جس نے والدین کی خدمت کی اس نے اس کا اجر پایا۔ پس ان دونوں فقرات میں ضمیر موصولہ یعنی جو، اور جس نے فاعل ہیں یعنی Subject اور واحد ہیں۔

حالت فاعلی، جمع (Subjective Case) : جو (نے کے ساتھ)اور جنھوں نے۔

یعنی جب جو فاعل کی حیثیت سے کام کرتا ہے اور جمع ہوتا ہے تو وہ یا تو جو ہوتا ہے یا جنھوں نے۔

جو عورتیں اپنے بچوں کی اچھی تربیت کرتی ہیں وہ خوش قسمت ہوتی ہیں
جنھوں نے دین کو دنیا پر مقدم رکھا وہ کامیاب ہوگئے۔

ان دونوں مثالوں میں جو اور جنھوں نے فاعل ہیں اور جمع ہیں۔ پس جمع کے ساتھ جو کی فاعلی حالت جنھوں نے ہے۔

حالت مفعولی، واحد(Objective Case): جس کو یا جسے

یہ تو آپ جانتے ہیں کہ ہم ضمیر موصولہ پر بات کررہے ہیں جسے انگریزی میں Determiner Pronoun کہتے ہیں۔ اور آپ کو یاد رکھنا ہے کہ پرناؤن کے کیسز یعنی مختلف حالتیں ہوتی ہیں۔ اب ہم مثالیں دیکھتے ہیں۔

آئفل ٹاور وہ مشہور جگہ ہے جس کو دیکھنے کے لئے لاکھوں سیاح ہر سال پیرس جاتے ہیں۔

اسلام وہ زندہ مذہب ہے جسے حضرت محمد ﷺ نے پیش کیا۔

حالت مفعولی، جمع (Objective Case): جن کو یا جنہیں.

مثالیں دیکھتے ہیں:
وہ بچے سکول آسکتے ہیں جن کو یا جنہیںکووڈ ویکسینیشن کی دو خوراکیں دی جاچکی ہیں۔

وہ لڑکیاں جن کو انعامات دیے گئے بہت خوش تھیں۔

یہ وہ دکانیں ہیں جنہیں خالی کرایا جارہا ہے۔

ان مثالوں میں آپ نے غور کیا ہوگا کہ مذکر اور مونث دونوں کے لئے جن کو یا جنہیں ہی استعمال کیا گیا۔

حالت اضافی، واحد مذکر (Possessive Case) جس کا، حالت اضافی، واحد مونث(Possessive Case) جس کی

یعنی جب کوئی چیز کسی کی ملکیت ظاہر کرنی ہو اور وہ چیز واحد بھی ہو یعنی ایک شخص یا چیز وغیرہ ہو اور مذکر بھی ہو جیسے لڑکا، بکرا، ہسپتال، شہر وغیرہ تو جس کا استعمال ہوگا۔ جیسے یہ وہ لڑکا ہے جس کا باپ ایک ڈاکٹر ہے۔اس فقرے میں باپ مذکر اور واحد ہے۔ ایک اور مثال دیکھیں۔ یہ لڑکا ہے جس کی سائیکل گم گئی ہے۔ تو سائیکل کیونکہ واحد مونث ہے اس لئے جس کا استعمال نہیں ہوا بلکہ جس کی آیا ہے۔

یہ وہ ہسپتال ہے جس کا نام بہت مشہور ہے۔ مثال وہ دی گئی ہے جس کی اصل بات سے کوئی مماثلت ہی نہیں۔ تو ان دو مثالوں میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ہسپتال واحد مذکر ہے اس لئے جس کا استعمال ہوا جبکہ لفظ مثال مونث ہے اس لئے جس کی استعمال ہوا۔

حالت اضافی، جمع مذکر(Possessive Case) :جن کا

حالت اضافی، جمع مونث(Possessive Case) :جن کی

یہاں بھی فرق صرف جمع کا۔ اگر وہ چیزیں جن کی ملکیت ظاہر کرنی ہے مذکر ہوں گی تو جن کا استعمال ہوگا۔ جیسے وہ عورتیں جن کا زیور چوری ہوگیا تھا۔ وہ مرد جن کا نام فہرست میں شامل نہیں۔ پھر دیکھیں۔ وہ خواتین جن کی کتابیں ارسال کی گئیں۔ وہ مرد جن کی درخواستیں نمٹا دی گئیں۔ وغیرہ ان مثالوں میں زیور مذکر ہے جبکہ فہرست، کتابیں اور درخواستیں مونث اس لئے جن کا اور جن کی کا فرق واضح ہے
حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں :
عقل ناقص جہالت سے بڑھ کر نقصان رساں ہے۔ مثل مشہور ہے نیم ملّا خطرہ ایمان۔ ناقص عقل تکذیب اور توہین کی طرف جلدی کرتی ہے۔ غرض تو دوسرا نشان عقل رکھا ہے۔تیسرا نشان جو خدا نے مقرر کیا ہے وہ تائیداتِ سماویہ ہے۔ جو شخص خدا تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے اس کے ساتھ ضروری ہوتا ہے کہ تائیداتِ سماویہ بھی ہوں۔ اس کے اور اس کے غیر میں ایک فرقان ہوتا ہے۔ جس سے غیر کو شناخت کرسکتے ہیں کیونکہ جو خدا کی طرف سے مامور کوکر نہیں آتا اور جس کا تعلق خدا تعالیٰ کے ساتھ نہیں ہے اس کو وہ نور اور فرقان نہیں دیا جاتا۔ اس فرقان میں ظاہر اور باطن کے برکات ہوتے ہیں اور دانشمند انسان قوتِ شاقہ سے تمیز کرلیتا ہے کہ اس کے ساتھ تائیداتِ سماویہ ہیں۔

(ملفوظات جلد2 صفحہ195 ایڈیشن 2016ء)

اقتباس کے مشکل الفاظ کے معنی

عقل: خرد، سمجھ، فہم، دانش، وہ قوّت جس کے وسیلے سے انسان برے بھلے کی تمیز اور دقائق اشیا کو حل کرے reasoning/ rationality

ناقص: ادھورا، نامکمل، ناتمام، وہ جس میں کچھ کمی رہ جائے، عیب دار، داغ دار، بد، کھوٹا، غیر خالص، نکما، ناکارہ، خراب، غیر مفید، بے مصرف،نادرست، غیر صحیح، کچا، خام، ناپختہ۔غیر متناسب، وہ جس میں تعدیل و تناسب نہ پایا جائے۔

جہالت: ان پڑھ ہونا، بے علمی، بے تعلیمی، ناواقفیت، بے وقوفی، نادانی۔

نقصاں رساں: نقصان پہنچانے والا، تکلیف دینے والا، مضر۔

نیم: آدھا، نصف، اَدھ ؛ ادھورا۔

نیم ملّا خطرہ ایمان: کم علم شخص دوسروں کے ایمان کو بھی خطرے میں ڈال دیتا ہے۔

تکذیب: جھٹلانا

توہین: بے عزتی کرنا۔

تائیدات : تائید کی جمع، خدا تعالیٰ کی مدد اور حمایت۔

سماویہ: آسمانی، فلکی، علوی، ملکوتی، روحانی، نہایت لطیف و پاکیزہ، ربانی، خدائی، روحانی، مقدس، الہامی۔

فرقان: حق و باطل میں فرق کرنے والا، وہ چیز جو سچ اور جھوٹ میں تمیز کرے۔ کلام اللہ، قرآن کریم۔

غیر کو شناخت کرنا: ایک چیز جو دوسری چیز سے متضاد خصوصیات رکھتی ہو اسے پہچان لینا۔ جیسے آگ اور پانی کی خصوصیات میں جو فرق ہے اسے پوری طرح سمجھ جانا۔

نور: روشنی، فہم و ادراک، بصیرت، عقل، معاملہ فہمی کی اعلیٰ صلاحتیں۔ علوم۔

ظاہر و باطن کے برکات:مادی اور روحانی، دینی و دنیاوی علوم کی گہری بصیرت۔

دانشمند: عقل مند، عالم۔

قوتِ شاقہ: سونگھنے کی صلاحیت۔ یعنی دانش مند انسان سچائی کو، خدا کے مامور کو انتہائی کم وقت میں شناخت کرلیتا ہے۔ جیسے انسان کسی شے کی حقیقت کو محض سونگھ کر کہ جان لے اسے چھونے اور چکھنے کی ضرورت نہ پڑے یعنی طویل بحث اور دلائل کی اسے ضرورت نہیں پڑتی۔ اس میں ایک لطیف نکتہ یہ بھی ہے کہ دانا انسان کو ایسے حواس عطا ہوتے ہیں کہ اسے خدا والوں سے ایک خوشبو آتی ہے اور وہ اس کے ذریعے اس کو شناخت کر لیتا ہے۔

(عاطف وقاص ٹورنٹو کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 9 فروری 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ