• 5 مئی, 2024

لجنہ اماءاللہ کے قیام کا مقصد

اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے:

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا عَلَیۡکُمۡ اَنۡفُسَکُمۡ ۚ لَا یَضُرُّکُمۡ مَّنۡ ضَلَّ اِذَا اہۡتَدَیۡتُمۡ

(المائدہ: 106)

اے لوگو جو ایمان لائے ہو! تم اپنے ہی نفوس کے ذمہ دار ہو۔ جو گمراہ ہو گیا تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا اگر تم ہدایت پر رہو۔

قرآن مجید کی اس ہدایت کے مطابق لجنہ اماءاللہ کے قیام کا مقصد عورتوں کے لیےدینی ترقی کاوہی سلسلہ جاری رکھنا ہے جس کی بنیاد آج سے تقریباً چودہ سو سال قبل ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے جاری کیا …. آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زمانہء جاہلیت کی عورت کو دینی تعلیم کازیور دے کر اسے تعظیم وتکریم سے نوازکر نہ صرف اس پر بلکہ پوری انسانیت پر احسانِ عظیم کیا… کفر و بدعت میں ڈوبی قوم کو سنوارنے کے لیے عورت کو بلند رتبہ دیتے ہوئے ایک مفید وجود قرار دے کر اسے اعلیٰ مراتب سے ملایا … زمانہٴ جاہلیت میں معاشرے کی دھتکاری عورت کو ایسا سنوارا، ایسی تربیت کی، اسے اخلاقیات کے زیور سے آراستہ کر کے ایسی قدر و منزلت پہ پہنچا دیاجس کی مثال پہلے زمانوں میں کہیں نہیں ملتی…. آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کو ایسی اعلیٰ تعلیم سکھلائی کہ جس کی بدولت عورت کواپنے مقام کو پہچاننے میں مدد ملی۔ صدیوں سے ظلم کی چکی میں پستی عورت بھیڑ بکری یا بے جان و بے وقعت شئے نہ رہی بلکہ رفتہ رفتہ قوم کی اصلاح کے لیے عورت کا وجود بھی اہم کردار ادا کرنے لگا… ہر میدان میں عورت کی قدر و منزلت کسی طور بھی کم مایہ نہ رہی… آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں عورت نے گھر گرہستی سے لے کر میدان جنگ تک رسائی حاصل کی… ہر میدان میں مردوں کے شانہ بشانہ چلتی رہی… حضرت سیدہ ربیعہ بنت معوذ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ ہم سب غزوات میں شریک ہوتے تھے.. مجاہدین کو پانی پلاتے، ان کی خدمت کرتے اور مدینہ تک زخمیوں اور لاشوں کو اٹھا کر لاتے تھے۔

(بخاری، کتاب الجہاد باب رد النساء القتلہ)

اسی طرح جنگ احد میں عین اس وقت جب مسلمانوں کے قدم اکھڑرہے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر کفار بڑھ بڑھ کرحملے کررہے تھے۔ جاں نثار آ آکر اپنی جانیں قربان کر رہے تھے.. ان میں ایک بہادر خاتون حضرت عمارہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بھی تیغ بدست حملہ آوروں کو مار مار کر پیچھے ہٹا رہی تھیں۔ اس دن کئی زخم ان کے دست وبازو پہ آئے .. جنگ یمامہ میں بھی انہوں نے بے مثال شجاعت کا مظاہرہ کیا، آخری وقت تک بہادری سے لڑتی رہیں۔

(فتوحات اسلام سید حلان صفحہ46)

عورت نے تعلیمی لحاظ سے بھی علم و ہنر میں ایسا اعلیٰ مقام پایا کہ ایک موقع پرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم سے فرمایا:

خُذُوْا نِصْفَ دِینِکُمْ مِنْ ھٰذِاہِ الْحُمَیْرَاء

یعنی شریعت کا آدھا علم سرخ رنگ والی عورت یعنی عائشہ سے حاصل کرو۔

(ترمزی باب مناقب عائشہ)

آپ کی ازواج مطہرات و صحابیات ہمارے لیے ایک بہترین نمونہ چھوڑ کر گئیں ہیں …. جو ہمارے لیے ایک خزانہ سے کم نہیں… پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سکھلائی تعلیم کو جاری و ساری رکھنےنیز اگلی نسلوں میں اسے بانٹنے کے لیے یہ تنظیم لجنہ اماءاللہ بنائی گئی ہے۔

آج سے پورے سو سال پہلے عورتوں کی دینی تربیت کے لیے تنظیم لجنہ اماءاللہ کا قیام 25؍دسمبر 1922ء کو جبکہ اسی سے منسلکہ بچیوں کی تنظیم ناصرات الاحمدیہ 1928ء کو قدرت ثانیہ کے مظہر ثانی حضرت مصلح موعود مرزا بشیر الدین محمود احمد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قادیان دارالامان کی مبارک بستی میں کیا۔

(دینی معلومات صفحہ69)

اس تنظیم کا مقصد عورتوں کو دینی تعلیم سے آراستہ کر کے انہیں دین اسلام احمدیت کی ترویج کے لیے ایک کارآمد وجود بنانا تھا۔

ایک دفعہ صحابہ رضی اللہ تعالیٰ نے جوش میں آکر سواریوں کو تیز چھوڑ دیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا رِفْقاً بِالْقَوَارِیْرِ، رِفْقاً بِالْقَوَارِیْرِ یعنی عورتوں کا بھی خیال رکھنا۔

اس حکم سے آپ نے جہاد کرنے والوں میں بھی اضافہ فرمادیا ورنہ کم طاقت والے لوگ پیچھے رہ جاتے اور تھوڑے کام کر سکتے… (نیز فرمایا) اس بات کو ہمیشہ مدنظر رکھنا کہ ایسا طریق اختیار کرنا چاہیےکہ اعلیٰ درجہ حاصل کرنے والے بھی اسے اختیار کرسکیں لیکن کمزوروں کے لیے بھی موقع ہو۔‘‘

(خطابات شوری جلد اول صفحہ533)

بانیٴ تنظیم لجنہ اماءاللہ حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خدا تعالیٰ نے غیر معمولی فکری صلاحیتوں سے نوازا تھا چنانچہ 1922ء میں مجلس شوریٰ کے پہلے افتتاحی خطاب میں فرمایا:
’’میری نظر اس بات پر پڑ رہی ہے کہ ہماری جماعت نے آج ہی کام نہیں کرنا بلکہ ہمیشہ کرناہے۔ دنیا کی انجمنیں ہوتی ہیں جو یہ کہتی ہیں کہ آج کام کرکے دکھاؤ اور لوگوں کے سامنے رپورٹ پیش کردو مگر میں نے رپورٹ خدا کے سامنے پیش کرنی ہے اور خدا کی نظر اگلے زمانوں پر بھی ہے اس لئے مجھے یہ فکر ہوتی ہےکہ آج جو کام کر رہے ہیں یہ آئندہ زمانہ کے لئے بنیاد ہو…. اگر آج ہم بنیاد قائم نہ کریں توکس پر عمارت بنائیں گے… پس مجھے آئندہ کی فکر ہے اور میری نظر آئندہ پر ہے کہ ہم آئندہ کے لیے بنیادیں رکھیں… چنانچہ وہ زمانہ آئے گا جب خدا تعالیٰ ثابت کردے گا کہ اس جماعت کے لیے یہ کام بنیادی پتھر ہیں۔‘‘

(خطابات شوریٰ جلد اول صفحہ22)

الحمدللّٰہ آج خدا تعالیٰ نےان کاموں کے بنیادی پتھروں کو ایک مضبوط عمارت میں بدل دیا ہے۔ تنظیم لجنہ اماءاللہ اس عمارت کےستونوں میں سے ایک ستون ہے۔ اس خوشی کے موقع پر لجنہ کی صد سالہ جوبلی کیسے منائی جائے؟ ہمیں ایسے اقدام کرنے ہونگےجو اس کی مضبوطی کو قائم دائم رکھنے والے ہوں۔

اس روحانی پھل آور تنظیم کے سو سال پورے ہونے پر ان مبارک لمحوں کو ہمیں دنیاوی خوشیوں کی طرح صرف ظاہری قمقموں یا ظاہری روشنیوں کی جگمگاہٹ سے چمکانا سجانا ہمارا مقصد نہیں ہونا چاہیے بلکہ اس خوشی کو منانے کےلیے ہمیں اپنے آپ کو روحانی و عملی طور پر شمع ہدایت قرآن مجید سے اپنے آپ کو، اپنے گھر کو، ہر گلی کوچہ کو منور کرنا ہوگا۔ اپنے دل میں اسی کی ہی لو جگا کر اس کی ہدایت کی کرنوں سے سب عالم کو منور کرنا ہے۔ ہر لمحہ ان مقاصد کو مدِّنظر رکھنا ہے جس کے لیے یہ تنظیم قائم کی گئی ہےاُن توقعات پر پورا اترنا ہے جس کو پورا کرنا اس تنظیم کے ذمہ ہے۔ اس خوشی کے موقع پر شکرانے کے طور پر ہمیں دورد و تسبیحات کاورد کرتے صلوات و نوافل کو ادا کرتے ہوئے اعلیٰ معیار کے لیے ایک وقارکے ساتھ نئی صدی کو خوش آمدید کہنا ہے وہ تمام نیک اعمال بجا لانے ہیں جن کو کرنے کے لیے ہمارے دین نے ہمیں حکم دیا ہے۔ ہماری چال ڈھال میں ظاہری نمود و نمائش نہ ہو بلکہ ہماری شخصیت اخلاقیات اور حیا کے زیور سے سجی سنوری ہو۔ ہم دینِ اسلام احمدیت پہ کاربندرہنے والی ہوں۔ اس کی اصل روح کو سموئے ایک ایسا وجود بنیں جو تمام عالم کے لیے ایک بہترین نمونہ ہو۔ تقوی کے ایسے طریق اپنائے ہوئے ہوں، ایسی راہ کا انتخاب کئے ہوئے ہوں جو خدا کی خوشنودی سے ملاتی ہو۔کیونکہ لجنہ کی تنظیم کامقصد ہی دین اسلام کودنیاکے تمام کونوں میں پہچانا ہے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے موعود مہدی مسیح الزماں کے خدائی الہام:
’’میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہچاؤنگا‘‘ کو سچ ثابت کرنا ہے۔

بنی نوع انساں کو ایک ہدایت یافتہ دین یعنی اسلام احمدیت پر لانا ہے۔ اس کے لیے سب سے اہم کام ہمیں خود کو ایک جذبے کے ساتھ پیارے خدا کی وحدانیت پر ایمان لاتے ہوئے اس کے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں اس کے موعود کی پیروی کرتے ہوئے اس کی سکھلائی گئی باتوں پرعمل کرنا ہوگا۔ اسلام کے پانچ بنیادی ارکان، کلمہ، نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج اور چھ ارکان ایمان اللہ پر ایمان، اس کے فرشتوں پر ایمان، اس کی کتابوں پر ایمان، اس کے رسولوں پر ایماں، یوم آخرت پہ ایمان اور خیر و شر پر ایمان لاتے ہوئے انہیں سمجھ کر اس پر عمل کرنا ہوگا۔ پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتے ہوئے اس کی احادیث کو اپنانا ہو گا اس کی ازواج مطہرات و صحابیات کی خوبیاں اپنے اندر پیدا کرنی ہونگی۔

خاتم النبیین سیدو مولا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے غلام مہدی موعود مسیح موعود حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام کی سکھلائی گئی دعاؤں سے اپنے سجدوں کو تر کرنا ہوگا قرآن واحادیث کی باتوں کو سمجھ کر اس پر عمل کرنا ہوگا، ان باتوں پر عمل کرنا جن کو کرنے کا اللہ اور اس کے نبیوں نے حکم دیا ہے اور جن باتوں سے روکا گیا ہے ان سے ہمیشہ بچنا ہوگا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں رہنمائی فرمائی ہے:

وَہُدُوۡۤا اِلٰی الطَّیِّبِ مِنَ الۡقَوۡلِ ۚۖ وَہُدُوۡۤا اِلَی صِرَاطِ الۡحَمِیۡدِ ﴿۲۵﴾

(الحج: 25)

ترجمہ: اور پاک قول کی طرف ان کی راہنمائی کی جائے گی اور صاحب حمد (اللہ) کی راہ کی طرف ان کی رہنمائی کی جائے گی۔

لہٰذا ہمیں ان قرآنی احکامات کو سمجھتے ہوئے ان پر عمل کرنے کے لیے خدا تعالیٰ کی طرف سے دیے گئے تحفہٴ خلافتِ راشدہ اور قدرتِ ثانیہ کی قدر و منزلت کو سمجھنا ہوگا، اطاعتِ خلیفہ کو اپنے ہر فعل پہ لازم رکھنا ہوگا۔ ہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے موعود مسیح الزمان مہدی کے ہاتھ پر بیعت کی ہے اس کی خلافت سے جو عہد باندھا ہے اس کی شرائط پر عمل پیرا ہونا ہوگا تا کہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور روزِ قیامت پیارے آقا محمد رسول اللہؐ کی شفاعت کے حصول کے لیے ہمیں اس کی اور اس کے غلام پیارے مہدی کے احکام کو بھی بجا لانا ہے۔ ان وعدوں کو نبھانا ہے جن کو نبھانے کا ہم نے عہد کیا ہے۔ ’’سچی مومنہ اپنے کیے عہد سے پھرنا نہیں جانتی‘‘ اگر ہم یہ دعویٰ کرتی ہیں کہ ہم وفادار ہیں تو ہمیں ہدایت کی راہ چن کرسچ کو اپنانا ہوگا اگر ایک خدا اور اس کے پیارے رسولؐ کو خاتم النبیین مانتے ہیں تو ایک واحد لاشریک خدا کاہی کلمہ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ سچے دل کے ساتھ پڑھنا اور پڑھانا ہو گا۔ شرک سے بچنا ہوگا۔

اِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَاِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ کی تعمیل کرتے ہوئے ہمیں صرف اور صرف اس پیارے خدائے واحد لاشریک کےحضور صرف اس کی ہی عبادت کے لیے پانچوں وقت باقاعدہ سربسجود ہونا ہوگا اسی کی شکر گزاری میں اسی کی تسبیح کرتے ہوئے اسی سے مدد مانگنا ہوگی۔

روز قیامت اپنا شمار صادقین میں لکھوانے کے لیے ضروری ہےکہ ہم سچ کی راہوں کو اختیار کرنے والیاں بنیں، سچ پر چلنے والی نسلوں کو بڑھانے والی بنیں۔

اگر ہم نے برائی دور کرنے کا ذمہ لیا ہے تو پہلے ہمیں خود کو برائی سے دوررکھ کر اس سے بہرطور دوسروں کو بھی بچانا ہوگا۔ ایسی باتوں سے دور رہناہوگا جس سے برائی کو فروغ ملتا ہو۔ دنیا کی ظاہری خواہشات کی پیرو نہ بنیں۔ اگر ہم نے یہ وعدہ کیا ہے کہ ہم نے اپنی جان، مال، وقت اور اولاد کو دین کی راہ پہ خرچ کرنا ہے تو ہمیں اپنی نفسی خواہشات کو کچل کرصرف دین کی خاطران کا قَلع قَمع کرنا ہوگا۔ خوشنودیٴ خدا کی خاطر اپنی نَفسی آرزوں کو قربان کرتے ہوئے، اپنے آپ کو ظاہری نمودو نمائش سے بچانا ہوگا۔ اپنے مال کو ضیاع سے بچانا ہوگا، اپنے وقت کو فضول لغو باتوں سے بچاکر اچھے مفید کاموں پر صرف کر نا ہوگا، اپنی اولادوں در اولادوں کو بھی ضائع ہونے سے بچانا ہوگا، انہیں بری صحبت بُرے راستوں سے بچا کر رکھنا ہوگا۔ ایک ایسی زندہ نسل کا تسلسل برقرار رکھنا ہو گا جو اسلامی معیار کو بلند کرنے والی ہو۔ وقت پڑنے پہ دین کی خاطر مرمِٹ جانے والی ہو۔ اس کےاعمال ظاہری اور باطنی بدی سے پاک ہوں۔

حقوق اللہ، حقوق العباد بجا لانے والی ہو۔ دینی احکام بجا لانے والی اور خلافت کی اطاعت گزار ہو۔جیسا کہ بانی تنظیم لجنہ اِماءاللہ حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
’’پس ضرورت اس بات کی ہے کہ جماعت متحدالخیال ہو کر خلیفہ کو اپنا استاد سمجھے کہ جو سبق وہ دے اسے یاد کرنا اور لفظ لفظ پر عمل کرنا اپنا فرض سمجھے۔ اتحادِ خیالات کے ساتھ قومیں بہت طاقت حاصل کرلیا کرتی ہیں۔ ورنہ یوں نظام کا اتحاد بھی فائدہ نہیں دیتا جب تک اتحادِ خیالات نہ ہو۔ جماعت کا ہر فرد میرے ساتھ تعاون کرے اور ہر خطبہ جو میں پڑھتا ہوں، ہر تقریر جو میں کرتا ہوں اور ہر تحریر جو میں لکھتا ہوں اسے ہر احمدی اس نظر سے دیکھے کہ وہ ایک طالب علم ہے جسے ان باتوں کو یاد کرکے امتحان دینا ہے اور ان میں جو عمل کرنے کے لیے ہیں ان کا عملی امتحان اس کے ذمہ ہے اس طرح وہ میری ہر تقریر اور تحریر پڑھے اور اس کی جزئیات کو یاد رکھے۔‘‘

(خطابات شوری جلد اول صفحہ 8-9)

دعاہے اللہ تعالیٰ اسلام احمدیت کو ہمیشہ قائم و دائم رکھے۔ ہمارے پیارے آقا حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا پرشفقت بابرکت وجود تادیر ہم پر سلامت رکھے، ہماری اس پیاری تنظیم لجنہ اماءاللہ کو ہمیشہ پھلتا پھولتا رکھے اور اس کے بانی حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ کے درجات بلند سے بلند کرتا چلا جائے۔ ہم سب ممبرات لجنہ تنظیم لجنہ اماءاللہ کے مقاصد کو پورا کرنے والی ہوں تا ہمارا پیارا خدا ہم سے راضی ہو، اس کی رضا ہمیشہ ہر قدم پر ہمارے شامل حال رہے۔ آمین ثم آمین

(امة السلام انور۔ کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

شادی پر مبارکباد کی دعا

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 10 فروری 2023