• 5 مئی, 2024

لجنہ اماء اللہ برطانیہ کی خواتین کی گراں قدر خدمات (قسط 1)

لجنہ اماء اللہ برطانیہ کی خواتین کی گراں قدر خدمات
بیگم مجیدہ شاہنواز مرحومہ
قسط 1

بیگم شاہنواز صاحبہ کی پیدائش 1912ء میں ریاست مالیر کوٹلہ میں ہوئی جہاں آپ کے والد حضرت نواب محمد دین صاحب ایک سرکاری عہدہ پر متعین تھے۔ آپ نے اپنا بچپن اپنے والدین کے ساتھ مختلف اضلاع میں گزارا۔ آپ کی طبیعت میں شروع سے ہی خدمت دین، خدمت خلق اور نیکی کے جذبات نمایاں تھے۔ آپ کے والد صاحب نے آپ کے پڑھائی کے شوق کو دیکھ کر میٹرک کے بعد آپ کو لاہور کالج برائے خواتین میں داخل کرا دیا اور آپ نے وہاں ہوسٹل میں رہائش اختیار کی۔

ابھی آپ کالج کے تھرڈ ایئر میں تھیں کہ آپ کا رشتہ حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کی تحریک پر محترم چوہدری شا ہنواز صاحب کے ساتھ طے پایا اور حضرت مصلح موعود ؓ نے آپ کا نکاح چوہدری ظفراللہ خان صاحب کی کوٹھی پر ہی پڑھا۔

جب آپ کی شادی ہوئی اس وقت آپ کے والد صاحب ریاست جے پور میں پردھان منتری یعنی وزیر اعلیٰ کے عہدہ پر فائز تھے۔ ریاستوں میں راجپوت رواج کے مطابق شادیاں بہت دھوم دھام سے ہوتی تھیں اور آپ بھی اپنی بیٹی کی شادی کا بندو بست بڑی آسانی سے کر سکتے تھے لیکن چونکہ آپ شادیوں میں طبیعتاً دکھا وے اور نمائش کے بہت خلاف تھے اس لئے یہ شادی نہایت سادگی سے کی گئی۔ سب رشتہ داروں اور دوستوں کو اطلاع تو کر دی لیکن اُنہیں آنے سے منع کر دیا گیا۔ چنانچہ بارات میں بھی صرف محترم چوہدری شاہ نواز صاحب اور اُن کے چند ساتھی تھے۔ جب مہارجہ جے پور کو اس شادی کا علم ہوا تو اُنہوں نے شکایتاً کہا ’’نواب صاحب آپ نے بھی حد کر دی بیٹی کی شادی کر دی اور ہمیں اطلاع تک نہ دی‘‘ نواب صاحب نے اُنہیں بتایا کہ اگر میں اطلاع کرتا تو آپ اپنے رواج کے مطابق بہت دھوم دھام سے شرکت کرتے لیکن میں مذہباً اور طبیعتاً اِس کے خلاف ہوں۔

شادی کے بعد آپ چوہدری شاہ نواز صاحب کے ساتھ سیالکوٹ چلی گئیں جہاں چوہدری صاحب نے وکالت کا کام شروع کیا ہوا تھا۔ جب چوہدری صاحب نے آگرہ میں جنگی ضروریات کے پیش نظر ڈی ہائیڈریشن کی فیکٹری کھولی تو آپ بھی آگرہ منتقل ہو گئیں۔ بعد ازاں آ گرہ کے بعد چوہدری صاحب کے ساتھ آپ نے بھی دہلی میں رہائش اختیار کر لی۔ جہاں آپ کئی سال لجنہ کی صدر بھی رہیں۔ پارٹیشن کے بعد کچھ عرصہ لاہور میں قیام رہا جہاں چوہدری صاحب کی کچھ ایجنسیاں تھیں۔ اس کے بعد آپ مستقل طور پر کراچی شفٹ ہو گئیں۔ 1958ء میں آپ لجنہ کراچی کی صدر منتخب کی گئیں۔ آپ اس عہدہ پر 1969ء تک فائز رہیں، اُس کے بعد لندن میں رہائش اختیار کر لی لیکن 1974ء کے بعد آپ زیادہ تر وقت لندن میں گزارتیں اور پھر وہیں رہنا شروع کر دیا۔ 1980ء میں آپ لجنہ لندن کی صدر منتخب کی گئیں۔

محترمہ مجیدہ شاہنواز صاحبہ میں یہ بڑی خوبی تھی کہ انہوں نے صدر لجنہ کے عہدہ پر فائز ہونے کے باوجود انکساری، پیار محبت اور اخلاص سے ہر کام انجام دیا اور یہ اخلاق فاضلہ کی ایک بہترین مثال ہے اور اُن کے تمام کام سر انجام دینے میں محض رضائے الٰہی حاصل کرنا مقصود ہوتا تھا۔

اپنے بچوں کو دینی تعلیمات پر عمل کروانا اور ان کی اعلیٰ تر بیت کرنا تو وہ اپنے فرائض میں داخل سمجھتی تھیں۔ خود نماز روزہ اور پردہ کی پابند تھیں اور اپنے بچوں کو اپنے ساتھ جمعہ کی نماز کی ادائیگی کے لئے مسجد لاتیں۔ لندن میں مشہور تھا کہ وقار عمل کے دوران سب سے مشکل اور نا پسندیدہ کام صدر صاحبہ لجنہ اپنے ذمہ لیتی تھیں۔ نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد کوڑا کرکٹ جمع کرنے والا کالا بیگ لے کر خاموشی سے صفائی شروع کر دیتیں۔ لجنہ کی ممبرات نے کئی بار روکا لیکن وہ منع کر دیتیں اور کہتیں کہ مجھے میرا ثواب خود کمانے دو اور جب تک بیت الخلاء کی صفائی چیک نہ کر لیتیں گھر نہ جاتیں۔

آپ ہمیشہ نرم لہجے میں بات کرتیں۔ بہت کم گو تھیں اور ہمیشہ اپنی نگاہ نیچے رکھتیں لیکن آپ کے چہرے پر ایک خاص رعب بھی تھا۔ جہاں جاتیں لوگوں پر اچھا اثر ڈالتیں۔ اگرچہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو مالی لحاظ سے بھی بہت وسعتیں اور برکتیں عطا کی ہوئی تھیں اس کے باوجود آپ انتہائی قناعت پسند تھیں۔

جب 1984ء حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ ہجرت کے بعد لندن تشریف لائے تو اس وقت آپ صدر لجنہ تھیں۔ اس طرح آپ کو حضرت صاحبؒ کے بہت قریب کام کرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ اسی دوران آپ نے کار ڈرائیوینگ سیکھنے کا ارادہ کر لیا۔ اگرچہ اس سے پہلے آپ نے کبھی ڈرائیونگ کی ضرورت محسوس نہیں کی تھی کیونکہ گھر میں ہمیشہ ڈرائیور موجود ہوتا تھا اگرچہ لندن میں ڈرائیوینگ کا ٹیسٹ ایک مشکل امر ہے لیکن آپ نے کچھ ٹریننگ لے کر یہ ٹیسٹ بآسانی پاس کر لیا۔ آپ کی عمر اُس وقت 65 سال سے زائد کی تھی۔ بعد ازاں آپ کئی سال خود ڈرائیونگ کرتی رہیں۔

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ آپ کے کام کی بہت قدر کرتے تھے۔ ہر سال جلسہ سالانہ یوکے کے مصروف ترین دنوں میں بھی وقت نکال کر آپ کے گھر دوپہر کے کھانے پر تشریف لے جاتے۔ تحفے تحائف سے نوازتے۔ جب محترم چوہدری صاحبہ کی صحت کمزور ہونے لگی تو آپ نے حضرت صاحب سے اجازت لے کر لجنہ کی صدارت سے علیحدگی اختیار کر لی۔ اس مو قعہ پر لجنہ لندن نے ایک سپاسنامہ جو نظم کی شکل میں تھا اور جس میں آپ کی بہت تعریف کی گئی تھی اور جدائی کے غم کا اظہار کیا گیا تھا فریم کروا کر آپ کی خدمت میں پیش کیا جو کسی نے آپ کےگھر کی دیوار پر لگا دیا۔ آپ کی طبیعت میں چونکہ انکساری کا پہلو بہت نمایاں تھا اس لئے آپ نے کچھ عرصہ بعد اُسے اتار دیا۔

مندرجہ ذیل نظم جو بر موقع عشائیہ بیگم مجیدہ شاہنواز صاحبہ کو منعقدہ 30؍نومبر 1985ء کو محمود ہال (فضل مسجد لندن) میں پڑھ کر سنائی گئی قارئین کی دلچسپی کے لئے پیشِ خدمت ہے۔

؎الوداع بیگم مجیدہ چوہدری شاہِنواز
کیا ہی اچھی صدر ہیں پیاری مجیدہ شاہنوا ز
الوداع کہنے کو حاضر ہو گئی ہیں آج ہم
ہو رہے ہیں آپ کی فرقت کے غم سے دل گداز
بہتریں اوصاف کی حامِل شفیق و مہرباں
خلق کی خدمت میں یکتا اور بڑی مہماں نواز
سلسلہ کی خادمہ اور خلافت پر نثار
جیسے کہتے ہیں کہ تھے الفت میں محمود و ایاز
تھا تعاون آپ سے اور قدر دل میں سب کے ہے
اے خواہر! ہے کہاں تیری مروّت کا جواز
آپ کا دورِ صدارت اِک سنہری باب ہے
عاجزی و انکساری نہ کسی پر امتیاز
جا رہی ہیں چھوڑ کر مجبوریاں آپ کی
خدمتِ دیں کی ملے توفیق ہو عمرِ دراز
والدیں کی نیک تربیت سے پائیں رفعتیں
تھے بہت وہ محترم متقی و پاک باز
اجر اللہ نے دیا ان کو نوازا شاہ سے
کتنی خوش قسمت بنیں آپامجیدہ شاہنواز
سچی محنت کو کبھی ضائع وہ کرتا ہی نہیں
جس نے کی بے لوث خدمت ہو گیا وہ سر فراز
فضل سے اپنے خدا نے کی ہماری رہبری
چن لیا جو ناصرہ کو بہترین و چارہ ساز
مرحبا اے آنے والی ناصرہ بیگم رشید
بَارَک اللّٰہ لَکِ اے صدر لجنہ دلنواز
الودع اے جانے والی صدر لجنہ الوداع
الوداع اے چوہدری بیگم مجیدہ شاہنواز
ہے دعا یہ ناصرہ ؔ کی آپ سب آ مین کہیں
اے خدا ہم کو پڑھا اپنی محبت کی نماز

(ناصرہ ندیم۔ سیکرٹری تربیت لجنہ اماء اللہ یوکے)

اپنے الوداعی ایڈریس میں ممبرات لجنہ اماءاللہ لندن مکرمہ محترمہ بیگم مجیدہ شاہنواز صاحبہ کی گراں قدر خدمات اور اُن کے اوصاف حمیدہ بیان کرتے ہوئے فر ماتی ہیں کہ آج کی تقریب ہماری لندن کی لجنہ کے لئے خصوصی طور پر ایک تاریخی نو عیت بلکہ ایک خاص اہمیت کا رنگ اپنے اندر رکھتی ہے۔ اس موقع پر جس رنگ کے جذبات آج ہمارے قلوب میں پیدا ہیں اُن کا اظہار کوئی آسان کام نہیں۔ بطور صدر لجنہ لندن آپ نے گزشتہ 4 سال کا عرصہ جس خوبی اور تندہی سے اور جس مخلصانہ اور والہانہ رنگ میں گزارا اور لجنہ کی ہر قسم کی تنظیمی اور سوشل ذمہ داریوں کو جس عمدگی کے ساتھ آپ نے نبھایا وہ اپنی نظیر آپ ہیں۔

آپ محترمہ موصوفہ کے بعض اوصاف کی طرف اختصار کے ساتھ اشارہ کرتے ہوئے بیان کرتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے موصوفہ کو اپنے فضل و کرم سے آ سودہ حالی کی نعمت سے وافر رنگ میں نوازا ہے اور اس پر مزید یہ کہ آپ کو نہایت حلیم طبیعت اور انکساری کی دولت سے بھی آراستہ کیا ہے اور پھر ان صفات کے ساتھ آپ کا بے لوث خدمت دین اور خدمت خلق کا جذبہ آپ کے وجود میں گویا ایسے طور پر یک جان ہیں کہ ان کو الگ کرنا ایک لا محال سا تصور ہے۔ بلکہ بعض دفعہ تو حیرانی ہوتی ہے کہ ایسی نازو نعمت میں پلا ہوا انسان اور ایسے آرام و آسائش کے سامانوں سے گھرا ہوا وجود کس سادگی، بردباری اور وارفتگی سے خدمت خلق کے جذبہ کو اپنی زندگی کا جزو بنائے ہوئے ہے کہ عام حالات میں اس کی مثال کم ہی نظر آتی ہے۔ مثلاً نماز کے بعد صفوں کو لپیٹنا، ہال کی صفائی، بیت الخلاء کی صفائی کو چیک کرنا اور اگر کہیں کمی ہے تو خود اس کمی کو پورا کرنا، اور اسی طرح کے کئی اور کام جن کے کرنے سے ہماری ممبرات اکثر اوقات کتراتی ہیں، ہم نے خود کئی بار آپ جیسی قابل احترام وجود کو اپنے ہاتھوں سے ایسے کام سر انجام دیتے دیکھا ہے اور یہ جذبہ بھی آپ کے اوصاف حسنہ اور اخلاق فاصلہ کا ایک حصہ ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے محترمہ موصوفہ کو مختلف رنگوں میں اپنے فضلوں سے خدمت دین سے بھی وافر حصہ عطا فرمایا اور آپ اپنی زندگی میں جہاں بھی قیام فرما رہیں آپ کی گراں قدر خدمات ہمیشہ جماعت کے لئے وقف رہیں۔ چنانچہ کراچی میں 25 سال صدر لجنہ کی حیثیت سے آپ نے نہایت احسن طریق سے کام کیا اور اسی طرح صدر لجنہ لندن کی حیثیت سے جو عرصہ ہم سب کے ساتھ گزارا وہ بھی ہم بہنوں کے لئے رہنمائی کا موجب رہے گا۔ گو اللہ تعالیٰ نے انہیں برتری اور عزت بھی عطا کی لیکن ہم نے بھی کبھی آپ میں خود پسندیدگی کے جذبات نہیں دیکھے بلکہ آپ کا طرز عمل سب بہنوں سے نہایت شفقت اور محبت کے رنگ میں قائم رہا۔ آپ کی اس نیک فطرت کو دیکھتے ہوئے ہم آپ کے ان بزرگوں کے مرحوم منت ہیں جن کے زیر سایہ آپ کی قابل قدر والدہ محترمہ اور آپ کے قابل احترام والد محترم نواب محمد دین صاحب خاص طور پر قابل ذکر ہیں جن کی آپ مایہ ناز بیٹی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان بزرگوں کو غریق رحمت کرے اور انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فر مائے۔ آمین

میرا تعلق بیگم مجیدہ شاہنواز صاحبہ سے اُن کے صدر لجنہ منتخب ہونے سے پہلے سے تھا۔ اس کی داستاں بھی عجیب اور دلچسپ ہے۔ عموماً دیکھا گیا ہے کہ ماں باپ کے ذریعہ بچوں کا تعارف ہوتا ہے لیکن اس داستان میں معاملہ الٹ ہے۔ ہوا یوں کہ جلسہ سالانہ برطانیہ کے دوران آپ کی نواسی سعدیہ شاہنواز اور میری بیٹی شاہینہ کی آپس میں دوستی ہو گئی۔ جلسہ سالانہ کے کچھ روز بعد جب ہم حضورؒ سے ملاقات کے لئے گئے تو سعدیہ بھی اپنی نانی بیگم مجیدہ شاہنواز صاحبہ، اپنی امی اور خالہ کے ساتھ حضورؒ کی ملاقات کے لئے موجود تھیں۔ انتظار کے چھوٹے سے کمرے میں سعدیہ نے میرا اور میری بیٹی نیناں کا تعارف اپنی نانی سے کروایا۔ کچھ دیر گفتگو کے بعد انہوں نے فوراً ہی مجھے اور میری دونوں بیٹیوں کو اپنے گھر بلانے کی دعوت دی اور ایک کاغذ پر اپنا ایڈریس اور فون نمبر بھی لکھ کر دیا اور مجھے بھی نہایت انکساری اور دھیمے لہجے میں کہا کہ ’’آپ بھی مجھے اپنا ایڈریس اور فون نمبر دیدیں‘‘ اور یہ بھی کہا کہ وقت نکال کر ضرور آنا۔ دو دن بعد موصوفہ نے خود مجھے فون کیا اور کہا کہ میں نے چند معزز خواتین کو جمعہ کی نماز کے بعد چائے پر بلایا ہے۔ آپ بھی ضرور آئیں۔ میں ڈرائیور بھیج دوں گی۔ چنانچہ انہوں نے ڈرائیور بھیج دیا اور ہم تینوں ماں بیٹیاں مجیدہ شاہنواز صاحبہ کی دعوت پر ان کی کوٹھی پر پہنچے۔ انہوں نے نہایت ہی پیار و محبت اور اخلاص سے ہمارا استقبال کیا اور دوسرے مہمانوں سے ہمارا تعارف کروایا کہ یہ ہماری نیشنل لجنہ کی سیکرٹری مال ہیں۔ میں دل ہی دل میں بہت شرمندہ ہو رہی تھی اور سوچ رہی تھی کہ ’’ثریا تو کہاں اور تیری اوقات کیا؟‘‘ اس پر طرہّ یہ کہ واپسی میں آپ خود اور آپ کی نواسی سعدیہ اپنی بڑی گاڑی میں ہمیں گھر چھوڑنے آئے۔ میں نے اندر آنے کی دعوت دی تو کہنے لگیں آج نہیں پھر کبھی ان شاء اللّٰہ

بعد ازاں ایک دو بار میں خود سعدیہ کو جمعہ کی نماز کے بعد فضل مسجد سے اپنے گھر لے آئی کہ وہ میری بیٹیوں سے ملنا چاہتی تھی اور پھر بیگم شاہنواز صاحبہ ڈرائیور کے ساتھ اس کو لینے آ جاتیں۔ ایک دفعہ میری گاڑی خراب تھی تو میں پیدل ہی جمعہ کی نماز کے لئے مسجد چلی گئی۔ واپسی میں بیگم صاحبہ اور ان کی لاڈلی نواسی سعدیہ اپنی گاڑی میں مجھے گھر چھوڑنے آئیں۔ اس بار جب میں نے گھر کے اندر آنے کی اُنہیں دعوت دی اور کہا کہ بیٹیاں بھی گھر آ گئی ہوں گی تو وہ دونوں گاڑی سے اتر آئیں۔ بہر حال لڑکیاں تو آپس میں الگ کمرے میں باتیں کرنے لگیں اور محترمہ بیگم صاحبہ میرے ساتھ ہی کچن میں بیٹھ گئیں۔ مجھے منع کر دیا کہ میں چائے وغیرہ کا اہتمام نہ کروں۔ آؤ! باتیں کرتے ہیں۔ میرے پوچھنے پر انہوں نے مجھے خود سے اپنے لڑکپن اور شادی کے حالات سنائے۔ بار بار کہتیں کہ آپ بور تو نہیں ہو رہیں۔ سچ پوچھیں تو مجھے اُن کی زبانی اُن کے حالات سُن کر جو لطف آرہا تھا بیان سے باہر ہے۔ میں دل ہی دل میں شرم سے پانی پانی ہو رہی تھی کہ میرے چھوٹے سے گھر میں اتنی معزز ہستی تشریف فرما ہیں لیکن اُن کی طرف سے نہایت ہی محبت خلوص اور انکساری کا اظہار تھا۔

صدر لجنہ منتخب ہونے کے بعد کچھ عرصہ مجھے اُن کے ساتھ سیکرٹری مال لندن کی حیثیت سے خدمت کی توفیق ملی۔ جس کی بدولت ہماری بے تکلفی میں مزید اضافہ ہوا۔

جب 1984ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ ہجرت کر کے انگلستان تشریف لائے ان دنوں آپ صدر لجنہ تھیں۔ ایک بار میں نے اپنے گھر میں کچھ ممبرات لجنہ کی ممبرات اور اپنی دوستوں کو BBQ میں مدعو کیا جس میں بیگم شاہنواز صاحبہ اور اُن کی دونوں بیٹیاں محترمہ امۃ الباری صاحبہ اور محترمہ امۃ الحئ صاحبہ اور سعدیہ بھی مدعو تھیں۔ آپ سب لوگ بڑی محبت اور اخلاص سے شامل ہوئے اور موسمی آموں کی ٹوکری بھی ساتھ لائے۔

آپ کی وفات کے بعد جب یہ خاکسار محترمہ ناصرہ رشید صاحبہ کے ساتھ مل کر تاریخ لجنہ اماءاللہ برطانیہ لکھ رہی تھی تو میں نے محترمہ مجیدہ بیگم شاہنواز کی دونوں بیٹیوں سے دوبارہ ملاقات کی کہ وہ مزید اپنی امی کے حالاتِ زندگی پر روشنی ڈالیں تا میں اُس عظیم شخصیت کے زیادہ سے زیادہ حالات قارئین کے زیر نظر کر سکوں اور تا یہ حالات تاریخ لجنہ اماءاللہ برطانیہ کے اوراق کی زینت بن کر محفوظ ہوں اور ممبرات لجنہ کے لئے رہنمائی کا باعث بنیں۔

لندن کی ایک بہن محترمہ صفیہ سامی صاحبہ لکھتی ہیں کہ یوں تو میں محترمہ بیگم مجیدہ شاہنواز صاحبہ کو ذاتی طور پر نہیں جانتی اور نہ ہی مجھے اُن کے متعلق کوئی خاص معلومات ہیں کیونکہ اُن دنوں ہم ایسٹ لندن میں رہائش پزیر تھے، بچے بھی چھوٹے چھوٹے تھے بس عیدیں، اجتماعات یا کوئی خاص پروگرام ہو تو مسجد فضل جانا ہوتا تھا۔ لیکن کچھ واقعات ایسے ہوتے ہیں جو دل میں جگہ بنا لیتے ہیں جن کوہم زندگی بھر بھول نہیں پاتے۔ ایسے ہی ایک واقعے نے میرے دل میں محترمہ مجیدہ شاہنواز صاحبہ صدر لجنہ لندن کی قدرو قیمت جمادی۔ بس اتنا ہی یاد ہے کہ جب بھی انہیں دیکھا عموماً ٹائلٹس کی صفائی کرتے دیکھا اصل میں جو لوگ نئے نئے اس ملک میں آئے تھے بوجہ لا علمی بچوں کے گندے پیمپرز کو ڈسپوز آف کرنے کے طریق سے نا واقف تھے اس لئے یا تو پیمپر کو زمین پر رکھ دیتے یا پھر ٹوائلٹ میں Flush کر دیتے جس سے ٹوائلٹ Block ہو جاتا۔ میں نے بیگم شاہنواز صاحبہ صدر لجنہ کو دیکھا کہ وہ خود سے پیمپر کو ٹوائلٹ سے نکال کر نہایت دھیمے لہجے میں مستورات کو سمجھا رہیں تھیں کہ اگر پیمپرکو مہیا کردہ پلاسٹک کے بیگ میں ڈال کر Bin میں ڈالا جائے تو بہتر ہوگا۔ میں اُن کی ان گراں قدر ہدایات سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکی۔ تب سے ہمیشہ میرے دل میں اُن کی قدر رہی ہے کہ بحیثیت ایک صدر کے ایسے کام کر رہی ہیں جس سے عام ممبر ز کتراتی ہیں۔ ان میں کس قدر انکساری اور عاجزانہ پن ہے۔ اللہ پاک سے دعا ہے کے اللہ اُن کے درجات بلند فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فر مائے۔ آمین

مرحومہ ایک نہایت نیک دل، وفا اور قربانی کا پیکر، منکسر المزاج، انتہائی ہمدرد، بہت مخیر اور مجسم عجز خاتون تھیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے 26؍نومبر 2004ء کو خطبہ ثانیہ میں آپ کا ذکر قابل رشک الفاظ میں فرمایا:
’’آپ نواب محمد دین صاحب، جنہوں نے ربوہ کے لئے زمین کے حصول اور قیام میں بنیادی کردار ادا کیا تھا کی صاحبزادی تھیں۔ محترمہ مجیدہ شاہنواز صاحبہ مالی قربانیوں میں ہمیشہ صف اوّل میں رہیں۔ آپ نے لاہور، کراچی اور لندن میں صدر لجنہ اماءاللہ کے طور پر نمایاں خدمت کی توفیق پائی۔ آپ اللہ تعالیٰ کے فضل سے 3/1 حصہ کی موصیہ تھیں اور اپنی زندگی میں ہی تمام حصّہ وصیت جائیداد وغیرہ ادا کر دیا ہوا تھا اور اس کے علاوہ بھی خلفاء کی طرف سے کی جانے والی متفرق مالی قربانیوں میں ہمیشہ بڑھ چڑھ کر حصّہ لیا۔ حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ کے دور میں آپ کے خاوند چوہدری شاہنواز صاحب ذہین طلباء کی پڑھائی کے لئے ایک بڑی رقم پیش کرتے رہے۔ اپنے شوہر کی وفات کے بعد بھی نہ صرف آپ نے اس کارِ خیر کو جاری رکھا بلکہ اس رقم میں اضافہ بھی فرمایا۔ جس سے یورپ، امریکہ اور دنیا کے کئی دیگر ممالک کے سکولوں کو گرانٹ بھی دی جاتی تھی۔ اللہ تعالیٰ ان کا یہ صدقہ ہمیشہ جاری رکھے اور یہ صدقہ ان کے درجات کی بلندی کا موجب بنتا رہے۔ آمین۔ آپ غریبوں سے بے انتہا ہمدردی کرنے والی اور غیر محسوس طریقے پر مدد کرنے والی تھیں۔ اپنے عزیزوں، رشتہ داروں میں ہر دلعزیز تھیں۔

خلافت احمدیہ سے ایک خاص بے حد پیار، اخلاص اور وفا کا تعلق تھا اسی طرح خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بھی بہت محبت کرنے والی تھیں ہر چھوٹے بڑے کا بے حد احترام کرنے والی تھیں۔ مالی وسعت نے اُنہیں صدقہ و خیرات اور جماعت کی خاطر قربانیوں میں اور بڑھا یا۔ اللہ تعالیٰ اُن کی اولاد اور نسلوں کو بھی انہیں کی طرح قربانیوں میں صفِ اوّل میں شامل رہنے کی توفیق دیتا چلا جائے اور اُن کی تمام نیکیوں کو ہمیشہ قائم رکھنے کی توفیق عطا فر مائے۔ آمین

آپ کے پسماندگان میں آپ کے دو بیٹے چوہدری منیر نواب صاحب اور چوہدری محمود نواب صاحب، دو بیٹیاں امة الباری صاحبہ اور امة الحئی صاحبہ اُن کی اولاد ہیں۔‘‘

آپ نے نومبر 2005ء میں 93 سال کی عمر میں وفات پائی۔ مولا کریم اُن کی اِن خدماتِ جلیلہ کو قبول فر مائے اور موصوفہ کو اعلیٰ علیین میں مقام عطا فر مائے۔ آمین ثم آمین

(سیّدہ ثریا صادق۔ لندن)

پچھلا پڑھیں

شادی پر مبارکباد کی دعا

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 10 فروری 2023