• 13 مئی, 2024

اَلْحَرْبُ خُدْعَۃٌ کی پُر معارف تشریح

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’یہ سوال بھی بعضوں نے اٹھایا کہ کیا جنگ میں جھوٹ بولنا اور دھوکا دینا جائز ہے؟ بعض روایتوں میں یہ مذکور ہوا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ اَلْحَرْبُ خُدْعَۃٌ یعنی جنگ توایک دھوکا ہے اوراس سے نتیجہ یہ نکالاجاتا ہے کہ نعوذباللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے جنگ میں دھوکے کی اجازت تھی۔ حالانکہ اول تو اَلْحَرْبُ خُدْعَۃٌ کے یہ معنے نہیں ہیں کہ جنگ میں دھوکا کرنا جائز ہے بلکہ اس کے معنے صرف یہ ہیں کہ جنگ خود ایک دھوکا ہے۔ یعنی جنگ کے نتیجے کے متعلق کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ کیا ہو گا۔ یعنی جنگ کے نتیجے پر اتنی مختلف باتیں اثرڈالتی ہیں کہ خواہ کیسے ہی حالات ہوں نہیں کہا جا سکتا کہ نتیجہ کیا ہو گا اور ان معنوں کی تصدیق اس بات سے ہوتی ہے کہ حدیث میں یہ روایت دو طرح سے مروی ہے۔ ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اَلْحَرْبُ خُدْعَۃٌ یعنی جنگ ایک دھوکا ہے۔ اوردوسری روایت میں یہ ہے کہ سَمَّی الْحَرْبَ خُدْعَۃً یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ کانام دھوکا رکھا تھا۔ سَمَّی الْحَرْبَ خُدْعَۃً۔ اور دونوں کے ملانے سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ آپؐ کامنشا یہ نہیں تھا کہ جنگ میں دھوکا کرنا جائز ہے بلکہ یہ تھا کہ جنگ خود ایک دھوکا دینے والی چیز ہے لیکن اگر ضرور اس کے یہی معنے کیے جائیں کہ جنگ میں دھوکا جائز ہے توپھر بھی یقیناً اس جگہ دھوکے سے جنگی تدبیر اورحیلہ مراد ہے۔ جھوٹ اورفریب ہرگز مراد نہیں ہے کیونکہ اس جگہ خُدْعَةٌ کے معنے داؤ پیچ اور تدبیرِ جنگ کے ہیں، جھوٹ اور فریب کے نہیں ہیں۔ پس مطلب یہ ہے کہ جنگ میں اپنے دشمن کو کسی حیلے اور تدبیر سے غافل کرکے قابو میں لے آنا یا مغلوب کر لینا منع نہیں ہے۔

اب داؤ پیچ کی بھی مختلف صورتیں ہوسکتی ہیں۔ مثلاً صحیح روایات سے یہ ثابت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی مہم میں نکلتے تو عموماً اپنا منزلِ مقصود ظاہر نہیں فرماتے تھے اوربعض اوقات ایسا بھی کرتے تھے کہ جانا تو جنوب کی طرف ہوتا تھا مگر شروع شروع میں شمال کی طرف رخ کر کے روانہ ہوجاتے تھے اورپھر چکر کاٹ کر جنوب کی طرف گھوم جاتے تھے یا کبھی کوئی شخص پوچھتا تھا کہ کدھر سے آئے ہو توبجائے مدینے کا نام لینے کے قریب یا دور کے پڑاؤ کانام لے دیتے تھے یا اسی قسم کی کوئی اور جائز جنگی تدبیر اختیار فرماتے تھے یا جیسا کہ قرآن شریف میں اشارہ کیا گیا ہے کہ صحابہؓ بعض اوقات ایسا کرتے تھے کہ دشمن کو غافل کرنے کے لئے میدانِ جنگ سے پیچھے ہٹنا شروع کردیتے تھے اورجب دشمن غافل ہوجاتا تھا اور اس کی صفوں میں ابتری پیدا ہوجاتی تھی تو پھر اچانک حملہ کردیتے تھے اور یہ ساری صورتیں اس خُدْعَةٌ کی ہیں جسے حالاتِ جنگ میں جائز قرار دیا گیا ہے اور اب بھی جائز سمجھا جاتا ہے لیکن یہ کہ جھوٹ اور غداری وغیرہ سے کام لیا جاوے اس سے اسلام نہایت سختی کے ساتھ منع کرتا ہے۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم عموماً فرمایا کرتے تھے کہ اسلام میں خدا کے ساتھ شرک کرنے اوروالدین کے حقوق تلف کرنے کے بعد تیسرے نمبر پر جھوٹ بولنے کا گناہ سب سے بڑا ہے۔ نیز فرماتے تھے کہ ایمان اوربزدلی ایک جگہ جمع ہو سکتے ہیں مگر ایمان اورجھوٹ کبھی ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتے اور دھوکے اورغداری کے متعلق فرماتے تھے کہ جو شخص غداری کرتا ہے وہ قیامت کے دن خدا کے سخت عتاب کے نیچے ہو گا۔ الغرض جنگ میں جس قسم کے خُدْعَةٌ کی اجازت دی گئی ہے وہ حقیقی دھوکا یا جھوٹ نہیں ہے بلکہ اس سے وہ جنگی تدابیر مراد ہیں جوجنگ میں دشمن کو غافل کرنے یا اسے مغلوب کرنے کے لئے اختیار کی جاتی ہیں اور جو بعض صورتوں میں ظاہری طورپر جھوٹ اور دھوکے کے مشابہ توسمجھی جاسکتی ہیں مگروہ حقیقتاً جھوٹ نہیں ہوتیں۔ چنانچہ حضرت مرزا بشیر احمد ؓ لکھتے ہیں کہ ہمارے خیال میں مندرجہ ذیل حدیث اس کی مصدِّق ہے۔اور وہ حدیث یہ ہے کہ

ام کلثوم بنت عُقبہ روایت کرتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو صرف تین موقعوں کے لئے ایسی باتوں کی اجازت دیتے سنا جو حقیقتاً توجھوٹ نہیں ہوتیں مگر عام لوگ انہیں غلطی سے جھوٹ سمجھ سکتے ہیں۔ پہلی یہ کہ جنگ۔ دوم یہ کہ لڑے ہوئے لوگوں کے درمیان صلح کرانے کا موقع اور سوم جبکہ مرد اپنی عورت سے یا عورت اپنے مرد سے کوئی ایسی بات کرے جس میں ایک دوسرے کو راضی اورخوش کرنا مقصود ہو۔ نیک نیت، ہر صورت میں نیت نیک ہونی چاہیے یا نیک مقاصد حاصل ہونے چاہئیں۔‘‘

(خطبہ جمعہ مورخہ 7فروری 2020ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 9 مارچ 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 10 مارچ 2020