• 15 مئی, 2024

قرآن حکیم اور قوت ثقل

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔
’’کوئی نئی تحقیقات یا علمی ترقی نہیں جو قرآن شریف کو مغلوب کر سکے اور کوئی صداقت نہیں کہ اب پیدا ہو گئی ہو اور وہ قرآن شریف میں پہلے سے موجود نہ ہو‘‘۔

(ملفوظات جلد پنجم صفحہ652)

سائنس کی دنیا میں کشش ثقل Gravitation Force کا نظریہ نیوٹن نے پیش کیا نیوٹن کا زمانہ 1642ء- 1772ء کا ہے۔وہ تاریخ کےاعلیٰ ترین سائنسدانوں میں شمار ہوتا ہے۔

دراصل سائنس میں تدریجی ترقی ہوئی ہے۔ اگرچہ زمین کے اپنے محور کے گرد اور تمام سیاروں کو ہمارے نظام شمسی میں سورج کے گرد گھومنے کا تصور ایک مسلمان سائنسدان ابو سعید احمد بن محمد بن عبد الجلیل سجستانی (951ء تا 1024ء) پیش کرچکا تھا لیکن بطلیموس Ptolemy 90ء تا 168ء کی کتاب المجسطی Almagest کے غیر معمولی اثر کی وجہ سے یہ نظریہ ایک لمبا عرصہ نظروں سے اوجھل رہا اور لوگ زمین کو بدستور ساکن مانتے چلے گئے اور سورج اور باقی سیاروں کے زمین کے گرد گھومنے کے تصور پر قائم رہے حتیٰ کہ نیکولیس کوپر نیکس Nicklaus Copernicus نے زمین سمیت تمام سیاروں کے سورج کے گرد گھومنے کے تصور کو اُجاگر کیا اور وہی اس نظریے کا بانی سمجھا جاتا ہے۔

اس نظریے کی تصدیق (Galileo (1564ء-1642ء) کی دور بین کی ایجاد سے ہو گئی اس کے بعد (Johannes Kepler (1571 _ 1630 نے یہ نظریہ پیش کیا کہ سورج باقی سیاروں پراپناقوی اثرڈال رہا ہے اور اس کےخیالوں میں مقناطیس قسم کی کوئی قوت سورج اور باقی سیاروں کے درمیان کار فرماہے اس کے پچاس سال بعد نیوٹن نے Universal Law of Gravitational Force پیش کیا اور ثابت ہوگیا کہ کیپلر کا اصول کشش کا قدرتی نتیجہ تھا۔

لکھا ہے۔ ترجمہ: زمین پر سیب گرنے کے واقعہ پر غور کرتے ہوئے سر آئزک نیوٹن (1643ء 1727ء) نے اپنی تین جلدوں پر مشتمل ضخیم کتاب اصول میں کشش ثقل کی حیرت انگیز قوت کا باضابطہ اعلان کیا اور اس قوت کے بارے میں ہر قسم کے ذہن میں اُبھرنے والے سوالات کے جواب دیئے۔

(Astronomy Manual by Jame A Green _Haynes publishers p:13)

اَللّٰہُ الَّذِی رَفَعَ السَّمَوَ اتِ بِغَیْرٍ عَمَدٍ تَرَونَہَا

ترجمہ: اللہ وہ ہے جس نے آسمانوں کو بغیر ایسے ستونوں کے بلند کیا جنہیں تم دیکھ سکو۔

(الرعد:3)

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ اس سورۃ کے تعارفی نوٹ میں فرماتے ہیں۔
’’کائنات کے رازوں میں سےسب سے بنیادی بات جو یہاں پیش کی گئی ہے وہ کشش ثقل Gravity کی حقیقت ہے۔ فرمایا کہ زمین اور آسمان از خود اتفاقاً اپنے مدار پر قائم نہیں بلکہ تمام اجرام فلکی کے درمیان ایک ایسی قوت کام کر رہی ہے جسے آنکھوں سے دیکھ نہیں سکتےاس قوت کے نتیجہ میں اپنے مدار پر قائم سارے اجرام فلکی گویا ستون پر اٹھائے ہوئے ہیں علم فلکیات کے ماہرین کشش ثقل کی یہی تعبیر کرتے ہیں۔‘‘

’’ایک دفعہ پھر اس امر پر زور دیا کہ اللہ تعالیٰ کی بہت سی طاقتیں ہیں جن کو تم اپنی آنکھوں سے دیکھ نہیں سکتے جیسا کہ کشش ثقل کو بھی نہیں دیکھ سکتے تو پھر ننگی آنکھوں سے ان طاقتوں کے پیدا کرنے والے کو کیسے دیکھ سکو گے۔‘‘


پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 9 مارچ 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 10 مارچ 2020