تبلیغ میں پریس اور میڈیا سے کس طرح کام لیا جاسکتا ہے
ذاتی تجربات کی روشنی میں (قسط 26)
15 اپریل 2006ء کو وکٹر وِل کے پولیس ڈیپارٹمنٹ کے کیپٹن راڈنی کی طرف سے ایک خط بذریعہ ای میل خاکسار کو موصول ہوا۔ مناسب ہو گا اس خط کو بھی یہاں درج کر دیا جائے۔ انہوں نے خاکسار کو مخاطب کر کے لکھا۔
Imam Shamshad,
Thank you for the detailed document concerning your faith and perceptions (or maybe misperceptions might be more appropriate) of your faith .
I think it is worthy to note that you have to spent a lot of time correcting public opinion. For too often attention is given to the redical few rather than the peace-loving majority. As in police work, 90% of our work is caused by 10% of the people. From your report on your faith, 90% of the media is focused on the actions of a very small majority. It is unfortunate to say the least.
Again I want to thank you for sending me this report. I was fascinated reading it and will retian it for future refrence. Please call if I can be of any assistance to you.
Rod
Captain Rodney G. Jones
امام شمشاد!
آپ نے اپنے عقیدہ اور مذہب کے بارہ میں ہمیں تفصیلاً مواد مہیا کیا جس پر آپ کا بہت شکریہ۔
میرے خیال میں یہاں یہ بات توجہ کے لائق ہے کہ آپ نے عوام الناس کی رائے اور خیالات کو صحیح کرنے کے ئے اور ان کے علم کے لئے بہت سا وقت لگایا ہے۔ عام طور پر لوگ ان خیالات سے متاثر ہو جاتے ہیں جو متشدد قسم کے چند لوگوں کی طرف سے ہوتا ہے اور جو صحیح اور امن کے قیام والے مسلمان ہیں ان کی طرف توجہ نہیں ہوتی۔ جس طرح ہمارے پولیس کے محکمہ میں ہے کہ ہمارا نوے فی صد کام 10 فی صد لوگوں کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اور پریس اور میڈیا بھی 90 فی صد اپنے کام کو ایک بہت کم والے حصہ پر فوکس کرتا اور توجہ دیتا ہے۔ یہ بدقسمتی ہے جس کا اظہار کیا گیا ہے۔
ایک بار پھر میں اس مواد کو بھیجنے کے لئے آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں میں اس کو خود بھی پڑھنے کا شوق رکھتا ہوں اور اسے مستقبل کے کے لئے بھی محفوظ رکھوں گا۔ مجھے آپ ہر وقت اپنی مدد اور تعاون کے لئے پائیں گے۔ کال کر سکتے ہیں۔
راڈ ۔ کیپٹن راڈنی جی۔ جانس
انڈیا پوسٹ نے اپنی اشاعت 21 اپریل 2006ء میں ’’فلاسفی‘‘ عنوان کے تحت خاکسار کا وہی مضمون جو ڈیلی پریس میں اسلام کے بنیادی عقائد کے بارے میں شائع ہوا تھا، نے بھی اس عنوان سے شائع کیا۔
What is Islam
اخبار نے مضمون کے ایک حصہ کو خاص طور پر ہائی لائٹ کیا جو یہ تھا۔
’’مسلمان تو وہ ہے جو محبت کرتا ہے۔ اور دوسروں کا خیال رکھتا ہے امن کو ترجیح دیتا اور مکمل طور پر خداتعالیٰ کے احکامات کو قبول کر کے اس پر عمل کرتا ہے اور آنحضرت ﷺ بانی اسلام کی تعلیم کے مطابق مسلمان وہ ہے جس کا عمل اور قول دوسروں کو تکلیف نہیں پہنچاتا۔‘‘ اس حصہ کو اخبار نے نمایاں کر کے جلی حروف میں شائع کیا۔ مضمون میں 6 بنیادی ارکان کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے اور اخبار کے نصف صفحہ پر شائع شدہ ہے۔
چینو چیمپئن نے اپنی اشاعت 15 اپریل 2006ء صفحہ B5 پر ’’مذہب‘‘ کے عنوان کے تحت ہمارے خدام الاحمدیہ کے اجتماع کے بارے میں یوں خبر دی ہے کہ:
مجلس خدام الاحمدیہ نے اپنا دوسرا سالانہ اجتماع گزشتہ ہفتے کیا جس میں 100 کی حاضری رہی۔ اس اجتماع میں لاس ویگاس، فی نکس، سان ڈیگو، طوسان اور لاس اینجلس سے نوجوان شامل ہوئے تھے۔ اس اجتماع میں علمی و ورزشی مقابلہ جات بھی ہوئے۔ امام شمشاد ناصر نے افتتاحی تقریر میں نوجوانوں کو ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی کہ وہ امن پیار محبت کےساتھ رہیں۔ اس اجتماع میں اردو انگریزی میں تقاریر اور نظموں کا مقابلہ بھی ہوا۔
پاکستان پوسٹ اردو اخبار نیویارک سے شائع ہوتا ہے اس کی 20 اپریل 2006ء کی اشاعت میں اسلامی صفحہ کے عنوان کےتحت خاکسار کا مضمون مع خاکسار کی تصویر کے قرآن کریم کے فضائل محاسن و برکات پر قسط شائع ہوئی ہے۔ اس مضمون میں زیادہ تر نماز کے بارے میں قرآن کریم کے احکامات بیان کئے گئے۔ جس میں نماز کی اہمیت، کیا نماز باجماعت پڑھنی چاہئے یا اکیلے، اس ضمن میں قرآن احادیث نبویہ سے استنباط و واقعات اور اقامت الصلوٰۃ کے معانی حضرت مصلح موعودؓ کی تفسیر کبیر سے بیان کئے گئے ہیں۔ مضمون کے آخر میں مسجد بیت الحمید کا نام ایڈریس اور پتہ درج ہے۔
انڈیا ویسٹ نے اپنی اشاعت 21 اپریل 2006ء صفحہ A6 پر خاکسار کا ایک بیان مضمون خط کی صورت میں شائع کیا ہے۔ (ایڈیٹر کے نام خطوط) کے تحت۔ جس کا عنوان یہ دیا گیا ہے۔
Muslims should Demonstrate True Islamic Values
یعنی مسلمان اپنے عمل سے مسلمان ہونے کا ثبوت دیں
خاکسار نے اس مضمون میں بتایا ہے کہ دنیا اس وقت ایک بحران سے گزر رہی ہے۔ جس کی وجہ مغربی ممالک میں آنحضرت ﷺ بانی اسلام کے خاکوں کی اشاعت ہے۔ مسلمان بھی اور وہ لوگ بھی جو مذہبی آزادی کے حامی ہیں اس بات پر ان کو بہت رنج پہنچا ہے۔ کچھ لوگوں نے پرامن مظاہرے کئے ہیں لیکن کچھ گروپس ایسے بھی ہیں جو اپنے غصہ پر کنٹرول نہیں کر سکے اور انہوں نے توڑ پھوڑ، گھیراؤ اور جلاؤ کا طریق اختیار کیا بلکہ ملکی جھنڈے جلانے کے علاوہ ایمبیسیز کو جلایا بھی ہے اور انہوں نے ڈنمارک کی اشیاء پر پابندی لگانے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔
ساری دنیا میں صرف احمدی ہی ہیں جو بانی اسلام آنحضرت ﷺ کے اعلیٰ و ارفع مقام کا اچھی طرح ادراک رکھتے ہیں۔ اور احمدیوں کا تو ماٹو ہی ’’محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں‘‘ ہے۔
مسلمانوں کو ان باتوں سے پہلے بھی نقصان ہوا ہے اور آئندہ بھی ہو گا اگر انہوں نے اپنے ردعمل کا جائز طریقوں سے اظہار نہ کیا۔ بہت سے سیاسی گروہ ایسے ہیں جو مسلمانوں کے خلاف برسرپیکار ہیں اور وہ ایسے مواقع کی تلاش میں رہتے ہیں کہ جب بھی کہیں کسی مسلمان سے غلط ردعمل کا اظہار ہوتا ہے تو وہ اسے لے کر خوب اچھالتے اور مسلمانوں پر دہشت گردی کا الزام لگا دیتے ہیں۔ وہ ظالم ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے آپ کو مظلوم ثابت کر دیتے ہیں۔
اس لئے مسلمانوں سے اپیل ہے کہ وہ جب کسی بات یا معاملہ پر ردعمل دینا چاہیں تو ان کا ردعمل اسلامی اقدار اور اسلامی تعلیمات کے مطابق ہونا چاہئے۔ مسلمان یہ بھی سمجھتے ہیں کہ پریس کی آزادی کا یہ بھی مطلب نہیں کہ ہر چیز بلا سوچے سمجھے شائع کی جائے کیا ایسی اشاعت کسی کی دل آزاری کا سبب تو نہیں ہو گی۔
مسلمانوں کو یہ بھی چاہئے کہ وہ اسلامی تعلیمات پر عمل کریں اور آنحضرت ﷺ کا اسوہ حسنہ اور روایات کو اپنائیں خصوصاً ایسے مواقع پر۔ آنحضرت ﷺ کو بھی اپنی زندگی میں بے شمار چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا لیکن آپ نے ہمیشہ پرامن راستہ اختیار فرمایا۔ مسلمان کو کبھی بھی غصہ کی حالت میں فیصلہ نہیں کرنا چاہئے اور جب وہ سوچ سمجھ کر فیصلہ کرے تو پھر اسے واپس لینے کی ضرورت نہ پڑے اور مسلمان وہ ہے جیسا کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ اس کی زبان اور ہاتھ سے کسی دوسرے کو نقصان اور دل آزاری نہ پہنچے۔ بائیکاٹ کرنا، یہ جلاؤ گھیراؤ کوئی مسئلہ کا حل نہیں ہے۔ اس کی بجائے وہ پریس میں ایڈیٹرز صاحبان کو خطوط لکھیں اور اسلامی تعلیمات بیان کریں۔ مسلمانوں کو اپنے اعمال بھی اسلامی تعلیمات کے ڈھانچے میں ڈالنے چاہئیں۔ انہیں اپنےا خلاق بلند کرنے ہوں گے۔ بجائے اس کے کہ جھنڈے جلائیں اور عمارتیں جلائیں انہیں چاہئے کہ اپنے دلوں میں انسانیت کی محبت کی آگ روشن کریں۔ مضمون کے آخر میں خاکسار کا نام اور چینو کیلیفورنیا لکھا ہوا ہے۔
انڈیا پوسٹ نے 21 اپریل 2006ء کی اشاعت صفحہ 18 پر ہماری نصف صفحہ سے زائد پر خبر شائع کی ہے یہ خبر خدام کے سالانہ اجتماع کی ہے جس کا عنوان ہے:
’’نوجوانوں کا سالانہ کنونشن (اجتماع)‘‘ اس خبر کے ساتھ 3 تصاویر بھی شائع ہوئی ہیں۔ ایک سب کی گروپ فوٹو ہے، دوسری تصویر میں سامعین اجتماع سن رہے ہیں، تیسری تصویر میں خاکسار ایک طفل کو پوڈیم سے انعام دینے کے بعد۔
خبر میں ایک بات (ہائی لائٹ) جلی حروف میں لکھی ہے کہ:
امام شمشاد نے خدام کے ساتھ ایک سیشن سوال و جواب کا 45 منٹ کا کیا جس میں جہاد کے بارے میں اور نماز اور دعا کے بارے میں آداب و تعلیم سکھائی گئی ہے۔ خبر میں لکھا گیا ہے کہ اپریل کےد وسرے ہفتہ میں لاس اینجلس کی مجلس نے دوسرا سالانہ ریجنل اجتماع منعقد کیا جس میں ریجن کے دیگر مجالس سے خدام و اطفال شریک ہوئے۔ جن کی تعداد100 کے قریب تھی۔ پہلے دن کے سیشن کی مکرم ڈاکٹر حمید الرحمن صاحب صدر جماعت لاس اینجلس نے صدارت کی۔ اس موقعہ پر امام شمشاد ناصر نے خدام و اطفال کو ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی کہ سوسائٹی میں ہمیں کس طرح رہنا چاہئے۔ انہیں چاہئے کہ وہ عمدہ اخلاق کا مظاہرہ کریں اور ہر کسی کےساتھ بلاامتیاز مذہب و ملت عزت و احترام کے ساتھ پیش آئیں۔ شام کی نماز کے بعد امام شمشاد نے نوجوانوں کے ساتھ سوال و جواب کئے۔ اتوار کےد ن صبح نماز تہجد ادا کی گئی اور نماز فجر کے بعد ورزشی مقابلہ جات میں نوجوانوں نے حصہ لیا۔ اجتماع کے آخری سیشن کی صدارت محمد احمد چوہدری نائب صدر مجلس خدام الاحمدیہ امریکہ نے کی۔ انہوں نے نوجوانوں کی ترقی کرنے کے گر بیان کئے۔ اجتماع خاموش دعا پر ختم ہوا جو امام شمشاد ناصر نے کرائی۔ خدام ایک نئی تازہ اور امنگ کے ساتھ واپس لوٹے۔ اس اجتماع میں امجد محمود خان ریجنل قائد خدام الاحمدیہ اور رانا ناصر انس چوہدری کی ٹیم نے مل کر انتظامات کئے۔
دی مسلم ورلڈ ٹوڈے اخبار نے اپنی 21 اپریل 2006ء صفحہ 15 اور بقیہ صفحہ 17 پر قریباً سوا صفحہ کا مضمون خاکسار کا جہاد کے بارے میں شائع کیا ہے۔
نوٹ: یہاں پر یہ لکھنا بھی مناسب ہو گا کہ امریکن عوام میں جہاد کے بارےمیں بہت سی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں اور اس کی وجہ مسلمانوں کے اس بارہ میں غلط عقائد اور تشریحات ہیں۔ خصوصاً 9/11 کے بعد تو امریکن عوام نے جہاد کے بارے میں بہت سوالات کئے۔ ہر جگہ جس شہر میں بھی خواہ سکول، کالج، یونیورسٹی یا کسی اور فورم پر کسی جلسہ اور اجتماع میں بات کرنے کا ہمیں موقع ملا ہر شخص کے منہ پر جہاد کا سوال آتا تھا۔ کہ کیا وجہ ہے کہ مسلمان جہاد کے نام پر لوگوں کو مارتے پھرتے ہیں۔ اور اس سلسلہ میں یہاں امریکن اب تک 9/11، ایران عراق جنگ، سیریا میں لبنان میں جو کچھ ہو رہا ہےا ورپاکستان میں خاص طور پر جو کچھ ہوا اور اب تک ہو رہا ہے اس پر سوالات اٹھتے ہیں کہ مسلمان مسلمان کو جہاد کے نام پر، اللہ اکبر کا نعرہ بلند کرتے اور ایک دوسرے کو قتل کرتے اور پھر ہر دو کو شہید کا درجہ بھی دیا جاتا ہے۔
مجھ نہیں یاد کہ اب تک کہیں بھی تبلیغ کے دوران کسی نے یہ سوال نہ کیا ہو۔ دو سوالات عموماً پوچھے جاتے ہیں ایک جہاد کے بارے میں اور مسلمانوں کے بارے میں ایک دوسرے کے قتل عام پر۔ دوسرے اسلام میں عورت کے مقام پر۔ اس کی وجہ افغانستان، سعودی عرب میں خصوصاً عورتوں کے سلوک کے بارے میں سوالات اٹھتے ہیں۔ اور افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ مسلمانوں کا یہ رویہ جہاد کی غلط تشریح اور پھر ان کا ایسا ردعمل۔ اِن سے اسلام کو سوائے بدنامی کے اور کچھ نہیں ملا۔ اور یہ ہماری اسلام کی صحیح تبلیغ میں ایک قسم کی رکاوٹ بھی ہے اور ہمیں تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اس لئے جماعت احمدیہ ہر محاذ پر خداتعالیٰ کے فضل سے اس کا مقابلہ کرتی، سوالوں کے جواب دیتی اور جہاد اور دیگر مسائل کے بارے میں غلط نظریات کی تردید کے علاوہ صحیح اسلامی تعلیمات کا پرچار کرتی ہے۔ الحمد للہ
وکٹروِل کا خاکسار ذکر کر چکا ہے کہ پولیس کے محکمہ اور پولیس کی ایک اچھی خاصی نفری کی موجودگی میں جسے وہ آفیسرز بریفنگ کہتے ہیں میں ہر دفعہ کوئی نہ کوئی جہاد کے بارے میں ضرور سوال کرتا تھا۔ اگر میں یہ کہوں کہ امریکنوں میں بھی مسلمانوں کی طرف سے اس غلط تشریح کی وجہ سے ایک خوف پایا جاتا ہے اور بعض نادان یہ سمجھتے ہیں کہ یہ مسلمان ہمیں کسی وقت بھی کافر سمجھ کر مار سکتے ہیں۔ وہ ہمیں گھور گھور کر اور اجنبی نظروں سے دیکھتے ہیں۔ اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ نے ہر شہر میں جہاں جہاں اسے موقع ملا ہے جہاد کی صحیح تشریح بھی کی ہے اور بار بار پریس اور میڈیا، ریڈیو اور ٹی وی کے ذریعہ اپنا صحیح نظریہ بھی پیش کیا ہے۔
دوسرے 9/11 کے بعد مسلمانوں نے اپنے اس غلط نظریہ جہاد اور تشریح کی بھی اصلاح کی ہے۔ بے شک وہ مسجدوں کےا ندر یہ کہتے ہوں گے کہ کافروں کو مارنا جہاد ہے اور مارنا چاہئے لیکن باہر ہر فورم پر انہوں نے جماعت احمدیہ کی تشریح ہی کو اپنایا ہے۔ یہ ایک بہت بڑا مسئلہ تھا جس کا حل خداتعالیٰ نے جماعت احمدیہ کی بدولت یہاں فرمایا ہے۔
چنانچہ جیسا کہ خاکسار نے لکھا ہے کہ ہر موقعہ پر ہمیں یہی سوال کیا جاتا ہے۔ خاکسار نے اس ضمن میں ایک مضمون لکھ کر اخبارات میں بھجوایا تھا۔
اس اخبار مسلم ورلڈ ٹوڈے نے یہ مضمون اس عنوان سے شائع کیا کہ
Truth about Jihad
جہاد کی اصل حقیقت
مختصراً اس مضمون میں خاکسار نے بتایا کہ جہاد کا لفظ مسلمانوں میں عام رائج ہے اور مغرب میں اس لفظ کے بڑے منفی معانی سمجھے جاتے ہیں۔ قرآن کریم میں یہ لفظ استعمال ہوئے اور قرآن مجید مسلمانوں کو جہاد کی تعلیم دیتا ہے۔ لیکن کس قسم کے جہاد کی تعلیم؟ یہ بالکل غلط ہے کہ جہاد کے معانی خونی قتل اور فساد کرنا ہے کہ مسلمان معصوم لوگوں کو بلا وجہ قتل کرتے پھریں۔
جہاد عربی کا لفظ ہے جس کے معانی ’’کوشش‘‘ کرنے کے ہیں۔ ایسی کوشش جو انتہائی درجہ کی ہو اور اس سے اچھے نتائج نکلیں۔ ایسے اچھے نتائج جس سے خود انسان کو فائدہ ہو اور دوسرے بنی نوع انسان کو فائدہ پہنچے۔
خاکسار نے لکھا کہ اس وقت مغربی ممالک میں جہاد کے بارے میں یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ اس کا مطلب ہے کہ اسلام دہشت گردی کو فروغ دیتا ہے اور فساد پیدا کرتا، توڑ پھوڑ کی اجازت دیتا ہے۔ حالانکہ یہ ساری باتیں لفظ ’’اسلام‘‘ کے معانی اور روح کے خلاف ہیں۔ اسلام کے معانی امن اور یہ کہ اپنے اپ کو خدا کی رضا کے سامنے بالکل جھکا دینا اور اسے قبول کرنا ہے۔
خاکسار نے لکھا کہ مغرب میں اگر جہاد کے معانی کی غلط تشریح اور معانی سمجھے جاتے ہیں تو اس کی بھی کئی وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ متشدد قسم کے مسلمانوں کا اپنا غلط عمل ہے دوسری وجہ یہ ہے کہ مغرب میں مسلمانوں اور اسلام کے خلاف ویسے ہی تعصب بھی پایا جاتا ہے بعض کو اسلام کی تعلیمات کے بارے میں بالکل علم ہی نہیں ہے۔
حقیقت میں اسلام کی یہ خوفناک تصویر جو متشدد قسم کے مسلمانوں سے ظہور پذیر ہو رہی ہے یا جہاد کے بارے میں جو غلط فہمیاں ہیں اس کا اسلامی تعلیمات سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے اور نہ ہی بانی اسلام محمد رسول اللہ ﷺ کی سنت میں اس کا ذکر ملتا ہے۔ آپؐ نے اپنی زندگی میں اس قسم کے جہاد پر نہ ہی عمل کیا ہے نہ ہی اس کی تعلیم دی ہے۔ آنحضرت ﷺ تو امن کے شہزادے تھے۔ آپ نے تو ہر قیمت پر امن کو قائم رکھنے کی مثالیں قائم فرمائی ہیں۔ آپ نے تو اپنے جانی دشمنوں کے ساتھ بھی امن کو قائم کرنے کی ہر ممکن کوشش فرمائی ہے ان لوگوں کو جو اسلام کو جڑ سے اکھیڑ پھینکنے کے درپے تھے انہیں معاف فرما دیا۔ اس وقت یہی سب سے بڑا مسئلہ ہے کہ ایک طرف تو اسلام کی یہ تعلیم اور رسول خدا ﷺ کا اپنا یہ نمونہ ہے مگر دوسری طرف اس وقت متشدد مسلمان کیا کر رہے ہیں؟ تو پھر جہاد کی اصل حقیقت کیا ہے؟
اس تمام بحث کی قرآن کریم کی آیات سے تشریح کی گئی اور بتایا کہ جہاد بالنفس یعنی اپنی اصلاح کرنا۔ دوسرے جہاد بالقرآن تبلیغ کرنا اور تیسرے یہ کہ اگر اسلام کا دفاع کرنے کی ضرورت تلوار سے پیش آئے تو اس وقت صرف دفاع کرنا۔ جارحانہ اقدام درست نہیں ہو گا۔ گویا جہاد تو ہر وقت ہے لیکن جہاد بالسیف نہیں۔ بلکہ اس زمانے میں جیسا کہ دشمن اسلام پر حملے تحریر کی صورت میں کر رہا ہے کروڑہا کتابیں اسلام اور محمد رسول اللہ ﷺ کی شان کے خلاف لکھی گئی ہیں تو ان کا جواب قلم سے یعنی دلائل سے دینا ہے نہ کہ ان کو قتل کرنے سے!
خاکسار نے بتایا کہ اس زمانے میں لوگوں کو بلاوجہ مارنے اور کفار کہہ کر ان کی جائیدادوں پر قبضہ کر لینا وغیرہ امور کا سرے سے اسلام کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ تو نہ ہی اسلام کی تعلیمات ہیں اور نہ کسی وقت بھی اس طرح کی بات آنحضرت ﷺ نے اپنے زمانہ میں کی اور نہ ہی خلفاء راشدین نے۔ یہ نظریہ عیسائیوں نے مسلمانوں کے اندر ڈالا ہے۔ عیسائیوں نے صلیبی جنگیں لڑیں اور بہت سے مسلمانوں کو تہ تیغ کیا اور انہوں نے یہ جنگیں بھی خدا کے نام پر لڑیں۔ جب مسلمانوں کو قبضہ ملا تو وہ بھی کسی طرح پیچھے نہ رہے اور غلط باتوں نے ان کے اندر جنم لے لیا۔ جس کی وجہ سے آج یہ دن دیکھنا نصیب ہو رہا ہے۔ آج کل جو جہاد کا نظریہ تھا اس نے اسلام کو بدنام کیا ہے۔
ہم اس قسم کے غلط جہاد کی نفی کرتے ہیں۔ جہاں تک جہاد بالنفس یعنی انسانی نفس کے تزکیہ کا سوال ہے یہ جہاد ہر وقت جاری ہے اور جماعت احمدیہ اس قسم کا جہاد 23 مارچ 1889ء سے کرتی چلی آرہی ہے۔ اور یہ بات برملا کہہ رہی ہے کہ مذہب میں معصوم جانوں کا خون بہانے کا کوئی جہاد نہیں ہے۔ جب ہمیں کوئی شخص تلوار کی نوک سے ہمیں ہمارے مذہب اسلام پر عمل سے نہیں روک رہا تو پھر ہم کیسے لوگوں کو یوں ہی قتل کرتے پھریں۔ لہٰذا یہ وقت تلوار کا نہیں ہے بلکہ جہاد بالنفس اپنے آپ کو پاک کرنے اور اپنے تزکیہ نفس کرنے کا جہاد ہے۔ سو سال پہلے حضرت مرزا غلام احمد ؑ نے اپنے پیروکاروں کو جہاد کے صحیح معنی بتلائے اور اس کی تلقین کی۔ آپؑ نے بار بار فرمایا کہ اس وقت تلوار کا زمانہ نہیں، نہ ہی تلوار کا جہاد ہے۔ اس وقت قلم کا جہاد ہے کیونکہ دشمن قلم کے ذریعہ ہی (کتابیں لکھ کر) اسلام پر حملہ آور ہے۔
آپ نے فرمایا کہ دیکھو خدا نے مجھے اس لئے بھیجا ہے تا میں جنگوں کا کاتمہ کروں بلکہ اپنے نفسوں کو پاک کرنے کا جہاد ہے۔ یہ میں اپنی طرف سے نہیں کہہ رہا بلکہ خدا کے حکم سے ہے۔ تمہیں چاہئے کہ رسول کریم ﷺ کے قول کی طرف دھیان دو جس میں آپ ﷺ نے فرمایا ہے کہ جب مسیح موعود آئے گا تو وہ مذہبی جنگوں کا خاتمہ کرے گا۔ آپ نے یہ بھی فرمایا کہ جو لوگ میری جماعت سے تعلق رکھتے ہیں میں ان سے کہتا ہوں کہ وہ اس قسم کے خیال سے باز رہیں اور اپنے دلوں کو پاک کریں اور اپنی رحم اور دوسروں کے ساتھ ہمدردی کو بڑھائیں اور امن کو دنیا میں پھیلائیں۔
خاکسار نے مضمون کے آخر میں بھی لکھا کہ یہ جماعت احمدیہ مسلمہ کا عقیدہ جہاد کے بارے میں ہے۔ اس لئے کسی شخص کا بھی فساد میں الجھنا، متشدد ہونا بالکل غلط ہے اور اس کو پھر جہاد کا نام دینا تو اور بھی غلط ہے۔
مضمون کے آخر میں یہ لکھا گیا ہے کہ جماعت احمدیہ کے موجودہ روحانی عالمگیر سربراہ حضرت مرزا مسرور احمد نے 181 ممالک میں رہنے والے احمدیوں کو نصیحت کی ہے کہ وہ اپنی اصلاح کرتے رہیں اور اپنی عبادتوں کے معیار کو بڑھائیں۔ تقویٰ پیدا کریں اور خدا کا خوف ان کے دلوں میں رہے اور امن پھیلانے کی کوشش کرتے رہیں اور کوئی ایسا قدم نہ اٹھائیں جس سے مذہب پر دھبہ لگے اور جس سے انحضرت ﷺ کے پاک نام پر حرف آئے۔ ہم اس قسم کے جہاد کی طرف آپ کو بھی بلاتے ہیں اور دراصل جہاد ہے ہی یہی۔
ڈیلی پریس آف وکٹروِل کی 22 اپریل 2006ء کی اشاعت میں Ask the Clregy کے تحت جسٹن باگس نے خاکسار کو سوال کیا تھا کہ اسلام میں جہاد کی کیا حقیقت ہے؟ خاکسار نے جو جواب قرآن و احادیث کی روشنی میں اور حضرت بانی جماعت احمدیہ کی تعلیمات کی روشنی میں دیا وہ شائع ہوا۔ جواب قریباً وہی ہے جو تفصیل سے اوپر گزر چکا ہے۔ یعنی جہاد کی غلط تشریح کی گئی ہے۔ جہاد بالنفس کی اس وقت زیادہ ضرورت ہے اور مسیح موعودؑ نے آکر جہاد بالسیف کو ختم کر دیا ہے۔ قرآن کریم کی تعلیمات کو پھیلانے کا جہاد اور تزکیہ نفس کا جہاد باقی ہے۔ اس مضمون کے آخر میں خاکسار نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ذکر کیا ہے اور حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے پیغام کا ذکر کیا ہے کہ 181 ممالک کے رہنے والوں کو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا یہ پیغام ہے کہ وہ اپنی اصلاح کی طرف متوجہ رہیں، خدا خوفی اور خدا ترسی اپنے اندر پیدا کریں، ان کے دلوں میں رحم اور محبت کے جذبات ہوں اور اپنی عبادتوں کے معیار کو بڑھائیں۔ یہی موجودہ وقت کا جہاد ہے جس کی طرف توجہ کی ضرورت ہے۔
(خطبہ جمعہ 07؍اپریل 2006ء)
الاخبار نے اپنی عربی اشاعت میں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے خطبہ جمعہ جو آپ نے سنگاپور کی مسجد طٰہٰ میں 7 اپریل 2006ء کو ارشاد فرمایا تھا، حضور انور کی تصویر کے ساتھ نصف صفحہ سے زائد پر اس کا باقی آدھا خطبہ شائع کیا ہے۔
اس خطبہ جمعہ میں حضور انور نے فرمایا تھا کہ آجکل کی دنیا میں مختلف قسم کی ایجادات ہو گئی ہیں اور جدید ٹیکنالوجی بھی آگئی ہے جس سے کام میں سہولت پیدا ہوئی ہےا ورسنگاپور نے بھی اس میں زیادہ ترقی کی ہے۔
حضورانورنے فرمایا اس خطہ میں ہمارے ابتدائی مبلغین نے بھی بہت قربانیاں دی ہیں۔ شروع میں آنے والے مبلغ حضرت مولانا غلام حسین صاحب ایاز تھے۔ ایک مکرم حاجی جعفر صاحب تھے۔ ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی راہ میں ماریں بھی کھائیں، دشمنوں اور مخالفین کے مارنے کی وجہ سے کئی کئی دن ان کو ہسپتال میں رہنا پڑا۔ ان لوگوں کی قربانیوں اور دعاؤں کے طفیل آج آپ اللہ تعالیٰ کے فضل بھی اپنے اوپر دیکھ رہے ہیں اور یہ جو خوبصورت مسجد اللہ تعالیٰ نے آپ کو دی ہے یہ بھی انہی قربانیوں کا نتیجہ ہے۔ تو یہ قربانیاں کبھی ضائع نہیں جاتیں اور ہمیشہ پھل لاتی ہیں۔ جس طرح گزشتہ قربانیوں کو پھل لگے ہیں آج کی قربانیوں کو بھی ان شاء اللہ تعالیٰ پھل لگیں گے۔
حضورانور نے فرمایا: ’’انڈونیشیا میں احمدیوں کےساتھ انتہائی ظالمانہ سلوک ہو رہا ہے اور احمدی نہایت ثابت قدمی سے احمدیت پر قائم ہیں۔ ہم ظلم کا بدلہ ظلم سے نہیں لیتے اور ایسے ظلموں پر ہم ہمیشہ خداتعالیٰ کے آگے جھکتے ہیں اور ہمیشہ جھکتے رہیں گے۔ یہاں اس وقت بہت سے انڈونیشین بیٹھے ہوئے ہیں اور ہر انڈونیشین اس بات کا گواہ ہے کہ ابتلاء اور امتحان ان کے جذبہ ایمان میں کوئی لغزش نہیں لا سکے۔ بلکہ ایمان میں مضبوطی کا باعث بنے ہیں۔ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے میں اپنے انڈونیشین بہن بھائیوں سے کہتا ہوں کہ اپنی قوم کے احمدیوں کو تسلی دیں کہ صبر کریں اور صبر کا دامن کبھی ہاتھ سے نہ چھوڑیں۔ احمدیت کا ایک طرہ امتیاز ہے کہ وہ کبھی ظلم کا بدلہ لینے کے لئے قانون کو اپنے ہاتھ میں نہیں لیتا۔ ہم ظلم کے موقعوں پر خدا کے آگے جھکتے ہیں۔ جس نے کہا ہے کہ میرے سے دعا مانگو میں قبول کروں گا۔ پس اس سے مدد مانگیں ان شاء اللہ وہ کبھی آپ کو ضائع نہیں کرے گا۔ کبھی ضائع نہیں کرے گا۔ یاد رکھیں آپ اکیلے نہیں ساری دنیا کی جماعت احمدیہ کی دعائیں آپ کے ساتھ ہیں۔ یاد رکھیں کہ جب آپ نے اس زمانے کے مسیح موعود کو مان لیا ہے تو خداتعالیٰ کبھی آپ کی جماعت کو ضائع نہیں کرے گا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ آپ کے ساتھ ہے۔ آپ اس مسیح و مہدی کے ماننے والے ہیں جس نے مخالفین کو ان الفاظ میں مخاطب کر کے چیلنج دیا ہے۔
’’اے نادانو! اور اندھو! مجھ سے پہلے کون صادق ضائع ہوا جو میں ضائع ہو جاؤں گا۔ کس سچے وفادار کو خدا نے ذلت کے ساتھ ہلاک کر دیا جو مجھے ہلاک کرے گا۔ یقیناً یاد رکھو اور کان کھول کر سنو کہ میری روح ہلاک ہونے والی روح نہیں اور میری سرشت میں ناکامی کا خمیر نہیں۔ مجھے وہ ہمت اور صدق بخشا گیا ہے جس کے آگے پہاڑ ہیچ ہیں۔ دشمن ذلیل ہوں گے اور حاسد شرمندہ اور خدا اپنے بندہ کو ہر میدان میں فتح دے گا۔ میں اس کے ساتھ، وہ میرے ساتھ ہے، کوئی چیز ہمارا پیوند توڑ نہیں سکتی۔‘‘
(انوار الاسلام، روحانی خزائن جلد 9 صفحہ 23)
حضور انور نے فرمایا: ’’باوجود سو سال کی کوششوں کے یہ سب مخالفت کی آندھیاں احمدیت کا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکیں اور بگاڑ سکتی بھی نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کا آپ کی جماعت کی ترقی اور قیامت تک دوسروں پر غلبے کا وعدہ ہے۔ اس لئے مجھے اس بات کی تو فکر نہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت کو کوئی دنیاوی طاقت نقصان پہنچا سکے گی۔ فکر صرف اس بات کی ہوتی ہے کہ خدا سے دور جا کر کوئی احمدی اپنی عاقبت خراب نہ کرے۔
یاد رکھیں کہ عبادتوں کے ساتھ ساتھ اسلام اور احمدیت کے محبت اور صلح کے پیغام کو بھی دنیا تک پہنچانا ہمارا کام ہے کیونکہ آج دنیا کو خد اکے قریب لانے اور دنیا میں اس کی مخلوق کے حقوق ادا کرتے ہوئے محبت اور بھائی چارے کا پیغام دنیا تک پہنچانے کی ذمہ داری ہم احمدیوں کے سپرد ہے۔ پس یہ باتیں اپنی اولادوں کے دلوں میں بھی اچھی طرح گاڑ دیں اور راسخ کر دیں کیونکہ جماعت کی زندگیاں تبھی بنتی ہیں جب نسلوں میں بھی یہ نیکیاں قائم ہو جائیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے مجھے آپ میں سے اکثر کے چہروں پر اخلاص نظر آتا ہے اللہ تعالیٰ یہ اخلاص و وفا بڑھاتا چلا جائے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں حضرت مسیح موعودؑ کی تعلیم پر ہمیشہ عمل کرنے کی توفیق دے اور ہمیشہ ہمیں اپنے دین پر ثابت قدم رکھے۔‘‘
حضور انور کے اس خطبہ کے حصے کے علاوہ اس صفحہ پر مسجد بیت الحمید کی تصویر کےساتھ ہمارا تبلیغی اشتہار بھی شائع ہوا ہے جس میں درج ذیل معلومات دی گئی ہیں۔
مسجد میں پانچوں نمازیں، جمعہ، سنڈے کلاس، روزانہ درس قرآن ہوتا ہے۔ ہر ایک کو خوش آمدید کرتے ہیں۔ مسجد میں پڑھنے کے لئے لٹریچر بھی دستیاب ہے جن میں خصوصیت کے ساتھ آپ درج ذیل کتب حاصل کر سکتے ہیں۔
تفسیر کبیر مشتمل بر سورۃ فاتحہ، سورہ بقرہ، سورہ ہود، سورہ یوسف، مذہب کےنام پر خون، بڑی عظیم الشان خبر، مسلمان نوجوانوں کے سنہری کارنامے، القول الصریح، خلیج کی جنگ اور اس کے خطرات و نتائج، اسراء اور معراج یہ سب عربی زبان میں دستیاب ہیں۔
ہفت روزہ اردو لنک کی 5 سے 11مئی 2006ء کی اشاعت صفحہ6 پر ’’دین کی باتیں‘‘ کے تحت خاکسار کے مضمون ’’قرآن مجید، فرقان حمید، محاسن فضائل و برکات‘‘ نصف سے زائد صفحہ پر خاکسار کی تصویر کے ساتھ شائع ہوا ہے۔
اس مضمون میں قرآن کریم سے عبادت اور خصوصاً نماز کے بارے میں زیادہ تر باتیں بیان کی گئی ہیں۔ اور اس سلسلے میں قرآن کریم اور احادیث نبویہ کا بیان ہے۔ زیادہ زور نماز باجماعت پر دیا گیا ہے۔ تفسیر کبیر از حضرت مصلح موعودؓ سے یہ اقتباس بھی درج کیا گیا ہے کہ
’’نماز باجماعت کی ضرورت کو عام طور پر مسلمان بھول گئے ہیں اور یہ ایک بڑا موجب مسلمانوں کے تفرقہ اور اختلاف کا ہے اللہ تعالیٰ نے اس عبادت میں بہت سی شخصی اور قومی برکتین رکھی ہیں۔ مگر افسوس کہ مسلمانوں نے انہیں بھلا دیا۔ قرآن کریم نے جہاں بھی نماز کا حکم دیا نماز باجماعت کا حکم دیا ہے خالی نماز پڑھنے کا کہیں بھی حکم نہیں ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز باجماعت اہم اصول دین میں سے ہے۔ …… قرآن کریم کے نزدیک نماز صرف تبھی ادا ہوتی ہے کہ باجماعت ادا کی جائے۔ سوائے اس کے کہ ناقابل علاج مجبوری ہو۔‘‘
(تفسیر کبیر جلد اوّل صفحہ 105)
اس کے بعد ملفوظات حضرت مسیح موعودؑ سے یہ حوالہ بھی درج کیا گیا ہے۔
’’پس جو شخص خدا سے ملنا چاہتا ہے اور اس کے دربار میں پہنچنے کی خواہش رکھتا ہے اس کے واسطے نماز ایک گاڑی ہے جس پر سوار ہو کر وہ جلد تر پہنچ سکتا ہے اور جس نے نماز ترک کر دی وہ کیا پہنچے گا۔ …… درد دل سے پڑھی ہوئی نماز ہی ہے کہ تمام مشکلات سے انسان کو نکال لیتی ہے۔‘‘
(ملفوظات جلد سوم صفحہ 189، ایڈیشن 2003ء)
مضمون کے آخر میں مسجد بیت الحمید کا نام اور پتہ اور فون نمبر درج ہے تا مزیدمعلومات حاصل کرنے والے معلومات حاصل کر سکیں۔
(باقی آئندہ بدھ ان شاء اللہ)
(سید شمشاد احمد ناصر ۔ امریکہ)