• 27 اپریل, 2024

وہ قومیں جو سمجھتی ہیں کہ ہم محفوظ ہیں لیکن زمانے کے امام کی پیشگوئی کے مطابق وہ بھی محفوظ نہیں ہیں

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔
وہ قومیں جو سمجھتی ہیں کہ ہم محفوظ ہیں لیکن زمانے کے امام کی پیشگوئی کے مطابق وہ بھی محفوظ نہیں ہیں۔ اور اگر اب بھی انہوں نے خدا تعالیٰ کی طرف توجہ نہ کی تو جویہ آفات ہیں ہر ایک کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہیں۔ ان کو بھی اللہ تعالیٰ، خدا تعالیٰ کو پہچاننے کی توفیق عطا فرمائے۔ اس سال میں، اِس علاقے میں یعنی اِس جاپان اور فارایسٹ) (Far East وغیرہ کے علاقے میں اور آسٹریلیا میں تین مختلف ممالک جو ہیں وہ آفات سے متاثر ہوئے ہیں۔ نیوزی لینڈ میں بھی ایک شہر کا بڑا حصہ تباہ ہو گیا۔ کہتے ہیں وہاں نیوزی لینڈ میں 1931ء میں بہت بڑا زلزلہ آیا تھا جس سے دو شہر تباہ ہو گئے تھے اور اس سال بھی جو زلزلہ آیا ہے اُس کی شدت گو 1931ء والے زلزلے سے کم تھی لیکن اس میں بھی بہت تباہی ہوئی ہے۔ ستّر ہزار لوگوں کو اپنے گھروں کی بربادی کی وجہ سے شہر چھوڑنا پڑا۔ تقریباً پچہتر فیصد تو شہر ہی تباہ ہو گیا۔

پھر آسٹریلیا میں بارشوں اور سمندری طوفان نے تباہی مچائی ہے۔ آسٹریلیا میں بھی ستّرشہر اور قصبے تباہ ہو گئے ہیں۔ پورا کوئینز لینڈ (Queensland) ہی تقریباً متاثر ہوا ہے۔ اور اس کوئینز لینڈ کا جو رقبہ ہے وہ لمبائی چوڑائی میں اتنا بڑا ہے کہ جاپان سے چار گُنا زیادہ ہے۔ پس یہ زُعم بھی ختم ہو جاتا ہے کہ ہمارے پاس بہت رقبہ ہے اور ہم یہاں سے وہاں چلے جائیں گے، ادھر سے اُدھر چلے جائیں گے۔ پھر اِن کی معیشت کوآسٹریلیا میں بڑا نقصان پہنچا ہے۔ اس صوبے میں کوئلے کی بڑی کانیں ہیں جن میں سے پچاسی فیصد کو نقصان پہنچا ہے اور کہتے ہیں کہ دو اعشاریہ تین بلین ڈالر کا نقصان کوئلے کی کانوں کو ہوا ہے، اور کُل معیشت کو نقصان تیس بلین ڈالر کا ہوا ہے۔ پھر اس کے علاوہ وہاں کے علاقے وکٹوریہ میں طوفان آیا اور محکمہ موسمیات کے مطابق وہاں کے وکٹوریہ کی تاریخ میں یہ بدترین طوفان تھا۔ تو دنیا کی تو یہ حالت ہے اور پھر یہ زعم کہ ہم بڑے ترقی یافتہ ہیں۔ اور گزشتہ سالوں میں امریکہ میں بھی طوفان آتے رہے تو کتنوں کوانہوں نے بچا لیا۔ اُن کی بھی بستیاں تباہ ہو گئیں۔ تو اِن ملکوں کے طوفانوں سے باقی ملک یہ نہ سمجھیں کہ شاید ہمارے لئے بچت ہے اور یہ علاقے ایسے ہیں جہاں طوفان آتے ہیں یا زلزلے آتے ہیں یا آفات آتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ تمام دنیا کو، دنیا کی قوموں کو ایک ہاتھ پر جمع کرے اور اپنی پہچان کروائے۔ اس کے لئے اُس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھیجا ہے۔ آپؑ فرماتے ہیں:
’’خدائے تعالیٰ نے اس زمانے کو تاریک پا کر اور دنیا کو غفلت اور کفر اور شرک میں غرق دیکھ کر اور ایمان اور صدق اور تقویٰ اور راست بازی کو زائل ہوتے ہوئے مشاہدہ کر کے مجھے بھیجا ہے تا کہ وہ دوبارہ دنیا میں علمی اور عملی اور اخلاقی اور ایمانی سچائی کو قائم کرے اور تا اسلام کو ان لوگوں کے حملہ سے بچائے جو فلسفیت اور نیچریت اور اباحت اور شرک اور دہریت کے لباس میں اس الٰہی باغ کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں‘‘۔

(آئینہ کمالات اسلام۔ روحانی خزائن جلد5۔ صفحہ251)

پس اسلام کی سچائی اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعے سے دنیا میں قائم ہونی ہے اور آپ کے ساتھ جُڑنے سے ہی دنیا میں قائم ہونی ہے۔ غیر قوموں سے مقابلہ کر کے اسلام کی برتری جب ثابت کرنی ہے تو اس جری اللہ کے ساتھ جُڑنے سے ہی ہو سکتی ہے۔ کوئی اور تنظیم، کوئی اور جماعت اس مقصد کو حاصل نہیں کر سکتی۔ اُمّت کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عمل پر غور کرنا چاہئے کہ کس طرح آندھی اور بارش دیکھ کر آپ بے چین ہو جایا کرتے تھے۔ پس یہ دیکھیں کہ کیا ہم اس اُسوہ پر حقیقی طور پر عمل پیرا ہیں یا کوشش کرتے ہیں؟ اگر نہیں تو بڑے فکر کا مقام ہے کہ اللہ تعالیٰ تو بڑا بے نیاز ہے۔ اُس کا کسی کے ساتھ کوئی رشتہ نہیں۔ خدا صرف اُس کا ہے جو حقیقی رنگ میں حقِّ بندگی ادا کرنے والا ہے۔

پاکستان میں جو گزشتہ سال سیلاب آیا جو مُلک کی تاریخ کا بدترین سیلاب تھا، جس نے سرحد سے لے کر سندھ تک تمام صوبوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا اور تجزیہ کرنے والے یہ تجزیہ کرتے ہیں کہ یہ انڈونیشیا کے سونامی سے بھی زیادہ تباہ کُن تھا۔ ابھی تک وہاں لوگ شہروں میں کیمپوں میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ نہ ہی اُن کی آباد کاری کی طرف حکومت کو توجہ ہے اور نہ ہی اُس مُلّاں کو جو اِن کا ہمدرد بنتا ہے، جنہوں نے ہر وقت احمدیوں کے خلاف اِن کو اُکسایا ہوا ہے۔ ملک میں مکمل طور پر افراتفری ہے۔ پھر بھی عوام کو سمجھ نہیں آ رہی کہ اُن کے ساتھ یہ ہو کیا رہا ہے۔ اور زمانے کے امام کا انکار کئے چلے جا رہے ہیں۔ گزشتہ سیلاب جو آیا تھا اُس میں مولوی عوام کو یہ تسلی دلا دیتا تھا اور بحث ٹی وی پر چلتی جا رہی تھی کہ یہ کوئی عذاب نہیں تھا بلکہ ابتلا تھا، اور ابتلا اللہ والوں کو آتا ہے۔ اور پھر خود ہی یہ تسلیم کرتے ہیں کہ عذاب تو اُس صورت میں ہوتا ہے جب کوئی نبی آتا ہے اور نبی کا دعویٰ موجود ہوتو چونکہ نبی کوئی نہیں ہے اس لئے یہ عذاب نہیں کہلا سکتا۔ اور جو دعویٰ ہے اُس کی طرف دیکھنے اور سننے کو تیار نہیں۔ اللہ تعالیٰ اس قوم پر بھی رحم کرے۔ چند سال پہلے ایک بدترین زلزلہ آیا تھا جس نے تباہی مچا دی تھی پھر بھی اِن کو عقل نہیں آئی کیونکہ سوچتے نہیں ہیں کہ اِن آفات کی پیشگوئی اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجے ہوئے اُس کے فرستادے نے کی ہے جس کے یہ انکاری ہیں۔ اور جیسا کہ مَیں نے اقتباس میں پڑھا ہے کہ آپ نے فرمایا، ’’کچھ حوادث اور آفتیں میرے بعد ظہور میں آئیں گی‘‘۔ پس کچھ تو آنکھیں کھولو۔ اے بصیرت اور بصارت کا دعویٰ کرنے والو! کچھ تو عبرت حاصل کرو۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے واضح فرمایا ہے کہ دوسرے ملکوں میں آفات کو دیکھ کر یہ نہ سمجھو کہ تم محفوظ ہو، بلکہ واضح فرمایا کہ میری پیشگوئیاں تمام دنیا کے لئے ہیں، نہ اس سے پنجاب مستثنیٰ ہے۔ اُس وقت پنجاب کی بات کرتے تھے کہ پنجاب میں زلزلے نہیں آئے تو آپ نے فرمایا: اس سے پنجاب بھی مستثنیٰ نہیں۔ نہ برصغیر کا کوئی اور شہر یا علاقہ مستثنیٰ ہے۔ آپ نے واضح طور پر فرما دیا کہ حق جو ہے وہ چھپانے سے چھپا نہیں کرتا۔ اس لئے تم لوگ فکر کرو۔

(ماخوذ از حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد22 صفحہ268-267)

پھر آپ ایک جگہ فرماتے ہیں۔ آپؑ کا ایک اقتباس پیش کرتا ہوں کہ:
’’یاد رہے کہ خدا نے مجھے عام طور پر زلزلوں کی خبر دی ہے۔ پس یقینا سمجھو کہ جیسا کہ پیشگوئی کے مطابق امریکہ میں زلزلے آئے ایسا ہی یورپ میں بھی آئے اور نیز ایشیا کے مختلف مقامات میں آئیں گے اور بعض اُن میں قیامت کا نمونہ ہوں گے اور اس قدر موت ہوگی کہ خُون کی نہریں چلیں گی۔ اس موت سے پرند چرند بھی باہر نہیں ہونگے اور زمین پر اس قدر سخت تباہی آئے گی کہ اِس روز سے کہ انسان پیدا ہوا ایسی تباہی کبھی نہیں آئی ہوگی۔ اور اکثر مقامات زیر و زبر ہو جائیں گے کہ گویا اُن میں کبھی آبادی نہ تھی۔ اور اس کے ساتھ اَور بھی آفات زمین اور آسمان میں ہولناک صورت میں پیدا ہوں گی۔ یہانتک کہ ہر ایک عقلمند کی نظر میں وہ باتیں غیر معمولی ہو جائیں گی اور ہیئت اور فلسفہ کی کتابوں کے کسی صفحہ میں اُن کا پتہ نہیں ملے گا۔ تب انسانوں میں اضطراب پیدا ہوگا کہ یہ کیا ہونے والا ہے۔ اور بہتیرے نجات پائیں گے اور بہتیرے ہلاک ہو جائیں گے۔ وہ دن نزدیک ہیں بلکہ میں دیکھتا ہوں کہ دروازے پر ہیں کہ دنیا ایک قیامت کا نظارہ دیکھے گی اور نہ صرف زلزلے بلکہ اَور بھی ڈرانے والی آفتیں ظاہر ہوں گی، کچھ آسمان سے اور کچھ زمین سے۔ یہ اس لئے کہ نوع انسان نے اپنے خدا کی پرستش چھوڑ دی ہے اور تمام دل اور تمام ہمت اور تمام خیالات سے دنیا پر ہی گر گئے ہیں۔ اگر میں نہ آیا ہوتا تو اِن بلاؤں میں کچھ تاخیر ہو جاتی، پر میرے آنے کے ساتھ خدا کے غضب کے وہ مخفی ارادے جو ایک بڑی مدت سے مخفی تھے ظاہر ہو گئے جیسا کہ خدا نے فرمایا۔ وَمَاکُنَّا مُعَذِّبِیْنَ حَتّٰی نَبْعَثَ رَسُوْلًا (بنی اسرائیل: 16)۔ اور توبہ کرنے والے اَمان پائیں گے اور وہ جو بلا سے پہلے ڈرتے ہیں اُن پر رحم کیا جائے گا۔ کیا تم خیال کرتے ہو کہ تم اِن زلزلوں سے امن میں رہو گے یا تم اپنی تدبیروں سے اپنے تئیں بچا سکتے ہو؟ ہر گز نہیں۔ انسانی کاموں کا اُس دن خاتمہ ہوگا۔ یہ مت خیال کرو کہ امریکہ وغیرہ میں سخت زلزلے آئے اور تمہارا ملک اُن سے محفوظ ہے۔ مَیں تو دیکھتا ہوں کہ شاید اُن سے زیادہ مصیبت کا مُنہ دیکھو گے۔ اے یورپ تُو بھی امن میں نہیں اور اے ایشیا تو بھی محفوظ نہیں اور اے جزائر کے رہنے والو! کوئی مصنوعی خدا تمہاری مددنہیں کریگا۔ میں شہروں کو گرتے دیکھتا ہوں اور آبادیوں کو ویران پاتا ہوں۔ وہ واحد یگانہ ایک مدت تک خاموش رہا اور اُس کی آنکھوں کے سامنے مکر وہ کام کئے گئے اور وہ چپ رہا مگر اب وہ ہیبت کے ساتھ اپنا چہرہ دکھلائے گا جس کے کان سُننے کے ہوں سُنے کہ وہ وقت دُور نہیں۔ مَیں نے کوشش کی کہ خدا کی اَمان کے نیچے سب کو جمع کروں، پر ضرور تھا کہ تقدیر کے نوشتے پورے ہوتے۔ مَیں سچ سچ کہتا ہوں کہ اِس مُلک کی نوبت بھی قریب آتی جاتی ہے۔ نوح کا زمانہ تمہاری آنکھوں کے سامنے آجائے گا اور لوط کی زمین کا واقعہ تم بچشم خود دیکھ لوگے۔ مگر خدا غضب میں دھیما ہے۔ توبہ کرو تا تم پر رحم کیا جائے۔ جو خدا کو چھوڑتا ہے وہ ایک کیڑا ہے نہ کہ آدمی۔ اور جو اُس سے نہیں ڈرتا وہ مُردہ ہے نہ کہ زندہ۔‘‘

(حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن۔ جلد22۔ صفحہ269-268)

پس برصغیر کے مسلمانوں کوبھی ہوش کرنی چاہئے کہ وہ بھی محفوظ نہیں ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بار بار بڑی شدت سے تنبیہ کی ہے اور آپ کی شدت میں بھی، تنبیہ میں بھی ایک ہمدردی کا پہلو ہے۔ اس لئے ہمارا بھی فرض ہے کہ ہم بار بار ہمدردی کے جذبے کے تحت لوگوں کو، دنیا کو توجہ دلاتے چلے جائیں کہ ہندوستان کے مسلمان بھی اپنی حالت بدلیں اور مسیح موعود کے خلاف اپنی دریدہ دہنی سے باز آئیں۔ بنگلہ دیش کے مسلمان بھی اپنی زبانوں کو لگام دیں۔ پاکستان کے مسلمان بھی ہوش کے ناخن لیں کہ آفات کو قریب سے دیکھ چکے ہیں۔ پس خدا کا خوف کریں۔ جزائر کے رہنے والوں پر جو آفات آئی ہیں اور جس حالت سے آجکل جاپان گزر رہا ہے اس حالت کو ہمارے لئے، سب کے لئے، دنیا کے لئے عبرت حاصل کرنے والا ہونا چاہئے۔ اللہ کرے کہ مسلمان اس حقیقت کو سمجھیں اور زمانے کے امام کے پیغام کو سمجھیں۔ اب تو علاوہ آسمانی بلاؤں کے تقریباً ہر مسلمان ملک میں اپنے ہی مسائل اس قدر ہو چکے ہیں کہ ہر ایک ان مسائل میں الجھ گیا ہے۔ یہ بھی ان ملکوں کے لئے ایک ابتلابن چکا ہے۔ عوام اور حکومت ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو گئے ہیں۔ مسلمان، مسلمان کا خون بہا رہا ہے۔ اس سے بڑی بدقسمتی اور اس سے بڑا المیہ اَور اُمّت کے لئے کیا ہو سکتا ہے؟ کاش کہ ان کو سمجھ آ جائے کہ اُمّت کی بھلائی کے لئے جس کو خدا تعالیٰ نے بھیجنا تھا بھیج دیا۔ اب اگر عافیت چاہتے ہیں تو اسی کے دامنِ عافیت میں پناہ لیں۔ اللہ کرے۔ اللہ اِن کو توفیق دے اور سمجھ دے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی حقیقی مسلمان بنائے اور ہمدردی کے جذبے سے حقیقی اسلام کے پیغام کو پہنچانے والے بنیں اور دعاؤں پر پہلے سے بڑھ کر زور دینے والے ہوں۔

(خطبہ جمعہ 18؍ مارچ 2011ءبحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 9 اپریل 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 10 اپریل 2021