• 23 اپریل, 2024

سورتوں کا تعارف

تعارف سورۃ القیامۃ (75 ویں سورۃ)
(مکی سورۃ، تسمیہ سمیت اس سورۃ کی 41 آیات ہیں)
(ترجمہ از انگریزی ترجمہ قرآن (حضرت ملک غلام فرید صاحب) ایڈیشن 2003ء)

وقت نزول اور سیاق و سباق اور مضامین کا خلاصہ

اس سورۃ کا عنوان القیامۃ رکھا گیاہے کیونکہ اس کا مضمون قیامت کی تفصیل بیان کرتا ہے۔ یہ بھی جمہور رائے کے مطابق ابتدائی مکی سورتوں میں سے ہے کیونکہ مکی سورتیں بالعموم توحید باری تعالیٰ، قیامت اور وحی و الہام کے مضامین کو بیان کرتی ہیں۔

سابقہ سورۃ کے اختتام پر اس بات کا پر زور طریق پر بیان ہوا تھا کہ وہ لوگ جو قرآنی پیغام کو مانتے ہیں وہ ایک بلند و بالا مرتبہ حاصل کریں گے اور طاقتور اقوام کی صف میں عزت اور مرتبت پائیں گے۔ موجودہ سورۃ کا آغاز قیامت کے بیان سے ہو اہے جو اس طرف واضح اشارہ ہے کہ ایک بڑا اخلاقی انقلاب ایک عرب جیسی قوم میں برپا ہونے والا ہےجو اخلاقی پسماندگی والی قوم ہے اور یہ قرآ ن کی عظیم المرتبت تعلیمات اور صحبت صالحین اور آپ ﷺ کے اسوۂ حسنہ کے ذریعہ برپا ہوگا۔

اس سورۃ کا آغاز اس پر تحدی بیان سے ہواہے کہ قیامت کا برپا ہونا لازماً ہوگا اور انسان کی روحانی پاک تبدیلی کو اس قیامت کبریٰ کے لئے بطور دلیل کے پیش کیا گیا ہے۔ مزید ثبوت کے طور پر نفس لوامہ کی قسم کھائی گئی ہے (یعنی خود کو ملامت کرنے والا نفس) جو انسان کی اخلاقی نشو نما کے لئے پہلا درجہ ہے۔ پھر کئی بار دہرایا جانے والا مضمون جو کفار کی زبانی قرآن میں بیان ہو اہے کہ جب وہ مر جائیں گے اور خاک آلود ہو جائیں گے تو آخر کس طرح انہیں دوبارہ زندہ کیا جائے گا؟ اس سورۃ میں اس اعتراض کا یوں جواب دیا گیا ہے کہ وہ اپنے دلوں کے راز سے خوب واقف ہیں کہ انسان کا گناہ کبھی بغیر سزا کے نہیں رہتا اس لئے ضرور ایک دن آئے گا جب انہیں اپنے اعمال کے لئے جوابدہ ہونا پڑے گا۔

پھر قرآن کریم کا اکٹھا کیا جانا اور الٰہی حفاطت جو اس کے متن کی قیامت تک ہوگی کا ذکر کیا گیا ہے۔ اور اس کو بھی قیامت کی دلیل کے طور پر بیان کیا گیا ہے جیساکہ جملہ الٰہی صحیفوں میں صرف قرآن کریم ایسی الٰہی کتاب ہے جس نے قیامت کے برپا ہونے کے مضمون پر ایسی زور دار روشنی ڈالی ہے۔ پھر ایک مختصر مگر واضح بیان انسان کی موت کی تکلیف کے بارے میں ہے اور یہ بھی کہ انسان کی شدید خواہش ہوتی ہے کہ وہ اس (موت) سے بچ جائے۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ موت کے وقت خوف طاری ہونا اس بات کاثبوت ہے کہ انسان کے دل میں اس بات کا خوف پایا جاتا ہے کہ اسے اپنے اعمال پر جوابدہ ہونا پڑے گا۔

اپنے اختتام پر یہ سورۃ کفار کو نصیحت کرتی ہے کہ انسان کو بغیر کسی (اعلیٰ) مقصد کے پیدا نہیں کیا گیا اور یہ کہ اس مقصد کے حصول میں ناکام رہا تو اس پر اسے جواب دینا پڑے گا۔ کفار کو مزید بتایا گیا ہےکہ انسان کی جسمانی نشوونما نطفہ سے شروع ہو کر ایک کامل انسان کے طور پر ہوتی ہے جسے غیر معمولی صلاحیتیں اور طاقتیں عطا ہوتی ہیں جو ایک ناقابل تردید دلیل ہے کہ انسان کی زندگی ایک اعلیٰ مقصد کے حصول کے لئے عطا کی گئی ہے اور یہ کہ اس کا خاتمہ محض روح کے قفس عنصری سے پرواز کرنے سے نہیں ہوگا (بلکہ اگلے جہان میں اپنے اعمال پر جوابدہ ہونا پڑے گا)۔

تعارف سورۃ الدھر (76 ویں سورۃ)
(مکی سورۃ ، تسمیہ سمیت اس سورۃ کی 32 آیات ہیں)

وقت نزول ،سیاق و سباق اور مضامین کا خلاصہ

یہ سورۃ اپنی سابقہ سورۃ (القیامۃ) کی طرح ابتدائی مکی دور کی ہے۔ اس سورۃ کا ایک نام الانسان بھی ہے۔ سابقہ سورۃ کے اختتام پر یہ بیان کیا گیا تھا کہ انسان کی پیدائش ایک حقیر نطفہ سے شروع ہو کر ایک کامل انسان کی صورت پر مکمل ہوئی ہے جسے غیر معمولی قدرتی طاقتوں سے نوازا جاتا ہے جو اس بات کی بین دلیل ہے کہ انسان کی زندگی کا ایک خدائی مقصد ہے اور یہ بھی کہ وہ خدا جس نے انسان کو ایک حقیر نطفہ سے پیدا کیا ہے وہ یہ طاقت رکھتا ہے کہ مرنے کے بعد اسے ایک نئی زندگی عطا کرے۔ موجودہ سورۃ میں اس مضمون کی تفصیل بیان کی گئی ہے کہ انسان کو ایسی عظیم الشان قدرتی صلاحیتیں عطا کی گئی ہیں تاکہ وہ روحانی بلندیوں کی رفعت کو حاصل کر سکے۔ اس سورۃ کی ابتدائی آیات میں انسان کو اس کی حقیر پیدائش کی طرف توجہ دلائی گئی ہے اور یہ بھی کہ انسان کو عقل اور سمجھ کی صلاحیت عطا کی گئی ہے تاکہ خد اکے نبیوں کے ذریعہ جو راستہ اسے دکھایا جائے وہ (اپنی عقل سے) فائدہ اٹھاتے ہوئے روحانی ترقی کرے اور یوں اپنے مقصد پیدائش کو پورا کرنے کی کوشش کرے۔ لیکن جب الٰہی مربی (نبی) انسان کو خدا کی طرف راہنمائی کرنے آتے ہیں تو ان میں سے بعض خد اکے پیغام کو جھٹلاتے ہیں اور اس کے غضب کو بھڑکاتے ہیں، جبکہ بعض دوسرے جو زیادہ سعادت مند ہوتے ہیں وہ خدا کے پیغام پر کان دھرتے ہیں اور الٰہی انعامات کے وارث بنتے ہیں۔ پھر اس سورۃ میں الٰہی انعامات کا ذکر کیا گیا ہے جو اس دنیا اور آخرت میں مومنوں کو دئے جائیں گے اور اس سزا کابھی تفصیلی ذکرہے جو کفار کو الٰہی پیغام کو جھٹلانے کی وجہ سے یہاں اور آخرت میں ملے گی۔

اس سورۃ کا اختتام موزوں طور پر خدا کے اس پر زور بیان پر ہوا ہے کہ خدا نے قرآن کریم انسان کو ہدایت کا راستہ دکھانے کے لئے نازل کیا ہے، وہ راستہ جو خدا تک پہنچاتا ہے جو تمام جہانوں کا رب ہےلیکن انسان اس وقت تک اس سے فائدہ حاصل نہیں کر سکتا جب تک وہ اپنی رضا کو خدا کی رضا کے تابع نہ کردے۔

تعارف سورۃ المرسلٰت (77 ویں سورۃ)
(مکی سورۃ ، تسمیہ سمیت اس سورۃ کی 51 آیات ہیں)

وقت نزول اور سیاق و سباق

نوڈلکے اور میور نے اس سورۃ کا وقت نزول موزوں طور پر نبوت کے چوتھے سال میں بیان کیا ہے۔ دیگر ابتدائی مکی سورتوں کی طرح یہ سورۃ بھی قیامت کے مضمون کو بیان کرتی ہے اور اس کے ثبوت کی دلیل کے طور پر اس روحانی انقلاب کو پیش کرتی ہے جو الٰہی پیغمبروں کی وجہ سے ان کی قوموں میں برپا ہوتا ہے، خاص طور پر وہ عظیم اخلاقی تبدیلی جو آپ ﷺ نے ایک اَن پڑھ اور غیر مہذب (قوم) عربوں میں پیدا کی۔ نبیوں کے مبعوث ہونے کا موازنہ اس سورۃ میں قیامت کے دن سے کیا گیا ہے جب برے لوگوں کو نیک لوگوں سے الگ کیا جائے گا اور ایک خوبصورت تنبیہ یوں بیان کی گئی ہے کہ جیسے بیج سے بھوسہ الگ کر دیا جاتا ہے۔

اس فیصلے کے دن مجرموں کو سزا ملے گی اور مومنوں کو انکے نیک اعمال کے بدلے انعام و اکرام سے نوازا جائے گا۔ اس سورۃ میں نہایت موزوں اور مناسب طریق پرسزا کا بیان ہوا ہے جو مجرموں کے بد اعمال کے عین مطابق ہے، جو قیامت کے بعد الٰہی قوانین کے باغیوں اور انکار کرنے والوں کو ملے گی اور ان نعماءِ جنت اور افضال کا بھی ذکر ہے جو ان لوگوں کو نصیب ہوں گی جو اپنی زندگیاں خدا کے بتائے ہوئے قوانین کے عین مطابق گزاریں گے۔ قیامت کے برپا ہونے کی دلیل کے طور پر یہ سورۃ یوں بھی اشارہ کرتی ہے کہ جس طرح ایک حقیر نطفہ ایک کامل انسان بنتا ہے جو غیر معمولی قدرتی صلاحیتوں کا حامل ہوتا ہے اور اپنی ذات میں تخلیق کا ایک شاہکار ہے(اسی طرح اسے ان صلاحیتوں کے استعمال پر جوابدہ ہونا پڑے گا)۔

اپنے اختتام پر یہ سورۃ کفار کو یہ سمجھانے کی کوشش کرتی ہے کہ نہایت غیر موزوں طور پر انہوں نے قرآنی وحی کو جھٹلایا ہے جو کہ نہایت مدلل طور پر (الٰہی) کلام ثابت ہو چکا ہے اور دلیل یہ دی گئی ہے کہ انسان اپنی تخلیق پر غور کرے اور ان طاقتوں پر جو دنیاوی اور روحانی دنیا میں کار گر ہیں جو اس طرف اشارہ کرتی ہیں کہ حیات بعد الموت یقیناً ہے اور ہونی چاہیئے، جہاں انسان کو اپنے اعمال پر جوابدہ ہونا پڑے گا۔

(مترجم: ابو سلطان)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 9 جون 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 10 جون 2021